0
Thursday 8 Mar 2018 13:11

آزادی کے نعرے پر عورت کی غلامی

آزادی کے نعرے پر عورت کی غلامی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یورپ میں صنعتی انقلاب کے زمانے میں بڑے پیمانے پر صنعتیں لگیں۔ اس صنعتی انقلاب سے پہلے مقامی پیداوار کے حساب سے علاقائی صنعتیں موجود تھیں، جو بہت چھوٹے پیمانے پر  کام کرتی تھیں۔ جیسے کچھ عرصہ پہلے تک گاؤں کا کمہار برتن سازی کا کام کرتا تھا، لوہار لوہے کا کام کرتا تھا، ترکھان لکڑی کا کام کرتا تھا اور موچی گاؤں کے لوگوں کے لئے جوتیاں بناتے تھے۔ ان تمام صنعتوں کے لئے اکثر خام مال گاؤں میں دستیاب ہوتا تھا، مثلاً لکڑی، کپاس اور چمڑا گاؤں میں دستیاب تھے، اب اس سے چیزیں بنائی جا رہی ہیں۔ یورپ کے صنعتی انقلاب نے یورپ کی زندگی میں جہاں طبقاتی نظام کو جنم دیا، وہیں پر معاشرتی اور ثقافتی  اعتبار سے بھی یورپ کے اس وقت کے معاشرے کو تبدیل کر دیا۔ اس انقلاب سے پہلے  خواتین کا معاشرے میں کم و بیش وہی کردار تھا، جو آج سے تیس چالیس سال پہلے کے پاکستانی معاشرے میں تھا۔ اس صنعتی انقلاب نے مزدوروں کی ڈیمانڈ کو بڑھا دیا۔ پہلے تو اسے زیادہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے معاشرے کے بیکار لوگوں کو کام میں لایا گیا۔ جب اس سے کام نہ چلا تو  بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایسے خطوں سے لایا گیا، جہاں  استعماری قوتوں کا قبضہ تھا۔ افریقہ سے امریکہ منتقل ہونے والے غلاموں کی مظلومانہ داستانیں آج بھی امریکہ کے مختلف میوزیمز میں موجود ہیں، جو کام کرتے کرتے بے نام ہی  دنیا سے گزر گئے۔ کوئی محقق ان مظلوموں پر کتاب لکھے یا کوئی ڈاکمنٹری بنانے والے ڈاکومنٹری بنائیں کہ کس طرح لوگوں کا استحصال کیا گیا۔ اس تمام کے باجود یہ کمی پوری نہیں ہوئی تو ایک معاشرتی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا، وہ تھا عورت کو آزادی کے نام پر فیکٹروں، دفتروں اور سڑکوں پر لے آؤ۔ یہ کرنے پہلے ہر اس طبقے کی آواز کو ختم کر دیا گیا، جو ان سرمایہ داروں کے خلاف ہوسکتا تھا۔ مذہب جو ایک بنیادی عنصر تھا، اس کو ریاستی معاملات  سے نکال کر چرچ تک محدود کر دیا اور اب تو چرچ بھی برائے فروخت ہوگئے ہیں۔ سرمایہ دار اس میں کامیاب ہوگئے۔

امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ عورت کو اس کے مقام سے گرا کر اشتہار بازی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ آپ مغرب کو چھوڑ دیں، صرف پاکستان میں شام کو پانچ منٹس مختلف ٹی وی چینلز پر آنے والے اشتہارات کو دیکھ لیں، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ امام خمینیؒ نے درست فرمایا تھا۔ آج صبح سے تمام چینلز یوم خواتین منا رہے ہیں اور اس کی وجہ زیادتی کا شکار خواتین کو بتایا جا رہا ہے، جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتوں کو میڈیا پر عام کیا۔ میڈیا پر ایسی مہمات معاشرے میں اسلامی اقدار کی پامالی اور  مشرقی اقدار کے انہدام کا باعث بنتی ہیں۔ ان میں مغربی اقدار اور ان کے تصورات کو فروغ دینا مقصود ہوتا ہے۔ آج مغربی میڈیا بالخصوص ان کی اردو سائٹس کا مشاہدہ کریں، ان پر غیر محسوس انداز میں ہماری روایات و اقدار کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ ایک واقعہ اٹھایا جاتا ہے، جس میں ایک مرد ایک عورت کے ساتھ کوئی ناروا سلوک کرتا ہے۔ اس میں سارے کا سارا قصور مرد کا بتایا جاتا ہے۔ عورت صرف مظلوم محض ہوتی ہے۔ تمام مسائل کا حل انفرادیت میں ہے۔ آپ کی زندگی میں کوئی بہن، بھائی، ماں یا باپ نہیں ہے۔ یہ زندگی آپ کی زندگی ہے، جسے آپ نے اپنی مرضی سے گزارنا ہے۔ یہ باتیں اس معاشرے کے لئے بالکل درست نہیں، جہاں بچے ریاست پالتی ہے اور والدین اولڈ ہوم والے پالتے ہیں۔ یہ بات اس معاشرے میں درست ہے، جہاں پر باپ اپنے بیٹے سے اپنے گھر میں رہنے کا کرایہ وصول کرتا ہے، یہ بات اس معاشرے میں درست ہے، جس نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہو۔ ان کی روایات، ان کی اقدار اور ان کا طرز زندگی ہمارے معاشرے میں مِس فِٹ ہے۔ ہمارا معاشرہ خاندانی نظام کی چھتری تلے قائم ہے۔ خاندان ایک مضبوط معاشرتی اکائی کے طور پر قائم ہے۔ ہماری انفرادی زندگی بھی دراصل اجتماعی زندگی کی ہی ایک صورت ہے، جس میں ایک خاندان میں رہتے ہیں۔

کچھ ایسی چیزیں ہمارے معاشرے میں ہو رہی ہیں، جن کے خلاف نہ بولنا اور کچھ نہ لکھنا ظلم کی حمایت کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے کہ لوگ بچیوں کو جائیداد میں ان کا حصہ نہیں دیتے۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام نے جس خاندانی نظام کا تصور دیا ہے، اس میں عورت ایک انتہائی مہذب کردار کی حامل ہے۔ اس کی ذمہ داریاں بتا دی گئیں ہیں اور اس کے حقوق کو مکمل تحفظ دیا ہے۔ ہم جہاں ان اقدار کی مخالفت کرتے ہیں، جو ہماری روایات کے خلاف ہیں، اسی طرح ہم ہر اس روایت کے بھی خلاف ہیں، جس کی بنیاد پر کسی عورت کے ساتھ زیادتی کا تصور ابھر رہا ہو۔ عورت کو جائیداد میں اسلام کا مقرر کردہ حصہ دینا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اسلام عورت کو بیٹی، بیوی اور ماں کے روپ میں دیکھتا ہے۔ ہر جگہ اسے عزت و شرف عطا کرتا ہے۔ بیٹی کی صورت میں ہو تو اسے والدین کے لئے اللہ کی رحمت قرار دیا ہے۔ آقائے نامدار ؐ کا فرمان ہے، جس کو اللہ نے دو بیٹیاں عطا کیں، اس نے ان کی اچھی پرورش کی اور ان کی شادی کر دی تو  وہ قیامت کے دن جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ میں نے بہت سے دوستوں سے پوچھا ہے کہ کیا ایسی کوئی روایت بیٹوں کے بارے میں موجود ہیں۔؟؟؟ یہ بیٹی کی فضیلت و اہمیت ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی نگاہ آنے والے زمانے کو دیکھ رہی تھی کہ جس میں لوگ تیسری بیٹی کی پیدائش پر طلاق دے دیں گے۔ اسی لئے سرور اعظم نے بیٹیوں کو عزت دی۔ جب بھی آپؐ کی بیٹی آپؐ کے پاس آتی تو کھڑے ہو جاتے۔ عرب کے اس معاشرے میں جہاں بیٹی کو توہین کی علامت سمجھا جاتا تھا، آپؐ کا یہ طرز عمل انہیں اور آنے والے مسلمانوں کو بتا رہا ہے کہ بیٹی کی قدر کرو۔ بیٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کی قدر کریں، جو شدید سردی اور شدید گرمی کے عالم میں سکولوں کے باہر اپنی بیٹیوں کو لینے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں کہ بیٹیوں کو آرام پہنچا سکیں۔ ایسے میں بیٹیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ والدین کی عزت کریں۔ جہاں ہمیں آزادی کے نام پر عورت کا استحصال قابل قبول نہیں، اسی طرح ایسی صورت حال بھی قبول نہیں، جس میں ان سے پوچھے بغیر ان کی شادی کر دی جائے۔ اسلام نے جو حق ان کو دیا ہے، اس کو کسی صورت میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام اعتدال کا نام ہے، جس میں عورت کو باعزت مقام حاصل ہے اورہم نے ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے، جس میں عورت کو اس کا یہ مقام حاصل ہو۔
خبر کا کوڈ : 710002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش