0
Monday 2 Apr 2018 10:51

کردار زینبی کی شناخت اور اپنانے کی ضرورت

کردار زینبی کی شناخت اور اپنانے کی ضرورت
تحریر: محمد اشرف ملک
malikashraf110@gmail.com
   
                     
ولادت اور وفات
حضرت زینب بنت علی (ع) پنجم یا ششم ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ باپ مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی (ع) ہیں, اور مادر گرامی خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔ گیارہ  ہجری تک نانا محمد مصطفی ﷺ اور مادر گرامی کی شفقت و محبت کو درک کیا۔ ۱۱ ہجری سے چالیس ہجری تک اپنے بابا کے دور امامت میں ان  کے ساتھ ہونے والے تمام حالات کو بھی دیکھا۔ چالیس ہجری سے پچاس ہجری تک مولا امام حسن (ع) کے دور امامت میں بسر کئے، اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں ظلم و ستم کی جو داستانیں رقم کی جا رہی تھیں اور تاریخ اسلام کو جو مسخ کیا جا رہا تھا، اسے بھی دیکھ رہی تھیں۔ آپ پچاس ہجری سے ساٹھ ہجری تک  امام حسین (ع) کی امامت میں گزارتے ہوئے  اکسٹھ ہجری کو کربلا و کوفہ و شام کی تمام منزلیں طے کرنے کے بعد  ۱۵ رجب کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔

سدہ زینب (ع) اور موقعیت شناسی:  
اسلام نے عورت وہ شرف عطا کیا ہے جو اسلام سے پہلے کسی اور دین میں نہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے۔ جس اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام عطا کیا آج اسی اسلام کے اصول و فروع کا مقابلہ کرنے کے لئے عورتوں ہی کو استعال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔  تمام خواتین کو یاد رکھنا چاہیئے کہ کوئی کام بھی انسان کے اپنے ارادہ و  اختیار اور فیصلہ کے بغیر  ممکن ہی نہیں ہوتا اور کوئی دوسرا اسے اسکے ارادہ کے بغیر کوئی کام نہیں کروا سکتا۔ انسان کو موقع شاس ہونا چاہیئے اور  اس کے مطابق ہی عمل کے اثرات کا تجزیہ و تحلیل کر کے میدان عمل میں قدم رکھنا چاہیئے۔ سیدہ زینب نے تاریخ کے اندر  دین  کے دفاع اور اہلبیت (ع) کی حقیقی تفسیر کے لئے جو کارنامے انجام دیئے ہیں اگر ان کو دقت نظری سے دیکھا جائے تو  وہ صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لئے بھی  ہدایت کے روشن مینار ہیں۔ 
حضرت زینب سلام اللہ علیہا موقعیت شناس تھیں، امام حسین (ع) کے کربلا جانے سے پہلے کی موقعیت، میدان کربلا کی موقعیت اور واقعہ کربلا کے بعد کی موقعیت ہر ایک کی اچھے طریقہ سے اپنے  ذہن میں  تجزیہ و تحلیل کرتیں اور پھر ہر ایک کے بارے میں مناسب فیصلہ کرتی تھیں۔ ہر موقعیت کے مقابل میں مناسب اقدام ہی انسان کو بلند کرتا ہے اور یہی مناسب اقدامات ہی تھے کہ جنہوں نے زینب کو اتنا بلند کیا کہ قیامت تک کا مسلمان حضرت  زینب (ع) کی قربانیوں کا ہی مرہون منت ہے۔

جب امام حسین (ع) نے مدینہ ترک کیا تو حضرت عبداللہ سے اجازت لیکر صرف خود تیار نہیں ہوتیں بلکہ  اپنے بیٹوں کو بھی ہمراہ لے لیتی ہیں جبکہ اسی مدینہ اور اسی مکہ میں اور کافی صاحب نام افراد موجود ہیں کہ جو ظاہرا حالات کی سنگینی کو صحیح طریقہ سے جب درک نہین کرتے اور جو اقدام کرنا چاہیئے اس سے بہت دور تھے، تو امام حسین نے شخصا ان کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی لیکن انہوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ پیش کر دیا۔ سیدہ زینب نے یہاں پر جو فیصلہ کیا یہ دین کے دفاع کے لئے تھا، امامت کی شناخت اور معرفت کروانے کے لئے تھا۔ کیا بی بی کی ماننے والی ہر کنیز کے سامنے   اور ماننے والے ہر مرد  کے سامنے ایسے حساس معاملات میں دین کے دفاع کے لئے اپنے اپنے زمانے کے رہبر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا سارا سرمایہ قربان کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیئے یا اس کا ساتھ دینا تو کجا اس کے مقابلہ میں سینہ تان کر  کھڑا ہونا چاہیئے۔ جن افراد نے موقعیت کی صحیح شناخت کی ان کا نام بھی تاریخ میں ثبت ہے اور جنہوں نے اپنی  ذاتی خواہشات کی بنیاد پر امام حق، رہبر حق کا ساتھ نہیں دیا ان کے ناموں کو بھی تاریخ نے آنے والی نسلوں کے لئے باعث عبرت بنا دیا ہے۔ تاریخ دہرائی تو جاتی ہے لیکن تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا جاتا، کاش  تاریخ کے گزرے ہوئے مہم تارین واقعات سے سبق حاصل کیا جاتا۔
 
سیدہ زینب (ع) کا انسانیت کیلئے سخت ترین بحران میں نمونہ عمل ہونا:
 
جب انسان پر مشکل آتی ہے تو اس وقت اپنے آپ پر قابو پا کر اس مشکل کا مناسب حل سوچنا  اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا ہر انسان کا کام نہیں ہے۔ انسان جس مشکل میں ہی کیوں نہ ہو اسے اس  سے کامیاب ہو کر نکلنے کے لئے علی (ع) کی بیٹی کو نمونہ بنانا چاہیئے اس لئے کہ یہ وہ بی بی ہیں کہ جن کی آنکھوں کے سامنے تمام مرد شہید ہو چکے تھے، عصر عاشور کو خیام میں امام  سجاد کے علاوہ کوئی مرد نہیں بچا اور خود امام سجاد علیہ السلام بھی بعض اوقات غشی کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔ مستورات اور بچے  ہیں اور باہر دشمن ہیں جو خوشیاں منا رہے ہیں۔ خیموں کے اندر جہاں بھوک اور پیاس کا غلبہ ہے تو خیموں کے باہر  شہداء کی لاشیں بے گوروکفن زمین پر پڑی ہیں۔ ان میں کوئی بھائی ہے،  کوئی بیٹا ہے، کوئی شوہر  ہے، حضرت سکینہ کے بھائی بھی ہیں، چچا بھی ہیں اور حسین جیسا  کائنات کا مہربان ترین باپ بھی ہے۔ ان تمام حالات میں ضرورت ہے کہ کوئی ایک فرد آئے جو ان  بچوں کو اکٹھا کرے اور سب کو تسلی دے، وہ ایک فرد بھی علی (ع) کی بیٹی زینب کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ زینب خود وہ ہیں کہ جن کے اپنے بھائی، بیٹے شہید ہو چکے ہیں، بنی ہاشم کے اٹھارہ جوانوں کی اور اصحاب باوفا کی لاشیں بھی ان سب کے ساتھ زمین کربلا پر پڑی ہیں۔ ان تمام حالات میں اپنے حواس پر کنٹرول رکھ کر سب بچوں اور مستورات کو تسلی دینا اور ان کو سنبھال کر رکھنا حتٰی مشکل ترین حالات میں امام سجاد کے لئے بھی سپر بن کر رہنا سیدہ زینب کا کام ہے۔ شام غریباں کی سختی کو درک کرنا اور اللہ کی رضا و دین کی بقاء کے لئے قاتلین حسین کے ساتھ کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں عظمت اہلبیت کو منوا کر واپس مدینہ آنا، باب مدینۃ العلم کی عالمہ غیر معلمہ، عقیلہ بنی ہاشم بیٹی حضرت زینب  (ع) کا کام ہے۔

ان تمام واقعات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا  ہے کہ موقع کی مناسبت سے عورت کو انزوا کا شکار ہونے کی بجائے حوادث کے عیں متن، تاریخ کے عین متن میں رہ کر دفاع اسلام کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ دشمن ظاہرا طاقتور ہو، تمام امکانات اس کے پاس ہوں، تخت ہو، بادشاہت ہو، فوج ہو  اور ہر  طرح کا  اسلام و حق کو مٹانے کا انتظام کر چکا ہو ،قدرت اور حکومت کے نشہ میں باطل کو حق اور حق کو  باطل دکھانے کے لئے  اہل حق پر زندگی تنگ کر دے بلکہ  ان سب کو  ایک کھلے آسمان کے نیچے اپنی قدرت دکھانے کے لئے تہ تیغ کر دے خواتیں کو قیدی بنا کر دربار میں پیش   کرنے کے لئے اپنی رعایا اور پبلک و عوام کو بھی بازاروں میں بلکہ مکان کی چھتوں پر بھی ان اہل حق کا تماشا دکھانے کے لئے بلا چکا ہو تو اس وقت بھی ان تمام حالات کے باجود ظالم اور باطل کو ذلیل و رسوا کرنے کا تاریخ کے اندر انسانیت کو حوصلہ، ہمت، جرات و شجاعت عطا کر کے ان تمام حالات سے عزت و  طاقت کے ساتھ کامیاب ہو کر سامنے آنے کا درس و سبق بھی جو شخصیت عطا کرتی ہے وہ  سید الشہداء امام حسین  کی بہن ہے کہ جس کا نام گرامی زینب ہے۔

خطبات زینب (ع) اور آج کے خطبات:
 
حضرت زینب (ع) نے بازار کوفہ میں جو خطبہ دیا ہے وہ اس حالت میں نہیں ہے کہ پہلے سے ایک مجمع بیٹھا ہے اور سننے کی انتظار میں ہے اور حضرت سیدہ زینب ایک خطیب کی طرح  وہاں پر بڑھ کر بیان کرنا شروع کریں، اصلا انسان کے بس میں نہیں ہے کہ علی (ع) کی بیٹی کی اس کیفیت کو درک کرے کہ جس میں اس نے یہ خطبہ بیان کیا ہے، یہ وہی کوفہ تھا کہ جس میں بابا کے زمانہ حکومت میں رہ چکی تھیں، یہ وہی کوفہ اور کوفہ کے لوگ تھے کہ جو امام حسین کو خط لکھ کر بلاتے تھے۔ یہ وہی کوفہ ہے کہ جس کی ہدایت کے لئے حسین نے مسلم ابن عقیل کو بھیجا،  یہ وہی کوفہ کے لوگ ہیں کہ جنہوں نے  بیوفائی کی اور مسلم  کو ابن زیاد کے حوالے کر کے شہید کیا اور کروایا۔ یہ لوگ زینب سلام اللہ علیہا کا استقبال نہیں بلکہ تماشا دیکھنے کے لئے یہاں بلائے گئے تھے، زینب کی آواز کو لوگوں تک  پہنچنے  سے روکنے کے لئے  ہر کوشش کی گئی، ماحول بھی ایسا تھا لیکن حیدر کرار کی بیٹی اپنے بابا کے لب و لہجہ میں فرماتی ہے کہ: اسکتوا کہ ساکت ہو جاو تو وہ لوگ تو کیا جانوروں کے گلوں کی گھنٹیاں بھی ساکن ہو جاتی ہیں۔

یہاں پر اسلام، قرآن، دین، رسول کی ۔۔۔بلکہ رسولوں کی، شریعت کی۔۔۔۔ بلکہ شریعتوں کے محافظ  لوگوں کو ان کی غلطی کی طرف، ان کی پستی کی طرف، ان کی بزدلی و بی بصیرتی کی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ گویا تم آزمائش میں حق و باطل کی تمیز جب نہیں کر سکے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جگر گوشہ بتول نوک نیزہ پر اس حالت میں بلند ہے۔ بعض لوگ بی بی کی حالت اور بیان کو دیکھ کر روتے ہیں تو علی (ع) کا جگر و دل اپنے وجود میں رکھنے والی بیٹی فرماتی ہے کہ: يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ وَالْخَذْلِ أَلَا فَلَا رَقَأَتِ الْعَبْرَةُ وَلَا هَدَأَتِ الزَّفْرَةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلَفُ وَالْعُجْبُ وَالشَّنَفُ وَالْكَذِبُ ۔۔۔۔۔ دربار کوفہ یا دربار شام میں یہی علی (ع) کی بیٹی کے خطبات ہی تو تھے جنہوں نے طاغوت کی ظاہری اور جھوٹی عزت کو خاک میں ملا دیا۔ کیا آج ممبر حسینی سے لوگوں کی ہدایت کے لئے ادا کئے جانے والے خطبات اور تقاریر  اسی طول میں ہیں کہ جس طول کی بلندی کا سرا خطبہ سیدہ زینب سے ملتا ہے یا اہداف و مقاصد میں یزید کے درباری خطیب سے جا کر ملتا ہے۔ کیا آج ہمارا عمل، ہماری زحمات، ہماری کوششیں، ہماری تقریریں،  ہماری سوچ و فکر  اور ہمارے سب پروگرام اسی سمت میں ہیں کہ جن کے لئے  سیدہ زینب نے اپنا سب کچھ ایک سرباز اسلام بن کر  قربان  کر دیا، یہ سوچنے کا مقام ہے۔ خداوند سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے صدقہ میں ہم سب کو اپنے مشکل سے مشکل  اور بحرانی حالات کے حل اور مقابلہ میں شخصی، قومی و ملی اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر کردار عقیلہ بنی ہاشم کو اجاگر کرنے کی قوت عطا فرمائے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 715210
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش