0
Sunday 25 Feb 2018 18:25

پی ٹی آئی گورنمنٹ کا مالی نظر و کرم صرف مولانا سمیع الحق پر ہی کیوں؟؟؟

پی ٹی آئی گورنمنٹ کا مالی نظر و کرم صرف مولانا سمیع الحق پر ہی کیوں؟؟؟
رپورٹ: ایس علی حیدر

پاکستان میں دینی مدارس کو ملنے والی بیرونی و اندرونی امداد کا موضوع ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے اور انہی مدارس پر الزامات ہیں کہ یہ انتہا پسندی کو ترویج دے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو 27 کروڑ روپے سے زائد مزید امداد کی فراہمی پر مختلف سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق صوبائی حکومت نے مولانا سمیع الحق کے زیر نگرانی اکوڑہ خٹک، نوشہرہ میں دارالعلوم حقانیہ کو 27 کڑور اور 70 لاکھ روپے کی مزید امداد دی ہے جبکہ گذشتہ سال اسی مدرسے کو صوبائی حکومت نے 30 کڑور روپے کی امداد فراہم کی تھی۔ قوم پرست تنظیم اولسی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سید عالم محسود نے صوبائی حکومت کے اس اقدام پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایسے اقدام انتہا پسندی کو روکنے کی کوششوں میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ آپ پنجاب میں دیکھیں کہ جماعت الدعوۃ کو سرکاری تحویل میں لینے کا (کہا گیا) مطلب یہ نہیں کہ وہ تنظیم ختم ہوگئی، جو پنجاب حکومت کرتی تھی، یہاں وہ پرویز خٹک دارالعلوم حقانیہ کے ساتھ کر رہے ہیں، تو یہ نئی بات نہیں ہے، نئی بات تب ہوگی جب یہ ان کو امداد دینا بند کر دیں گے اور وہ ہو نہیں رہا، اس لئے پاکستان پر انتہا پسندی کی معاونت کرنے کا جو الزام ہے، اس کے واضح دلائل اور ثبوت موجود ہیں۔

اطلاعات کے مطابق دارالعلوم حقانیہ میں طالبان کے کئی اہم راہنما زیرتعلیم رہے ہیں، جن میں اس تحریک کے بانی امیر ملا عمر بھی شامل تھے اور مولانا سمیع الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طالبان انہیں اپنا استاد تصور کرتے ہوئے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں جامعہ حقانیہ کو ریاستی سطح پر سپورٹ کیا گیا۔ مولانا سمیع الحق خود کہتے ہیں کہ وہ افغان طالبان کے روحانی باپ ہیں۔ جلال الدین حقانی سے لے کر ملا اختر منصور تک سب یہی پڑھتے رہے ہیں۔ جب پاکستانی طالبان نے حکومت سے مذاکرات کی بات کی تو انہوں نے عمران خان اور سمیع الحق کو ہی اپنا نمائندہ بنایا۔ تو ایک ایسا مدرسہ جسے دہشت گردوں کی فیکٹری کہا جاتا ہو، اس کو پیسے دینے کا جواز کیا ہے؟ دوسری طرف خیبر پختونخوا کے سکولوں میں پانی نہیں ہے، دیواریں نہیں ہیں، ٹائلٹ نہیں ہیں، میٹرک کے حالیہ نتائج میں 70 فیصد طالب علم پاس ہی نہیں ہوسکے۔ خیبر پختونخوا کی نااہل حکومت نے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں کمی کی ہے اور انتہا پسندوں کی مالی مدد کیلئے کروڑ روپے رکھ دیئے ہیں، جو اس صوبے کے عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک سرگرم کارکن رخشندہ ناز نے بھی صوبائی حکومت کے اس اقدام پر شدید اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ اس صوبے میں تو لگتا ہے کہ اوقاف صرف مسلمانوں کے مدرسوں کو دیکھ رہا ہے، یہاں جو مذہبی اقلیتوں کے ادارے ہیں، ان کی اتنی بری حالت ان کی آپ کوئی مدد نہیں کرتے۔ حکومت کے پاس مدرسوں میں لوگوں کو خوش کرنے کیلئے بہت کچھ ہے، ہم سب اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا، بلوچستان اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں فروغ تعلیم کیلئے قائم ایک ادارے پوہا (POHA) کی رکن نے مولانا سمیع الحق کے زیر نگرانی چلنے والے مدرسے کو خطیر رقم فراہم کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اچھی بات ہے، کیونکہ مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کا بھی اس ملک پر حق تو بنتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عموماً مدرسوں کے بچے زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔ تنظیم کے بقول ضرورت اس امر کی ہے کہ مذکورہ رقم اسی مدرسے کے بچوں کی بنیادی ضروریات پر شفاف طریقے سے حکومتی نگرانی میں خرچ ہو۔ اپنے بیان میں تنظیم کی رکن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ 2011ء میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قائم کردہ کمیشن کے زیرانتظام چلنے ہونے والے اداروں کو بھی ان کی ضرورت کے مطابق فنڈز فراہم کئے جائیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے دارالعلوم حقانیہ کو دی جانے والی معاونت پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے میں دینی مدارس کی بہتری اور انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے انہیں جدید علوم اور سہولتوں سے آراستہ کرنا ضروری ہے اور اسی مد میں مدارس کو مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ مولانا سمیع الحق کی مذہبی جماعت کے تعلقات خیبر پختونخوا میں حکمران پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بہت اچھے ہیں اور آئندہ ماہ سینٹ انتخابات میں مولانا سمیع الحق تحریک انصاف کے تعاون سے حصہ لے رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ صوبائی اسمبلی میں ان کی مذہبی جماعت کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے 2016-17ء کے بجٹ میں مولانا سمیع الحق کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کیلئے 300 ملین روپے مختص کئے گئے تھے، جس کی وجہ سے تحریک انصاف پر سخت تنقید بھی کی گئی تھی، تاہم تحریک انصاف نے اس اقدام کو مدرسوں کے طلبہ کو عام دھارے میں لانے کی کوشش قرار دیا تھا۔ بعد ازاں اپنے اس اقدام کے دفاع کے طور پر عمران خان نے کہا تھا کہ اس امداد کے بدلے میں مولانا سمیع الحق نے انہیں مدرسہ کے نصاب اور نظام میں اصلاحات لانے کی یقین دہانی کرائی ہے، عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مدرسے میں پڑھنے والے طلبہ دہشتگرد نہیں ہوتے اور انہیں بھی دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ جتنی اہمیت اور سہولیات دینا ان کی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اب 277 ملین روپے کے مزید اجراء کے اس عمل کو سینیٹ انتخابات کے موقع پر سیاسی حمایت کے حصول کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف ایک مدرسے کو ہی کیوں دیا جا رہا ہے؟ مدرسہ اصلاحات کیلئے پورے صوبے میں ایک مدرسہ کا انتخاب کس بنیاد پر کیا گیا ہے اور کیا اس کام کیلئے صوبائی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا؟ مدرسہ اصلاحات کا عمل پاکستان میں کوئی نیا نہیں مگر صرف ایک مدرسہ کا انتخاب اور اسے 577 ملین روپے کی خطیر امداد کا جواز کیا ہے اور اس کے نتائج کیا سامنے آرہے ہیں؟ کیا مدرسہ اصلاحات کے نام پر پاکستان میں سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے حصول کیلئے اور اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کیلئے ایک نئی روایت کا آغاز تو نہیں ہو رہا۔؟
خبر کا کوڈ : 707385
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش