0
Friday 14 Apr 2017 22:02

بھارت، مسلم پرسنل لاء نشانے پر

بھارت، مسلم پرسنل لاء نشانے پر
رپورٹ: جے اے رضوی

ویسے بھارت ایک جمہوری ملک مانا جاتا ہے، جس کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں، مسلمانوں کا پرسنل لاء اس ملک میں اسلامی تہذیب، تمدن اور ملی تشخص کا واحد نشان ہے۔ اسی کی بقاء و فناء سے مسلمانوں کے مذہبی امتیازات اور اسلامی اقدار کی حیات و زیست وابستہ ہے، کیونکہ دنیا کی جن قوموں نے اپنے تہذیبی اور معاشرتی امتیازات کو کھو دیا یا اپنے مذہب سے رشتہ منقطع کر لیا، وہ دیر سویر مٹا دی گئیں اور آج دنیا کے نقشے پر ان کا وجود بھی نظر نہیں آتا، جس ملک میں مختلف مذاہب اور طرز فکر کے ماننے والے موجود ہوں، وہاں کسی قوم یا اقلیت کے پرسنل لاء کو ختم کر دینے کا مطلب یہی ہوگا کہ رفتہ رفتہ اس جماعت کو معاشرتی یکسانیت، ایک دوسرے میں اتنا مدغم کر دے کہ وہ اکثریت میں پوری طرح ضم ہوکر رہ جائے، حالانکہ اسلام کا مسئلہ دوسرے مذاہب اور گروہوں سے قطعاً جدا ہے، دوسرے مذاہب میں بیشتر مذہبی قوانین کی بنیادیں اس رسم و رواج پر مبنی ہیں، جو تبدیل ہوسکتی ہیں، لیکن اسلامی قانون جس کی بنیاد وحی الٰہی اور کتاب و سنت ہے، وہ ہمیشہ کے لئے ناقابل تبدیل ہے۔ مسلم پرسنل لاء میں کسی طرح کی تبدیلی لانا گویا ہندوستان سے اسلامی تہذیب و تمدن کو اکھاڑ پھینکنے کے مترادف ہوگا۔

اس پس منظر میں ہندوستان کے مسلمان اگر پرسنل لاء کو باقی رکھنے پر زور دے رہے ہیں، جس کو کہ انگریزوں نے کبھی نہیں چھیڑا اور دستور ساز اسمبلی نے بھی دیگر اقلیتوں کے ساتھ اس کی آئینی حیثیت برقرار رکھی تو کیا غلط ہے۔؟ دستور ہند کی ہدایتی دفعات کے جزو چوالیس میں مشترکہ معاشرتی قوانین کا تذکرہ کرکے مسلم پرسنل لاء کے خلاف بھارتی اکثریتی فرقے کے ذہن کو متوجہ رکھنے کی جو راہ پیدا کی گئی ہے، اسی سے حوصلہ پاکر بعض حلقے جن میں عدلیہ بھی شامل ہے، مسلم پرسنل لاء کے خاتمہ کے لئے سرگرم ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے تو بھارت میں ایسے عناصر کی کوششیں اس حد تک بڑھ گئیں ہیں کہ وہ مسلم پرسنل لاء کو ایک غیر انسانی قانون بالخصوص مسلم خواتین کے لئے ظلم کا پہاڑ باور کرا رہے ہیں، بعض قانون داں بھی اسلامی قوانین سے ناواقفیت کی بناء پر مسلم پرسنل لاء کو اپنی موشگافی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، جبکہ اسلام میں عورت ہرگز مظلوم نہیں، اسلام نے مسلمان عورت کے بشری، نسوانی اور عائلی حقوق کا مکمل تحفظ کیا ہے، جن لوگوں کا علم ناقص ہے یا جو حقیقت سے آگاہ ہونا نہیں چاہتے، وہ شریعت اسلامیہ میں نقص تلاش کر رہے ہیں، حالانکہ مسلم خواتین کو اسلام کے عائلی قوانین پر اعتراض نہیں، مسلم عورتوں کے ان نام نہاد ہمدردوں سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ خود ان کے معاشرے میں عورتوں کا کیا حال ہے۔

کیا بھارت میں ماضی قریب تک اکثر بیوہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ زندہ جلا نہیں دیا جاتا تھا اور آج بھی ان کی بہوئیں اپنی سسرال میں جہیز کے لئے ختم نہیں کر دی جاتیں ہیں۔ اگر انہیں مسلم عورتوں سے واقعی ہمدردی ہے تو وہ ان کے اقتصادی مسائل کیوں حل نہیں کراتے، کیا ان کو عام مسلمانوں کی بدحالی و تنگ دستی نظر نہیں آتی، ان کے بھوکے پیٹ، لاغر جسم اور تعلیم سے محروم بچے دکھائی نہیں دیتے، صرف مسلم خواتین پیاری لگتی ہیں، حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان عورتوں سے ہمدردی کے ساتھ ان کے بچوں اور مردوں کے حال پر بھی توجہ دی جائے۔ آج بھارت میں جو شدت پسند عناصر مسلم پرسنل لاء کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں، ان کا مقصد مسلم عورت کی ہمدردی نہیں بلکہ مسلم قوم کا ملی تشخص ختم کرنا ہے، اس کے لئے وہ طرح طرح کی تاویلات گڑھتے رہے ہیں۔

مسلم پرسنل لاء جس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے، اس کو وہ قومی اتحاد و ملک کی یکجہتی کے خلاف قرار دیتے ہیں، جبکہ اسی بھارت میں الگ الگ لسانی، تہذیبی اور علاقائی شناختیں خوب پھل پھول رہی ہیں اور دن بدن ان کے اندر جارحیت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ہندوستانی مسلمان ہیں، ہر حال میں صابر و شاکر، جن لوگوں کو زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تنظیم نو یاد ہے، وہ ضرور گواہی دیں گے کہ اس تحریک سے مسلمان دور رہے، حالانکہ ملک میں خوب خون خرابہ دیکھنے میں آیا۔ اگر بھارت کی شمال مشرق کی عیسائی اکثریت والی ریاستیں یا پنجاب کی سکھ قوم اپنی شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہیں تو یہاں رہ رہے مسلمانوں سے توقع کیوں کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی شناخت سے دستبردار ہوجائیں، اس حقیقت کو مسلم پرسنل لاء کے خلاف آواز بلند کرنے والے جتنا جلد سمجھ لیں، اتنا ہی ان کے لئے اور بھارت کے لئے بہتر ہے۔ سیاسی چالبازیوں کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلمان مسلم پرسنل لاء کو خیرباد کہہ کر من حیث القوم اپنا تشخص چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں اور اس کی حفاظت کے لئے وہ کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 627524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش