0
Monday 26 Feb 2018 21:30

شہنشاہ عالم کی اقتصادی پابندیاں

شہنشاہ عالم کی اقتصادی پابندیاں
تحریر: سید اسد عباس

اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھنے والا امریکہ دنیا میں بہت عرصے سے دھونس دھمکی اور پابندیوں کی سیاست پر کاربند ہے۔ معاشی طور پر طاقتور ہونے کے سبب اس کی یہ دھونس دھمکی ایک بڑے عرصے تک کارگر رہی اور اب بھی کافی حد تک موثر ہے۔ اگر امریکہ دنیا کو کسی ملک سے تجارتی لین دین سے منع کر دے تو پوری دنیا کے بڑے بڑے ممالک چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے اس ملک سے تجارتی لین دین ختم کر دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے ایران سے کاروبار کرنے والی کمپنیوں پر ویزا کی پابندی لگائی، جس کے تحت وہ یورپی افراد جن کو امریکہ کا بزنس ویزا فراہم تھا اور جنہیں بار بار امریکی سفارتخانوں کے چکر نہ لگانے پڑتے تھے، امریکہ کی ویزا پابندی کے باعث اس سہولت سے محروم ہوگئے اور انہیں امریکہ کی جانب سفر کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ امریکی عدالت نے ان پابندیوں کے اثر کو نرم تو کیا، تاہم پہلے جیسی سہولت میسر نہ رہی۔ کاروباری حضرات اور کمپنیاں جو ہمیشہ اپنے فائدے کے حصول کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں، اس قسم کی پابندیوں کو اپنے کاروباری مفادات کی راہ میں ایک رکاوٹ تصور کرتے ہیں اور انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ پرائی مصیبت کو گلے لگائیں۔ ایسے کاروباری حضرات کی کوشش ہوتی ہے کہ متبادل راستے کا انتخاب کیا جائے۔ اقتصادی اور معاشی پابندیاں کسی بھی ملک کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے اور اس کی معیشت کو کمزور کرنے کے لئے لگائی جاتی ہیں، تاکہ ریاست میں حاکم قوتیں کمزور ہوں اور عوامی مسائل منجملہ مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ کا دباﺅ اس قدر شدید ہو جائے کہ سیاسی طور پر باغی ریاست گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔
 
اسی انداز میں دنیا کی سیاست میں دخیل طاقتیں اپنی معاشی اور اقتصادی طاقت کو اپنے حریف کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اقوام عالم کے مختلف ادارے منجملہ یو این او، یورپی یونین، ورلڈ بینک، مانیٹری فنڈ بھی اس عمل میں طاقتور ریاستوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ امریکی مقننہ نے اپنے صدر کو اقتصادی اور معاشی پابندیاں لگانے کا اختیار 1917ء میں دیا، جسے ٹریڈنگ ود اینیمی ایکٹ کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں امریکہ میں ایک قانون پاس کیا گیا، جس میں فوجی امداد اور غیر فوجی امداد کو جدا جدا کیا گیا۔ یو ایس ایڈ اسی ایکٹ کے تحت قائم ہوا۔ اگرچہ یہ قانون انسانی حقوق کی بنیاد پر بنایا گیا، تاہم آج اسی قانون کے ذریعے اقوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ 1977ء میں امریکہ نے ایک قانون پاس کیا، جس کے تحت صدر امریکہ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ناگہانی صورت میں اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے عالمی معیشت کے لئے احکامات جاری کرسکتا ہے۔ 1979ء میں برآمدات کے انتظام کے حوالے سے صدر کو خصوصی اختیار دیئے گئے، تاکہ وہ قومی مفادات کے مدنظر برآمدات کو کنٹرول کرسکے۔ امریکہ میں ممالک کے حوالے سے خصوصی قوانین موجود ہیں، جس میں ایران، عراق، شام، لیبیا، لبنان، شمالی کوریا، کیوبا، بیلاروس، وینزویلا، برونڈی، صومالیہ، یوکرین، روس، یمن، زمبابوے، جنوبی سوڈان، برما، اوری کوسٹ پر عائد پابندیاں شامل ہیں۔

یہ پابندیاں مختلف نوعیت کی ہیں، بعض جگہ کچھ مخصوص شخصیات پر پابندیاں عائد ہیں، بعض جگہ اداروں پر پابندی ہے، بعض جگہ مکمل لین دین پر ہی پابندی ہے۔ ان امور کے نگران ادارے ٹریژری کے اعداد و شمار کے مطابق فلسطینی خون میں ہاتھ رنگنے والے اسرائیل کے خلاف کوئی پابندی نہیں ہے، نہ ہی اس فہرست میں بھارت کا نام شامل ہے، جو گذشتہ نصف دہائی سے زیادہ عرصے سے کشمیر کے بے گناہ مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ پابندیوں کے بجائے 1979ء ایکٹ کے تحت عرب بائیکاٹ میں اسرائیل کو مدد فراہم کرنے کے لئے ایک قانون پاس کیا گیا۔ اقتصادی اور معاشی پابندیاں عموماً ان ممالک پر لگائی جاتی ہیں، جو امریکی ایجنڈے، خارجہ پالیسی کے خلاف ہوتے ہیں یا آزادانہ خارجہ پالیسی لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ تاہم پابندیوں کا عنوان ایسا رکھا جاتا ہے، تاکہ باقی دنیا کو بھی ان بلند بانگ نعروں اور دعوں پر اکٹھا کیا جا سکے اور انہیں اس ملک کے خلاف اقدام کا اخلاقی جواز مہیا کیا جاسکے، جبکہ درحقیقت یہ طاقت کا اظہار ہے، جو کمزور کے خلاف کیا جاتا ہے، تاکہ اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا جاسکے۔ نیوکلیائی ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق پابندیاں، میزائل ٹیکنالوجی کی روک تھام کے حوالے سے پابندیاں، نشہ آور اشیاء کی نقل و حمل سے متعلق پابندیاں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر پابندیاں، آمریت کے خلاف پابندیاں وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ عناوین ہیں، جو ریاستوں کو اپنے زیر نگیں لانے کے لئے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ورنہ پہلا نیوکلیائی دھماکہ خود امریکہ نے کیا، میزائل ٹیکنالوجی کو یہی ملک ترویج دیتے ہیں، جو اس کا نام لے کر پابندیاں لگاتے ہیں، ویتنام، ہروشیما، ناگاساکی، ابوغریب، گوانتانامو، خود امریکہ کا 99 فیصد محروم طبقہ جو بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے، امریکہ ہی کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکہ ہے۔

پابندیاں اسی پر لگتی ہیں، جو امریکہ بہادر کا مخالف ہے۔ اس عالمی طاقت کی طاقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ جو جتنا مخالف ہے اور اس کے ارادوں کے جس قدر خلاف ہے، اس کے خلاف اتنے ہی عناوین سے پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ایران کو ہی لے لیں، اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے لے کر نیوکلیائی ہتھیاروں کی تشکیل تک مختلف عناوین سے پابندیاں موجود ہیں۔ یہ پابندیاں موثر بھی ہوتی ہیں، جو اقوام کی کیفیت کے اعتبار سے اثر کرتی ہیں۔ اگر کوئی قوم زندہ ہو اور اپنی حمیت و خودداری کا تحفظ کرنے کا ارادہ رکھتی ہو تو وہ قوم ان پابندیوں کو ایک موقع میں تبدیل کرتی ہے اور اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے اپنی مصنوعات کو بہتر بناتی ہے۔ اس حمیت و خودداری کی مثال خود ایران ہے، جس پر انقلاب اسلامی ایران کے وقت سے پابندیاں عائد ہیں۔ شخصیات، اداروں، اثاثوں، لین دین، کاروبار ہر ہر چیز پر پابندی ہے۔ بہت سے عالمی ادارے ملک سے اپنی صنعتوں کو ختم کرکے چلے گئے، تاہم ایرانی قوم نے اپنے زور بازو پر انحصار کیا اور ان عالمی و امریکائی پابندیوں کے اثرات کو کم سے کم رکھنے کی بھرپور سعی کی۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خمینی کا یہ جملہ کہ تم ہمارے گرد لوہے کی دیواریں چن دو، ہم تمھیں زندہ رہ کر دکھائیں گے، آج سچ ثابت ہوا۔ انہی عالمی طاقتوں کو جو ایران کو نہ جانے کیا کیا کہتے تھے، ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑے اور اپنی پابندیوں کو ختم کرنا پڑا۔ پاکستان کو بھی ستر اور دو ہزار کی دہائی میں مختلف عناوین سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ امداد کے سہارے پر چلنے والا ملک اگرچہ معاشی طور پر مزید کمزور ہوا، تاہم ہم نے اپنی سالمیت پر کوئی سودے بازی نہ کی اور اپنے تحفظ کے لئے وہ ضروری اقدام کیا، جو لازم تھا۔
 
امریکہ بہادر کو جب آمریت راس تھی، یعنی جب پاکستان کی افغانستان میں ضرورت تھی تو تمام تر پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امداد کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ دنیا میں جہاں جہاں آمریت اس کے حق میں ہوتی ہے، وہاں انسانی حقوق کے نام پر لگائی جانے والی پابندیاں نظر نہیں آتیں، لیکن جہاں جمہوریت اس کے مفاد میں نہ ہو، وہاں ہم اقتصادی پابندیوں اور سازشوں کا کھیل مشاہدہ کرتے ہیں۔ مصر میں ڈاکٹر مرسی کی حکومت کا خاتمہ ہو، یا تیونس میں اسلامی حکومت کے خلاف سازشیں، الجزائر کے انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی کامیابی ہو یا یمن میں عوام کا ایک آمر کے خلاف احتجاج، امریکہ بہادر اپنے لاﺅ لشکر کے ہمراہ ان ممالک پر چڑھ دوڑتا ہے، جبکہ وہ ممالک جو اقوام عالم کا استحصال کر رہے ہیں، ان کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں، جہاں آمریت کا راج ہے، لیکن چونکہ وہ امریکہ کے مفاد ات کو نقصان نہیں پہنچاتے تو وہاں نہ پابندیوں کے قوانین ہیں، نہ لین دین پر کوئی قدغن۔ لہذا یہ بات تو واضح ہوئی کہ بلند بانگ دعووں اور اونچی اونچی باتوں کے ساتھ اقوام عالم پر لگائی جانے والی پابندیاں جبکہ ان کا اثر براہ راست اس ملک کے غریب عوام پر ہو، ایک قوم کے اجتماعی معاشی استحصال اور مقاطع کے مترادف ہے، نیز یہ سب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے حربے ہیں۔ ظالم کو اس کے ظلم کا اخلاقی جواز مہیا کرنے کی سعی لاحاصل ہے۔ ورنہ اگر شہنشاہ عالم حقیقی طور پر انسانیت کے اتنے ہی خیر خواہ ہوتے تو ان کی یہ پابندیاں عادلانہ بنیادوں پر ہوتیں اور اقوام عالم میں ظلم و بربریت کی روش پر گامزن ممالک سب سے پہلے ان پابندیوں کا شکار ہوتے۔ دنیا میں بھیڑیوں کے غول کا مسلسل نوازے جانا پابندیوں کے اس جال پر سے پردہ اٹھانے کے لئے کافی ہے۔ دوسری اہم بات جو یہاں واضح اور واشگاف ہے کہ دنیا کو کسی صورت یک قطبی نہیں رہنا چاہیے۔ طاقت کا کسی ایک مقام پر تمرکز اور معیشت کے پہیے کا ایک کلی پر گھومتے رہنا دنیا کی آزاد منش اقوام کے لئے وبال جان بن سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 707787
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش