0
Monday 21 Aug 2017 14:37

معرکۂ تلعفر، عراق میں داعش کی شکست کا آخری مرحلہ

معرکۂ تلعفر، عراق میں داعش کی شکست کا آخری مرحلہ
تحریر: ثاقب اکبر

عراق میں داعش کی شکست کے آخری مرحلے کا آغاز معرکۂ تلعفر سے ہوگیا ہے۔ تلعفر داعش کے ہاتھوں میں رہ جانے والا آخری اہم قصبہ ہے۔ اس کے علاوہ دو چھوٹے قصبے مزید اس کے قبضے میں ہیں۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے تلعفر کو آزاد کروانے کے لئے 20 اگست 2017ء بروز اتوار عراق کی سرکاری فوج نے حملے کا آغاز کیا ہے، جسے اینٹی ٹیررزم فورس، عراق کی فیڈرل پولیس اور عباس بریگیڈ کی حمایت حاصل ہے۔ یاد رہے کہ عباس بریگیڈ عوامی رضاکار فورس کا حصہ ہے، جسے الحشد الشعبی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حملے کا آغاز عراق کے وزیراعظم اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر حیدر العبادی کے اعلان سے ہوا۔ انہوں نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تلعفر کو آزاد کروانے کے لئے معرکہ شروع ہو رہا ہے اور عراقی ایک اور کامیابی کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔ اب تلعفر بھی ان علاقوں سے آملے گا جو دہشت گرد گروہ داعش سے آزاد ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں داعش سے کہتا ہوں کہ مجاہد قوتوں کے مقابلے میں ان کے پاس دو ہی راستے ہیں، ہتھیار ڈال دیں یا مرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ہم تمام میدانوں میں کامیاب رہے ہیں، جبکہ انہوں نے تمام معرکوں میں شکست کھائی ہے، اب بھی شکست ان کے مقدر میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام مسلح افواج، حشد الشعبی، اینٹی ٹیررزم فورس اور فیڈرل پولیس تلعفر کی آزادی کے لئے تیار ہیں، انہیں فضائیہ نیز میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبوں کی مکمل مدد حاصل ہے۔ انہوں نے مسلح افواج سے کہا کہ حق آپ کے ساتھ ہے اور ساری دنیا آپ کے ساتھ ہے۔ ہمارے بیٹے تمام صوبوں سے اکٹھے ہوئے ہیں، تاکہ تلعفر کو آزاد کروائیں، داعش عراقی عوام میں تفرقہ پیدا نہیں کرسکتی۔ عراق کے تمام لوگ داعش کے خلاف اور عراق کی زمین کو آزاد کروانے کے لئے متحد ہوچکے ہیں۔

تلعفر موصل سے 55 کلو میٹر مغرب میں واقع ہے۔ اس پر حملے سے پہلے اور عراقی وزیراعظم کی تقریر سے بھی چند گھنٹے قبل عراقی فضائیہ نے شہر پرچیاں گرائیں، جن میں شہریوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ آخری حملے کے لئے تیار ہو جائیں، جنگ شروع ہونے والی ہے، جس میں ہمیں فتح نصیب ہوگی، ان شاء اللہ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں برس جولائی میں موصل داعش کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، جسے اس نے اپنی جعلی خلافت کا دارالخلافہ قرار دے رکھا تھا۔ موصل میں داعش کی شکست کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ اس کے خلاف جلد تلعفر کی آزادی کے لئے کارروائی شروع کی جائے گی۔ مختلف ذرائع کے مطابق تلعفر میں داعش کے جنگجوؤں کا حوصلہ موصل کی نسبت خاصا کمزور ہوچکا ہے۔ گذشتہ ماہ ایک سینیئر عراقی کمانڈر جو تلعفر کے میئر بھی رہ چکے ہیں، نے بتایا تھا کہ داعشی جنگجوؤں کے اہل خانہ شہر چھوڑ چکے ہیں۔ میجر جنرل جبوری نے یہ بھی کہا تھا کہ جہادی تھکے ہارے اور دلبرداشتہ ہیں اور انہیں موصل کی طرح کسی سخت جنگ کی توقع نہیں ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں کئی ہزار شہری پہلے ہی تلعفر کو چھوڑ چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے سول آبادی کے مزید انخلاء کے لئے ایک محفوظ راستہ فراہم کر دیا ہے۔ شہر میں خوراک، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی سخت کمی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہی توقع کی جا رہی ہے کہ دہشت گرد جلد ہتھیار ڈال دیں گے، جبکہ عراقی فورسز کو ایک نفسیاتی برتری بھی حاصل ہے۔

آج (21 اگست 2017) جب ہم یہ سطور سپرد قلم کر رہے ہیں، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گذشتہ 30 گھنٹوں میں عراق کی مسلح افواج اور اس کی حمایت میں لڑنے والی فورسز نے تلعفر کی طرف حیران کن پیش رفت کی ہے۔ یہ معرکہ جسے قادمون یا تلعفر (اے تلعفر ہم آرہے ہیں) میں پہلے ہی دن عراقی افواج نے بہت سے دیہات اور پہاڑی علاقے آزاد کروا لئے ہیں۔ آزاد کروائے گئے علاقوں کے نام ابرالنجار، ابراہنش، ابراکبیر، ابرا صغیر، بطیشہ، العلم، خفاجہ، حلبیہ علیا، شاہراہ المحلبیہ، قیوی قرل قیو، کسر محراب اور مرازیف شامل ہیں۔ عراقی افواج نے داعشی دہشت گردوں کے خلاف محاصرہ تنگ کر دیا ہے، تاکہ وہ شام کی طرف فرار نہ کرسکیں۔ تازہ ترین پیشرفت کے مطابق عراقی افواج نے داعش سے 250 میٹر لمبی سرنگ قبضے میں لی ہے۔ یہ سرنگ داعش کے اہم عسکری مرکز اور تربیتی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ جنگ کے دوسرے دن عراقی فضائیہ نے شہر میں مزید پرچیاں گرائی ہیں، جن میں داعشی دہشت گردوں سے کہا گیا ہے کہ ان کے پاس ہتھیار ڈالنے یا مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ جس رفتار سے عراقی افواج اور اس کی اتحادی فورسز تلعفر کی آزادی کے لئے پیشرفت کر رہی ہیں، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تلعفر کی آزادی کی خبر چند دنوں کے فاصلے پر ہے۔ اس میں سب سے مشکل مرحلہ یقیناً سول آبادی کی حفاظت کا ہے۔ تلعفر میں اگرچہ گنجان آباد علاقے بہت کم ہیں، تاہم چند محلے تنگ گلیوں پر مشتمل ہیں، جہاں تکفیری دہشت گرد عوام کو اپنی شیلڈ بنا سکتے ہیں۔ اس لئے ان علاقوں کی آزادی کے لئے عراقی فوج کو احتیاط سے پیش رفت کرنا ہوگی۔

اس معرکے کا یقیناً ایک قابل ذکر پہلو الحشد الشعبی کے 20 ہزار جوانوں کی عراق کی باقاعدہ مسلح افواج کے ساتھ پشت پناہی ہے۔ الحشد الشعبی جو عراق کے دینی مرجع آیت اللہ سیستانی کے حکم پر عوامی حمایت کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی تھی، کا کردار موصل کی آزادی میں بہت حوصلہ افزا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور علاقے میں اس کے اتحادی نہیں چاہتے کہ عراق میں آئندہ اس عوامی رضاکار فورس کا کوئی کردار باقی رہے۔ تلعفر کا معرکہ شروع ہونے سے پہلے بھی عراق کے اندر اور باہر سے الحشد الشعبی کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں، لیکن عراق کے وزیراعظم حیدرالعبادی نے ایسی تمام آوازوں کو نظرانداز کر دیا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رضاکار فورس اپنے جذبہ ایمانی سے جو کردار ادا کرتی ہے، وہ کسی اور کے بس میں نہیں۔ عراق کی پارلیمینٹ پہلے ہی الحشد الشعبی کو عراق کی مسلح افواج کا حصہ قرار دے چکی ہے۔ اس لئے اس رضا کار فورس کو ایک قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس رضا کار فورس میں عراق کے تمام مذہبی گروہوں سے افراد شامل ہیں اور عراق کے تمام علاقوں سے عوام نے اس کے لئے اپنے نام لکھوائے اور ان میں سے لاکھوں جوانوں کو باقاعدہ تربیت دی گئی۔ تلعفر کے معرکے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں امریکہ کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں۔ اس معرکے میں عراقی افواج کی کامیابی اس امر کو زیادہ محکم طریقے سے ثابت کر دے گی کہ عراق کے مستقبل میں امریکی افواج کا کوئی کردار نہیں اور امریکہ کی بچی کھچی فوج کو جلد عراق سے نکلنا ہوگا۔ دوسری طرف امریکی ترجمان خود اعلان کرچکے ہیں کہ شام میں آئندہ ان کا کوئی کردار نہیں ہوگا، جبکہ شام سے بھی دہشت گردوں کی مسلسل ہر محاذ پر شکست کی خبریں آرہی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 663069
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش