2
Sunday 29 Apr 2018 15:50

شام پر میزائل حملے سے متعلق چند حقائق

شام پر میزائل حملے سے متعلق چند حقائق
تحریر: عرفان علی

جیسا کہ سبھی آگاہ ہیں کہ عرب مسلمان ملک سوریہ جسے پاکستان اور ہندوستان میں شام کے نام سے جانا جاتا ہے، پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے میزائل حملے کئے ہیں۔ کہنے کو یہ سہ ملکی میزائل حملہ تھا لیکن پس پردہ حقائق جاننے والے امریکی حکام نے اس حملے میں شامل سہولت کار دیگر عرب مسلمان ممالک کے نام بھی فاش کر دیئے ہیں۔ بحرین کہ جہاں امریکی بحری افواج کا پانچواں بیڑہ تعینات ہے، یعنی یہ امریکی بحری افواج کا اڈہ ہے اور قطر کہ جہاں امریکہ کا فضائی کمانڈ مرکز ال عدید فضائی اڈے پر قائم ہے، یعنی یہ امریکی فضائی افواج کا اس خطے میں اہم اڈہ ہے، ان دونوں مقامات پر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے درجنوں منصوبہ ساز افراد جمع تھے۔ کمپیوٹرز، نقشے، بہت بڑی وڈیو اسکرینز وغیرہ کے سامنے براجمان یہ افراد پائلٹوں اور میزائل داغنے والے دیگر حکام کو مطلوبہ معلومات و معاونت فراہم کر رہے تھے۔ شام پر تین سمت سے امریکی اتحاد نے حملہ کیا، جس میں ایک بحر متوسط جسے اردو میں بحیرہ روم کہا جاتا ہے، جس کے ساحل پر ہی شام واقع ہے اور اسی بڑے اور کھلے سمندر میں کہیں دور امریکی اتحاد کی بحریہ کی موجودگی ہے۔ دوسرا بحر احمر، جو خلیج عدن یمن باب المندب سے نہر سوئز تک پھیلی ہوئی سمندری پٹی کا نام ہے اور اس کے دونوں جانب سعودی عرب، مصر، سوڈان وغیرہ بھی واقع ہیں۔ تیسرا خلیج فارس کہ جس کے ایک طرف کی ساحلی پٹی پر عمان، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور کویت واقع ہیں اور درمیان میں کچھ حصہ سعودی عرب کا بھی اس پٹی پر ہے جبکہ دوسری جانب ایران ہے۔

امریکی قیادت میں لڑاکا اور بمبار طیاروں نے سعودی عرب اور اردن کی فضائی حدود بھی استعمال کی۔ ان معلومات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حملہ تین ملکی نہیں تھا بلکہ کم سے کم چار ایسے عرب مسلمان ملک بھی اس میں شامل تھے، جو امریکہ کے اعلانیہ اتحادی ہیں اور یہ دلچسپ حقیقت بھی کہ قطر جسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے دوستی اور اخوت کے رشتے سے باہر کر دیا تھا وہ اور سعودی عرب دونوں ان حملوں میں ساتھی تھے۔ ان تمام ملکوں کی اجازت سے یہ کارروائی ہوئی اور انکی حدود استعمال ہوئی۔ ان ممالک کی اجازت سے امریکی بی ون بمبار طیاروں نے ایک الیکٹرانک جنگی آلات سے لیس طیارے اور فضاء ہی میں ایندھن فراہم کرنے والے دوسرے طیارے کے ساتھ قطر سے اڑان بھری۔ یقیناً اس کے بعد وہ سعودی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور وہاں سے اردن میں داخل ہوئے جو شام کا پڑوسی ملک ہے اور وہیں سے ہزار پاؤنڈ وزنی وار ہیڈ سے لیس میزائل فائر ہوئے۔ امریکی و اتحادی حکام نے ان حملوں کے سہولت کار دیگر ممالک کے نام ظاہر نہیں کئے۔ بحر احمر اور بحر متوسط سے جو حملے ہوئے، ان میں دیگر کون سے ممالک شامل تھے، یہ نہیں بتایا۔ ترکی کے حکمران جو ان حملوں پر بہت خوش دکھائی دیئے، انہوں نے بھی یہی کہا کہ ان کا اڈہ ان حملوں میں استعمال نہیں ہوا۔ بحیرہ روم کی پٹی پر واقع بعض یورپی ممالک میں بھی امریکی فضائیہ اڈے استعمال کرتی ہے اور ممکن ہے کہ وہاں سے سہولت فراہم کی گئی ہو۔

امریکہ کی ٹرمپ سرکار نے ان حملوں سے جو اہداف حاصل کئے، ایک نظر ان پر بھی ڈال لی جائے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ شروع سے امریکہ کے نیٹو اتحادیوں سے نالاں تھے اور اعلانیہ طور شکایت کرتے رہتے تھے کہ وہ اپنا حصہ ڈالیں اور اپنے حصے کا کردار ادا کریں اور خاص طور پر مالی مدد میں بھی حصہ ڈالیں اور کارروائیوں میں عملی شرکت بھی کریں۔ عرب اتحادیوں سے یہ شکایت صدر اوبامہ کے دور سے کی جا رہی تھی کہ یہ عرب اتحادی اپنے فوجیوں اور ہتھیاروں کو استعمال کریں اور یہ تک کہا گیا تھا کہ کب تک امریکہ عرب اتحادیوں کے تحفظ کے لئے اپنے فوجی مرواتا رہے۔ یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے یمن جنگ کو امریکہ کی اس بیان کردہ حکمت عملی کے تحت شروع کیا اور جاری رکھا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد دنیا میں ایک تاثر یہ ابھر رہا تھا کہ امریکہ تنہا ہوچکا ہے اور اس سے خاص طور پر بعض یورپی اتحادی ناراض ہیں۔ صورتحال کا ایک رخ یہ تھا تو دوسرا رخ یہ تھا کہ جعلی ریاست اسرائیل کے نسل پرست وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کی طرف سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر دباؤ تھا کہ ایران کی پیش قدمی کو روکا جائے۔ نیتن یاہو کی حمایت میں امریکی صہیونی لابی بھی کام کرتی رہی اور یہ سوال پھیلایا گیا کہ کیا شام میں ایران سے لڑائی اکیلا اسرائیل لڑے؟ یعنی اسرائیلی لابی نے بھی ایک ڈھونگ رچایا کہ شام میں چونکہ ایران اور اس کے حامیوں کی پیش قدمی اس کے لئے خطرہ ہے، اسلئے وہ یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کچھ نہیں کر رہا اور اکیلے اسرائیل کو یہ لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔

اس طرح امریکہ میں ایک فضاء ایجاد کی گئی۔ 13 مارچ 2018ء کو سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سامنے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹیل نے بریفنگ میں اعتراف کیا کہ بشار الاسد نے جو حالیہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس سے ایران کی قابلیت میں اضافہ ہوگا، خطے میں ایران کے حامی گروہوں کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ایران اور روس کا کردار شام میں بشار الاسد کو مضبوط بنانے میں فیصلہ کن ثابت ہوا ہے، اب بشار دمشق کے اطراف کے علاقے اور ادلب صوبے میں مخالفین کے کنٹرول سے علاقے دوبارہ حاصل کر لے گا۔ اس موقع پر سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ روس اور ایران کی مدد سے بشار کی افواج جنگ جیت چکی ہیں تو سینٹ کام کے سربراہ جنرل ووٹیل نے ان سے اتفاق کیا۔ حتٰی یہ کہ اس نے اعتراف کیا کہ باغی افواج جو غوطہ اور ادلب میں مقیم ہیں، یہ اگلے سال تک بھی بشار الاسد کی حکومت نہیں گراسکتے۔ پھر 22 مارچ 2018ء کو سعودی عرب نے بھارتی مسافر بردار طیارے کو جعلی ریاست اسرائیل جانے کے لئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔ چار اپریل کو انقرہ میں روس، ایران اور ترکی کا سربراہی اجلاس ہو رہا تھا تو اسی دن نیتن یاہو نے ٹرمپ سے فون پر بات چیت کی۔ اس پس منظر میں سات اپریل کو دوما پر کیمیائی ہتھیار کے استعمال کا الزام بغیر کسی تحقیق و ثبوت کے شام کی منتخب جمہوری عرب قوم پرست حکومت پر لگا دیا گیا، جو کہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔ بارہ اپریل کو وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کاؤنسل کے اجلاس کے دوران بھی امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے شام پر ممکنہ حملے کو بریک لگانے کی کوشش کی تھی۔

سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سامنے بھی وہ کہہ چکے تھے کہ ہم شام میں کیمیائی حملے کے اصل شواہد ڈھونڈ رہے ہیں، مطلب صاف ظاہر تھا کہ شواہد اس وقت تک بھی ان کے پاس تھے ہی نہیں، جبکہ دو فروری 2018ء کو پینٹاگون میں خبرنگاران سے بات چیت کے دوران پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ امریکہ کے پاس اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ شام کی حکومت نے مہلک کیمیائی سارین گیس استعال کی ہے۔ یہ الزام شامی حکومت کے مخالفین کی جانب سے لگایا گیا تھا۔ 12 اپریل تک بھی امریکی وزیر دفاع (یعنی وزیر جنگ) کو بھی معلوم نہیں تھا کہ شام پر حملے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ البتہ 13 اپریل کو وائٹ ہاؤس اور دفتر خارجہ کے حکام نے یہ جھوٹا دعویٰ کر دیا کہ شواہد ہیں۔ یہ دعویٰ اس لئے جھوٹا تھا کہ کمیائی حملے کی تحقیقات نہیں ہوئی تھیں اور یہ کام امریکی یا اس کی اتحادی حکومتوں کا نہیں تھا بلکہ ادارہ برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار یا جس کا انگریزی مخفف OPCW ہے، یہ کام اس کا تھا۔ شام کے حوالے سے اس ادارے نے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن اپریل 2014ء میں کام قائم کیا تھا اور وہ وقتاً فوقتاً شام میں ایسے الزامات کی تحقیقات کے لئے جاتا رہتا ہے۔ اس مرتبہ امریکہ کو بہت جلدی تھی اور اس نے اس ادارے کو اپنے کام کا موقع ہی نہیں دیا بلکہ خود ہی الزام لگا کر مدعی بنا اور خود ہی عدالت لگا کر فیصلہ سنا کر خود ہی اس پر عمل شروع کر دیا۔ پوری دنیا میں اس نوعیت کے نظام انصاف کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مدعی خود جج بن کر بغیر شواہد کے مخالف کو نہ صرف سزا سنا دے بلکہ بغیر اپیل اور اعتراض کے حق کے ملزم کو سزا بھی دے دے!

پاکستان میں ایک اردو ٹی چینل پر یہ خبر اس طرح نشر کی گئی تھی کہ تحقیقات بعد میں ہوں گی، حملہ پہلے ہوگیا! اور دوسری دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ دارالحکومت دمشق کے شمال میں برزہ مرکز برائے سائنسی مطالعات و تحقیقات ہے، جسے امریکی اتحاد نے حملے کا نشانہ بنایا، یہاں عالمی ادارہ برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار نے نومبر میں معائنہ کیا تھا، یہاں سے نمونے جمع کئے تھے اور ان کے لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد ابھی پچھلے مہینے ہی اس ادارے نے رپورٹ دی تھی کہ شام کے ذمے جو فرائض ہیں، اس نے اس کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ نے یہ حتمی نتیجہ نکالا کہ اس ادارے کے معائنہ کاروں نے اس برزہ مرکز میں کوئی ایسی سرگرمی نہیں دیکھی، جو شام پرعائد ذمے داریوں یا فرائض سے عدم مطابقت رکھتے ہوں۔ یعنی یہ کہ اس ادارے نے شام کے اس مرکز کو الزامات سے بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔ دوما پر کمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید پر مبنی ثبوت و شواہد شام اور روس کی حکومتوں کے نمائندگان نے پوری دنیا کے سامنے وڈیو کی صورت میں بھی پیش کر دیئے ہیں۔ دوما میں دہشت گردوں کی کمیائی لیبارٹری اور مہلک اسلحہ بنانے والے کارخانے بھی تھے، جو شام کی حکومت نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد دنیا کو دکھائے۔ اس کیمیائی حملے کی تفصیلات خود اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ شام کی حکومت پر یہ جھوٹا الزام تھا۔

تلخ سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ یا او پی سی ڈبلیو سمیت جو عالمی ادارے ہیں، اس کے معائنہ کاروں کی فراہم کردہ بہت سی معلومات ہی امریکہ سامراج کے لئے گراؤنڈ انٹیلی جنس کا کام کرتی ہیں۔ جیسے آئی اے ای اے ی معلومات ایران اور عراق کے خلاف استعال کی گئیں اور برزہ مرکز میں نومبر میں او پی سی ڈبلیو کا دورہ لیکن 14 اپریل کو اس مرکز پر امریکی اتحاد کا میزائل حملہ، ان دونوں میں ایک ربط محسوس ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ معائنہ کاروں سے اس کی لوکیشن و دیگر مطلوبہ تفصیلات حاصل کی گئیں ہوں اور اس قسم کے خطرے کی تلوار آئندہ بھی لٹکتی رہے گی، کیونکہ جو گراؤنڈ انٹیلی جنس امریکی اتحاد کے پاس تھی، اس کا ذریعہ جاننا بہت ضروری ہے۔ ان حملوں کا ہدف پیغام تھا۔ ٹرمپ نے پیغام دے دیا ہے کہ اسے ہلکا نہ لیا جائے، وہ دمشق میں بھی باقاعدہ جنگ لڑ سکتا ہے، لیکن فی الحال اسکا ہدف بشار الاسد کو مارنا نہیں تھا۔ یہ پیغام صرف شام کی حکومت کے لئے ہی نہیں تھا بلکہ روس، ایران اور پورے مقاومتی محور کے لئے تھا۔ دوسرا پیغام نیابتی جنگ لڑنے والے گروہوں کو تھا، جنہیں سیکولر باغی کہہ لیں یا تکفیری، ان سبھی کو پیغام دیا گیا کہ لگے رہو منا بھائی! یہ مت سمجھو کہ انکل سام نے سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ تیسرا پیغام یہ تھا کہ یورپ کے دو بڑے برطانیہ و فرانس امریکہ کے جنگی مشن میں بھی بذات خود عملی طور پر موجود ہیں۔ چوتھا پیغام یہ تھا کہ اس کے عرب اتحادی بظاہر آپس میں اختلاف ضرور رکھتے ہیں، لیکن وقت پڑنے پر قطر اور سعودی عرب دونوں امریکہ کے ایسے حملوں میں بھرپور شرکت کو ترجیح دیتے ہیں۔ پانچواں پیغام تھا کہ اسرائیل اور اسرائیل لابی خود کو تنہا اور کمزور نہ سمجھے۔

ٹرمپ نے امریکی اتحادیوں کو کامیابی سے یہ پیغامات پہنچا دیئے، یہ الگ بات کہ شام کی حکومت اور عوام نے ان میزائل حملوں کی تباہ کاریوں کے باوجود اس بات کا جشن منایا کہ ایک سو سے زائد میزائلوں میں سے نوے سے زائد میزائلوں کو ناکارہ بنا دیا یا اہداف تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا۔ امریکی اتحاد کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ اس کے مہرے پچھلے سات سال میں سب کچھ کرنے کے باوجود بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ان میزائل حملوں نے بھی زمینی حقائق کو امریکہ کے حق میں پلٹانے میں رتی بھر کی مدد بھی نہیں کی ہے! عرب افواج کی شام میں تعیناتی کی خبریں اور سعودی عرب کی بڑھکوں سے مغربی ذرایع ابلاغ بھرے پڑے ہیں، لیکن عالمی رائے عامہ کو یہ معلوم ہے کہ خود امریکی فوجی، ترک افواج اعلانیہ طور شام میں طویل عرصے سے موجود ہیں تو ان دو بڑے نیٹو اتحادی ممالک کی افواج کی موجودگی کے باوجود سات سال گزر گئے تو امریکہ کے یہ عرب اتحادی ممالک اپنی فوجیں بھیج کر کیا کر لیں گے؟ یمن پر تمام تر جارحیت کے باوجود یہ وہاں ناکام ہیں جبکہ شام میں تو باقاعدہ شام کی اپنی سرکاری فوج موجود ہے۔ امریکی اتحاد اور یہ عرب اتحادی کچھ بھی کرلیں، انہوں نے جو اسرائیل کی بقا و دفاع کے لئے شام پر جنگ مسلط کی ہے، اس سے اسرائیل زیادہ کمزور ہوا ہے اور بچے گا وہ پھر بھی نہیں!(نوٹ: چونکہ شام پر امریکہ، فرانس، برطانیہ کے میزائل حملوں سے متعلق بہت سی تحریریں یہاں قارئین کی نذر کی جا رہی تھیں تو اس حقیر نے یہ مناسب سمجھا کہ اس موضوع پر اپنی رائے کو کچھ عرصے کے لئے موخر کردوں۔ البتہ دیگر فورمز پر احباب کی خدمت میں مختصراً بعض نکات پیش کرچکا تھا۔ ان احباب میں صحافی و وانشور حضرات کے ساتھ بعض ایسے دوست بھی شامل ہیں، جنہیں تنظیمی خواص کہا جاتا ہے۔ ان چند وضاحتی سطور کے لئے بھی معذرت خواہ ہوں۔ البتہ شام سے متعلق بہت سے نکات آئندہ قارئین کی نذر کئے جائیں گے۔)
خبر کا کوڈ : 721368
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش