0
Thursday 31 Aug 2017 00:01

قطر کے خلاف سعودی عرب نے کیا کھویا کیا پایا؟

قطر کے خلاف سعودی عرب نے کیا کھویا کیا پایا؟
تحریر: حسن رستمی

تین ماہ قبل سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت، خطے میں انتشار کو ہوا دینے اور اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے اس سے تمام سفارتی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ قطر کے خلاف شدید اقتصادی پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف قطر ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتا آیا ہے اور ان ممالک کے پیش کردہ مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت نے ابتدا میں قطر کے خلاف وسیع میڈیا پراپیگنڈہ شروع کیا تاکہ اس طرح دوحہ کو اپنے پیش کردہ مطالبات ماننے کیلئے دباو کا شکار کر سکیں۔ قطر کے ایک اعلی سطحی عہدیدار سیف بن احمد آل ثانی کے بقول سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے اس کام میں کروڑوں ڈالر خرچ کر ڈالے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اس کے بعد سعودی عرب اور اس کے تین اتحادی عرب ممالک نے قطر حکومت کو 13 مطالبات پیش کئے اور دھمکی دی کہ اگر اس نے یہ مطالبات منظور نہ کئے تو اسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف قطر نے ان ممالک اور ان کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر سفارتی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ قطر نے ایران اور ترکی جیسے ممالک سے تعلقات بڑھاتے ہوئے اپنے اوپر قائم شدہ دباو کو گھٹانے کی کوشش کی۔ حال ہی میں قطر نے ایک لمبے عرصے کے بعد تہران میں نیا سفیر بھیج کر ایران سے تعلقات میں بہتری کیلئے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکام اس کھیل میں امریکی جال میں پھنس گئے ہیں۔ سعودی عرب کا ابتدائی تصور یہ تھا کہ امریکہ قطر کے خلاف نفسیاتی اور اقتصادی جنگ میں اسے تنہا نہیں چھوڑے گا لیکن بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے سعودی حکام کے اس تصور کو غلط ثابت کر دیا۔ امریکہ نے سعودی عرب سے بھاری فوجی معاہدہ طے کرنے کے ساتھ ساتھ قطر سے ملتا جلتا معاہدہ طے کر لیا۔ اسی طرح امریکی حکام نے دوحہ سے دہشت گردی کی مالی امداد کا مقابلہ کرنے کیلئے تعاون کی یادداشت پر بھی دستخط کئے۔ دوسری طرف امریکہ نے سعودی حکام کو تسلی دینے کیلئے اعلان کیا کہ قطری حکام اس معاہدے کی مکمل پابندی کا عہد کر چکے ہیں۔

اب جبکہ اس بحران کو تین ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے، سعودی عرب اپنے اتحادیوں کی مدد سے قطر جیسے چھوٹے سے عرب ملک کو اپنے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور نہیں کر سکا۔ بالکل اسی طرح جیسے سعودی عرب یمن میں بیگناہ شہریوں کے قتل عام کے باوجود اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لہذا اب سعودی حکام کی جانب سے یمن کی دلدل سے باہر نکلنے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ خطے میں سعودی پالیسیوں کے بارے میں ایک لفظ ساری حقیقت کو بیان کرنے کیلئے کافی ہے اور وہ "شکست پر شکست" ہے۔ سعودی حکام کی لمبی اڑان نے آخرکار انہیں مٹی میں ملا کر رکھ دیا اور خطے میں کہیں بھی انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی بلکہ الٹا ملک شدید معیشتی مشکلات کا شکار ہو گیا اور خود سعودی عرب میں بھی عوامی سطح پر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

قطر کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کے اقدامات اگرچہ قطری عوام کیلئے اقتصادی مشکلات کا سبب بنے ہیں لیکن عملی طور پر پوری طرح ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں اور قطر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکے۔ اس کے علاوہ قطر سے چپقلش کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب ممالک میں سعودی عرب کا لیڈنگ رول ختم ہو گیا اور اسلامی اور عرب ممالک میں سعودی عرب کا مقام اور حیثیت متزلزل ہو گئی۔ لہذا اس وقت عمان اور کویت سعودی عرب سے اپنی راہیں جدا کرنے کی سوچ رہے ہیں اور خطے سے متعلق خودمختار پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تاکہ اس طرح کم از کم خود کو سعودی عرب کی خطرناک پالیسیوں کے منفی نتائج سے محفوظ بنا سکیں۔

سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے پاس قطر کے خلاف کوئی باضابطہ اور واحد اسٹریٹجی موجود نہیں۔ دوحہ کے خلاف میڈیا اور اقتصادی دباو عملی طور پر ناکامی کا شکار ہو چکا ہے جبکہ قطر کے خلاف پابندیاں بھی موثر دکھائی نہیں دیتیں۔ اگرچہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک اپنے اس دباو اور اقدامات کے ذریعے قطر کو ایران سے دور کرنا چاہتے تھے لیکن ان کا الٹا نتیجہ ظاہر ہوا ہے۔ سعودی عرب کے اقدامات کے نتیجے میں قطر اور ایران کے درمیان قربتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے اور یہ بھی سعودی عرب کی بڑی شکست شمار ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 665631
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش