0
Saturday 17 Mar 2018 23:52

شام میں حقوق کی جنگ

شام میں حقوق کی جنگ
تحریر: سید اسد عباس

ہمارے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ شام میں لڑی جانے والی جنگ ایک اکثریت کے حقوق کی جنگ ہے، جو ملک کی ایک اقلیت کے زیر اثر زندگی گزار رہی ہے۔ میری نظر سے جون 2000ء کی نیویارک ٹائمز کی اشاعت گزری، جس میں شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی وفات کی خبر ان الفاظ میں درج ہے، ”ایک ایسا شخص جس نے شام کو ایک قوت میں بدلا۔“ نیویارک ٹائمز کی تحریر میں درج ہے کہ حافظ الاسد نے شام کو اسرائیل کے خلاف ایک نہ جھکنے والی طاقت بنایا۔ حافظ الاسد نے شام پر 1970ء سے 2000ء تک حکومت کی۔ ان کا اقتدار ”الحرکة التصحیحة“ کے نتیجے میں شرو ع ہوا، جب ملک بہت سے مسائل سے دوچار تھا۔ اسرائیل کے ساتھ جنگیں، اردن میں فلسطینی فدائین کے خلاف کارروائی، معاشی بدحالی، بدامنی اسی قسم کے دیگر مسائل میں گھرا ہوا ملک حافظ الاسد کو ملا۔ حافظ الاسد 1969ء سے ہی شام میں غیر رسمی حاکم تھے، تاہم انہوں نے اپنی صدارت کا باقاعدہ اعلان 1970ء میں کیا۔ شام سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ 1831ء میں مصر کے ابراہیم پاشا نے شام میں کچھ عرصہ حکومت کی۔ 1840ء میں شام دوبارہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں چلا گیا۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو بہت کم عرصے کے لئے اس ملک میں فیصل اول جن کا تعلق بنو ہاشم سے تھا، کی حکومت قائم کی گئی، جس پر چار ماہ بعد فرانس نے قبضہ کر لیا اور لیگ آف نیشنز نے شام کو فرانسیسی مینڈیٹ میں دے دیا۔ فرانس کے اقتدار کے خلاف شام کے پہاڑی علاقوں میں سلطان ہاشم اتاسی کی سربراہی میں ایک مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا، جس کے سبب فرانسیسی افواج اور شامی حریت پسندوں کے مابین جنگ کفر، جنگ مزرع لڑی گئیں۔

سلطان ہاشم کی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی اور وہ فرار کر گئے۔ فرانس نے سلطان ہاشم کو موت کی سزا دی، تاہم بعد میں فرانس اور سلطان کے مابین ایک معاہدے کے تحت ان کو معاف کر دیا گیا اور طے پایا کہ وہ شام کے پہلے صدر ہوں گے۔ اس معاہدے پر عمل نہ ہوا اور سلطان ملک کے صدر نہ بنے، تاہم ملک میں فرانسیسی اقتدار کے دوران میں ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1946ء میں فرانسیسی افواج شام سے نکل گئیں اور یوں وہاں جمہوریہ قائم ہوئی۔ اسی دوران میں اسرائیل کے قیام کا اعلان سامنے آیا، جس کے خلاف غیر تربیت یافتہ شامی افواج نے دیگر عرب ممالک کے ساتھ مل کر محاذ جنگ کھول دیا۔ مسلمان افواج کو 1948ء کی جنگ میں صہیونی افواج کے خلاف شکست ہوئی، اسی شکست کے نتیجے میں شام میں حکومت کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی اور ملک کرنل حسنی الزائم کے زیر اقتدار آیا۔ فوجی بغاوتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں سمی الحناوی، کرنل ششاکلی کی بغاوتیں ایک ہی سال میں ہوئیں۔ ششاکلی کو 1954ء میں اقتدار سے بے دخل کرکے ملک میں ایک مرتبہ پھر پارلیمانی نظام نافذ کیا گیا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں یہاں عرب قومیت، شامی قومیت اور سوشلزم کے لئے زرخیز میدان موجود تھا۔ نہر سوئز کے مسئلے کے بعد شام نے سوویت یونین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے نتیجے میں شام میں سوویت رسوخ بڑھ گیا۔ یہ رسوخ شام کے ساتھ ساتھ دیگر عرب ریاستوں میں بھی سرائیت کر گیا اور عراق، شام، اردن اور دیگر عرب ممالک میں سوشلسٹ پارٹیوں کی بنیاد رکھی گئی، جس میں پسے ہوئے طبقات کے لوگ، نیز اقلیتی اقوام کے لوگ جوق در جوق شریک ہونے لگے۔

بعث پارٹیاں بنیادی طور پر عرب معاشرے میں پائی جانے والے سیاسی عدم استحکام، معاشی تفریق اور عدم مساوات کے خلاف غریبوں کا قیام تھیں۔ 1958ء میں شامی صدر شکری القوتلی نے مصر کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور شام کو مصر میں ضم کرتے ہوئے”متحدہ جمہوریہ عرب“ کا اعلان کیا، جس کے خلاف شام کی بعثی پارٹی نے قیام کیا اور بغاوت کے نتیجے میں 1961ء میں شام میں بعث پارٹی اقتدار میں آئی۔ 1966ء میں بعث پارٹی نے پارٹی کے اندر اختلاف کے سبب ملک کے سربراہ امین حافظ جو خود اس پارٹی کے رکن تھے، کو گرفتار کر لیا اور اقتدار ایک سویلین نور الدین الاتاسی کے حوالے کیا گیا، جبکہ درحقیقت ملک پر بعثی پارٹی کے رکن صلاح جدید کی حکومت تھی۔ صلاح جدید کے بعد حافظ الاسد جو اس وقت وزیر دفاع تھے، بعث پارٹی کے سربراہ اور ملک کے وزیراعظم بنے۔ شام اپنی آزادی کے وقت سے نظریاتی دھڑوں کی رسہ کشی، اقتدار کی جنگ کا میدان تھا، عرب اسرائیل تنازع نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ ان جنگ زدہ حالات میں اس ملک میں ترقی اور تعمیر کیا ہونی تھی، غربت و پسماندگی کا دور دورہ تھا۔ اسی سیاسی و نظریاتی رسہ کشی کے دوران میں 1970ء میں اخوان المسلمین جو شام میں ایک بڑی اکثریتی جماعت ہے، کو بھی میدان عمل میں اترنے کا موقع ملا اور اخوان کے مسلح گروہوں نے بعث پارٹی کے فوجیوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اخوان ملک میں لبرل، سوشلسٹ طرز حکومت کے خلاف تھے، وہ ملک میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کے حامی تھے۔ اخوان اور بعث پارٹی کی چپقلش 1982ء تک جاری رہی۔ 1982ء میں اخوان نے صدر حافظ الاسد پر قاتلانہ حملہ کیا، جس میں ایک گرنیڈ دور پھٹا جبکہ دوسرے گرنیڈ پر حافظ الاسد کے گارڈ نے چھلانگ لگائی اور اس کے نتیجے میں وہ مارا گیا۔

اس قاتلانہ حملے کے بعد بعثی افواج نے رفعت الاسد جو کہ حافظ الاسد کے چھوٹے بھائی تھے، کی سربراہی میں اخوان کے مرکز پر حملہ کیا اور وہاں دونوں گروہوں کے مابین شدید لڑائی ہوئی، جو بعثی افواج کی کامیابی اور اخوان کی لیڈر شپ کے قتل یا گرفتاری کی صورت میں سامنے آئی۔ اس لڑائی میں مختلف اندازوں کے مطابق دس ہزار سے چالیس ہزار تک شامی قتل ہوئے۔ 1982ء کے بعد شام میں اخوان المسلمین کی رکنیت کو جرم قرار دے دیا گیا اور اخوان کی بقیہ قیادت ملک سے فرار کر گئی۔ حافظ الاسد نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد تحریک اصلاح کا آغاز کیا، جس کے تحت انہوں نے ملک میں سیاسی، معاشی اصلاحات متعارف کروائیں۔ انہوں نے بعث پارٹی جو خود جدید صلاح کی گرفتاری کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، کو ایک مرتبہ پھر ملک کے وسیع تر مفاد میں جوڑنے کی کوششیں کیں، ان کی اس کوشش کے جواب میں بعث پارٹی کے بہت سے اراکین اور جدید صلاح کے حامی بھی میدان عمل میں اترے اور ملک میں سیاسی استحکام آیا۔ ملک کی سنی اکثریت اور مذہبی حلقوں کے اطمینان کے لئے بھی کئی ایک اقدامات کئے گئے، جو اس سے قبل انجام نہیں دیئے گئے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ حافظ الاسد کا علوی فرقہ سے ہونا تھا، وہ جانتے تھے کہ ان کا اس فرقے سے ہونا ایک سنی اکثریتی ملک میں ان کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے، لہذا انہوں نے علماء کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے ملک میں پہلی مرتبہ وزیر مذہبی امور اور تعمیرات مساجد کا تعین کیا۔

حافظ الاسد نے اس عہدے پر ایک عالم دین کو تعینات کیا۔ ایک سنی استاد احمد الخطیب کو ملک کا سربراہ مقرر کیا گیا، اسی طرح حکومت میں بھی بہت سے سنی افسران کو اہم عہدے دیئے گئے۔ تقریباً تمام وزرائے اعظم، وزرائے دفاع، وزرائے خارجہ اور کابینہ کے اکثر اراکین سنی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ حافظ الاسد اگرچہ خود علوی تھے، تاہم سنی مساجد میں نماز ادا کرتے تھے، تاکہ ملک کی اکثریت کو اطمینان کا سامان کیا جائے۔ معاشی میدان میں اسد نے اپنے پارٹی نظریات اور گذشتہ حکومتوں کے برعکس نجکاری کو فروغ دیا۔ ان کے اقتدار میں شام ایک ایسا ملک تھا، جس پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ایک پائی بھی واجب الادا نہیں تھی۔ سفارتی میدان میں حافظ الاسد نے مصر، سعودیہ اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کئے، تاکہ اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط اتحاد تشکیل دیا جاسکے۔ حافظ الاسد نے کبھی بھی اسرائیلی وجود کو تسلیم نہ کیا اور وہ اس اکائی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔ لبنان میں اسرائیل کی مداخلت کے وقت حافظ الاسد نے اپنی افواج لبنان بھیجیں، جو ایک طویل عرصہ تک لبنان میں دفاع کی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے خلاف لڑنے والے فلسطینی اور لبنانی مزاحمتی گروہوں کے اہم مراکز شام میں قائم تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 712280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش