0
Sunday 7 Jun 2009 18:19
ولادت باسعادت حضرت فاطمہ س کی مناسبت سے:

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا

تحریر: مسز علی ہمدانی

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تاریخی مسائل اور شخصیات کے بارے میں بحث نہ صرف یہ کہ فائدہ مند نہیں ہے بلکہ اختلافات کا باعث بنتی ہے اور وحدت اسلامی میں خلل پڑتا ہے۔ لیکن اگر مخلص انداز سے دیکھا اور سوچا جائے تو تاریخی مسائل اور شخصیات کے بارے میں نگث اور معلومات سے مختلف قسم کے فائدے ہوتے جن میں سے ایک انسان میں غور و فکر کا جذبہ پیدا ہونا اور دوسرا ان واقعات کا انسان کیلئے سبق آموز ہونا ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "من کثر اعتبارہ قل عثارہ" یعنی جو شخص زیادہ عبرت حاصل کرتا ہے کم تر لغزش کا شکار ہوتا ہے۔ مزید فوائد یہ کہ انسان تاریخی واقعات سے اپنے دل کو سختیوں اور مصیبتوں میں مضبوط کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انکی راہ پر چل کر اپنی زندگی کو آئیڈیل بنا سکتا ہے۔
تمام معصومین علیھم السلام کی زندگیاں ہمارے لئے آئیڈیل ہیں اور اگر ہم یہ کہیں کہ نبوت کے بعد ولایت و امامت دین کی اصل اور اساس و بنیاد ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا ولایت اور دین کا اصلی محور ہیں کیونکہ نبوت جو دین کی بنیاد ہے انکے والد گرامی کے پاس ہے اور امامت جو شریک رسالت اور دین کی بقا کی ضامن ہے انکے شوہر اور بیٹوں کے پاس ہے۔ لہذا ہم اس مضمون میں حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی زندگی کا ایک مختصر تعارف پیش کریں گے۔
نام: فاطمہ،
لقب: زہرا، صدیقہ، محدثہ، طاہرہ، الحوراء، سیدۃ النساء۔
کنیت: ام ابیھا، ام الائمہ، ام الحسن، ام الحسین، ام المحسن۔
والد اور والدہ گرامی: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا۔
شوہر گرامی: حضرت علی علیہ السلام۔
اولاد: امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، حضرت زینب سلام اللہ علیھا،

حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیھا، حضرت محسن علیہ السلام۔
تاریخ و جای پیدائش: ۲۰ جمادی الثانی، سال ۵ بعثت، مکہ مکرمہ۔
تاریخ شہادت: سال ۱۱ ہجری، روز ۱۳ جمادی الاول یا ۳ جمادی الثانی۔
مدت عمر: ۱۸ سال۔
قبر مبارک: مدینہ منورہ لیکن نشان قبر کسی کو معلوم نہیں۔
آپ سلام اللہ علیھا کی پیدائش کے بارے میں روایات میں ملتا ہے کہ انعقاد نطفہ سے پہلے ہی حضرت ختمی مرتبت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خداوند تبارک و تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ چالیس دن تک حضرت خدیجہ س سے دوری اختیار کریں اور ان چالیس دنوں کو شب و روز عبادت میں گزاریں۔ آپ ص ان دنوں دن کو روزہ رکھتے اور رات کو خدا سے راز و نیاز میں مصروف رہتے۔ چالیسویں دن جبرئیل ع تشریف لائے اور اپنے ساتھ بہشتی کھانا لائے اور فرمایا کہ خداوند آپ کو جنت کے تحفے (حضرت زھرا س) کی خوش خبری دیتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ع سے جب حضرت فاطمہ س کی ولادت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ع نے فرمایا: "جب حضرت خدیجہ س نے حضرت محمد ص سے شادی کی تو مکے کی خواتین نے حضرت خدیجہ س سے میل جول بند کر دیا اور وہ بالکل تنہا ہو کر رہ گئیں۔ یہ چیز پیغمبر اکرم ص کیلئے بھی پریشانی کا باعث تھی۔ لیکن جب وہ حاملہ ہو گئیں تو اسی غم اور پریشانی میں ایک دن پیغبمر اکرم ص گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ س کی باتوں کی آواز سنی۔ آپ ص نے حضرت خدیجہ س سے پوچھا کہ کس سے باتیں کرنے میں مصروف تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: "میرے پیٹ میں بچہ مجھ سے باتیں کرتا ہے"۔ پیغمبر اکرم ص نے خوش خبری سنائی کہ یہ بچہ لڑکی ہے جس سے میری نسل اور نسل امامت چلے گی۔ اسی طرح جب وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور حضرت خدیجہ س کو کسی مددگار کی ضرورت پڑی تو مکے کی خواتین یہ کہ کر انکار کر دیتی ہیں کہ کل آپ نے ایک یتیم
اور غریب سے شادی کر کے ہماری بات نہیں مانی تھی، اب ہم سے مدد کیوں مانگتی ہیں؟۔ لیکن خداوند کی مدد پہنچ جاتی ہے اور چار خواتین جو بنی ہاشم کی خواتین کی قد و قامت میں ہوتی ہیں تشریف لاتی ہیں اور اپنا تعارف کرواتی ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آپ کی مدد کو آئی ہیں۔ ان میں حضرت سارہ س )زوجہ حضرت ابراہیم ع(، حضرت آسیہ س )زوجہ فرعون(، حضرت مریم بنت عمران س )حضرت عیسی ع کی والدہ(، اور حضرت موسی ع کی ہمشیرہ شامل تھیں۔ یوں یہ چار خواتین حضرت خدیجہ س کے گرد دائرہ بنا لیتی ہیں اور حضرت فاطمہ س کی ولادت ہوتی ہے۔
حضرت فاطمہ س شکل و صورت میں پیغمبر اکرم ص سے بہت زیادہ شباہت رکھتی تھیں اور انکا چلنا پھرنا اور بات چیت کرنا بھی نبی اکرم ص سے ملتا جلتا تھا۔ حضرت فاطمہ س کی عمر چھوٹی تھی جب شعب ابی طالب کا واقعہ پیش آیا۔ یہ واقعہ ۷ ہجری میں پیش آیا۔ اس چھوٹی سی عمر میں بھی آپ س پیغمبر اکرم ص کے ساتھ تھیں اور وہ تمام مشکلات برداشت کرتی تھیں۔ شعب ابی طالب کا محاصرہ ختم ہونے کے بعد ابھی آپ س کی عمر ۵ برس ہی تھی کہ آپ س کی والدہ حضرت خدیجہ س کا انتقال ہو گیا۔ اسکے بعد ان تمام مصیبتوں کی شاہد تھیں جو مشرکین مکہ آپ س کے والد پر لاتے تھے۔ ان تمام مواقع پر آپ س اپنے والد سے اظہار ہمدردی کرتیں اور انکی دیکھ بھال کرتیں۔ اسی محبت اور احساس مسئولیت کی وجہ سے آپ س "ام ابیہا" کے لقب سے مشہور ہو گئیں۔ آپ س انہی سختیوں اور پریشانیوں میں بڑی ہوتی رہیں۔ جب آپ س کی عمر مبارک ۱۰ سال ہوئی تو مختلف افراد پیغمبر اکرم ص کے پاس آپ س سے شادی کی درخواست لے کر آئے لیکن آپ ص سب کو یہی کہتے تھے کہ فاطمہ س کی شادی کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسی دوران حضرت علی ع نے بھی آپ ص سے حضرت فاطمہ س سے شادی کی درخواست کی۔ آپ ص بہت خوش
ہوئے اور حضرت فاطمہ س سے مشورے کے بعد اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔
حضرت فاطمہ س کی عبادت:
حضرت فاطمہ س کو خدا کے ساتھ والہانہ محبت تھی جسکا اثر آپ س کی عبادت میں ظاہر ہوتا تھا۔ حسن بصری جو کہ اہل بیت س کے چاہنے والوں میں سے تھے لکھتے ہیں: "اس امت میں فاطمہ س سے زیادہ عبادت گزار کوئی نہ تھا۔ آپ س اس قدر عبادت کیلئے کھڑی ہوتیں کہ آپکے پاوں سوج جاتے"۔ لیکن اسکے باوجود آپ س کی خانہ داری پر کوئی خلل نہیں پڑتا تھا اور آپ س بھرپور انداز میں گھر کے کام اور شوہرداری اور بچہ داری میں مصروف رہتی تھیں۔ آپ س رات کے اکثر حصے کو عبادت میں گزارتی تھیں۔
حضرت فاطمہ س کی فضیلت اور عظمت صرف اہل تشیع تک محدود نہیں بلکہ اسلام سے تعلق رکھنے والے ہر متفکر اور دانشمند فرد نے آپ س سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ایک مصری ادیب عباس محمود عقاد لکھتے ہیں: "ہر دین میں ایک مکمل عملی نمونہ اور مقدس خاتون موجود ہے جسکے تقدس سے مومنین درس لیتے ہیں اور اسکی حیثیت لوگوں میں خدا کی نشانی کے طور پر ہوتی ہے۔ اگر مسیحیت میں یہ خاتون حضرت مریم س کی صورت میں موجود ہے تو اسلام میں حضرت فاطمہ س کی مقدس ہستی کے روپ میں ہے"۔
حضرت فاطمہ س کی شادی:
ابن سعد لکھتے ہیں: "جب پیغمبر اکرم ص نے حضرت فاطمہ س کے رشتے کیلئِے آنے والے افراد کو منفی جواب دے دیا تو انہی میں سے ایک فرد نے حضرت علی ع سے کہا کہ آپ آنحضور ص کے پاس اس رشتے کیلئے جائیں۔ وہ پیغمبر اکرم ص کے پاس تشریف لے گئے۔ آنحضور ص نے پوچھا: اے پسر ابوطالب، کس لئے آئے ہو؟۔
علی ع نے کہا: فاطمہ س کے رشتے کیلئے۔
پیغمبر اکرم ص نے کہا: مرحبا و اھلا۔ اور اسکے علاوہ کچھ نہ کہا۔
جب علی ع ان افراد کے پاس واپس گئے تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟۔ آپ ع نے ان کو واقعہ بتایا۔
انہوں نے کہا: "یہی جملہ کافی ہے۔ پیغمبر ص نے آپ کو اپنے اہل دے دیئے"۔
علامہ مجلسی "عیون اخبار الرضا" سے نقل کرتے ہیں: پیغمبر اکرم ص نے حضرت علی ع کو کہا: "قریش کے کچھ مرد مجھ سے نالاں ہیں کہ میں نے فاطمہ س کا رشتہ انہیں کیوں نہ دیا۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ کام خدا کے ارادے سے انجام پایا ہے۔ علی ع کے علاوہ کوئی فاطمہ س کی ہمسری کے لائق نہ تھا"۔
شیخ طوسی رہ نے حضرت زھرا س کے جہیز کی فہرست یوں نقل کی ہے:
ایک قمیص جسکی قیمت ۷ درھم تھی، سیاہ مقنع، کھجور کے پتوں سے بنی ایک چارپائی، دو لحاف جو بھیڑ کی اون سے پر تھے، چار سرہانے جو چمڑے کے تھے، تانبے کا برتن، لکڑی کا ایک پیالہ، پانی کی مشک، کچھ مٹی کے کوزے، اونٹ کے بالوں کا ایک پردہ، گندم پیسنے والی چکی، اور کچھ مزید چیزیں۔
بچوں کی تربیت:
آپ س نے حد اقل وسائل کے ساتھ بچوں کی ایسی تربیت کی انکی زندگی سب کیلئے درس آموز بن گئی۔ امام حسن ع ، امام حسین ع ، حضرت زینب س اور ام کلثوم س کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے انسان ہزاروں درس حاصل کر سکتا ہے۔ امام حسن ع سے روایت ہے کہ ایک رات میں جاگ رہا تھا۔ میری والدہ نماز شب پڑھنے میں مصروف تھیں۔ میں نے سنا کہ وہ صبح تک دوسروں کیلئے دعا کرتی رہیں اور اپنے لئے کوئی دعا نہیں کی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ س نے صرف دوسروں کیلئے دعا کیوں کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ "دوسروں کو خود پر مقدم کرنا چاہیئے"۔ یہی تربیت تھی جس نے امام حسن ع اور امام حسین ع جیسے ایثار کا جذبہ رکھنے والے فرزندوں کو پروان چڑھایا۔ جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
حضرت فاطمہ س کی شہادت:
والد کے انتقال، شوہر کی مظلومیت، حق کی پامالی اور سب سے بڑھ کر وہ غلط رواج جو پیغمبر اکرم ص کی وفات
کے فوراً بعد امت اسلامی میں پیدا ہو گئے تھے نے حضرت فاطمہ س کو سخت غمگین کر دیا تھا۔ اس وقت پیغمبر اکرم ص کے اعلان نبوت سے تقریباً 23 سال گذر چکے تھے۔ اس دوران تمام وہ افراد جو اسلام کو قبول نہ کرنے کی صورت میں اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہے تھے اسلام کے زیر سایہ آ چکے تھے۔ ان میں سے کچھ افراد جاہ طلب اور نفسانی خواہشات کے پیرو تھے۔ پیغمبر اکرم ص کی وفات کے بعد یہی لوگ تھے جو اپنی ان نفسانی خواہشات کے سیلاب میں بہ گئے اور پیغمبر اکرم ص کی پچھلی تمام تعلیمات کو بھول کر اپنی جاہ طلبی کے نشے میں مست اسلام کے اس نئے پودے کو پامال کرنے لگے اور خدا اور رسول ص کی طرف سے منصوب شدہ امت مسلمہ کے امام اور حاکم کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے خود مسلمانوں کے تمام زمام حکومت پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے۔ ان تلخ واقعات نے حضرت فاطمہ س کی لطیف روح کے اوپر خزاں جیسے اثرات مرتب کئے اور وہ بستر بیماری پر پڑ گئیں۔ زندگی کے آخری دن آپ س نے غسل کیا۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے اور اپنی خادمہ کو فرمایا کہ کمرے کے درمیان میرا بستر لگا دو۔ آپ س قبلہ رخ ہو کر بستر پر لیٹ گئیں اور اپنی خادمہ کو بتایا کہ جب تک میری آواز سن رہی ہو سمجھ لینا کہ میں زندہ ہوں اور جب یہ آواز آنا بند ہو جائے تو جان لینا کہ میں فوت ہو گئی ہوں۔
حضرت علی ع نے آپ س کی وصیت کے مطابق آپ س کو غسل دیا، کفن پہنایا اور رات کے اندھیرے میں خفیہ طور پر دفن کر دیا۔ اس دور میں خفیہ دفن کرنے کی وصیت کو ایک طرح سے حاکمان وقت کے خلاف اعتراض سمجھا جاتا تھا۔ اس بات پر کہ حضرت فاطمہ س وقت کے اسلامی حکمرانوں سے راضی نہیں تھیں کافی شواہد موجود ہیں۔
خداوند متعال سے دعاگو ہیں کہ فرزند فاطمہ س حضرت ولیعصر عج کے ظہور میں تاجیل فرمائے تاکہ مظلومیت فاطمہ س کا خاتمہ ہو سکے۔

خبر کا کوڈ : 6332
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش