0
Tuesday 18 Jul 2017 16:10

لائن آف کنٹرول پر کشیدگی، کشمیر میدان جنگ

لائن آف کنٹرول پر کشیدگی، کشمیر میدان جنگ
رپورٹ: جے اے رضوی

سکم میں چین سے لگنے والی سرحد پر ہر گذرتے دن کے ساتھ تناؤ اور کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، کیونکہ فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ اس دوران کل سکم کی سرحد کے قریب چین کی فوجی مشقیں جاری رہیں، جبکہ بھارت کی طرف سے بھی بحیرہ بنگال میں کئی ملکوں کے ہمراہ فوجی مشقوں کا سلسلہ کل بھی جاری رہا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ روز بیجنگ نے بھارت کو اپنی فوجیں ہٹانے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو بھارت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خیال رہے کہ چین کے ساتھ ملنے والی سکم کی سرحد پر گذشتہ ہفتے بھارت کی فوج اس وقت مبینہ طور چینی حدود میں گھس گئی تھی، جب چین کے ماہرین وغیرہ سرحد کے قریب سڑک تعمیر کر رہے تھے، جس پر بھارت نے اعتراض جتایا اور چینی فوج کو سڑک کی تعمیر روکنے پر مجبور کیا تھا، تب سے اس سرحد پر شدید تناؤ اور کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ درایں اثناء بعض خبر رساں ایجنسیوں کی طرف سے کل چینی فوج کی طرف سے بھارتی چوکیوں پر حملوں کی اطلاع فراہم کی گئی، جس میں بھارتی فوج کے جانی نقصان کا دعویٰ کیا گیا، لیکن اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ بیجنگ چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ہمالیہ میں متنازع سرحدی علاقے سے اپنی فوجیں واپس نہ بلائیں تو اسے ’’شرمندگی‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کا کہنا ہے کہ چین، بھارت اور بھوٹان کے سرحدی علاقے ڈوکلام سے جب تک بھارت اپنی فوجیں واپس نہیں بلاتا، اس بارے میں مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے گذشتہ ماہ اس علاقے فوجیں اس لئے بھیجی تھیں، تاکہ وہ اس علاقے میں نئی سڑک کی تعمیر کو روک سکے، جس علاقے پر بھوٹان اور چین دونوں اپنا دعویٰ کرتے ہیں، یہ علاقہ بھارت کے شمال مشرقی صوبے سکم اور پڑوسی ملک بھوٹان کی سرحد سے ملتا ہے اور اس علاقے پر چین اور بھوٹان کا تنازع جاری ہے، جس میں بھارت بھوٹان کی حمایت کر رہا ہے۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ اگر یہ سڑک مکمل ہو جاتی ہے تو اس سے چین کو بھارت پر اسٹریٹیجک برتری حاصل ہو جائے گی۔ یہ تنازع گذشتہ ماہ سکم کی سرحد کے نزدیک بھوٹان کے ڈوکلام خطے سے شروع ہوا۔ چینی فوجی یہاں سڑک تعمیر کرنا چاہتے ہیں، بھوٹان کا کہنا ہے کہ یہ زمین اس کی ہے۔ بھارتی فوجیوں نے بھوٹان کی درخواست پر چینی فوجیوں کو وہاں کام کرنے سے روک دیا ہے۔ چین نے انتہائی سخت لہجے میں بھارت سے کہا ہے کہ وہ اپنے فوجی بقول اس کے چین کے خطے سے واپس بلائے۔ خیال رہے کہ اس خطے میں بھارت اور چین کے درمیان 1967ء میں بھی جھڑپیں ہوئی تھیں اور ابھی بھی وقتاً فوقتاً حالات میں شدت آتی ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ حالیہ کشیدگی گذشتہ برسوں میں سب سے زیادہ کشیدہ ہے۔ چین نے حال ہی میں چین نے بھارت کے سرحدی محافظوں کی جانب سے تبت اور سِکم کے درمیانی علاقے میں دراندازی کے بعد سکیورٹی خدشات کے باعث بھارت سے آنے والے تین سو ہندو اور بودھ یاتریوں کو اپنے علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں دی تھی۔ چین اور بھارت کا سرحدی علاقہ نتھو درہ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں سے ہندو اور بدھ مت یاتری تبت میں یاترا کے لئے جاتے ہیں۔

کشمیر میں جہاں حالات برابر مخدوش ہیں تو کنڑول لائن پر بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے، اب تو سفارتی سطح پر بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں پونچھ سیکٹر میں بھارت و پاکستان افواج کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ ہوا، جس میں ایک فوجی، اس کی بیوی ہلاک اور ان کے چار بچے زخمی ہوگئے، جو اب بھی زیر علاج ہیں۔ اسی طرح پاکستان نے دعویٰ کیا کہ بھارتی فوج کی طرف سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شہری آبادی پر مبینہ طور فائرنگ کے نتیجے میں کئی عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ اس پر اسلام آباد میں مقیم بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ پر طلب کرکے ان کے ہاتھ میں احتجاجی نوٹ تھما دیا گیا۔ اس پر نئی دہلی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اسے غیر ضروری عمل سے تعبیر کیا۔ اس کے صرف دو دن بعد کپواڑہ سیکٹر میں پھر سے ہوئی شلنگ سے مزید دو بھارتی فوجیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی ہے۔ جس پر اس سیکٹر میں بھی تناؤ بڑھنے لگا ہے۔ اس دوران چینی وزارت خارجہ کے اس بیان نے بھی دنیا کو حیران کر دیا، جس میں چین نے کہا کہ اگر پاکستان کہے گا تو چین کشمیر پر چڑھائی کرسکتا ہے۔ چین نے یہ بیان کس تناظر میں دیا ہوگا، اس سے قطع نظر اب یہ دیکھنا ہوگا کہ سرحدوں پر ہر گذرتے روز کس قدر تناؤ بڑھ رہا ہے اور اگر اس پر فوری طور قابو پانے کی کوشش نہیں کی جائے گی تو حالات کے سنگین رخ اختیار کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

ارونا چل پردیش کے بعد بھوٹان میں بھی بھارت و چین سرحدی جھگڑا طول پکڑنے لگا اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین اور بھارتی فوج ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مدمقابل کھڑی ہیں۔ اگر فوری طور پر حالات پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی جائے گی تو اس بات کا خدشہ ہے کہ چینی فوج آہستہ آہستہ آگے بڑھتی جائے گی۔ اس سے قبل چینی فوج متعدد مرتبہ لداخ میں سرحد پار گھس چکی تھی اور ایک بار تو انہوں نے بھارتی فوج کے ساتھ تلخ کلامی بھی کی اور چٹانوں پر اپنے نشان بھی بنائے تھے۔ غرض یہ کہ نہ تو بھارت پاکستان سرحد اور نہ ہی بھارت چین سرحد پر حالات موافق ہیں، کب کیا ہوگا، اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں مضمر ہے، لیکن کوئی بھی فریق بات چیت کے موڑ میں نظر نہیں آتا ہے۔ لیکن اگر جنگ ہوگی تو اس سے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ جنگ سے آج تک نہ کوئی مسئلہ حل ہوسکا ہے اور نہ کسی مسئلے کے حل ہونے کی کوئی امید نظر آتی ہے اور ہر صورت میں میدان جنگ تو کشمیر ہی ہوگا۔ اس لئے تینوں ملکوں کو عام لوگوں کے مفاد کی خاطر جنگ سے اجتناب کرکے تمام متنازعہ مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے، اگر ایسا نہیں ہوگا تو پورے برصغیر میں ایک ایسی آگ بھڑک سکتی، جس میں ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہہ سکتی ہے۔ اس لئے متنازعہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے سنجیدگی، فہم و فراست، تدبر اور دور اندیشی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 654111
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش