1
0
Tuesday 20 Jun 2017 16:46

چھ میزائلوں کے ذریعے تین پیغام

چھ میزائلوں کے ذریعے تین پیغام
تحریر: مصطفی نجفی

جب تہران میں دہشت گردانہ اقدامات انجام پائے تو میں نے اپنی تحریر میں اس بات پر زور دیا تھا کہ ایران بہت جلد ان حملوں کا بدلہ لے گا اور داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا۔ ایران نے شام کے صوبے دیرالزور میں واقع داعش کے ٹھکانوں کو لانگ رینج میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ان حملوں پر کافی ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے داعش کے خلاف یہ میزائل حملے تین اہم پیغام کے حامل ہیں جو درج ذیل ہیں:

1)۔ پہلا پیغام صرف داعش سے مخصوص نہیں بلکہ تمام دہشت گرد عناصر کیلئے ہے۔ ایران نے اس میزائل حملے کے ذریعے تمام دہشت گرد گروہوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہم دیگر ممالک کی طرح نہیں۔ اگر تم لوگ لندن، پیرس، انقرہ و دیگر شہروں کو دہشت گردانہ اقدامات کا نشانہ بناتے ہو اور تمہیں کسی جوابی کاروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو ہر گز یہ خیال نہ کرنا کہ تہران بھی ایسا ہی ہے۔ ایران کسی بھی دہشت گردانہ اقدام کا شدید اور وسیع پیمانے پر جواب دے گا۔ لہذا ایران کی جانب سے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر میزائل حملوں کا مقصد محض انتقام نہیں تھا بلکہ داعش سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کو یہ باور کروانا تھا کہ وہ ایران میں دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے سے باز رہیں۔ یہ میزائل حملے درحقیقت ایک قسم کی دفاعی حکمت عملی قرار دی جا سکتی ہے۔

2)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کی جانب سے داعش کے خلاف میزائل حملوں کا دوسرا پیغام امریکی حکام کیلئے تھا۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران امریکی سربراہی میں اتحادی فورسز نے کئی بار جنوبی شام میں شام آرمی اور ایران کی حمایت یافتہ رضاکار فورسز کو حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح امریکہ نے جنوبی شام میں بعض ایسی فوجی سرگرمیوں کا آغاز کر رکھا ہے جس کا نتیجہ ایران سے ٹکراو کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ لہذا ایران نے داعش کے خلاف ان میزائل حملوں کے ذریعے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اس کے پاس شام کے ہر حصے میں امریکہ کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ یہ خیال نہ کرے کہ ایرانی فورسز کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا ردعمل ظاہر نہیں ہو گا۔ یقیناً امریکی حکام بھی یہ پیغام وصول کر چکے ہوں گے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں؟

ایک اور قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ دیرالزور آپریشن میں ایران نے وہی میزائل استعمال کئے ہیں جو چند روز قبل امریکہ کی جانب سے ایران پر لگائی گئی پابندیوں کا حصہ تھے۔ لہذا امریکہ کیلئے ایک اور واضح پیغام یہ تھا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام پر کسی قسم کا دباو قبول نہیں کرے گا اور ہر قیمت پر یہ پروگرام جاری رکھے گا۔ دوسری طرف امریکہ نے حال ہی میں اردن سے ملحقہ شام کے سرحدی علاقے میں ہیمارس میزائل سسٹم نصب کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس میزائل سسٹم کا مقصد جنوبی شام میں اپنا کنٹرول قائم کرنا اور علاقے میں موجود اپنی فورسز کا دفاع کرنا بتایا گیا ہے۔ لہذا ایران کی جانب سے شام کی سرزمین پر داعش کے خلاف میزائل حملوں کو اس امریکی اقدام کا جواب قرار دیا جا سکتا ہے۔

3)۔ ایران کی جانب سے داعش کے خلاف ان میزائل حملوں کا تیسرا پیغام اسرائیل، سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کیلئے تھا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران سعودی عرب نے اسرائیل کی شہہ پر خطے میں ایران مخالف اتحاد بنانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ یہ کوششیں اس وقت اپنے عروج پر پہنچیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ لہذا ایران کا حالیہ میزائل حملہ خطے میں اپنے خلاف سرگرم قوتوں کو ایک وارننگ ہے۔ ایسی قوتوں کو خبردار کرنا ہے جو اتحاد سازی کے ذریعے خطے میں ایران کی طاقت کو محدود کرنے کے درپے ہیں۔ جیسا کہ ان میزائل حملوں کے بعد اسرائیل کے چینل 7 نے اعلان کیا ہے کہ ایران کی جانب سے جاری شدہ اعلامیے میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کو دھمکی آمیز پیغام دیا گیا ہے۔

شام میں داعش کے ٹھکانوں پر ایران کے میزائل حملوں کے بارے میں ایک اور اہم اور اسٹریٹجک نکتہ بھی پایا جاتا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ داعش رقہ شہر میں ممکنہ شکست کے بعد دیرالزور کو اپنے نئے دارالحکومت کے طور پر منتخب کر چکا ہے۔ دوسری طرف شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز بھی دیرالزور کو داعش کے قبضے سے چھڑوانے کیلئے بڑے آپریشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ لہذا ایران کی جانب سے داعش کے خلاف میزائل حملوں کیلئے دیرالزور کا انتخاب بلاوجہ نہیں بلکہ اس کا ایک مقصد داعش کے خلاف جاری آپریشن میں شام آرمی کی مدد کرنا بھی تھا۔ اسی طرح ایران کے ان میزائل حملوں کو عرب ممالک میں موجود اختلافات، تہران کے دہشت گردانہ حملوں اور شام میں ایران کی حمایت یافتہ فورسز کو امریکہ کی جانب سے نشانہ بنائے جانے سے ہٹ کر سمجھنا ممکن نہیں جبکہ مستقبل قریب میں زیادہ ایم تبدیلیوں کا مشاہدہ کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 647514
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
سعودی عرب اور اس کے اتحادی نہیں ہیں، سعودی عرب تو ان کی بھینس ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں۔
سعودی عرب کا کیا مقابلہ ایران سے۔
اس وقت امریکہ بمقابلہ ایران ہے۔ سعودی عرب کو ایران کے مقابلے میں لانا خواہ مخواہ خلیج کی بے عقل بھینسوں کو اہمیت دینے والی بات ہے۔
ہماری پیشکش