0
Sunday 13 May 2018 15:45

آئی ایس او۔۔۔ نوجوانوں کی دینی تربیت گاہ

آئی ایس او۔۔۔ نوجوانوں کی دینی تربیت گاہ
تحریر: سید امتیاز علی رضوی

کسی قوم کے زندہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کا نوجوان قومی نظریات اور تحریکوں میں فعال اور متحرک ہے۔ یہ بات قدرے مسلم ہے کہ قوموں کو  چلانے، تحریکوں کو متحرک رکھنے اور نظریات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہمیشہ نوجوانوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ نوجوان اپنے عزائم بلند رکھتے ہیں اور جدوجہد اور محنت پر یقین رکھتے ہیں۔ نوجوانوں میں بے پناہ پنہاں صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ان کی پرواز بلند ہوتی ہے، جس کے لئے وہ سر دھڑ کی بازی بھی لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں، ایک بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بآسانی ساحل پہ کشتیاں جلانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ نوجوان ہواؤں کا رُخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میدان کارزار میں شکست کو فتح سے تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو ہر قوم و ملت اور ہر تحریک اور نظریہ کے لئے امید کی ایک کرن ہوتے ہیں۔ اسی کرن کے سہارے اقوام و ملل اور تحریکیں آگے بڑھتی ہیں اور اہداف کی مختلف منازل طے کرتی ہیں۔ یہ نوجوان طبقہ مختلف روپ میں نمایاں ہوتا ہے۔ جدید دنیا میں تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کا ظہور ہوتا ہے، لہذا جب قوموں کو زندہ رکھنا مقصود ہو اور اس قوم کے لئے نوجوانوں کو کارآمد و مفید بنانا ہو تو اس قوم کے طلاب پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔ یہ طبقہ اسی وقت ملت کے لئے سایہ دار اور ثمر آور درخت بن سکتا ہے، جب ملت کا ہر طبقہ ان کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لئے اپنی صلاحیتوں اور ذرائع کو بروئے کار لانے کا تہیہ کرلے۔

22 مئی 1972ء ایک ایسی تاریخ ہے، جب پاکستان کی ملت جعفریہ کے نوجوان طلاب نے انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور میں جمع ہوکر اپنے ایمانی جذبے سے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی بنیاد رکھی اور قوم کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔ آج کی ملت تشیع پاکستان میں جو اجتماعی شعور ہے یا جو دینی سوچ و فکر موجود ہے، 22 مئی 1972ء کے اس تاریخ ساز فیصلے کی ہی مرہون منت ہے۔ شاید کچھ لوگ اسے مبالغہ آرائی سے تعبیر کریں، لیکن یہ ایک واضح و روشن حقیقت ہے کہ آج پاکستان میں جہاں کہیں بھی ملت تشیع میں کوئی قابل ذکر دینی کام انجام دیا جا رہا ہے، وہاں آئی ایس او سے تربیت پانے والے افراد اس کام کی حمایت و تعمیر و ترقی میں کھڑے نظر آئیں گے۔ آئی ایس او کی تشکیل کے بنیادی مقاصد میں یہ تھا کہ نوجوان نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت کی جائے۔ یہ کام ایک تسلسل چاہتا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رفتار اور جذبہ کا متقاضی ہوتا ہے۔ ماضی کی چار دہائیوں میں آئی ایس او نے اس اہم کام کو نہایت احسن انداز سے انجام دیا ہے۔ آج کی قومی ترجیحات چالیس پچاس سال قبل کی ترجیحات سے مختلف ہیں، لہذا دور حاضر میں نوجوانوں کی اسلامی خطوط پر رہنمائی کرنے کا انداز اور طریقہ کار ایک تجدید نظر چاہتا ہے، کیونکہ آج کے دور میں اسلام کے ماننے والوں ہی نے جو بظاہر دین دار نظر آتے ہیں اور صوم و صلوٰۃ کے پابند بھی ہوتے ہیں، اسلام کو اس بدنما انداز سے پیش کیا ہے کہ اس کا حلیہ بگڑا ہوا نظر آتا ہے، علاوہ ازیں اسلام کے حقیقی تصورات اور اصلی چہرہ مندمل ہوگیا ہے، لہذا آج اسلام کے علمی حقائق اور میدان عمل میں اس کی ضرورت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

صرف دور حاضر میں نہیں بلکہ ہر دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تجدیدی نوعیت کا کام ہوتے رہنا چاہئیے۔ آج کے دور کا تقاضا یہ ہے کہ ملت کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کی اساسیات اور اس کے حقائق پر وہ اعتماد واپس لایا جائے، جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹتا جا رہا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور ان نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے، جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے۔ آج کی ضرورت یہ ہے کہ نسل جوان کی عقل و ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے۔ اس اہم اور بنیادی کام سے تغافل برتنا ایک سنگین جرم ہے۔ جس کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو یقیناً بھگتنا پڑے گا، نیز ہم سب ذمہ داروں کی آخرت میں سخت جواب دہی بھی ہوگی۔ پاکستان کی ملت تشیع میں مرجعیت کے تصور کو ابھارنا اور فروعات دین میں ان کی تقلید کروانے سے لے کر ملت تشیع کو قومی و ملی کاموں کی طرف راغب کرنا، حتٰی ملت کا سیاسی میدان میں جیسا بھی عملی کردار ہے، اس میں بھی آئی ایس او بحیثیت تنظیم یا اس کے تربیت یافتہ افراد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ریکارڈ کو درست رکھنا چاہئیے کہ پاکستان میں نظریہ ولایت فقیہ کے اولین مروج و محرک بھی یہی لوگ تھے۔ پاکستان میں ملی سطح پر جذبۂ شہادت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ، مقاصدِ عظمٰی کے لئے گمنام رہ کر کام کرنا اور اپنی جانیں قربان کرنا بھی اسی نظام تربیت سے فیضیاب ہونے والے افراد ہی کی مرہون منت تھا۔

اس طرح کے عظیم تربیتی افراد کی پرورش کرنے والی آئی ایس او میں اسی قسم کی افرادی قوت کے ظہور کی توقع آج بھی کی جانا چاہئیے، کیونکہ اب اس کے پیچھے ایک بڑا تجربہ ہے اور اپنی خود کی مثالیں ہیں، لیکن یہ سب نظام تربیت کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اپنی ترجیحات کو ازسر نو مرتب کرنے سے مشروط ہے۔ آج کے نوجوان کو مقصد زندگی سے آشنا کرنا، تزکیہ نفس، تربیت جسم و روح جیسے اہم کاموں کے ساتھ ان کے اندر فکری، تعمیری اور تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ آج کے نوجوان کو شخصیات کے حصار سے نکال کر خود اعتمادی دلانے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح اس طرح ہونا چاہئیے کہ ایک ایسی زندگی گزارے جو انسانی فطرت سے نزدیک ترین ہو اور وہی دینِ فطرت کو مطلوب ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہن سازی میں آج کے دور میں ہمارے علماء اور دانشوروں، ملی تنظیموں اور تحریکوں کا بھی اہم کردار ہے۔ قوم کی ان سب اکائیوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہئیے کہ نوجوانوں کی صحیح تربیت، اصلاح اور ان کو صلاحیتوں پروان چڑھانا ہی مستقبل میں قومی و ملی امور کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ نوجوانوں کو صرف اپنے گرد جمع کر لینا اور انہیں اپنے مخصوص و محدود مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے شاید کوئی وقتی تقاضا تو پورا ہو جائے، لیکن قومی مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ آئی ایس او نوجوانوں کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جو ایک دینی تربیت گاہ ہے اور آج اس میں یہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت پہلے سے زیادہ موجود ہے، لہذا قومی نوجوانوں کی تربیت کے لئے آئی ایس او کو نظر انداز کرنا ایک بہت بڑی بھول ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 724441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش