0
Tuesday 30 Jun 2009 14:53

5 صدیوں کے بعد

5 صدیوں کے بعد
تحریر: راول گنزالس
ترجمہ: عباس ہمدانی
رنسانس کے بعد مغربی دنیا کے انسان خدا کے راستے سے منحرف ہو گئے اور خود کو کائنات کا محور تصور کرنے لگے۔ اس واقعے کے 5 صدیوں بعد ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اس اخلاقی نظام کی ناکامی کی ایک علامت بن گئی جس نے انسانیت کو ایک گہری کھائی کے دہانے لا کھڑا کیا تھا۔ ایسا اخلاقی نظام جو انسانی اخلاق کی تباہی کا سبب بنا ہے اور انسانوں کی اکثریت کو غربت و افلاس اور غلامی کی طرف دھکیلنے کا باعث بنا ہے۔ البتہ یہ نظام سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی، ڈموکریسی اور آزادی جیسی رنگ برنگی اور چمکتی ہوئی بتیوں کے ہمراہ ہے۔ اگر ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی ایک طرف دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا سبب بنی ہے تو دوسری طرف امام خمینی رہ کے سلمان رشدی کے بارے میں تاریخی فتوے نے دنیا میں اسلام کی عزت اور اقتدار کو بحال کر دیا ہے۔ اس فتوے نے آزادی بیان اور دینی اقدار کی توہین کے درمیان فرق کو واضح کر دیا ہے۔ امام خمینی رہ نے اس فتوے کے ذریعے دنیا کی استعماری قوتوں پر ثابت کر دیا کہ انکے علاوہ بھی ایک طاقت دنیا میں موجود ہے جو اسلام کی طاقت ہے اور وہ انکے اختیارات کو محدود کرنے کی توانائی رکھتی ہے۔ میں نے اس وقت اسپانوی روزنامے "ٰEl Pais" کو ایک پیغام بھیجا تھا جس کا متن کچھ یوں تھا: "یہ بات سب کیلئے واضح ہے کہ آزادی بیان سے سوء استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ آزادی کے بہانے حضرت عیسی مسیح ع یا حضرت مریم مقدس س کی توہین کرے اور انکے معنوی اور مقدس مقام کو مجروح کرے۔ ان بزرگ شخصیات کے بارے میں غیر اخلاقی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جیسا کہ "آیات شیطانی" نامی کتاب کے مصنف نے پیغمبر اکرم ص کے بارے میں کیا ہے۔ یہی بات پیغمبر اکرم ص اور انکے خاندان کے بارے میں بھی صادق ہے کیونکہ وہ بشریت کے ایک بڑے فرقے اور دین کے بانی ہیں۔ ایسی شخصیات کی توہین کرنا انکی شخصیت کے علاوہ اخلاقی اقدار اور تقدس اور پاکی کے نمونوں پر حملے کے مترادف ہے جو ایک بڑا جرم ہے"۔ اگلے روز مجھ سے کسی نے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جو خود کو ایک کیتھولک دینی انجمن کا رکن بتا رہا تھا اور میرا پیغام پڑھ چکا تھا اور اس بابت اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا: "آخرکار اس دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آئی ہے جو ان افراد کو کنٹرول کر سکتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آزادی بیان کے ذریعے
دیندار لوگوں کے عقیدوں، رواجوں اور ایمان کی توہین کر سکتے ہیں اور انکا مذاق اڑا سکتے ہیں"۔ البتہ مجھے اسکی کچھ باتوں سے تعجب ہونے لگا۔ اس نے کہا: "لوگوں کو آہستہ آہستہ سمجھ آئے گی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح ساری انسانیت کیلئے خدا کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے برعکس ایک انسان دشمن تحریک نہیں ہے"۔ اس وقت سے لے کر اب تک بہت عرصہ ہو چکا ہے۔ اس وقت اگر تھوڑے لوگوں کو اس حقیقت کا علم تھا تو آج انسانوں کی بڑی تعداد اس سے آگاہ ہے۔ امام خمینی رہ کی قیادت میں اس کامیاب انقلاب کی برکت سے فلسطینی اور لبنانی قوموں نے صیہونیزم کے پھیلاو کے خلاف ایک موثر اسلامی مزاحمت ایجاد کی ہے۔ روز بروز دنیا کی مختلف اقوام امام خمینی رہ کی اس تحریک سے بہرہ مند ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر لاطینی امریکہ کے ممالک انقلاب اسلامی ایران کی پیروی کرتے ہوئے خود کو استعماری پنجوں سے نجات دلا رہے ہیں۔ اسی طرح انقلاب اسلامی کی بدولت دنیا کی مظلوم قوموں میں باہمی ہمدردی کا احساس وجود میں آیا ہے۔ 30 مارچ 1989 میں سلمان رشدی کے خلاف امام خمینی رہ کے تاریخی فتوے نے مغربی طاقتوں پر جو کاری ضرب لگائی تھی اسکے بارے میں ایک فرانسوی اجتماعی امور کا ماہر Jean Braudiller "مغرب میں خلا کا دھماکہ" کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتا ہے: "رشدی کے حوالے سے امام خمینی نے اپنی کامیابی کو اوج تک پہنچا دیا۔ انہوں نے ساری طاقتوں کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور ثابت کر دیا کہ ایک جملے کے ذریعے سب انکے اختیار میں ہیں۔ ہمیں بیکار بیٹھنے، قرون وسطی کے بارے میں بیہودہ باتیں کرنے اور انکے فوت ہونے کے بعد تمام مسائل کا معجزہ آسا طور پر حل ہو جانے کی انتظار میں بیٹھنے کی بجائے اس بات کے بارے میں سوچنا چاہیئے تھا کہ انکی اس افسانوی طاقت کا منبع کیا ہے۔ آج صرف انکے پاس کام کی بات ہے اور گویا وہ ہے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا چیز بری ہے جس سے دوری کرنی چاہیئے۔ جو چیز اس وقت دیکھی جا سکتی ہے وہ مغربی دنیا پر اس کا تسلط ہے۔ اس حوالے سے فاتح میدان کون ہے؟۔ یقیناً آیت اللہ (امام خمینی رہ) ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اپنی ساری توانائیاں اسکو نابود کرنے میں صرف کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ فاتح میدان ہے اور اسکی طاقت ہمارے اسلحے اور ہماری دولت سے ماوراء ہے۔ ہماری جدید سوچ کو ہمیں اس طاقت کو سمجھنے میں مدد کرنی چاہیئے۔ دوسری طرف
اسکو تیسری دنیا کا انتقام بھی کہا جا سکتا ہے۔ آج تک تیسری دنیا نے مغربی دنیا کو ایک حقیقی چیلنج سے روبرو نہیں کیا تھا۔ سلمان رشدی کے قتل کے فتوے سے اسکا بے نہایت اثر و رسوخ سامنے آ گیا ہے۔ اس اثر و رسوخ کے دو پہلو تھے، جذب اور دفع۔ یہ عمل ایک اڑتے ہوئے ہوائی جہاز میں چھوٹا سا سوراخ ہونے کے مشابہ ہے۔ وہ سوراخ خلاء کی موجودگی کے پیش نظر باعث بنتا ہے کہ ہوا جہاز کے اندر سے باہر کی طرف تیزی سے خارج ہو جائے۔ مغربی دنیا اور تیسری دنیا میں بھی ایک پتلی دیوار حائل ہے۔ کافی ہے اس دیوار میں ایک چھوٹا سا سوراخ ایجاد ہو جائے اور یہ عمل انجام پا جائے۔ کامل اسلام یعنی آج کا اسلام جو قرون وسطی کی سوچ سے بالکل مختلف ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اسٹریٹجک حوالے سے اسکا مطالعہ کریں نہ اخلاقی یا دینی حوالے سے۔ اسلام مغربی دنیا کے اردگرد خلاء ایجاد کرنے میں مصروف ہے اور ہر لمحہ اپنے ہدف سے نزدیک ہو رہا ہے۔ کافی ہے کہ انکی طرف سے ایک حرکت یا اشارہ ہو جو اس دیوار میں سوراخ کا باعث بنے اور ہماری تمام اقدار اس خلاء میں سقوط کر جائیں۔ یہ جدید مغربی دنیا کا نظام ہے جو آیت اللہ (خمینی رہ) کے منصوبوں کی وجہ سے تیزی سے نابودی کی طرف جا رہا ہے۔ کافی ہے کہ اسکی طرف سے ہاتھ کا ایک اشارہ ہو، ہماری ساری جذابیتیں خلاء کی طرف کھنچ کر ختم ہو جائیں گی۔ بہر حال اسکی اسٹریٹجی بہت جدید اور ماڈرن ہے۔ ہماری اقتصادی قوت سے کہیں زیادہ جدید۔ وہ درحقیقت روایتی آلات کو ایک خاص مہارت سے ماڈرن سانچوں میں ڈھال لیتا ہے۔ ایک فتوی، ایک قتل کا حکم، ایک بددعا یا ایک مذمت۔ اگر مغربی دنیا مضبوط اور استوار ہوتی تو پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم آیت اللہ کی سوچ اور عمل کی جذابیتوں کے مقابلے میں بہت عاجز اور کمزور ہیں اور آسانی سے اس عمل کے نتیجے میں نابودی کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ اسکے بعد مغربی دنیا خود ہی اپنی اس بیماری کا پروبیگنڈہ کرنے لگی ہے"۔ اسی طرح 1990 میں الوین ٹافلر Alvin Toffler اپنی کتاب “Power Shift” میں امام خمینی رہ کے بارے میں لکھتے ہیں: "جب آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتوا جاری کیا اور اسکی کتاب کو ایک کفر آلود کتاب کہا تو گویا انہوں نے دنیا کی تمام حکومتوں کے نام ایک تاریخی پیغام ارسال کیا۔ یہ پیغام فوری طور پر ٹی وی، سیٹلائٹ اور اخباروں کے ذریعے دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچ گیا۔ لیکن ہم نے اسکو سمجھنے میں غلطی کی۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب کا انداز بہت برا تھا اور اس میں جان بوجھ کر مسلمانوں کا دل دکھایا گیا اور مذہب اسلام کا مذاق اڑایا گیا اور قرآن کی مخالفت کی گئی۔ آیت اللہ خمینی نے بھی اپنے فتوے کے ذریعے یہ سب کچھ کہا ہے لیکن ان کا حقیقی پیغام یہ نہیں تھا۔ آیت اللہ خمینی نے دنیا کو بتایا کہ ایک حکومت دنیا کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی۔ جو بات آیت اللہ خمینی نے ہمیں بتائی وہ یہ ہے کہ حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے سے بڑی حاکمیت کو چیلنج کر سکیں۔ وہ بڑی حاکمیت اسلام کی حاکمیت ہے اور دین کی حاکمیت ہے جسکی تعریف وہ خود کرتے ہیں۔ یعنی مذہب اور کلیسا ایسے حقوق کے حامل ہیں جو حکومتوں کے حقوق سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے حقیقت میں تمام بین الاقوامی رسوم و رواج کو چیلنج کیا ہے۔ یہ رسوم و رواج آج تک اس بنیاد پر استوار تھے کہ ممالک دنیا کے بلڈنگ بلاکس کی حیثیت رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر آزادانہ اور موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عالمی طاقت کا کھیل جو مستقبل میں کھیلا جائے گا کو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کو نظرانداز کر کے نہیں سمجھا جا سکتا"۔ آج ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کو 30 سال ہو چکے ہیں۔ اس وقت صرف انقلاب اسلامی ایران کو نظر میں رکھتے ہوئے ہی مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کی جا سکتی ہے۔ یہ بات صیہونیزم کے پرانے اور ہمیشگی مشیر ہنری کیسنجر نے اس وقت کہی تھی جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تھا۔ اس نے کہا تھا: "اگر ہم آج اس انقلاب کو نہ روکیں تو بہت جلد بنگلہ دیش سے لے کر مراکش تک اسکے پھیلاو کے شاہد ہوں گے"۔ اور اسی طرح ہوا۔ حتی کہ دنیا کے دو اصلی اور متضاد بلاکس یعنی امپریالیزم اور مارکسیزم ایک ایسے انقلاب کے پھیلاو کو روکنے کیلئے جو ایک خدا اور انسانوں کے درمیان عدالت اور بھائی چارے کی باتیں کرتا تھا متحد ہو گئے۔ انکے اپنے بقول وہ دن رات جاگ رہے ہیں اور اس انقلاب کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جو نیویورک کے “Twin Towers” پر خودساختہ حملوں کے جواب میں شروع کی گئی اور اسلام کے خلاف ایک نئی صلیبی جنگ میں دنیا کے تمام ممالک کو شامل کرنے کی کوششوں کے ہمراہ تھی اسی سمت میں انکا ایک قدم ہے۔ خوش قسمتی سے 15 فروری 2003 کی عالمی کوشش نے انہیں اسکی اجازت نہیں دی۔ لیکن صیہونیست امپریالیزم ہر گز اپنے مقصد کے حصول کی کوششوں سے دستبردار
نہیں ہوا۔ “War against Terror” کا عنوان درحقیقت ایک نقاب ہے جو اسلام کو نابود کرنے کی غرض سے خاص چہروں پر چڑھایا گیا ہے۔ لیکن یہ بہت ہی کمزور حیلہ ہے۔ اسلام ان حیلوں کے مقابلے میں بہت مضبوط اور توانا ہے۔ البتہ اسلام سے ہماری مراد حقیقی اسلام ہے نہ امریکی اسلام۔ جیسا کہ امام خمینی رہ نے دنیا کو اس قسم کے اسلام سے آشنا کروایا۔ امام خمینی رہ کے مطابق امریکی اسلام ایسا اسلام ہے جو صرف ظاہر تک محدود ہے اور سیاسی میدان میں عالمی استکبار کے تابع ہے۔ اسی طرح اسلام سے ہماری مراد دہشت گردانہ اسلام نہیں ہے جسکی بنیاد خود امپریالیزم نے رکھی ہے تاکہ اپنے اقدامات کیلئے مناسب بہانہ فراہم کر سکے۔ اسلام سے ہماری مراد حقیقی اسلام ہے جو انقلابی اور فعال ہے۔ وہ اسلام جو ہمیشہ بین الاقوامی اداروں کے ذریعے امپریالیزم کے ظلم اور بےانصافی کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہے اور مادی اور اخلاقی حوالے سے امپریالیزم کے خلاف آزادی خواہ تحریکوں کی مدد کرتا آیا ہے۔ جنوبی افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک تمام انقلابی تحریکوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔ یہ اسلام آج کے دور میں صیہونیست امپریالیزم کے خلاف سرگرم عمل اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی مضبوط اور ناقابل شکست تکیہ گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کا ہر دن فلسطینی قوم پر اسرائیل کے جرم و جنایت اور عراق اور افغانستان پر امریکہ اور مغربی دنیا کی جارحیت کے خلاف ایک اعتراض ہے۔ ایران میں حکومت کی تبدیلی سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسلامی انقلاب کا موجود ہونا ہر روز امپریالیزم کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ دوسری طرف ان قوموں کیلئے ایک ماڈل اور امیدواری کا باعث ہے جو آزادی اور بہتر دنیا کی آرزو رکھتی ہیں۔ ایران میں امام خمینی رہ کی سربراہی میں اسلامی انقلاب کی فتح نے روایتی انقلابی تحریکوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کو کھول دیا ہے۔ وہ نیا باب معنویت کا باب ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب اس غلط سوچ کا بطلان ہے جسکے مطابق بے دینی انقلابی ہونے اور دینداری متحجر ہونے کی علامت ہے۔ ہر انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران گذشتہ تمام انقلابی تحریکوں کا ایک بہترین اور کامل نمونہ ہے۔ البتہ اس انقلاب میں گذشتہ انقلابی تحریکوں میں موجود نواقص نہیں ہیں۔ گذشتہ انقلابی تحریکوں کا سب سے بڑا نقص ان کا انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے دور ہونا تھا۔ اگرچہ ان میں عوامی مشارکت پائی
جاتی تھی۔ ان تحریکوں میں خدا سے عشق اور اسکی مخلوق سے عشق مطرح نہیں تھا۔ لیکن یہ تمام چیزیں انقلاب اسلامی ایران میں نظر آتی ہیں۔ جب “Andre Malraux” نے کہا کہ اکیسویں صدی یا دین کی صدی ہے اور یا بشریت کی نابودی کی صدی تو اسکا مطلب یہی تھا۔ اکیسویں صدی میں یا تو انسان کی معنوی اقدار کو لوٹایا جائے گا اور یا انسانیت نابود ہو جائے گی۔ آج امپریالیست طاقتیں تیزی سے دنیا کو نابودی کی طرف دھکیل رہی ہیں اور اب یہ حرکت انکے اپنے کنٹرول سے بھی باہر ہو گئی ہے۔ حقیقی انقلابیوں، جو مظلوم قوموں کے دکھ درد میں شریک ہیں، کا فرض بنتا ہے کہ وہ آزادی، عدالت اور معنویت کی طرف حرکت کریں۔ انہیں چاہیئے کہ انقلاب اسلامی ایران نے دنیا میں جو نئی فضا ایجاد کی ہے اسکو صحیح طور پر درک کریں اور اس سے پورا فائدہ اٹھائیں۔ ان کو چاہیئے کہ وہ دنیا کے لوگوں کو منطقی انداز میں سمجھائیں کہ انکا حقیقی دوست کون ہے اور دشمن کون ہے۔ اسلامی انقلاب جسکا ایک نمائندہ ایران ہے درحقیقت ایک متحجرانہ سوچ کا حامل نہیں ہے جو اس کے درپے ہو کہ اپنی سوچ کو دوسروں پر تحمیل کرے لیکن اسکا ہدف ظلم کے خلاف جنگ میں معنویت اور الہی تعلیمات کو شامل کرنا ہے۔ وہ معنویت جو ایک عرصے سے صہیونیست یہودیوں کی طرف سے دنیا کے انسانوں سے چھین لی گئی ہے۔ مخلوقات خداوند کے ساتھ حقیقی عشق کا مطلب بھی یہی ہے کہ خدا کی مظلوم مخلوقات اور حقیقت کا دفاع کیا جائے۔ یہ اللہ اکبر پر حقیقی عقیدے کا اثر ہے کہ ہم شیطانی طاقتوں سے مقابلے کیلئے آمادہ ہو جائیں۔ وہ شیطانی قوتیں جنہوں نے انسانیت کو اپنی غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔ اور یہی امام خمینی رہ کا حقیقی پیغام ہے۔ ان تمام قوتوں کے اتحاد کی کوشش جو ان شیطانی قوتوں کے ساتھ مخلصانہ انداز میں لڑنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح دنیا کو الہی اقدار کی بنیادوں پر تعمیر کرنا اور معنویت، عدالت اور عقلانیت کو دنیا پر حکمفرما کرنا۔ مظلوم اور ستمدیدہ انسانوں کو عالمی استعماری طاقتوں کے قبضے سے آزادی دلانا جو طاقت، دولت اور فریب کے ذریعے انسانوں کو جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور دنیا پر ماڈرن فرعونیت کو حکمفرما کئے ہوئے ہیں۔ یہ وہ بہترین کوشش اور یاددہانی ہے جو ہم امام خمینی کی وفات کی بیسویں سالگرہ پر انکی غیرموجودگی میں انجام دے سکتے ہیں۔ اگرچہ انکی پیغمبرانہ رہنمائی اور تعلیمات ہمیشہ ہمارے سامنے زندہ اور موجود ہیں۔
خبر کا کوڈ : 7379
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش