0
Wednesday 6 Apr 2011 14:51

اسلامی بیداری کی امواج

اسلامی بیداری کی امواج

تحریر: سید ابراہیم علوی
اسلام ٹائمز- انسانی تاریخ بے شمار واقعات اور حوادث سے بھری پڑی ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم ہیں جو آنے والے حالات پر اثرانداز ہونے کے ناطے خاص اہمیت کے حامل ہوں اور انہیں تاریخ کے اہم موڑ کے طور پر یاد کیا جائے۔ ایران میں اسلامی انقلاب اپنی وسعت اور ثقافتی و فکری میدان میں گہرے اثر و رسوخ کے سبب موجودہ تاریخ کا انتہائی اہم واقعہ جانا جاتا ہے۔ عالمی حوادث بالخصوص مشرق وسطی میں گذشتہ چند سالوں کے دوران انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کے بارے میں کئی مضامین اور تجزیئے لکھے جا چکے ہیں جن میں مشرقی و مغربی متفکرین اور حتی سیاستدانوں نے مثبت اور منفی انداز سے اظہار خیال کیا ہے۔ وہ چیز جس کے بارے میں ان تمام مصنفین میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے یہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب نے خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر کئی میدانوں بالخصوص سیاسی اور ثقافتی میدان میں اپنی اقدار کے اعتبار سے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ بلاشک آج اسلامی بیداری کی جو لہر مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے عرب ممالک میں دیکھنے میں آ رہی ہے خطے کی مسلمان اقوام کے درمیان انقلاب اسلامی ایران کے اہم ترین اثرات میں سے ایک ہے۔ اگرچہ عالمی استکباری نظام کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس تعلق پر پردہ ڈالے۔ عالمی استکباری قوتیں ان اسلامی تحریکوں کو روکنے میں تو کامیاب نہیں ہو سکیں لیکن چاہتی ہیں کہ کم از کم انکی حقیقت کو ظاہر ہونے سے چھپا لیں۔
مشرق وسطی کے حالات پر نظر رکھنے والے

افراد کو یاد ہو گا کہ کس طرح عرب لیڈر غزہ پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ 22 روزہ جنگ کے دوران مظلوم اہالی غزہ کے گھیراو اور انہیں کچلنے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ انہیں دنوں میں یہ سوال بھی ابھر کر سامنے آیا تھا کہ کٹھ پتلی عرب حکمران کیوں حماس کی جمہوری حکومت کی نابودی کے درپے ہیں؟۔ حماس تو حزب اللہ لبنان کی مانند ایک شیعہ گروہ نہیں تھا جسکے خاتمے کیلئے عرب حکمران مغرب اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتے پھریں۔ عرب حکمرانوں کے اس سوال خیز رویے کو تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جب فلسطینی عوام سالہای سال قوم پرستی کے نعرے کے ساتھ بے حاصل جدوجہد اور اپنے سازشی عرب حکمرانوں اور فلسطینی اعتدال پسند رہنماوں کی جانب سے مسلسل قبولی شکست اور اپنے حقوق کی دستیابی میں عقب نشینی سے تھک ہار کر مایوس ہو گئے تو انہوں نے حزب اللہ لبنان کی جانب سے جنوب لبنان سے اسرائیل کو نکال باہر کرنے کیلئے جدوجہد آزادی اور اسکے بعد 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کو عبرتناک شکست دینے کو اپنا ماڈل قرار دیتے ہوئے اپنی سیکولر جدوجہد کو دینی اور اسلامی رنگ دینے کا تاریخی فیصلہ کر لیا۔ اسکے نتیجے میں 2006 میں برگزار ہونے والے عام انتخابات میں فلسطینی عوام ایک ایسے گروہ کو ووٹ دے کر برسر اقتدار لائے جو اسی ماڈل کا پیرو تھا۔ یہ وہی اسلامی بیداری تھی جس سے مغربی حکام اور انکے پٹھو عرب حکمران شدید وحشت کا شکار ہیں۔ وہ بھی فلسطین جیسے خطے میں جو مسلمانوں
کا قبلہ اول ہونے کے ناطے عالم اسلام کی تمام تر توجہ کا مرکز ہے۔ مغربی حکام اور انکے کٹھ پتلی عرب حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی فتح نے خطے کی اقوام میں اسلامی بیداری کی لہر کو مزید شدید کر دیا ہے جو انکی پٹھو حکومتوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے لہذا انہوں نے اس لہر کو روکنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
مشرق وسطی میں رونما ہونے والے آج کے واقعات دراصل وہی حوادث ہیں جنکے بارے میں مغربی دنیا ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن سے سخت پریشان تھی اور اسی دن سے اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس تفکر کے اصلی منبع کو ختم کر دے۔ گذشتہ 32 سالوں کے دوران مغرب کی انقلاب اسلامی ایران کے ساتھ دشمنی کی اصلی وجہ یہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج انقلاب اسلامی ایران کی اقدار کی لہریں مسلمان اقوام کے اعتقادات کے ساحل تک پہنچ چکی ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب یہ لہریں مشرق وسطی سے بھی باہر نکل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔
مشرق وسطی میں اسلامی بیداری کی لہر کا تجزیہ کرنے کیلئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے لیکن مختصر طور اس لہر کے اثرات کا دو اعتبار سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
۱۔ عملی پہلو، اور
۲۔ فکری اور نظریاتی پہلو۔
جو چیز یقینی ہے وہ یہ کہ مشرق وسطی میں اسٹریٹجک انرجی کے ذخائر اور عالمی اقتصاد میں اس خطے کی اہمیت کے پیش نظر یہ پیش بینی کی جا سکتی ہے کہ سب سے پہلے جس میدان پر اس اسلامی بیداری کی موج کا اثر پڑے گا
وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو پہلے ہی کئی سالوں سے شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہو کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنی بقا کیلئے کس قدر انرجی کے اسٹریٹجک ذخائر بالخصوص مشرق وسطی کے کم قیمت والے انرجی ریسورسز کا محتاج ہے تو ہم جان لیں گے کہ جب مغربی حکام مشرق وسطی اور خلیج فارس میں اپنے اسٹریٹجک مفادات، اسرائیل کی مرکزیت میں گریٹر مڈل ایسٹ اور ہرٹلینڈ میں اپنی فوجی موجودگی کی بات کرتے ہیں تو انکا مقصود کیا ہوتا ہے۔ اس مضمون میں کیپٹلزم کی بنیادی ضروریات کے بارے میں زیادہ وضاحت کرنے کی گنجائش نہیں لیکن اتنا ضرور جان لیں کہ جس چیز نے مفادپرستی اور طبقاتی نظام پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے سقوط کو موخر کیا ہے وہ عالمی استعمار ہے۔ مغربی دنیا اور مادہ گرایی پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ سرمایہ داری اور استعمار گرایی کا آغاز تقریبا ایک ساتھ ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام عالمی استعمار کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔
بہرحال عرب دنیا کے ڈکٹیٹر حکمرانوں کا سقوط جدید استعمار کے خاتمے اور وسیع مشرق وسطی کے امریکی منصوبے کی شکست، پوسٹ ماڈرن استعمار کی ابارشن اور عالمی استکباری نظام کی نابودی کے مترادف ہے۔ اگرچہ اسلامی بیداری کی موج فی الحال اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے اور کئی فراز و نشیب سے دوچار ہو گی لیکن اگر اسکے اثرات عارضی طور پر خطے کی مسلمان اقوام کی بیداری اور اپنے قومی اثاثوں
کی حفاظت کیلئے اتحاد تک ہی محدود ہوں تو پھر بھی مغربی دنیا کیلئے جو ابھی تک 2008 کے اقتصادی زلزلے سے مکمل افاقہ حاصل نہیں کر پائی انتہائی مہلک ثابت ہو سکتے ہیں اور اقتصادی بحران کو مزید شدید کر سکتے ہیں جسکے نتیجے میں عوامی احتجاج میں اضافہ اور سیاسی و اجتماعی بحران بھی رونما ہونے کا امکان ہے۔
لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مغرب جس چیز سے سب سے زیادہ وحشت زدہ ہے وہ اسلامی بیداری کا تفکر اور نظریہ ہے۔ کئی صدیوں کی مسلسل دین ستیزی، دین کو انسانی زندگی سے باہر کرنے کی کوششوں اور سیکولاریزم اور مادی اقدار کو پروان چڑھانے کی سرتوڑ کوششوں کے بعد مشرق وسطی اور شمالی افریقہ جیسے حساس اور اسٹریٹجک خطے میں دین کی محوریت میں آزادی کی جدوجہد کا جنم لینا جسکی انتہا معلوم نہیں ایک ایسا وحشتناک خواب ہے جس نے مغرب کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور جسکی تعبیر ہیومانسٹک اور سیکولریسٹک افکار کا نابودی اور اسکے نتیجے میں مادی فلسفے کے مکمل خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس تناظر میں دکھائی دیتا ہے کہ بہت جلد تاریخ کے میوزیم میں کمیونزم کے ساتھ لبرل کیپٹلزم کیلئے بھی کوئی جگہ تلاش کرنی پڑے گی۔ بے شک جس دن اسلامی بیداری کے عظیم معمار حضرت امام خمینی رح نے ایران کے اسلامی انقلاب کو نور کا دھماکہ قرار دیا تھا تو وہ اس انقلاب کی عالمی ذمہ داری کے بارے میں سوچ رہے تھے اور انہیں پوری طرح یقین تھا کہ اسلامی بیداری پوری دنیا میں انسانی بیداری کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔

خبر کا کوڈ : 62848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش