0
Tuesday 2 Aug 2016 14:48

قومی ایکشن پلان کی سست روی کے اسباب اور انکا حل

قومی ایکشن پلان کی سست روی کے اسباب اور انکا حل
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

سانحہ پشاور کے بعد قومی ایکشن پلان بنایا گیا۔ یہ پلان قومی اتفاق رائے کا نتیجہ تھا۔ حکومت، اپوزیشن اور پاک فوج نے مل کر اسے ترتیب دیا۔ صوبوں میں بہتر منصوبہ بندی اور پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے ایپکس کمیٹیاں بنائی گئیں اور ان میں خصوصی طور پر کورکمانڈرز کو نمائندگی دی گئی۔ کراچی میں رینجرز کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا اور باقی صوبوں میں سول اور ملٹری سکیورٹی اداروں نے مل کر اعلانیہ اور خفیہ آپریشنز کئے۔ انٹیلی جنس نوعیت کے آپریشنز ملٹری اداروں کی نگرانی میں انجام دیئے گئے۔ وزیرستان میں کامیاب فوجی کارروائی کے بعد کالعدم تحریک طالبان کی کمر ٹوٹ گئی، پنجاب میں ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ جیسے دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک نہیں توڑا جا سکا۔ اس کی بنیادی وجہ کے پی کے اور صوبہ سندھ میں پولیس، سول انٹیلی جنس اداروں کا کمزور ہونا ہے۔ سندھ میں پولیس سمیت تمام سکیورٹی ادارے کرپٹ ہیں، سفارشی بھرتیاں اور ترقیوں کے کلچر نے کبھی بہتری آنے ہی نہیں دی۔ کے پی کے میں قبائلی کلچر کے اثرات زیادہ ہیں، وہاں جرگہ سسٹم سے زیادہ کال چلایا جاتا ہے۔ لیکن وہاں بھی کرپشن کا دور دورہ ہے، منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ جب قومی ایکشن پلان مرتب کیا گیا تو سول سکیورٹی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت تو محسوس کی گئی، لیکن اس کے لیے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں گئی، بلکہ چند افسروں کے تبادلوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔

اگر مشرف دور میں پولیس اصلاحات کے منصوبے پر ہی عمل درآمد کر لیا جاتا تو آج صورتحال بہتر ہوتی۔ کرپٹ پولیس نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ لاہور میں لشکر جھنگوی کا مختصر قاتل گروہ پولیس ملازمین پر ہی مشتمل تھا، جس نے دہشت گردی کی کارروائیاں بھی انجام دیں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مدد بھی فراہم کی۔ یہ سفارشی کلچر اور رشوت کے بل بوتے پر ہونے والی بھرتیاں تھیں۔ اب جب عسکری اداروں کے ایما پر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے کرپشن کیخلاف احتجاجی تحریک شروع کی ہے تو بھی یہ نکتہ عملی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ ایک قومی ایجنڈا ہے، اس میں داخلی کمزوریوں کو ختم کیے بغیر دشمن کی سازشوں کو ناکام نہیں بنایا جا سکتا، دشمن انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کو کار ثواب سمجھنے والے بھی موجود ہیں، ان کا تدارک فقط انتظامی طریقے سے ممکن نہیں، وہ الگ طرح کی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اس میں سب سے اہم کردار مدارس اور علماء کا ہے اور اس کے بعد قومی میڈیا کا۔ جدید دور میں انٹرنیٹ بھی ہر طرح کے نظریات کے فروغ میں اہم عامل ہے، اس کے لیے سائبر کرائم بل کی طرز پہ مزید قوانین لانے کی ضرورت ہے۔

گذشتہ دنوں اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت اعلٰی سطحی اجلاس میں بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ انتہا پسندی پہ مبنی نظریات نہ صرف پاکستان اور خطے بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہیں۔ یہ اجلاس قومی ایکشن پلان کے مختلف پہلووں، بالخصوص قوی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے منعقد ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی قومی قیادت اس سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ انتہا پسندانہ نظریات کے تدارک کے لیے قومی ایکشن پلان کی تکمیل کس حد تک ضروری ہے۔ اجلاس میں اندرونی سلامتی اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا تھا، قومی سلامتی سے متعلق وفاقی سطح پر ہونے والے اس اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چودھری نثار، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان، مشیر قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ شریک ہوئے تھے۔ اس اجلاس میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر پسپا ہو رہے ہیں، دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں سے ہی کامیاب ہو رہا ہے، آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے ملک کی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، وفاقی حکومت انٹیلی جینس شئیرنگ میکنزم کو مضبوط بنانے کے لئے معاونت جاری رکھے گی۔

آزاد ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ اجلاس میں یہ بھی زیر بحث آیا کہ نیشنل ایکشن پلان کی وجہ سے صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن عسکری اداروں کی رائے میں یہ پلان سست روی کا شکار ہے، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور دہشت گردوں کی مکمل بیخ کنی کے لئے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ چونکہ فوج اپنے حصے کا کام کر رہی ہے، اس سلسلے میں فوج کو کافی تشویش ہے اور اسی پس منظر میں راولپنڈی میں یہ اجلاس ہوا ہے۔ اجلاس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے کچھ نکات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا اور اس پر فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ذیل کے 6 نکات، جن پر عملدرآمد نہ ہونے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
1۔ نیکٹا کو اس انداز سے فعال نہیں کیا جاسکا جو کہ نیشنل پلان کا حصہ ہے۔
2۔ دہشت گردی کے خلاف کاؤنٹر ٹیررازم فورس اب تک تشکیل نہیں دی گئی۔
3۔ کالعدم تنظیمیں نئے نام سے بھرپور طریقے سے اسی طرح کام کر رہی ہیں۔
4۔ فاٹا کے حوالے سے اصلاحات پر تیزی سے کام نہیں ہوا ہے۔
5۔ مدارس کی رجسٹریشن کرکے ان کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے کئی ایسے پہلو ہیں جن پر کام نہیں کیا گیا۔
6۔ کراچی آپریشن میں سندھ حکومت کے تحفظات، رینجرز کے قیام اور اختیارات کے حوالے سے پیدا شدہ تعطل کو نیشنل آپریشن کی روح کے خلاف سمجھا گیا ہے۔

قومی ایکشن پلان کی کامیابیوں اور اس پر عمل درآمد کے درجہ بدرجہ مکمل ہونے والے مراحلے کا ذکر کرنے کیساتھ ساتھ وزیراعظم نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسند نظریات عالمی خطرہ ہیں، پاکستان نے ان نظریات کو اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں کئی سال قبل شروع کیں، پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہوا ہے۔ وزیراعظم کی اس بات میں یہ احساس اور اعتراف موجود ہے کہ کئی لحاظ سے قومی ایکشن پلان کامیابی سے جاری ہے، لیکن جہاں تک انتہا پسند مائنڈ سیٹ کی بات ہے، وہ ابھی باقی ہے۔ جب وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ انتہا پسند نظریات سے پوری دنیا کو خطرہ ہے تو اس کا ایک مطلب یہ ہوگا کہ یہ نظریات نہ صرف ختم نہیں ہو رہے بلکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں، بہرحال انہیں روکنے کی ضرورت ہے اور اس عمل کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جن پر عمل درآمد کے لئے سکیورٹی اداروں سے زیادہ علماء، دانشوروں اور ذرائع ابلاغ کا کردار زیادہ اہم ہے۔ اس کے علاوہ مقبول قومی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس میں آسانی سے موثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔ سیاسی مذہبی رہنماوں کو میڈیا خاص اہتمام کیساتھ جگہ دیتا ہے، ان کے بیانات، تحریروں اور اقدامات سے رائے عامہ سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ ہر لیڈر اور جماعت کا اپنا ووٹ بینک ہے، مذہبی جماعتیں بالخصوص نظریات کی حامل افرادی قوت پر ہی بھروسہ رکھتی ہیں۔ جب تک مذہبی جماعتیں اپنے نظریات کو فروغ نہ دیں، وہ اپنا سیاسی مقام حاصل کرسکتی ہیں، نہ ہی اسے قائم رکھ سکتی ہیں۔

اب جب کہ تمام قومی ادارے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے کوشاں ہیں اور قوم بہتر نتائج کے لئے پرامید ہے۔ یہاں اس بات کا جائزہ لینے ضرروت ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے مل کر کام کرنے والے سول ملٹری اداروں کا اس بارے میں کیا موقف ہے کہ ان کی کوششیں کہاں تک کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہیں، اس کوشش کو جاری رکھنے کے لئے بھرپور جذبے کی ضرورت ہے، وہ جذبہ اس وقت ماند پڑ سکتا ہے جب کام کرنے والے اداروں اور افراد میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ان کی کوشش رائیگاں جا رہی ہے یا وقت کیساتھ ساتھ جو نتائیج سامنے آنے چاہیں تھے، ان میں کچھ ایسی رکاوٹیں موجود ہیں، جو دور کی جا سکتی ہیں، لیکن کسی وقتی مصلحت کے تحت ان سے صرف نظر کیا جا رہا ہے، یہ انسانی نفسیات کا تقاضا ہے۔ اسی لئے جب قومی ادارے دہشت گردی جیسے کسی بڑے چیلنج کے خاتمے کے لئے اقدامات شروع کرتے ہیں تو پوری قوم ان کا اسی طرح ساتھ دیتی ہے، جس طرح وہ بھارت جیسے ازلی دشمن کے خلاف نبرد آزما ہونے جا رہے ہوں۔ لیکن یہاں سوال عوام کے کردار سے زیادہ سیاسی اور مذہبی رہنماوں کا ہے۔

دوسری طرف سول ملٹری اداروں کی طرف غیر واضح اور مبہم ویژن پہ مبنی پالیسیاں بھی دہشت گردی کیخلاف کاروائی کے باوجود مطلوبہ نتائیج تک رسائی میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہیں، اس سے کام کرنے والے افراد کنفویژن کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، عام آدمی چونکہ گہرائی کیساتھ جائزہ لینے کی صلاحیت سے قاصر ہوتا ہے، اس لئے رائے عامی یہی بنتی ہے کہ ہماری حکومت اور ریاستی ادارے خود دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔ قومی ایکشن پلان کے تمام حصوں اور پہلووں پر کامیابی سے عملدرآمد کروانے کی پہلی ذمہ داری حکومت اور ریاست پر ہی عائد ہوتی ہے۔ لیکن جہاں تک انتہا پسندی پر مبنی مائنڈ سیٹ کے خاتمے کی بات ہے، اس کے لئے تمام طبقات کو اپنا کردار کرنا ہوگا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ معاشرے سے غیر ضروری اور نقصان دہ افکار کی تطہیر کے لئے دانشوروں، علماء، مذہبی و سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ جب یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی مذہبی جماعت یا پریشر گروپ اپنے مخصوص نظریات کی ترویج کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا، چونکہ اس کی افرادی قوت اور ووٹ بنک میں اضافے کا دارومدار ہی اس بات پر ہے کہ نئے سے نئے اذہان کو فکری اور نظریاتی طور پر متاثر کرے، تبلیغ و تربیت کا سہارا لے، تاکہ اس کی افرادی قوت برقرار بھی رہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے۔ یہ نکتہ نہایت قابل توجہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی سے جڑے ہوئے مذہبی اور سیاسی ادارے یا جماعتیں کن وسائل اور امکانات کو استعمال میں لاتے ہیں اور مذکورہ عمل کو تقویت دیتے ہیں۔

انتہاء پسندی پہ مبنی نظریات کی بیخ کنی کیلئے کیا اقدامات ضروری ہیں:
 1۔ پاکستان اسلام کے نام پہ بننے والی مملکت ہے، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور ریاستی ادارے سیکولرازم کو فروغ دینا بند کریں، اس سے مذہبی انتہاء پسندی اور تشدد کا جواز فراہم ہوتا ہے۔
2۔ قومی سیاسی جماعتیں کالعدم تنظیموں کیساتھ انتخابات میں ایڈجسمنٹ کے نام تعلقات استوار کرنا بند کر دیں۔ اس کی بجائے اپنے انتخابی منشور کی بنیاد پہ انتخابی مہم چلائیں۔
3۔ موجودہ حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں اپنے حلقوں میں ووٹ بنک بڑھانے کے لئے انتہا پسندی کی آبیاری کرنے والے مدارس کا سہارا نہ لیں اور انہیں اصلاحات کے نام پہ فنڈنگ دینا بند کریں۔
4۔ کالعدم تنظیموں کیخلاف سخت آپریشن جاری رکھا جائے، دوبارہ انہیں کسی طرح قومی دھارے میں شامل نہ ہونے دیا جائے۔
5۔ ریاستی ادارے فوجی مقاصد اور خارجہ پالیسی کے حصول میں افغانستان اور بھارت کیخلاف مذہبی شدت پسندوں کو استعمال میں لا کر انہیں تقویت دینے کی غلط پالیسی کی تکرار نہ کریں۔
6۔ میڈیا میں کالعدم تنظیموں اور انکی دہشت گردی پر مبنی کارروائیوں کی حمایت اور وکالت کی پابندی پر عمل درآمد جاری رکھا جائے۔
7۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پہ ہونے والے تنازعات کے حل میں قانونی اقدامات کیساتھ ساتھ معاشرے کا کردار بڑھانے کے لئے مقامی طور حل کرنے کے لئے سیاسی اور مذہبی شخصیات سے مدد لی جائے۔

8۔ پاکستان کے داخلی اور خارجہ معاملات، سیاسی اور معاشی امور میں عالمی طاقتوں کا اثر و رسوخ ختم کیا جائے۔
9۔ سیاست میں فوج کا رول کم کیا جائے، بنیادی جمہوریتوں کو مضبوط کیا جائے، جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے، آمرانہ انداز کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
10۔ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اور احتساب کا کڑا نظام نافذ کیا جائے۔
11۔ فوج اور حکومت دہشت گردی کیخلاف ایک پیج پہ رہیں، اسی طرح صوبوں اور وفاق کے درمیان جماعتی اختلافات کو آپریشن میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔
12۔ بجٹ کا زیادہ حصہ عوام کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی پہ خرچ کیا جائے۔
13۔ کسی ہنگامی حالت کا مقابلہ کرنے اور جنگ کی صورت میں ملک کا دفاع کرنے کے لئے ہر بالغ پاکستانی کو عسکری تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
14۔ تعلیمی، تفریحی اور سماجی خدمت کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے اداروں اور افراد کی عزت افزائی کی جائے اور قومی سطح پر انکی حوصلہ افزائی کی جائے۔
خبر کا کوڈ : 557240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش