2
0
Monday 9 Jan 2017 21:16

اسرائیل کیخلاف ایک اور کھوکھلی قرارداد؟

اسرائیل کیخلاف ایک اور کھوکھلی قرارداد؟
تحریر: عرفان علی

فلسطین کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک اور کھوکھلی قرارداد منظور کر لی۔ جمعہ 23 دسمبر 2016ء کو غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع کی مذمت پر مبنی اسرائیل مخالف خلاف قرارداد نمبر 2334 کا پس منظر بہت ہی دلچسپ ہے۔ عرب مسلمان ملک مصر نے سب سے پہلے اس قرارداد کے لئے درخواست جمع کروائی، جس پر صہیونی وزیراعظم نے امریکی روابط استعمال کرتے ہوئے مصر کو باز رکھنے کی کوشش کی۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مصر کے صدر ال سیسی کو فون کرکے ان سے قرارداد واپس لینے کی درخواست کی، جو ال سیسی نے قبول کرلی۔ مصر نے سلامتی کونسل سے اس قرارداد پر ووٹنگ موخر کرنے کی درخواست کی۔ لیکن سلامتی کونسل کے دیگر چار غیر مستقل اراکین ملائیشیا، نیوزی لینڈ، سینیگال اور وینزویلا کے نمائندگان نے مصر کو الٹی میٹم جاری کر دیا کہ وہ اپنی پوزیشن فوری طور واضح کرے۔ ورنہ چاروں ممالک مصر کے بغیر اس قرارداد کو پیش کرکے ووٹنگ کروائیں گے۔ یاد رہے کہ بدھ 21 دسمبر کو مصر نے مجوزہ قرارداد کو سرکولیٹ کیا تھا، جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب چار ممالک نے مصر کو الٹی میٹم جاری کیا اور جمعہ کے روز مصر کے صدارتی دفتر کے ترجمان نے ٹرمپ اور سیسی کے درمیان ٹیلیفونک بات چیت کی بنیاد پر قرارداد سے دستبرداری کارسمی اعلان بھی جاری کیا۔ لیکن مذکورہ چار ممالک نے ووٹنگ کے لئے قرار دادپیش کی اور یہ منظور بھی ہوگئی۔ (1)

ایک اور دلچسپ اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس قرار داد کی منظوری کی اصل وجہ امریکا کی جانب سے حق استرداد (ویٹو پاور) کا عدم استعمال تھا۔ امریکا نے ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک میں جعلی ریاست اسرائیل کے حامی ممالک برطانیہ اور فرانس سمیت روس اور چین نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالے۔ غیر مستقل اراکین میں پانچ ممالک کا نام پہلے آچکا، ان سمیت انگولا، جاپان، اسپین، یوکرین اور یوروگوئے نے بھی قرار داد کے حق میں ووٹ ڈالے۔ مصر نے ٹرمپ کی بات تو مان لی تھی لیکن جب دیگر ممالک نے ووٹ ڈالے تو مصر نے بھی اپنا ووٹ اسرائیل کے خلاف ہی کاسٹ کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس قرارداد کی منظوری کو معنی خیز قدم قرار دیا۔(2)۔

امریکا نے اس قرار داد کو مسترد کیوں نہیں کیا؟ یہ بھی ایک دلچسپ، لیکن حقیقت پر مبنی داستان ہے۔ مصر کے عربی اخبار الیوم السابع نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ امریکا نے فلسطینی انتظامیہ سے خفیہ سمجھوتہ کر رکھا تھا۔ قرار داد کی منظوری سے دس روز قبل واشنگٹن میں ایک فلسطینی وفد جس میں نامور مذاکرات کار صائب عریقات اور فلسطینی انٹیلی جنس کے سربراہ ماجد فرج بھی شامل تھے، نے امریکی حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔ ملاقاتوں میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور صدر اوبامہ کی مشیر برائے امور قومی سلامتی سوسن رائس نے یقین دلایا تھا کہ اگر مجوزہ قرارداد کا متن متوازن ہوا تو امریکا ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز (abstain) کرے گا۔ مطلب یہ کہ ویٹو پاور استعمال نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ خود صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر کا بیان ہے، جس میں امریکی صدر اوبامہ پر الزام لگایا گیا کہ ان کی ملی بھگت سے اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔(3)۔

اسی خبر میں جعلی و غاصب صہیونی ریاست کے ردعمل کی تفصیلات بھی بیان کی گئیں کہ بن یامین نیتن یاہو کے دفتر (بیورو) نے کہا کہ قرارداد پیش کرنے والے دو ممالک نیوزی لینڈ اور سینیگال پر پابندیاں لگائی جائیں گی، کیونکہ ان دونوں سے صہیونی ریاست کے سرکاری و سفارتی تعلقات ہیں۔ جبکہ ملائیشیا اور وینزویلا سے تعلقات نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف اقدامات سے اسرائیل قاصر ہے۔ سینیگال کے وزیر خارجہ کا دورہ تل ابیب بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ان دونوں ممالک میں متعین صہیونی سفارتکاروں کو تل ابیب طلب کرلیا گیا ہے، تاکہ مستقبل کے اقدامات پر مشاورت کی جائے۔ برطانیہ نے بھی خفیہ طور پر فلسطینی انتظامیہ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا، جبکہ نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ مورے میک کلی کو خود نیتن یاہو نے فون کرکے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل کے خلاف قرار داد پیش کرکے ووٹ ڈالا تو ویلنگٹن میں صہیونی سفارتخانہ بند کر دیں گے۔ انہوں نے دھمکی بھی دی کہ وہ اسے اسرائیل کے خلاف جنگ سمجھیں گے۔ لیکن نیوزی لینڈ پھر بھی باز نہیں آیا۔(4)

غاصب صہیونی ریاست کے الزامات کے جواب میں صدر اوبامہ کے نائب مشیر برائے امور قومی سلامتی بن روڈز نے پہلے اسرائیل کے چینل 2 پر کہا تھا کہ انہیں نیتن یاہو کے رد عمل پر کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی اور انہوں نے اقوام متحدہ میں حالیہ امریکی طرز عمل کا دفاع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر اوبامہ کے عہد صدارت کا پورا ریکارڈ دیکھ لیں کہ انہوں نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی۔ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل 26 دسمبر 2016ء)۔ لیکن 28 دسمبر 2016ء کو وہ اپنے ہی بیان سے دستبردار ہوگئے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی 28 دسمبر کو اپنی تقریر میں امریکی پالیسی کا دفاع کیا تھا، جس پر امریکا میں ان کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی اور مخالف ری پبلکن پارٹی کے سینیٹرز اور اراکین ایوان نمائندگان کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حتیٰ کہ برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مئے نے بھی ان کی تقریر پر تنقید کی اور اسے نامناسب قرار دیا، جس پر امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے حیرت کا اظہار کیا۔(5) لیکن بن روڈز نے سی این این سے بات چیت میں امریکا کی اصل پالیسی کا اعلان کردیا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے اقوم متحدہ میں کوئی بھی قرار داد پیش ہوئی تو امریکا اسے مسترد کردے گا۔ "So just to be clear here, when (Kerry) says, 'These are not the choices we will make,' which is kind of vague, is he saying that the US would veto any resolution in the UN which might dictate a peace solution or might recognize a Palestinian state?" CNN's Jake Tapper asked Rhodes on "The Lead."
"Yes," Rhodes responded. "We've made that clear over and over, Jake."
(6)۔

ایسوسی ایشن آف ریفارم زایونسٹ آف امریکا (ARZA) کے ریبائی جون روسوو نے ( 26 دسمبر 2016ء کو جیوش جرنل میں) اس بات کا رونا رویا ہے کہ اقوم متحدہ میں صہیونی ریاست کے خلاف سب سے زیادہ یعنی 223قراردادیں پیش کی گئیں جبکہ کسی اوررکن کے خلاف اتنی قراردادیں نہیں آئیں۔ وہ یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ اقوام متحدہ ہی کے ذریعے امریکا و برطانیہ نے فلسطین پر ایک جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کو جائز قرار دلوایا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کے قوانین میں درج رکنیت کی شرائط پر اسرائیل آج بھی پورا نہیں اترتا اور جعلی و غاصب صہیونی ریاست ہی ہے کہ جس نے اقوام متحدہ کے قوانین کی سب سے زیادہ خلاف ورزی بھی کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوم متحدہ کا ادارہ باب ہفتم کے تحت صہیونی ریاست کے خلاف فوجی کارروائی کرتا لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔

جہاں تک اس قرارداد نمبر 2334 کا تعلق ہے، اس میں بھی کوئی دم خم نہیں ہے۔ اس قرارداد میں ماضی کی دس قراردادوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو 1967ء سے 2008ء تک منظور کی گئیں تھیں۔ اقوام متحدہ کی اسرائیل سے متعلق ہر قرارداد کی ٹائمنگ اہمیت کی حامل ہے۔ 1967ء میں عرب دنیا میں جمال عبدالناصر اور ان کے حامی زیادہ مقبول تھے اور وہ سوویت یونین بلاک کے حامی ملک سمجھے جاتے تھے، لہٰذا اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر قرارداد 242 منظور کرکے دنیائے عرب و اسلام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ایک ایسی قرارداد منظور کی گئی، جس پر کبھی بھی عمل نہیں کیا گیا۔ پھر 1973ء میں دوبارہ اسرائیل جنگ لڑ رہا تھا، تب قرارداد 338 آئی۔ 1979ء میں مشرق وسطیٰ میں تحولات جنم لے رہے تھے، خاص طور پر انقلاب اسلامی ایران جو صہیونی ریاست کا کٹر مخالف تھا اور اسے ناجائز قرار دیتا تھا اور فلسطینیوں میں انقلاب اسلامی ایران کے لئے ہمدردی و حمایت پائی جاتی تھی تو اس سال دو قراردادیں 446 اور 452۔ اس کے بعد 1980ء میں تین قراردادیں کیونکہ عراق ایران جنگ کے ماحول میں امریکا کے حامی عرب ممالک یہ بتانا چاہتے تھے کہ اقوام متحدہ میں ایران مخالف ان کے اتحادی ممالک فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ 2002ء میں افغانستان میں امریکی و نیٹو فورسز کی جنگ جاری تھی اور اس وقت وہ عراق جنگ کے لئے پر تول رہے تھے، تب قرارداد نمبر 1397، عراق جنگ 2003ء میں ہورہی تھی تب قرارداد 1515 اور 2008ء وہ سال تھا، کہ لبنان میں اسرائیل کی جنگ کو دو سال ہوچکے تھے اور غزہ میں صہیونی جنگ ہورہی تھی تب قرارداد نمبر 1850 سامنے آئی تھی۔ مقصد صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ عالمی برادری کو فلسطینیوں سے ہمدردی ہے، مگر اس ہمدردی سے فلسطینیوں کی مشکلات، ان کے مصائب ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوسکے۔

امریکا اور سعودی عرب کو فلسطین کب یا د آتا ہے؟ اس کی ایک مثال 15 مارچ 2001ء کو سعودی شہزادہ بندر بن سلطان کی کی امریکی صدر بش جونیئر سے اوول آفس میں ملاقات کا وہ احوال ہے، جو نامور امریکی صحافی بوب ووڈ ورڈ نے اپنی کتاب اسٹیٹ آف ڈینائل میں بیان کیا اور یہ احوال انہوں نے سعودی سرکاری نوٹس کی مدد سے لکھا اور اس احوال کی امریکی سورس نے بھی تصدیق کی۔ اپنی اس کتاب کے باب سوم میں انہوں نے لکھا کہ:
ٰIn a message from the Crown Prince, the de facto leader of Saudi Arabia, Bandar said that moving forward on the peace process between the Palestinians and Israel, which had just elected Ariel Sharon its leader, was critical to building a coalition of moderate Arabs to pressure Saddm Hussein.

یعنی اس وقت صدام کے خلاف امریکہ کے اتحادی عربوں کے اتحاد کے قیام کے لئے ضروری تھا کہ فلسطینیوں اور صہیونی ریاست کے مابین امن عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ اس وقت سعودی عرب سمیت دیگر امریکی اتحادی عرب حکمران خاموش ہیں۔ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں ان کا کوئی ردعمل نہیں آرہا۔ اب جب شام میں امریکی، اسرائیلی و سعودی نیابتی جنگ لڑنے والے تکفیریوں سے حلب آزاد ہوگیا ہے اور دنیا میں ان کا جھوٹ بے نقاب ہو رہا ہے تو سلامتی کونسل کی گیارہویں قرارداد منظور کرکے بشار الاسد کے دشمن ممالک یعنی برطانیہ و فرانس دنیائے اسلام و عالمِ عرب کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔ امریکا بھی رائے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن برطانوی وزیر اعظم کا تازہ ترین بیان اور امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر کا بیان، زمینی حقیقت کو سمجھانے کے لئے کافی ہے۔ ویسے بھی اب ڈونالڈ ٹرمپ جنوری کے تیسرے عشرے کے آغاز میں عہدہ صدارت سنبھال لیں گے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کو یقین دہانی کروا دی ہے کہ وہ صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی نئی پالیسی دیں گے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق Trump tweeted: We cannot continue to let Israel be treated with such total disdain and disrespect.
(7)۔

حوالہ جات:
(1) الجزیرہ انگریزی ویب سائٹ 23 دسمبر 2016ء اور اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ یو این نیوز سینٹر۔
(2) 23 December 2016 UN News Centre اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ
(3) اسرائیلی روزنامہ ھا آریتس (Haaretz) 24 دسمبر 2016ء
(4) روزنامہ ھا آریتس 28 دسمبر 2016ء کی رپورٹ
(5) دی گارجین 29 دسمبر 2016ء
(6) سی این این 29 دسمبر 2016ء
(7) فوکس نیوز 28 دسمبر 2016ء
خبر کا کوڈ : 598596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

m taskeen
Japan
Very nice dear Mr. Irfan Alu, very informative and updating Article.
Irfan
Pakistan
Thanks
ہماری پیشکش