0
Sunday 8 Jan 2017 14:14

پاکستان کیخلاف بھارت کے سیاسی حربے

پاکستان کیخلاف بھارت کے سیاسی حربے
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پاکستان کو کئی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج سلامتی کو درپیش ہے۔ بھارت ہماری سلامتی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، ہمارے پڑوسی ملک نے مملکتِ خداداد کو قبول نہیں کیا۔ اسی لیے بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے اور ہماری ساکھ کو خراب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ چین پاکستان کا قابلِ اعتماد دوست اور بہترین شراکت کار ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی جانب سے پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے لیے قراداد جمع کروائی گئی، جسے چین نے رد کر دیا۔ بھارت کو چین کی وجہ سے ایک دفعہ پھر پاکستان کیخلاف حزیمت اٹھانا پڑی۔ دراصل  داعش اور القاعدہ سے متعلق سلامتی کونسل کی پابندی کمیٹی 1267 نے بھارت کی جانب سے سیاسی مقاصد کے لیے جمع کرائی گئی قرارداد مسترد کر دی تھی۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی رکن ممالک کی درخواست پر تنظیموں یا گروپوں پر پابندیاں لگانے سے متعلق درخواستوں کا جائزہ لیتی ہے۔ بھارت نے اس کمیٹی میں دہشت گردی سے منسلک 11 افراد اور تنظیموں کی فہرست پیش کی تھی۔

چین نے ایک سال قبل بھی بھارتی درخواست کو ویٹو کرتے ہوئے اپنے اعتراض میں مزید 6 ماہ کی توسیع کی تھی، چین نے اس سے قبل اپریل 2015 میں بھی ہندوستان کی درخواست پر تکنیکی اعتراض اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی کہ وہ فی الحال اس پر عمل درآمد نہ کرے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اگر چین دوبارہ اس پر اعتراض نہ اٹھاتا تو مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے عمل میں پیش رفت کی راہ ہموار ہوجاتی۔ جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ قرارداد کو روکنا دراصل بھارت کی جانب سے سیکیورٹی کونسل کی اس اہم کمیٹی کے کام کو کمزور کرنے کی کوشش کو مسترد کرنا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام لیے بغیر کہا کہ سلامتی کونسل میں بھارت کی قرارداد بے بنیاد الزامات پر مبنی تھی جس کا مقصد اپنے معتصبانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانا تھا۔ واضح رہے کہ بھارت کا الزام ہے کہ جیش محمد اور اس کے سربراہ مسعود اظہر پٹھان کوٹ ایئر بیس میں ہونے والے حملے میں ملوث ہیں۔ یہ حملہ دسمبر 2015 میں وزیر اعظم نواز شریف کی سالگرہ اور نواسی کی شادی کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اچانک دورہ لاہور کے چند دنوں بعد ہی ہوا تھا۔

یہ امر تو واضح ہے کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے لیے عالمی برادری کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے، پاکستان نے خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ لیکن دوسری طرف دہشت گردی خود بھارت کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے اور ہندستان دہشت گردی کرانے، دہشت گردوں کی معاونت کرنے اور وسائل فراہم کرنے میں ملوث ہے، جب کہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کا کردار مشکوک ہے اور پاکستان بھارت کی ریاستی معاونت سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہ سارے بھارتی ہتھکنڈے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سےتوجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔ پاکستان کیطرف سے بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے مزید ثبوت اقوام متحدہ میں دینے کا فیصلہ ایک جوابی کاروائی ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کا اعترافی بیان ہندوستان کی پاکستان میں مداخلت کا واضح ثبوت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافات موجود ہیں، دونوں ممالک کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے بعد تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک میں تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب گزشتہ جولائی 2016ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے فوجی اڈے پر ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر لگایا گیا، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔

بھارت نے فوجی اڈے پر حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کیا، جب کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے کو توڑنے اور پاکستان کا پانی روکنے کی بھی دھمکی دی۔ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول ( ایل او سی) کی بھی مسلسل خلاف ورزی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث ہے۔ 2016ء کے دوران بھارت کے ایماء پر پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آپ خطے میں تجارت کے ایک وسیع منصوبے پر کام کرتے ہوئے اس کا مرکز بننے جا رہے ہوں تو وہاں مخالفین یہ کام آسانی سے نہیں کرنے دیتے، لہذا پاکستان شروع دن سے تیار تھا کہ ہمیں اس قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اب تحقیقات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ دہشت گردی کے بڑے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ساتھ خود پاکستان کے کچھ اپنے لوگوں بھی ملوث ہیں، جو کہ مل کر اس طرح کے حملے کرتے اور بعد میں ان کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔

سال 2016ء کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ہوئے، جن میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان دیکھنے میں آیا۔ صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں، جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی مداخلت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں کسی کو شبہ نہیں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان سمیت ملک میں قومی ایکشن پلان کی ذمہ داری حکومت پہ ڈالی ہے۔ 8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد جاں بحق اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، 25 اکتوبر 2016ء کو بھاری ہتھیاروں اور خود کش جیکٹس سے لیس دہشت گردوں نے کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کردیا تھا، جس کے نتیجے میں 61 اہلکار ہلاک اور 117 افراد زخمی ہوگئے تھے، 12 نومبر کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں درگاہ شاہ نورانی میں زور دار بم دھماکے کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ پاکستان کو بھارت کی معاونت سے ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے، کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کا اعترافی بیان بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی اور بھارت کی پاکستان میں مداخلت کا واضح ثبوت ہے۔

دہشت گردی بھارت کی ریاستی پالیسی ہے اور وہ دہشت گردی کی مذمت کی آڑ میں درحقیقت دہشت گردی کرانے، دہشت گردوں کی معاونت اور انھیں وسائل فراہم کرنے میں ملوث ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ سلامتی کونسل نے بھارتی متعصبانہ ایجنڈا مسترد کر دیا ہے۔ لیکن انڈیا ایک طرف پاکستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی جاری رکھے گا اور دوسری طرف سفارتی محاذ پہ ایسی کوششوں سے پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ البتہ یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہونیوالی نہیں ہیں، سچ کو دنیا سے چھپانے کی پاداش میں خود بھارتی رہنما، مودی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سال نو کے موقع پر قوم سے جو خطاب کیا اس پر ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی نے اپنے ٹویٹ میں مودی کو قطار میں مرنے والے 112 افراد کی موت کا ذمے دار ٹھہرایا ہے اور انھیں خود پسند قرار دیا ہے۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ پاکستان کی جانب سے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کرنے اور بھارتی مداخلت کے واضح ثبوتوں سے عالمی برادری کو آگاہ کرنے کے سبب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پاکستان کے خلاف مودی حکومت کی جانب سے جمع کرائی گئی قرار داد کو مسترد کیا۔ 

اس سبکی کو بھارتی سفارت کار اپنی ناکامیوں کا تسلسل سمجھیں اور احساس کریں کہ مقبوضہ کشمیر میں سال 2016ء بھارتی بربریت کی تلخ یادیں چھوڑ کر رخصت ہو گیا، کشمیری عوام اور قابض حکمراں ان یادوں کو آسانی سے بھول نہیں پائیں گے، لیکن بھارت سرکار غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل کے ذریعے خطے کو مسلسل بدامنی سے دوچار کر رہی ہے۔ اب بھارت نے پاکستان کے خلاف آبی اور سرحدی جارحیت کے بعد آئی ٹی کے میدان میں بھی دہشتگردی شروع کر دی ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ بھارتی جنگی جنون کے باعث عالمی برادری سے اگر مودی کی قیادت میں سیکولر یا جمہوری اسپرٹ سے محرومی کا گلہ کیجیے تب بھی بھارتی حکام کے طرز عمل میں مخاصمت کا زہر بے اثر نہیں ہوتا۔ لہٰذا دوطرفہ معاملات کو ریاستی وقار اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے تحت نمٹانے کا تزویراتی میکنزم وضع اور موثر طریقہ سے طے ہو تو تمام دیرینہ تنازعات کے تصفیہ کے لیے کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔

اگر اسی اصول اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کشادہ نظری سے عمل کیا جائے تو کشمیر سمیت دیگر امور پر بھی پائیدار فیصلے ہوسکتے ہیں، مگر مودی سرکار اپنے فسطائی اور غیر عقلی مائنڈ سیٹ کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی بجائے، نت نئے حربے آزما رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سال2017ء کا آغاز بھی آزاد کشمیر کے شہری علاقوں پر بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ سے کیا ہے۔ بھارت کی عسکری مجبوریاں اور ارمان بھی پہاڑ جیسے ہیں، کیونکہ وہ تمام تر جنگی تیاریوں اور دھمکیوں کے باوجود پاکستان سے کھلی جنگ کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے ضرورت اب اس بات کی ہے کہ بھارت کو اقوام متحدہ کے سامنے سرنڈر کرایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 596350
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش