0
Tuesday 1 May 2018 18:35

مسئلہ فلسطین، پاکستان اور ایران، چند باتیں

مسئلہ فلسطین، پاکستان اور ایران، چند باتیں
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان


مسئلہ فلسطین کو رواں ماہ مئی 14 کو پورے ستر سال بیت جائیں گے، جبکہ اس کے تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو مسئلہ فلسطین کو ایک سو سال بیت جانے کو ہیں کہ جس دن 1917ء میں بالفور اعلامیہ جاری ہوا تھا۔ دراصل اسی دن سے فلسطینیوں کے لئے مصائب اور مشکلات کا وقت شروع ہوگیا تھا، پھر بالآخر سنہ1948ء میں 14 مئی کو بالفور اعلامیہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے برطانوی بوڑھے استعمار نے عالم اسلام کے قلب فلسطین پر اسرائیل نامی جعلی ریاست کا خنجر گھونپ دیا اور اس عمل پر امریکہ بھی اپنی آشیر باد دینے سے قاصر نہ رہا تھا۔ بہرحال جس طرح فلسطینیوں کی مشکلات کی ایک سو سالہ تاریخ ہے، اسی طرح فلسطینی عوام نے اپنی ان مشکلات میں استقامت اور شجاعت و بہادری کی بھی ایک سو سالہ تاریخ رقم کی ہے۔ اگر فلسطینی بہادر اور شجاع قوم کی استقامت نہ ہوتی تو یقیناً آج فلسطین کے حق میں بات کرنے والا ایک بھی سنجیدہ انسان باقی نہ ہوتا۔ وقت گزرتے ساتھ ساتھ جہاں فلسطینیوں کی انفرادی جدوجہد جاری تھی، بالآخر یہ جدوجہد سنہ1979ء کے بعد اجتماعی جدوجہد میں تبدیل ہوگئی۔ کئی ایک فلسطینی منظم گروہ قائم ہوئے، جو آج سے پہلے انفرادی حیثیت میں اسرائیل جیسے خونخوار دشمن کے خلاف نبرد آزما تھے اور اپنے وطن و سرزمین کا دفاع مقدس کر رہے تھے۔

مسئلہ فلسطین سے متعلق چند ایک اسلامی ممالک کا کردار انتہائی اہم رہا ہے، جس میں پاکستان اور ایران سرفہرست ہیں۔ تحریک پاکستان کے وقت سے ہی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانا شروع کی تھی اور برصغیر کے عوام کو مطلع کیا تھا کہ جو واقعات سرزمین مقدس فلسطین میں رونما ہو رہے ہیں، یہ سب صیہونیوں کی سازش ہیں اور صیہونی فلسطین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ بابائے قوم کی مسئلہ فلسطین کے ساتھ لگن کا اندازہ آپ کی جانب سے برطانوی حکومت کو لکھے گئے متعدد خطوط اور اس میں واضح موقف کے بیان کئے جانے سے لگایا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے مفتی اعظم فلسطین و القدس نے قائد اعظم کی ان انتھک کوششوں پر خراج تحسین پیش کیا اور شکریہ ادا کیا تھا اور خط بابائے قوم کے نام ارسال کیا تھا۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی بابصیرت قیادت اور نظر ہی کا احسان ہے کہ پاکستان آج فخریہ انداز میں پوری دنیا میں یہ کہہ سکتا ہے کہ غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، یہ بابائے قوم کا دیا گیا وہی درس تھا کہ جسے آج پاکستان میں جنم لینے والی نئی نسل اپنے خون میں شامل کئے جنم لے رہی ہے اور اسرائیل جیسے غاصب اور جعلی ریاست کو نہ صرف فلسطین کا دشمن بلکہ دنیا کے امن کے لئے خطرہ تصور کرتی ہے۔

دوسری اہم مسلمان حکومت ایران کی ہے کہ جہاں انقلاب کی کامیابی کے بعد سے فلسطین کے مظلوم عوام کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا، جبکہ انقلاب کی تحریک کے ایام میں بھی انقلاب کے بانی رہنما امام خمینی کی تقاریر اور تحریروں میں مسئلہ فلسطین سے متعلق کافی مواد ملتا ہے کہ جس میں آپ نے ایسے دور میں ایران کے عوام کو مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لئے کھڑا کیا، جب ایران میں شہنشاہیت کا دور تھا اور فلسطین کے حق میں جبکہ امریکہ و اسرائیل کے خلاف بات کرنا گناہان کبیرہ سمجھے جاتے تھے۔ سنہ 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے یقیناً فلسطینیوں کی تحریک کو ایک نئی روح بخش دی، جس کا اعتراف تحریک آزادئ فلسطین کے معروف رہنما جناب یاسر عرفات نے سنہ1979ء میں اپنے دورۂ تہران کے دوران کچھ اس طرح کیا تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سب سے پہلا سیاسی فیصلہ یہ تھا کہ اسرائیلی سفارت خانے کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس فیصلے نے دنیائے اسلام کو اور خاص طور سے مشرق وسطٰی کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور خطے کی سیاست کا رخ متعین کرنے میں اس فیصلے نے اہم کردار ادا کیا۔ اس زمانے میں یاسر عرفات الفتح اور تحریک آزادی فلسطین کا سربراہ تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دس دن بعد یاسر عرفات ایک سرکاری وفد کے ہمراہ تہران آیا۔ امام خمینی ؒ کے ساتھ ملاقات میں انتہائی اہم جملوں کا تبادلہ ہوا۔

امام خمینی ؒ نے کہا: انقلاب کی کامیابی میں مادی وسائل کی بجائے معنویت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بڑی شیطانی قوتیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی سیاسی بڑی طاقتیں، اپنے تمام مادی وسائل کے ساتھ ایک طرف کھڑی تھیں اور دوسری طرف ہماری قوم تھی، جس کے پاس اپنا مکا اور خون تھا، یہی مکا اور خون، اِن تمام شیطانی طاقتوں پر غالب آگیا۔ یہ کامیابی کا ایک راز ہے۔ اس قوت ایمانی کے ساتھ ساتھ دوسرا اہم راز ہماری قوم کا اتحاد تھا، جو غلبہ کا باعث بنا۔ یہی اتحاد تھا کہ جس کے سامنے شیطانی طاقتیں کھڑی نہیں رہ سکیں اور یکے بعد دیگرے انہوں نے مورچے خالی کر دیئے۔ میں پروردگار عالم سے دعا کرتا ہوں کہ ہماری برادر فلسطینی قوم کو بھی اپنی مشکلات میں کامیابی عطا فرمائے۔ ہم اِن کے بھائی ہیں۔ میں پندرہ سال پہلے سے، جب انقلابی تحریک شروع ہوئی، اپنی گفتگو میں، اپنی تحریر میں فلسطین کے مسئلہ کو بیان کر تا رہا ہوں، نیز اسرائیلی مظالم کا پردہ چاک کرتا رہا ہوں۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی، جب ہم اس مشکل سے فارغ ہو جائیں، آپ کے ساتھ ہیں۔ جیسے ہم پہلے بھی آپ کے ساتھ تھے، جیسے آج بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ مجھے اْمید ہے کہ ہم بھائیوں کی طرح مشکلات کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔۔۔۔

تحریک آزادئ فلسطین کے سربراہ جناب یاسر عرفات نے بھی اس ملاقات میں ایسے جملے کہے جو سننے کے لائق اور دلچسپ ہیں۔ انہوں نے کہا: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں بیت المقدس کو آزاد کروانے کا ذمہ دار ہوں، بلکہ آپ سب اس کو آزاد کروانے کے ذمہ دار ہیں۔ اس حوالے سے، میں جو فلسطین میں پیدا ہوا ہوں، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ کی ذمہ داری مجھ سے زیادہ ہے۔ آپ کی کامیابی پر بگین نے ایک اہم جملہ کہا ہے کہ اب اسرائیل میں اندھیروں کا دور شروع ہوگا۔۔۔ میں نے دایان اور بگین سے کہا ہے کہ آپ امریکہ پر بھروسہ کرو، مجھے بھی ایک سہارا مل گیا ہے، میرا سہارا ایرانی قوم ہے کہ جس کی قیادت حضرت آیت اللہ خمینی کر رہے ہیں۔۔۔ گذشتہ سال فلسطینی اور جنوب لبنان کی مسلمان عوام کو قتل کرنے کے لئے اسرائیل کی جانب سے لبنان میں بڑی پیش قدمی کی گئی۔ ان کا مقابلے کرنے والے مجاہدین کی تعداد دو ہزار سے زیادہ نہ تھی جبکہ ان کے مقابلے میں پینسٹھ ہزار اسرائیلی فوجی تھے۔ برجنسکی نے کہا: تحریک آزادی فلسطین خدا حافظ، تم اب گئے۔۔۔ لیکن میں نے دیکھا کہ پروردگار عالم نے ہمیں کامیابی عطا فرمائی۔ ایک سال بعد اس سے بھی بڑی اور عظیم کامیابی ہمیں نصیب ہوئی، یعنی ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا۔

بگین نے جب یہ کہا تھا کہ ہماری تاریکیوں و اندھیروں کا دور شروع ہوگیا ہے، تو اس کے بہت گہرے معانی ہیں۔ اس میں اْن کا چھپا ہوا خوف ہے۔ کیسینجر نے کہا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا حادثہ ایران میں انقلاب کی کامیابی ہے۔۔ اگر امریکہ، ایران میں وہ کام نہ کرے، جو اْس نے ویتنام میں کئے ہیں تو یہ انقلاب پھیلاتا ہوا اسرائیل تک جا پہنچے گا۔۔۔ جب میں بغداد گیا تھا، وہاں عرب حکام کے منہ سے میں نے یہی جملے سنے کہ تمہیں ایران سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے، تمہارا آیت اللہ خمینی سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ نے کہا: شاہ کی موجودگی سے ہی تمہارے سارے مسائل حل ہو رہے تھے۔ انقلاب کی کامیابی سے چند پہلے خلیجی حکام نے مجھے بتایا کہ ہم تک اطلاعات پہنچی ہیں کہ بختیار کامیاب ہو جائے گا اور امریکی بختیار کے پیچھے پوری طرح سے کھڑے ہیں۔ عرفات نے اپنے آخری جملات میں کہا: جنوبی لبنان کے گاؤں، شیعہ نشین علاقے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل ان پر فضائی حملے کرے گا اور ان شیعہ نشین علاقوں کو نیست و نابود کر دے گا، بگین کو بہت غصہ ہے، ایران میں پیش آنے والے واقعات سے وہ بہت دکھی ہے، لیکن ان شاء اللہ جنوب لبنان پر اسرائیل کے حملے میں خدا ضرور اِن کی مدد فرمائے گا۔۔۔

درج بالا کلمات امام خمینی اور یاسر عرفات کے مابین ہونے والی ملاقات کے جملے ہیں، جو دونوں رہنماؤں کے مابین تبادلہ ہوا۔ یقیناً فلسطین کے مظلوم عوام کو کئی برس کے بعد ایک ایسا سہارا حاصل ہوا تھا کہ جس نے نہ صرف زبانی طور پر فلسطین کی مدد کی بلکہ عملی طور پر ہر میدان میں مالی اعتبار سے اور مسلح اعتبار سے ہر طریقوں سے فلسطین کے عوام کی مدد کی، تاکہ وہ غاصب دشمن اسرائیل کے مظالم سے نجات حاصل کریں۔ کاش مسلمان دنیا کے تمام ممالک پاکستان اور ایران کی طرح عملی طور پر غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل اور ان کے سرپرستوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور مظلوم فلسطینیوں کے درد کا مداوا کر پائیں، تاکہ وہ دن جلد آئے کہ قبلہ اول بیت المقدس غاصب صیہونیوں کے شکنجہ سے آزاد ہو۔
خبر کا کوڈ : 721803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش