0
Thursday 12 Jan 2017 17:39

امریکی اور سعودی تعاون سے داعش کیسے وجود میں آئی۔۔؟؟؟

امریکی اور سعودی تعاون سے داعش کیسے وجود میں آئی۔۔؟؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان میں دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے وجود کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ سی ٹی ڈی کی متعدد کارروائیوں میں کئی دہشتگرد پکڑے گئے، جنہوں نے اعتراف کیا کہ ان کا تعلق داعش کیساتھ ہے۔ کئی دہشتگردوں سے اسلحہ کیساتھ داعش کر پرچم بھی برآمد ہوا۔ لیکن سکیورٹی اداروں کے اس اعتراف کے باوجود حکومت نے تاحال یہ تسلیم نہیں کیا کہ پاکستان میں داعش کا  کوئی وجود ہے، حالانکہ پاکستان سے متعدد افراد کے داعش میں شمولیت کیلئے شام جانے کا ثبوت ریکارڈ پر ہے۔ لاہور سے ایک خاتون اپنے بچوں سمیت داعش میں شامل ہونے کیلئے گئی، جس پر اس کے شوہر نے مقدمہ بھی درج کروایا۔ اسی طرح پاکستان کے دیگر شہروں سے بھی داعش میں شمولیت کیلئے بہت سے لوگ شام جا چکے ہیں۔ داعش کے حامی بھی موجود ہیں، جو اس وقت کھل کر سامنے آگئے، جب شام میں سرکاری فوج نے حلب کو دہشتگردوں سے آزاد کروایا۔ اس شکست پر بہت سے آوازیں اٹھیں اور پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ شام کی سرکاری فوج اپنے شہریوں کا قتل عام کر رہی ہے، لیکن حلب کی آزادی نے اس پروپیگنڈے کو بھی فلاپ کرکے رکھ دیا اور وہ میڈیا جو اس پروپیگنڈے کو فروغ دے رہا تھا، شامی شہریوں کی جشن مناتے تصاویر جاری کرنے پر مجبور ہوگیا۔ حلب کے شہریوں نے آزادی پر جشن منایا اور فوج کے حق میں نعرے بازی کی۔ اس پر دہشتگردوں کے حامی جو اس جنگ کو "فوج بمقابلہ عوام" قرار دے رہے تھے، بے نقاب ہوگئے اور پوری دنیا جان گئی کہ یہ جنگ فوج بمقابلہ عوام نہیں بلکہ فوج بمقابلہ دہشتگرد ہے۔

داعش کے کارکنوں کی پاکستان سے گرفتاری حکومت بھلے نہ تسلیم کرے، لیکن میڈیا نے ان رپورٹس کو جاری کیا ہے، جن میں داعش کے دہشتگرد یہاں سے پکڑے گئے ہیں۔ محکمہ انسداد دہشتگردی نے 21 ستمبر 2016ء کو پشاور سے کالعدم داعش کا پہلا کارندہ گرفتار کیا، ملزم 15 پولیس اہلکاروں سمیت ٹارگٹ کلنگ کے 32 واقعات میں ملوث تھا۔ گرفتار ملزم نے 2008ء میں افغانستان کے جبہ توبہ میں ٹریننگ حاصل کی۔ سی ٹی ڈی کے مطابق پشاور کے علاقے قاضی کلے میں ایک کارروائی کے دوران کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے اور خطرناک ٹارگٹ کلر کو گرفتار کیا گیا، یہ دہشتگرد محمد فرید عرف راجہ، ثابت عرف عبداللہ عرف ثابتے کے مختلف ناموں سے تنظیموں کیلئے کام کرتا تھا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق ملزم 15 پولیس اہلکاروں سمیت 32 سے زائد ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ ملزم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پشاور شہر میں 5 جسم فروش خواتین کو 2 مختلف واقعات میں ذبح کرکے انکے جسم کے ٹکڑے پانی میں بہانے کا بھی انکشاف کیا۔ گرفتار ملزم نے 2008ء میں افغانستان کے جبہ توبہ میں ٹریننگ حاصل کی، سی ڈی کے مطابق ملزم نے پشاور کے علاقوں فقیر آباد، پہاڑی پورہ اور خزانہ میں بھتہ خوری اور گھروں کے سامنے بارودی مواد رکھنے کا بھی اعتراف کیا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق ملزم فرید حال ہی میں کالعدم تنظیم داعش میں شامل ہوا تھا، ملزم کا ایک بھائی پہلے ہی سکیورٹی فورسز کیساتھ مقابلہ میں ہلاک ہوچکا ہے، جبکہ دوسرا بھائی افغانستان میں داعش تنظیم کیلئے کام کرنے پر گرفتار ہو چکا ہے۔

5 جنوری 2016ء کو اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک خبر کے مطابق لاہور سے گرفتار داعش کے دہشتگرد حافظ عمر کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے اسلام آباد منتقل کر دیا ہے۔ حافظ عمر داعش پنجاب نیٹ ورک کا اہم کارندہ ہے۔ داعش کے دہشتگرد عبداللہ یوسف نے صفورا بس پر حملے کے احکامات بھی حافظ عمر کو دیئے تھے۔ حافظ عمر سانحہ صفورا کا ماسٹر مائنڈ اور برین واشنگ کا ماہر ہے۔ حافظ عمر سانحہ صفورا میں ملوث ہے اور حافظ عمر نے ہی بس کے اندر گھس کر فائرنگ کی تھی۔ 26 اکتوبر 2016ء کو سما ٹی وی نے خبر نشر کی کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے راولپنڈی میں کامیاب آپریشن کے دوران داعش کا دہشتگرد گرفتار کرلیا، سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق دہشتگرد کا تعلق مانسہرہ سے ہے۔ کوئٹہ سانحہ کے بعد ملک بھر میں کالعدم تنظیموں اور کومبنگ آپریشن میں مزید تیزی آگئی ہے، راولپنڈی میں سی ٹی ڈی نے کامیاب کارروائی کے دوران کالعدم تنظیم داعش کا دہشتگرد گرفتار کر لیا گیا۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق دہشتگرد کا نام شیر افضل ہے، دہشتگرد کے قبضے سے بڑی تعداد میں بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دہشتگرد شہر میں تخریب کاری کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ دہشتگرد سے ڈیٹونیٹرز اور ریموٹ کنٹرول ڈیوائس بھی برآمد کی گئی ہے۔ دہشت گرد کا تعلق مانسہرہ سے ہے، جس کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، دہشتگرد کی گرفتاری اور تفتیش کے بعد مزید دہشتگردوں کی گرفتاری کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے اس بات کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک بھر میں کہیں بھی داعش یا اس تنظیم کا وجود نہیں، جبکہ حالیہ کوئٹہ حملوں کی ذمہ داری بھی کالعدم داعش کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔

یہ دونوں واقعات اور ایسے بیسیوں دہشتگرد گرفتار ہوئے ہیں، جنہون نے داعش کیساتھ اپنے تعلق کا اعتراف کیا ہے۔ اس حوالے سے داعش کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنا ہوگی کہ داعش ہے کہاں اور اس کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہیں، جو اس دہشتگرد گروہ کی وجہ سے اسلام کا چہرہ مسخ کرنا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان نے لکھا ہے کہ تین چار سال پہلے اچانک ایک ایسی خبر آئی، جس نے ساری دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا۔ خبر یہ تھی کہ ایک مسلح فورس شمال مشرقی عراق سے اٹھی ہے، اس کا نام "داعش" ہے اور اس نے آناً فاناً یزدی قبیلے (اہلِ تشیع) کے ان افراد کا قتل عام کر دیا ہے جو کردستان سے لے کر موصل تک آباد تھے اور اب وہ فورس موصل کی طرف بڑھ رہی ہے، جو شمالی عراق کا ایک بڑا شہر ہے اور جہاں تیل کے بڑے بڑے کنویں بھی موجود ہیں۔ سارے مغربی میڈیا میں شور مچ گیا کہ یہ داعش کہاں سے ٹپک پڑی ہے اور اگر یہ لوگ اتنے مسلح اور اتنی کثیر تعداد میں تھے تو اب تک کہاں چھپے بیٹھے رہے؟ اس وقت بھی راقم السطور کو جو سوال تنگ کرتے تھے اور ان کا جواب نہیں ملتا تھا، وہ یہ تھے:
1۔ داعش (ISIS) کو منظم کس نے کیا ہے؟
2۔ اس کی مالی سپورٹ کون کر رہا ہے؟
3۔ اس کا اسلحہ اور گولہ بارود کہاں سے آ رہا ہے؟
4۔ اس کی ٹریننگ کون کر رہا ہے؟
5۔ اس کی لیڈرشپ کہاں ہے اور وہ لوگ کون ہیں؟
ان سوالوں کا جواب جو مغربی میڈیا پر دیا گیا، وہ گول مول سا تھا اور ناقابلِ یقین حد تک بے معنی بھی تھا۔ مثلاً کوئی صاحب ابوبکر البغدادی نام کے سامنے لائے گئے اور کہا گیا کہ وہ عرب اور مسلم اقوام پر مشتمل ایک ایسی سلطنت قائم کرنا چاہتے ہیں، جو خلافتِ اسلامیہ کی یاد تازہ کر دے گی۔ اس کا منبع عراق اور شام میں دکھایا گیا۔ اس کی رسائی بھارت اور بنگلہ دیش تک دکھائی گئی اور اس کی ترک تازیاں افغانستان کے مشرقی اور شمالی حصوں تک پھیلائی گئیں، تاکہ پاکستانیوں کو بھی اس سے خوفزدہ کیا جا سکے۔

بعد میں رفتہ رفتہ جو حقیقت کھل کر سامنے آئی اس کا مختصر احوال یہ تھا:
1۔ امریکہ اور ناٹو فورسز افغانستان، عراق اور لیبیا کی جنگوں میں زخم زخم ہوچکی تھیں۔ یہ سچ تھا کہ مغرب کی نام نہاد برتر ایئرپاور، برتر ڈیفنس ہارڈویئر (اسلحہ جات) برتر انٹیلی جنس اور برتر کمبٹ لیڈرشپ نے افغانستان، عراق اور لیبیا جیسے قدامت پرست اور پسماندہ معاشروں پر اپنا غلبہ مسلط کر دیا تھا۔ لیکن یہ بھی جھوٹ نہیں تھا کہ ایسا کرتے ہوئے خود ان مغربی پاورز کو بھی کاری زخم لگے تھے۔ یہ مغربی اقوام اور یہ ممالک اب افغانستان اور عراق سے نکلنا چاہتے تھے۔ لیکن جس تزک و احتشام اور عسکری شان و شوکت سے ان کی آمد آمد ہوئی تھی، اس کے بعد وہ یوں بے آبرو ہو کر اس کوچے سے ’’رفت،رفت‘‘ نہیں چاہتے تھے۔ لیکن مزید ٹھہرنا بھی خودکشی کے مترادف تھا!

2۔افغانستان میں تو ان فورسز کی آمد کا واحد مقصد پاکستان کو ڈی نیوکلیرائز کرنا تھا۔ پونے 2 لاکھ ایساف اور ناٹو ٹروپس محض افغان طالبان کو زیر کرنے کیلئے تو نہیں لائے گئے تھے۔ لیکن جب پاکستان کی مسلح افواج نے اس فورس پر واضح کر دیا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں تو ان کو افغانستان سے رختِ سفر باندھنے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اس لئے وہ دسمبر 2014ء کو یہاں سے نکل گئے۔ اب ان کا ’’پس خیمہ‘‘ باقی ہے، جو تقریباً 11 ہزار امریکی ٹروپس پر مشتمل ہے۔

3۔ یہی حال عراق کا بھی تھا۔ صدام کے پاس البتہ کوئی ایٹمی یا کیمیاوی ہتھیار نہ تھے۔ اسے صرف کویت پر حملہ کرنے کی سزا دینی تھی، جو دے دی گئی۔ نیز اس کے پاس جو بے تحاشا فوجی ساز و سامان موجود تھا اور جو تیل کی دولت سے خرید لیا گیا تھا، اس کو آپریٹ کرنے کیلئے وہ پروفیشنل افواج تشکیل و تعمیر نہ کی جا سکیں، جو اس جدید سلاحِ جنگ کو ہینڈل اور آپریٹ کر سکتیں۔ اس لئے اس کو تباہ کرنے کیلئے بغداد پر حملہ کیا گیا۔

4۔ صدام، سعودی عرب کا آدمی تھا، ہر چند کہ اس نے کویت پر حملہ کرنے کی بے وقوفی کی تھی، لیکن پھر بھی وہ ایران کیخلاف ایک کاؤنٹر تھا۔ سعودی عرب اسے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا تھا، وہ جب ٹھکانے لگ گیا تو سعودیوں کو اپنی فکر پڑ گئی کہ اب ایران خطے میں ایک غالب قوت بن جائے گا۔ ایران و عراق کی مشترکہ فوجی قوت کو سعودی عرب کی فوج شکست نہیں دے سکتی تھی۔

5۔ امریکہ نے سعودیوں کو بتلا دیا تھا کہ وہ عراق سے نکلنے والے ہیں، لیکن اس خلا کو جو امریکی فوج کے نکاس سے پیدا ہوا، سعودی ملٹری فورسز پُر نہیں کر سکتی تھیں، اس لئے جب اسے ایرانی ملٹری فورسز نے پُر کر دیا تو تب سعودیوں کی آنکھ کھلی۔ انہوں نے حسبِ معمول امریکہ کی طرف دیکھا تو امریکہ نے CIA کی مدد سے جو منصوبہ/پلان سعودیوں کو پیش کیا وہ یہ تھا کہ:
(1) صدام کے اُن سُنّی ٹروپس سے رابطہ کیا جائے جو بغداد پر امریکی حملے کے بعد کردستان کے پہاڑوں میں روپوش ہوگئے تھے۔
(2) ان کو امریکی آفیسرز، ملٹری ٹریننگ دیں۔
(3) ان کو امریکی اسلحہ سے لیس کیا جائے۔(یعنی امریکہ نے اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے سعودی عرب کو ایران سے ڈرایا، حالانکہ ایران کہہ چکا تھا کہ وہ خطے میں کسی کیلئے خطرہ نہیں)
(4) اس سارے پراجیکٹ کو صیغہء راز میں رکھا جائے۔
(5) اس فورس کا نام ’’داعش‘‘ رکھا جائے۔
(6) یہ فورس موصل اور کرکوک کے تیل کے کنوؤں پر بھی قبضہ کر لے۔
(7) اس تیل کو برآمد کرنے کا کام امریکیوں کی زیر نگرانی مکمل کیا جائے۔
(8) پھر یہی داعش کرکوک اور موصل سے آگے بڑھ کر بغداد پر قبضہ کر لے۔7
(9) وہاں شیعہ ملٹری لیڈر شپ کو شکست دے دے۔
(10) پھر بغداد سے آگے بڑھے اور جنوب میں کوفہ و بصرہ پر قبضہ کر لے اور صدام والا دور بحال کر دے۔
(11) اس تمام آپریشن پر جو مالی اخراجات اٹھیں ان کا ایک ایک ڈالر سعودی عرب ادا کرے!

6۔ جب اس پلان کا راز ایران پر کھلا تو اس نے بھی اپنے دفاع اور مسلمان بھائیوں کو فتنے سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنے کی ٹھانی۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے صدر پوٹن کو راضی کر لیا کہ وہ اپنی فورسز کو عراق میں کمٹ (Commit) کرنے کی حامی بھر لیں۔ پوٹن چند شرائط کے ساتھ ایسا کرنے پر تیار ہوگئے۔
7۔ چنانچہ روسی اسلحہ اور انٹلی جنس کی بنیاد پر ایران نے عراق میں داعش کے قدم نہ جمنے دیئے، بلکہ آگے بڑھ کر شام کے صدر بشار الاسد کو ساتھ ملانے کا عندیہ بھی دے دیا۔
8۔ داعش نے شمال مغربی عراق سے موو (Move) کرکے شمالی اور پھر وسطی شام (حلب) تک حملے کئے اور صدر بشارالاسد کی سرکاری فوج کو شکست پر شکت دے کر دمشق کی طرف بڑھنا شروع ک دیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کی داعش کیلئے مشترکہ ملٹری اور مالی امداد رنگ لا رہی تھی۔
9۔ جب دمشق کو خطرہ لاحق ہوگیا تو ایران نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ اپنی افواج شام میں اتاریں اور امریکی فضائیہ اور بحریہ کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ روس نے طرطوس اور انطاکیہ کی بندرگاہ اور فضائی مستقر پر اپنی ائر فورس اتار دی اور اپنا ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بحیرہ روم کی راہ انطاکیہ پہنچا دیا۔
10۔ اب امریکہ کو معلوم ہوا کہ روس، تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لینے پر تیار ہے اور اگر یہ جنگ ہوگئی تو چین بھی روس اور ایران کیساتھ مل جائے گا۔ اوباما نے اپنی ملٹری کابینہ سے صلاح مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ روس (اور چین) کیساتھ پنگا نہ لیا جائے۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ دمشق پر بشار الاسد ہی قابض رہیں گے۔
11۔ یہ پیش منظر دیکھ کر سعودیوں نے امریکہ سے ’’کٹی‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے خدوخال ایک عرصے سے ہر کسی کو نظر آ رہے ہیں۔
12۔ اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ داعش (IS) ہاتھ پاؤں ضرور مار رہی ہے، لیکن اس پر نزع کی کیفیت طاری ہے۔ حلب پر شام کی سرکاری فوجوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ عراق اور شام کے شمالی سرحدی علاقوں سے بھی داعش بھاگ رہی ہے۔ پالمریا کے کھنڈرات سے داعش کو رختِ سفر باندھنے کی بھی جلدی ہے۔
13۔ داعش کیلئے سعودی مالی سپورٹ اب خشک ہو چلی ہے اور اس کا دارومدار اب صرف موصل کے تیل کے کنوؤں کی برآمدات پر رہ گیا ہے۔ ادھر عراقی فورسز اب موصل کے قریب پہنچ گئی ہیں اور وہاں گھمسان کے معرکے لڑے جا رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب سارے عراق پر عراق کی موجودہ قیادت کا قبضہ ہو جائے گا۔ اگر امریکہ نے صدر ٹرمپ کی صدارت میں عراق سے نکل جانے کا فیصلہ کیا تو ایران، عراق، شام، لبنان کا اتحاد ایک حقیقت بن جائے گا اور اگر امریکی جرنیلوں نے اپنے صدر کو عراق میں رکنے کا مشورہ دیا تو موجودہ گومگو کی صورتِ حال کچھ دیر اور باقی رہ سکتی ہے۔

موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر روس اور امریکہ دونوں مشرق وسطٰی سے باہر ہو جائیں تو پھر ایران اس خطے کی واحد علاقائی قوت بن جائے گا۔ اسرائیل بلاشبہ، امریکہ کو جانے سے روکے گا، لیکن ٹرمپ کے اپنے مفادات ہیں۔ انہوں نے جس شخص کو وزیر خارجہ نامزد کیا ہے، وہ پوٹن کا دوست بتایا جا رہا ہے۔ اس کے کاروبار کی وسعت کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ خود ٹرمپ کا بزنس نیٹ ورک بھی اتنا پھیلا ہوا ہے کہ وہ سعودیوں کے تیل سے امریکہ کو بے نیاز کرنے کی طرف جا سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اس خطہء ارض کی سیاسی صورتِ حال ابھی تک سیال (Fluid) ہے۔ اسے کسی جگہ ساکن اور مستحکم (Stabilized) ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ تاہم نئے امریکی صدر کا آئندہ چار سالہ دورِ صدارت یہ فیصلہ کر دے گا کہ شام اور عراق اور خطے کے دوسرے ممالک کا مستقبل کیا ہے۔

داعش کے حامی جان لیں کہ یہ گروہ جو دہشتگردوں پر مشتمل ہے، امریکہ اور سعودی عرب کی پیداوار ہے، جس کا مقصد صرف ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کا "خیالی منصوبہ" ہے، جس کو امریکہ نے صرف اس لئے "ڈیزائن" کیا ہے کہ وہ اپنے اسلحہ کے انبار سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کو فروخت کرکے بھاری سرمایہ کما سکے۔ امریکہ کے حالیہ رویے سے یوں لگ رہا ہے کہ ایران کے ساتھ لڑانے کے بعد امریکہ اب سعودی عرب کو صحرائے عرب میں تنہا چھوڑ کر بھاگنے والا ہے، اب سعودی عرب کو اپنا تاریک مستقبل واضح دکھائی دے رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب 39 رکنی مسلم اتحاد قائم کرکے اس کی پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور سعودی عرب اس کوشش میں بھی ہے کہ ایران کیساتھ بھی رابطے بحال ہو جائیں، یہی وجہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کیساتھ رابطے میں کہ وہ اس 39 رکنی اتحاد کی سربراہی سنبھال لیں، جس کیلئے جنرل راحیل شریف نے پہلی شرط ہی یہ رکھی تھی کہ وہ ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل کریں گے اور ایران سعودی عرب کشیدگی کم کرنے کیلئے ثالثی کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 593613
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش