0
Wednesday 3 Jan 2018 16:04

مشرق وسطی اسٹریٹجک توازن کی تلاش میں

مشرق وسطی اسٹریٹجک توازن کی تلاش میں
تحریر: صادق ملکی

سرد جنگ کا زمانہ ختم ہونے کے بعد دنیا اور مشرق وسطی پر اس دور کے تقاضوں کی بنیاد پر استوار اسٹریٹجک توازن کا بھی خاتمہ ہو گیا جس کے نتیجے میں خطہ کئی پہلووں پر مشتمل انتہائی پیچیدہ صورتحال کا شکار ہو چکا ہے۔ جیسا کہ اکثر ممالک سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تشخص کے بحران اور جدید عالمی نظام میں اپنے مقام کی تلاش کے معمے کا شکار ہو گئے اور عالمی سطح پر خاص طور پر مشرق وسطی میں رونما ہونے والی بعض تبدیلیاں انہیں کا نتیجہ تھیں۔ عراق، لیبیا، شام، یمن اور افغانستان میں پیش آنے والی مشکلات اور تبدیلیاں بھی اندرونی موثر اسباب کے ساتھ ساتھ اسی عبوری دور کا شاخسانہ ہیں۔ 
 
لیکن آج مشرق وسطی اس عبوری دور سے نکل کر ایک نیا اسٹریٹجک توازن حاصل کرنے کے قریب ہے اور ایسی صورتحال میں جنگ کی دھمکیاں اور تلواروں کی جھنکار خاص اہمیت کی حامل نہیں۔ تہران اور ریاض کے درمیان جاری تناو ہر گز فوجی ٹکراو پر منتج نہیں ہو گا مگر یہ کہ خطے میں اسٹریٹجک توازن تک پہنچنے والی مساواتیں بنیادی تبدیلیوں کا شکار ہو جائیں۔ دوسری صورت میں یہ ٹکراو صرف خطے کی سطح پر پراکسی وارز تک ہی محدود رہے گا۔ خطے کے زمینی حقائق مشرق وسطی کی اصلی اور پائیدار طاقتوں کے طور پر ایران، ترکی، مصر اور سعودی عرب پر مشتمل ہیں۔ اسی بنیاد پر اگرچہ مشرق وسطی انتہائی پیچیدہ اور خطرناک حالات سے گزر رہا ہے لیکن اگر باہمی مفادات پر استوار منطق کی بنیاد پر عقلانیت ان ممالک کو متوازن تعلقات کی سمت میں لے جانے میں کامیاب ہو جائے تو خطے میں اسٹریٹجک استحکام اور اس کے نتیجے میں امن اور ترقی کی منزل حاصل کرنا امکان پذیر ہو جائے گا۔ 
 
عالمی سطح پر سیاسی کھلاڑیوں کا اثرورسوخ بھی اسی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ روس کی مشرق وسطی کی جانب واپسی اور ایران اور ترکی کے تعاون سے شام میں قیام امن کیلئے اس کی کوششیں امریکہ کی جانب سے خاموشی اور کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہ کرنے سے ہمراہ ہوئی ہیں۔ یہ کوششیں کامیابی کی صورت میں مشرق وسطی کو بتدریج اسٹریٹجک استحکام کی جانب لے جائیں گی۔ اس وقت یمن بھی شدید سکیورٹی اور سیاسی بحران کا شکار ہے اور اگر روس، ایران اور ترکی کی شام میں قیام امن سے متعلق کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یمن میں بھی یہی طریقہ کار آزمایا جا سکتا ہے۔ آپس میں اختلافات کے باوجود نہ تو واشنگٹن اور نہ ہی ماسکو مشرق وسطی میں ایک علاقائی طاقت کے قابض ہو جانے اور نتیجتاً اسٹریٹجک توازن بگڑ جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ 
 
اگرچہ خطے کے چار طاقتور ممالک یعنی ایران، ترکی، مصر اور سعودی عرب میں سے ہر ایک علاقائی سطح پر سپر پاور بننے کا آرزو مند ہے لیکن مشرق وسطی کے ممالک کو علاقائی طاقت پر مبنی اسٹریٹجی ترک کر کے طاقتور خطے پر مبنی اسٹریٹجی اختیار کرنا ہو گی۔ یہ وہی اسٹریٹجی ہے جس پر گذشتہ چند سالوں سے ایران زور دیتا آیا ہے۔ آج یہ موقع میسر ہو چکا ہے اور خطے کے تمام ممالک کو چاہئے وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مقصد کے حصول کی کوشش کریں۔ طاقتور خطے پر مبنی منطق اور حکمت عملی نہ صرف تباہ کن مقابلہ بازی ختم ہو جانے کا باعث بنے گی بلکہ اسٹریٹجک توازن تک پہنچنے کا بھی بہت بڑا سبب ثابت ہو گا جس سے مشرق وسطی میں امن، استحکام اور ترقی کی ضمانت بھی فراہم ہو سکے گی۔ 
 
اس وقت مشرق وسطی کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ سکیورٹی اور ترقی جیسے مفاہیم کا عمومی اور ہمہ گیر ہو جانا ہے یعنی خطے کے تمام ممالک ایکدوسرے کی سکیورٹی اور ترقی کو اپنی سیکورٹی اور ترقی سمجھنے لگیں۔ ایسے مشرق وسطی اور عالمی نظام کے درمیان دوطرفہ تعاون اور ہمکاری کے نتیجے میں علاقائی طاقتوں کی جانب سے باہمی ہمکاری، میانہ روی اور اسٹریٹجک توازن کے قیام کیلئے کوششیں امن اور ترقی کی نوید دلا سکتی ہیں۔ یہ اسلوب مشرق وسطی کے امور کی جانب روس کی واپسی میں قابل مشاہدہ ہے۔ اگرچہ روس نے سیاسی امور میں بعض ممالک کے تحفظات کا خیال رکھتے ہوئے امریکہ سے اپنے وسیع مفادات مدنظر قرار دیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آستانہ مذاکرات جنہوں نے جنیوا مذاکرات کو نہ صرف منزوی بلکہ میدان سے ہی نکال باہر کیا ہے، کی بنیاد ماسکو نے رکھی اور انقرہ سے اتفاق رائے، ایران کے تعاون اور امریکی نظارت کے تحت منعقد ہو رہے ہیں۔ یہ مذاکرات بذات خود اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ مشرق وسطی کے سیاسی امور میں روس اور امریکہ کی نظر میں خطے کی طاقتوں کے درمیان اسٹریٹجک توازن کی برقراری ایک اہم ایشو رہا ہے اور مستقبل میں بھی اہم ایشو رہے گا۔ 
خبر کا کوڈ : 694461
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش