0
Saturday 30 Jun 2018 00:36

شمالی کورہا سے امریکہ کے معاہدے میں اسٹریٹجک تضاد

شمالی کورہا سے امریکہ کے معاہدے میں اسٹریٹجک تضاد
تحریر: ہادی محمدی

امریکہ اور شمالی کوریا کے صدور مملکت کے درمیان سخت بیانات اور فوجی ٹکراو کی حد تک شدید تناو کے بعد اچانک ملاقات ہوئی اور ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے میں چند کلی سطح کی شقیں شامل ہیں۔ درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے اصل نکات شق نمبر دو اور تین پر مشتمل ہیں جبکہ شق نمبر ایک اور چار ایسے ابتدائی اقدامات پر مشتمل ہیں جن کا مقصد دوطرفہ اعتماد مضبوط بنانا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو شمالی کوریا کے صدر جونگ اون سے پہلے اس بات پر زور دیتے تھے کہ شمالی کوریا کو اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنا ہو گا اور تمام جوہری ہتھیار تباہ کرنے ہوں گے اب اس بات پر بھی راضی ہو چکے ہیں کہ امریکہ جنوبی کوریا میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں قابل توجہ حد تک کمی کر دے گا اور مزید جنگی مشقیں بھی انجام نہیں دے گا۔ دوسری طرف شمالی کوریا نے بھی عہد کیا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیار تباہ کر دے گا۔ دونوں طرف سے انجام پانے والے اقدامات ایک خاص شیڈول کے تحت انجام پائیں گے جس کیلئے مدت کا تعین کیا جائے گا۔
 
اگر اس معاہدے کو امیدوارانہ نگاہ سے دیکھا جائے اور یہ توقع رکھی جائے کہ اس کا انجام ماضی میں انجام پانے والے امریکہ اور کوریا شمالی کے درمیان معاہدوں جیسا نہیں ہو گا تو یہ کہیں گے کہ امریکہ اور شمالی کوریا میں ایک سکیورٹی معاہدہ طے پایا ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف جاری اقتصادی پابندیاں بھی آہستہ آہستہ اٹھا لی جائیں گی۔ یہ معاہدہ چند کلی نکات پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف اس نکتے کی جانب توجہ بھی ضروری ہے کہ کیا امریکہ چین اور روس کے نزدیک اپنی فوجی موجودگی اور اسٹریٹجک فوجی اڈے ختم کرنے کا ارادہ کر چکا ہے؟ اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے کیونکہ امریکہ کی سکیورٹی اور ملٹری ڈاکٹرائن کی رو سے مشرقی ایشیا میں اس کی پہلی ترجیح چین کو کنٹرول کرنا اور چین پر دباو بڑھانے والے ہتھکنڈوں کو مزید مضبوط بنانا اور اس خطے میں امریکی اثرورسوخ اور طاقت میں اضافہ کرنے پر مشتمل ہے۔
 
کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کی فوجی ڈاکٹرائن میں شامل بنیادی ارکان کے خلاف اقدامات شمالی کوریا سے معاہدے کے ایجنڈے میں شامل کر دیئے ہیں؟ شمالی کوریا سے انجام پانے والے معاہدے میں شامل اقدامات جیسے شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ اور جنوبی کوریا سے امریکی فوجیوں کا انخلاء درحقیقت امریکہ کی سکیورٹی اور فوجی ڈاکٹرائن سے تضاد رکھتے ہیں۔ لہذا یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ڈاکٹرائن کے خلاف قدم اٹھایا ہے یا اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکہ شمالی کوریا سے معاہدے میں مخلص نہیں اور بنیادی طور پر اس پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا۔ شمالی کوریا کے صدر سے امریکی صدر کی ملاقات اور معاہدے پر دستخط درحقیقت جنوبی کوریا میں اپنی فوجی موجودگی کو مزید طولانی بنانے کا محض ایک بہانہ ہے۔ امریکہ شمالی کوریا سے مذاکرات اور بات چیت کے بہانے خطے میں اپنے فوجی موجودگی کی مدت بڑھانا چاہتا ہے۔ وہ یہ ظاہر کر کے کہ ابھی بات چیت ہو رہی ہے اور مذاکرات ہو رہے ہیں عملی اقدامات ملتوی کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 734520
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش