1
0
Monday 16 Apr 2018 00:58

کھودا پہاڑ نکلا چوہا!

کھودا پہاڑ نکلا چوہا!
تحریر: سید رحیم لاری

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تنازعات سے بھرپور ایک ہفتے کے بعد سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ یہ ہفتہ 7 اپریل کے دن اس وقت شروع ہوا جب شام کے علاقے مشرقی غوطہ کے قصبے دوما میں مبینہ کیمیائی حملے پر مبنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں۔ اس ہفتے کا اختتام بھی تین ممالک امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے شام کے تین صوبوں دمشق، حمص اور حما کے مختلف حصوں پر میزائل حملوں سے ہوا۔ یہ حملے 14 اپریل صبح چار بجے انجام دیئے گئے۔ امریکہ اپنے دو اتحادی ممالک برطانیہ اور فرانس کے ہمراہ شام پر فوجی کاروائی کی دھمکیاں دے رہے تھے اور سب کیلئے یہ حملہ متوقع تھا۔

خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو ٹویٹر پر اپنے مخصوص انداز میں پیغامات بھیجنے میں مصروف تھے۔ اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں ایک ایسی فضا ایجاد ہو چکی تھی کہ سب ان ممالک کی جانب سے ایک بڑی فوجی کاروائی کی توقع کر رہے تھے اور حتی امریکہ اور روس کے درمیان ٹکراو کا خطرہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا۔ لیکن اب جبکہ یہ کاروائی انجام پا چکی ہے اور اس کے نتائج کا جائزہ لیا جا رہا ہے تو اسے دو اہم پہلووں سے دیکھا جا سکتا ہے؛ ایک فوجی پہلو سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ زمین پر اس کے کیا اثرات ظاہر ہوئے اور دوسرا سیاسی پہلو سے اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی کوریج کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

پہلا اہم پہلو اس فوجی کاروائی کی وسعت سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے گذشتہ برس بھی شام حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ بنا کر صوبہ حمص کے نواح میں واقع الشعیرات ہوائی اڈے کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس بار توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے شام پر فوجی کاروائی کی وسعت اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔ اگرچہ حالیہ فوجی کاروائی میں ایک سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا لیکن حملے کی وسعت اس قدر زیادہ نہیں تھی کہ اسے ایک بڑا حملہ قرار دیا جا سکے۔ گذشتہ برس امریکہ نے اپنے حملے میں 59 ٹام ہاک میزائل فائر کئے جبکہ اس بار تینوں اتحادی ممالک نے مل کر 100 سے 120 کے درمیان ٹام ہاک میزائل فائر کئے ہیں۔

ان دونوں فوجی کاروائیوں کے درمیان موازنے کا نتیجہ اس قدر واضح ہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے، امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور فرانسوی وزیر دفاع جان ایو لودریان نے اسے ایک محدود فوجی کاروائی قرار دی ہے۔ اسی طرح امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی لکھا ہے: "شام میں فوجی کاروائی پر مبنی ٹرمپ کا شور شرابہ آخرکار ایک مکمل طور پر محدود حملے پر منتج ہوا جو نہ تو ان توقعات پر پورا اترا جو مغربی حکام نے رائے عامہ کے ذہن میں پرورش دے رکھی تھیں اور نہ ہی زمینی حقائق کی رو سے کوئی خاص اثرات کا حامل رہا ہے۔"

سی این این کا تجزیہ نگار فریڈرک پولیتھگن اسی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی شام کے خلاف فوجی کاروائی غیر موثر واقع ہوئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس فوجی کاروائی کا شام آرمی کی صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ الٹا شام کا اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم فائر کئے گئے میزائلوں کی بڑی تعداد مار گرانے میں کامیاب رہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوٹ بھی اس فوجی کاروائی کے بارے میں ملے جلے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے: "امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کاروائی شام کے صدر بشار اسد کی استقامت اور مسلح گروہوں کے خلاف جنگ میں ان کی کامیابیوں کے تسلسل پر کوئی اثر نہیں ڈالے گی۔"

شام کے صدر بشار اسد حملوں کی صبح یعنی بدھ کے دن بڑے آرام اور اطمینان سے اپنے صدارتی محل میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی اس علامتی فوجی کاروائی نے شام کی فوجی اور سیاسی صورتحال پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ دوسری طرف خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی خلاف معمول حملے کے بعد ٹویٹر پر رجز خوانی نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ کوئی بڑی فوجی کاروائی نہیں تھی۔ مزید برآں، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان حملوں کو "جارحانہ" قرار دیا اور چین نے بھی انہیں "بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی" قرار دیا۔

روس نے حملوں کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلائے جانے کی درخواست کر دی۔ ایک بار پھر امریکہ اور روس میں سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھونیو گوتریش نے اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: "انتقام لینے کی نیت سے سرد جنگ کا دوبارہ آغاز ہو چکا ہے۔" یہ ایک ایسا امر نہیں جسے عالمی سطح پر مثبت تبدیلی یا مطلوبہ سیاسی نتیجہ قرار دے کر اس پر فخر کا اظہار کیا جا سکے۔ درحقیقت امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام پر غیر قانونی فوجی کاروائی کر کے خود کو نئی مشکل میں پھنسا لیا ہے۔ اب امریکی، فرانسوی اور برطانوی حکام دوسروں سے پہلے خود اپنی عوام اور اپنے جمہوری اداروں کے سامنے اس عمل کی توجیہات کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہاں یہ ضرب المثل صادق آتی ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔
خبر کا کوڈ : 718200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
گوڈ
ہماری پیشکش