0
Friday 8 Jun 2018 03:37

جمعۃ الوداع، یوم القدس، یوم آزادی فلسطین

جمعۃ الوداع، یوم القدس، یوم آزادی فلسطین
تحریر: عمران خان

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جمعۃ الوداع یعنی رمضان المبارک کا آخری جمعہ سید الایام ہے اور باقی تمام دنوں کے مقابلے میں اس کی فضلیت زیادہ ہے۔ یوں تو رمضان المبارک میں آنے والا ہر جمعہ کادن باقی ایام جمعہ سے زیادہ تقدیس کے حامل ہیں تاہم جو فضلیت اور مرتبت رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو حاصل ہے وہ کسی اور دن کو حاصل نہیں۔ جمعہ الوداع نور اعلی نور اور قرآن العیدین ہے جو مسلماں کی عظمت و شوکت ہیبت و جلالت کا عظیم مظہر ہے۔ بلاشبہ یہ دعاؤں کی قبولیت کا دن ہے اس دن امت مسلمہ کی فلاح بہود اور عالم اسلام کے غلبہ و عزت کے لیے چہار سو مساجد میں دعاؤں مانگی جاتی ہیں۔ جمعۃ الوداع کے خطبہ کی بھی اپنی شان و منزلت ہے جس میں مسلمانوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے اسلامی شعار کے مطابق راہ متعین کی جاتی ہے اتحاد بین المسلمین کا درس ان خطبات کا خاصہ ہوتا ہے، انہی خطبات میں ملت اسلامیہ کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے پرزور مطالبات عالمی برادری کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ جس طرح جمعۃ الوداع کی فضلیت اور مرتبہ امت کے تمام مسالک و مکاتب کے درمیان یکساں ہے اسی طرح بیت المقدس، قبلہ اول کی اہمیت ، حیثیت اور فضلیت بھی تمام مسلمانوں کے نزدیک یکساں ہے۔ بیت المقدس تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاحترام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب رسول (ص) نے بیت المقدس کی جانب رخ انور کرکے کئی نمازیں ادا کی۔ جس کے باعث اسے مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ بیت المقدس دیگر مذاہب کے نزدیک بھی انتہائی محترم ہے، یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت القدس سٹی (یروشلم) کو ایک آزاد شہر کا درجہ حاصل ہے۔

رواں سال امریکہ اور اسرائیل نے تمام تر عالمی قوانین کو روندتے ہوئے اس کی آزاد حیثیت کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ اسرائیل نے القدس سٹی کو اپنا دارالحکومت قرار دیا تو امریکہ نے اپنا سفارتخانہ بھی وہاں منتقل کرنے کا اعلان کرنے کے بعد اس سفارتخانے کا افتتاح بھی کیا ہے۔ بیت المقدس کی مذہبی حیثیت و اہمیت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ پورا عالم اسلام امریکہ اسرائیل کے اس اقدام کے خلاف مشترکہ طور پر آواز بلند کرتا تاہم کچھ عرب و خلیجی ممالک نے اس پہ نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کی بلکہ اہم ترین اسلامی ملک کے ولی عہد نے فلسطینیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ یا تو اسرائیل کا فارمولا قبول کریں یا پھر خاموش رہیں۔ یہ اسی بیان کا ہی اثر تھا کہ اسرائیل نے ماہ رمضان المبارک میں مظلوم فلسطینیوں پہ دائرہ حیات تنگ کردیا اور ایسی وحشیانہ بربریت کا مظاہرہ کیا کہ ایک ایک دن میں درجنوں فلسطینی مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ ان شہداء میں بچے بھی شامل ہیں، خواتین بھی، بزرگ شہری، نوجوان یہاں تک کہ معذور فلسطینی بھی اسرائیلی بربریت سے محفوظ نہ رہ سکے۔ کئی فلسطینی شہداء کی شہادت میڈیا کے کیمروں کے سامنے واقع ہوئی۔ ان شہداء میں ایک شہید وہ معصوم بچہ بھی ہے کہ جسے ایک اسرائیلی فوجی نے گردن سے پکڑا تو بچہ نے کلمہ شہادت کا ورد شروع کردیا۔ اسرائیلی فوجیوں کی درندگی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ بچہ کلمہ کی تلاوت کرتا رہا اور اسرائیلی فوجی نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے ابدی نیند سلادیا۔ ان فلسطینی شہداء میں وہ نوجوان نرس رزان نجار بھی شامل ہے کہ جو غزہ میں ان زخمی روزہ دار فلسطینیوں کو ابتدائی طبی امداد دے رہی تھی کہ جو اسرائیلی بمباری کی وجہ سے سڑک پہ زخمی حالت میں پڑے کراہ رہے تھے۔ عین اس وقت جب رزان نجار ایک زخمی کی مدد کررہی تھی تو اسرائیلی فوجی نے کئی گولیاں رزان کے سینے میں داغ دیں ۔ سفید لباس میں ملبوس عالم اسلام کی یہ بیٹی وہیں شہید ہوگئی۔

القدس سٹی میں جب امریکی سفارتخانے کی افتتاحی تقریب جاری تھی تو کئی فلسطینی عورتیں کھلے آسمان تلے قرآن مجید کی تلاوت کرکے اس جرم عظیم کے خلاف نہایت پرامن احتجاج کررہی تھیں کہ اسرائیلی فوج نے عین اسی جگہ پہ گولا باری کرکے ان خواتین کو شہید کر دیا۔
یہی نہیں بلکہ رواں برس ہی اسرائیل نے غزہ کے علاوہ دیگر کئی اسلامی ممالک کو بھی اپنی جارحانہ فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ جس میں کئی مسلمان شہید ہوئے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں غزہ کے مسلمانوں پہ ہر رمضان المبارک ہی بھاری رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی ماہ رمضان المبارک میں اسرائیل نے غزہ کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا۔یہاں تک کہ غزہ کو چاروں طرف سے بند کرکے اسے عملی طورپر ایک جیل میں بدل دیا تھا۔ رواں برس بھی فلسطینی روزہ داروں کا لہو پانی کی طرح بہایا گیا، جس پہ گنتی کے چند ممالک نے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھائی۔ انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ کی منافقانہ روش ملاحظہ فرمائیں کہ اسرائیلی جارحیت کیخلاف سلامتی کونسل میں جو قرارداد پیش ہوئی تو اسے امریکہ نے ویٹو کردیا جبکہ القدس سٹی میں امریکی سفارتخانے کے قیام کے خلاف جنرل اسمبلی میں قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔ جس سے یہ اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیاکے بیشتر ممالک فلسطین کی آزادی کے حق میں ہونے کے باوجود بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسرائیل کو اپنی حد میں رکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ امریکہ ہر اسرائیلی ظلم کے دفاع کیلئے سلامتی کونسل میں موجود ہے۔ دوسری جانب فلسطینی مسلمانوں پہ اسرائیلی جارحانہ حملوں کے خلاف جی سی سی نے اپنے وجود کا اظہار تک نہیں کیا۔

ترکی کی جانب سے او آئی سی کا جو ہنگامی اجلاس بلایا گیا تو اس میں خلیجی ممالک کے سربراہان نے شرکت تک نہیں کی۔ ایک ایسا مقدس و متبرک مقام کہ جس کی جانب رسول اللہ نے، اصحاب رسول نے سجدے کئے، اس مقام پہ اسلامی دنیا کے بعض حکمران محض اپنے ذاتی مفادات کیلئے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔ ان تمام حالات میں جمعۃ الوداع کی اہمیت و حیثیت پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بیت المقدس کی آزادی، فلسطین کی آزاد ی عالم اسلام کا مشترکہ اور دیرینہ مسئلہ ہے۔ اسرائیل نامی خنجر جب سے امت مسلمہ کے سینے میں گھونپا گیا، اس وقت سے پوری امت انتشار و زوال کا شکار ہے۔ یکے بعد دیگرے اسلامی ممالک یہود ونصاریٰ کی انسان و اسلام دشمن پالیسیوں کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں اور ایک کے بعد ایک مسلمان ملک کرچیوں کی صورت بکھرتا جارہا ہے۔ اس تنزلی و زوال کو اس وقت تک روکنا ممکن نہیں کہ جب تک فلسطین، بیت المقدس کی آزادی کا بنیادی مسئلہ حل نہ ہو۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے ضروری ہے کہ امت مسلمہ مکتب و مسلک کے تفریق سے آزاد ہوکر اس بنیادی مسئلہ کے حل کیلئے مشترکہ طور پہ آواز بلند کرے اور آزادی فلسطین کیلئے اخلاقی، سفارتی، حربی، عسکری ہر ممکن اقدام اٹھائے۔ امریکہ و اسرائیل اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عالم اسلام کا اتحاد ہی ان کے وجود اور سامراجی تسلط کیلئے موت ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے زیر اثر امت مسلمہ میں ایسے متنازعہ اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کی ہے کہ جو اسلامی دنیا کے مفادات کی محافظت کے بجائے ان کے اپنے ایجنڈے کی ترویج کیلئے سود مند بھی ہوں اور عالم اسلام کی مزید تفریق کا باعث بھی۔

اس کی ایک صورت سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے کثیر الملکی عسکری اتحاد کی صورت میں بھی نمایاں ہے کہ جس میں اسلامی دنیا کے کئی اہم ممالک شامل ہی نہیں اور اس کی پہلی نشست کی صدارت اسی ٹرمپ نے کی کہ جس نے القدس سٹی میں امریکی سفارتخانہ قائم کرنے کا اعلان کیا اور غزہ پہ اسرائیلی جارحانہ حملوں کی مذمتی قرارداد کو بھی سلامتی کونسل میں ویٹو کیا۔ دوسری جانب فلسطینیوں پہ حالیہ اسرائیلی حملوں کے خلاف اس کثیر الملکی اتحاد نے ایک لفظ تک ادا نہیں کیا۔ انقلاب اسلامی ایران کے برپا ہونے کے بعد امریکہ نے اسرائیل کے تحفظ کی جو پالیسی اپنائی، اس کی بنیاد ہی اسلامی دنیا کی مسلکی تفریق پہ مبنی تھی۔ اس انقلاب کے برپا ہونے کے بعد سے تاحال جہاں جہاں امریکی و اسرائیلی مفادات کو خطرہ لاحق ہوا، وہاں وہاں امریکہ کے کاسہ لیس چند مسلم حکمرانوں نے اسے مسلکی تفریق کا باعث قرار دیا، امریکی نگرانی میں یہ معاملہ اتنی شدت اختیار کرچکا ہے کہ آج اسلامی دنیا میں ایسے فوجی اتحاد تشکیل پارہے ہیں کہ جن کا مطمع نظر عالم اسلام کے حقوق کا دفاع و تحفظ نہیں بلکہ عالم اسلام کو خانہ جنگی کے گہرے دلدل میں دھکیلنا مقصود ہے۔ جس کی ایک مثال یمن پہ جاری عرب اتحاد کے حملے تو دوسری جانب امریکہ و اسرائیل کو شام پہ حملوں کی دعوت، اسی طرح فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کی نہ صرف حمایت بلکہ کئی ممالک کی افواج کو پلیٹ میں سجا کر ٹرمپ جیسے کٹر نظریات کے حامل امریکی صدر کے سامنے پیش کرنے کی صورت میں نمایاں ہیں۔

میڈیا جسے بڑی شدت سے اسلامک فوجی الائنس قرار دینے پہ کمر بستہ ہے اس  کثیر الملکی سعودی اتحاد میں کوئی ایک بھی ایسا ملک شامل نہیں کہ جو اسرائیل کے وجود کے خلاف اور فلسطین کی آزادی کیلئے عملی طور پر سرگرم ہو، بلکہ بیشتر ممالک وہی شامل ہیں کہ جن کے حکمرانوں کا اقتدار امریکہ و اسرائیل کی ہی مرہون منت ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کے پیشوا امام خمینی نے برسوں قبل ہی اس امریکی ایجنڈے کا بخوبی ادراک کرلیا تھا، نبض شناس طبیب کی حیثیت سے انہوں نے امت مسلمہ کے حقیقی مرض کی تشخیص بھی کی اور اس کا علاج بھی۔ مرض تو وہ اسرائیل نامی خطرناک جرثومہ ہے کہ جو عالم اسلام کے وجود میں پیوست کیا گیا اور کینسر کی طرح پھیلاؤ جاری ہے اور اس مرض کا علاج عالم اسلام کا اتحااور اسرائیل کے خلاف عالم اسلام کی مشترکہ جدوجہد۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیا۔ جس طرح امت مسلمہ کے تمام مسالک و مکاتب میں جمعۃ الوداع کی اہمیت و حیثیت مسلمہ ہے، اسی طرح بیت المقدس کا تقدس بھی مشترک ہے۔ انہوں نے جمعۃ الوداع کو جدوجہد آزاد ی بیت المقدس، آزادی فلسطین سے منسلک کرکے پورے عالم اسلام کو مشترکہ طور پر ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا کہ جہاں سے آزادی فلسطین کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔

موجودہ حالات میں اس جمعۃ الوداع ، یوم القدس کی اہمیت بدرجہ بڑھ چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دن آزادی فلسطین سے متعلق، بیت المقدس کی آزادی سے متعلق ہونے والے اجتماعات میں اپنی شرکت شرعی فریضہ سمجھ کر کریں۔ ہر اس قوت و طاقت سے بیزاری کا اعلان کریں جو کسی بھی طور اسرائیل یا اسرائیلی پالیسیوں کی تاویل پیش کرتی ہیں ۔ ہر اس تحریک سے اپنے قلبی تعلق کا ببانگ دہل اقرار کریں جو اسرائیل کے خلاف مزاحم ہے۔ مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کریں۔ قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کا نعرہ حق بلند کریں اور اس خواب کی تعبیر کیلئے دامے ،درمے سخنے اپنا کردار ادا کریں۔ بے شک مظلوموں کیلئے آواز اٹھانے کے عمل کو اللہ رب العزت نے پسند فرمایا ہے۔ رسول اللہ، اصحاب رسول اور اولاد رسول نے ہمیشہ یہی تعلیم دی ہے کہ ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کرو۔ جمعۃ الوداع کا یہی پیغام ہے کہ مظلوم فلسطینوں کی حمایت کریں۔ پنجہ یہود میں مقید بیت المقدس کی آزادی کی صدا بلند کریں۔ اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم سے مطالبہ کریں کہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پہ واپس آنے دیا جائے اور صہیونیوں کو ان کے اپنے آبائی علاقوں میں منتقل کیا جائے۔ یہی عمل خیر ہے اور اسے جمعۃ الوداع کے متبرک و مبارک موقع پہ انجام دینا ہی اسلام کی اور عالم اسلام کی حقیقی خدمت ہے
۔
خبر کا کوڈ : 730278
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش