0
Monday 16 Jul 2018 00:49

پاکستانی تاریخ کے بڑے فیصلے، ایون فیلڈ ریفرنس کا مکمل متن (آخری حصہ)

پاکستانی تاریخ کے بڑے فیصلے، ایون فیلڈ ریفرنس کا مکمل متن (آخری حصہ)
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

مجسم مجرم کی تشریح (PLD 1995 SC1)
اگر کسی بھی قانونی شق کی دو وضاحتیں ہوں تو اس وضاحت کواختیار کرنا ہوگا جو ملزم کے لئے فائدہ مند ہو۔

دستاویزا ت کے مندرجات کا ثبوت (PLD 1988 Karachi 131):
ہم یہ نکتہ اٹھا سکتے ہیں کہ تحریر کنندہ کے دستاویز پر دستخط اورمندرجات کی درستگی ثابت کرنے میں بڑافرق ہے، موخرالذکر کو لکھاری کو جانچے بغیر ثابت نہیں کیا جاسکتا، لکھاری کی غیرموجودگی، موت یا کسی دوسری قابل یقین وجہ کی صورت میں ایسا فرد جو دستاویز کی تیاری میں اس کامعاون رہا ہو یا اس کے مندرجات کی درستگی کے حوالے سے معاون سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔

(2010) 4 Supreme court cases 491 India
قراردیا جاتا ہے کہ عدالت میں محض دستاویزات جمع کرنا یا دکھانا اس کے مندرجات کا ثبوت نہیں۔ ،   ، PLD 2012 SC 903 Notice U/S 19 OF NAO 1999

قومی احتساب بیورو کی ذمہ داریاں:
قومی احتساب بیورو کی ذمہ داری ہے کہ کسی فرد کو سمن بھیجنے سے قبل اس کے خلاف شواہد کی شناخت کرے اوراس بات کی چھان پھٹک کرے کہ آیاایسی اطلاعات اورنیب کی انکوائری میں کوئی نزدیکی ہے، (pg. 914)۔PLD 2007 Karachi 469

اس لئے کسی کو طلب کرتے وقت نوٹس میں حقائق، نکتے اور الزامات اور ملزم کا نام لکھا جائے تاکہ وہ ایسی معلومات مہیا کرسکے، اگر کوئی مطلوبہ معلومات مہیا کرے، جس سے مقصد پورا ہوسکے تو اس فرد کو بذات خود حاضری سے استثنیٰ حاصل ہوگا اور اسے تنگ نہیں کیا جائے گا، اس کو تمام سہولتیں دی جائیں، اسے مختصر وقت میں چھوڑا جائے، اسے بلاوجہ تحویل میں نہیں رکھا جائے، علاوہ ازیں ابتدائی مراحل میں اسے بذات خود حاضر ہوکر اطلاعات دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اتھارٹی کے پاس اسے بلانے کا اختیار نہیں، اتھارٹی سیکشن 24-A کے تحت ناگزیر صورت میں اسے بلا سکتی ہے، ایسے اختیارات شفاف اور انصاف کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے استعمال کرنے ہونگے اور ایسے حکم کے اجرا کی وجوہات دینی ہونگی۔ ایسے کسی حکم کی کاپی مقدمے کی ڈائری میں دستیا ب ہونی چاہئے۔ ڈیفنس کونسل نے اپنے دلائل میں درج ذیل نکات پر زور دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود استغاثہ اس کیس میں کوئی ایک بھی شرط پوری کرنے میں ناکام رہا۔ مزید برآں دونوں تفتیشوں میں ذرائع آمدن کے حوالے سے تحقیقات نہیں کی گئیں۔ اگر یہ تصوربھی کیا جائے کہ میاں نوازشریف فلیٹس کے مالک ہیں، یہ تب تک جرم نہیں جب تک استغاثہ اپنےکیس سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق قائم نہیں کرتا۔ کمپنی کے سرمایہ ایف زیڈ ای کا ایون فیلڈ پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی پی وی ڈبلیو واجد ضیاء جس نے لندن فلیٹس کے استعمال بارے جھوٹ بولا اسے بطور ثبوت پیش کیا۔ یہ نکتہ بھی اٹھا یا گیا کہ اس مقدمے میں معلوم آمدن کے ذرائع کے بارے میں کوئی معلومات اکٹھی نہیں کی گئیں، مزید یہ کہ واجد ضیاء کے بیان میں بے شمار تضادات ہیں۔ جی آئی ٹی کے بیانات مقدمے میں بطور ثبوت پیش نہیں کئے جاسکتے۔ ملزم کا بیان صرف اس صورت میں تسلیم ہوگا، اگر ان کامشترکہ ٹرائل کیاگیا ہو، جس میں انہیں نے اعتراف کیا ہو۔

ڈیفنس کونسل کے مطابق نواز شریف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ لندن فلیٹس کبھی ان کی ملکیت رہے۔ نہ کبھی حسن نوازنے یہ بیان دیا کہ ملزم نواز شریف ان فلیٹس کے مالک رہے یا ان میں رہائش پذیر رہے۔ بی وی آئی سے موصولہ دستاویزات کے مطابق نوازشریف 16 A اور17 اے فلیٹوں کے مالک نہیں۔ پراسکیوشن کے پاس کوئی گواہ نہیں کہ نوازشریف Neilson اور Nescoll آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ یہ استغاثہ پر لازم تھاکہ ذرائع آمدن اور ٹرانزیکشن ثابت کرتا تاکہ اس کی بے نامی پراپرٹی کی ملکیت ظاہر کی جاسکتی، مزید یہ نیب کے پاس ٹرانزیکشن کے حوالے سے کوئی ثبوت ہوتا۔ واجد ضیاء نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جے آئی ٹی نے ایسی کوئی دستاویز وصول نہیں کی، جس کی بنیادپریہ بات کہی جائے کہ نواز شریف مذکورہ کمپنیوں کے مالک ہیں۔ واجد ضیاء نے یہ بھی مانا کہ کسی بھی گواہ نے آف شور کمپنیوں کے بارے میں بیان نہیں دیا۔ سدرہ منصور نے تسلیم کیا کہ اس کے پاس نواز شریف کی فلیٹوں کی ملکیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ کونسا جواب ایم ایل اے دستاویزات بارے اس نے وصول کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیب مقدمات میں انوسٹی گیشن ایک اہم ذمہ داری ہے، لیکن اس کیس میں وہ نہیں نبھائی گئی۔ مزید یہ کہ نیب کے پاس کوئی شواہد نہیں کہ بے نامی پرپراپرٹی ملزم نوازشریف کے بیٹوں کی ہے۔ تفتیشی آفیسر اور نیب حکام نے لندن کا دورہ کیا، لیکن وہ وہاں پر ایسے کسی بھی متعلقہ گواہ کی تفتیش کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس میں لائرنس ریڈلی جیسے اہم گواہ تھے، جنہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے 1993ء میں شریف خاندان کی ہدایت پر کوئی بھی فلیٹس نہیں خریدے۔ اسی طرح نیب حکام نے جیری فری مین سے بھی تفتیش نہیں کی جنہوں نے کہا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ Trust Deed انکی موجودگی میں دستخط کی گئی تھی۔

اس سلسلے میں میاں نواز شریف کو مجرم ثابت کرنے کے لئے کوششیں کی گئیں، جس میں التوفیق کے فیصلے کی روشنی میں بتایا گیا کہ شریف خاندان کے ہی فیلٹس زیر ملکیت ہیں۔ ایسی تمام دستاویزات جو واجد ضیاء نے پیش کیں، جس میں قطری شہزادے کے خط، گلف سٹیل مل کی خریدوفروخت اور طارق شریف کی طرف سے دیئے گئے، بیان حلفی وغیرہ قابل قبول نہیں تھے، جس کو بطور ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا۔ ان دستاویزات کو نہ ہی اصل اور نہ ہی فوٹو کاپی کی شکل میں بطور گواہی حوالہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اسی طرح پراسیکیوشن کی جانب سے ایکسپرٹ Opinion کے طور پر پیش کیا گیا، جو کہ متعلقہ گواہی کے زمرے میں نہیں آتا۔ میاں نواز شریف کی فیلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے پراسکیوشن کی طرف سے جمع کردہ شہادتوں پر مختلف سی ایم ایز کی طرف سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے، قانونی نقطہ نظر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے سی ایم ایز کی تصدیق بھی نہیں کی گئی ہے۔ گلف سٹیل ملز دوبئی کی فروختگی کے حوالے سے ہونے والے معاہدے اور طارق شریف کی طرف سے پیش کردہ بیان حلفی اور دیگر دستاویزات جس میں میاں نواز شریف کی مداخلت اور لین دین کے بارے میں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق تمام شہادتیں فوٹو کاپیز کی شکل میں پیش کی گئی ہیں، جو مبینہ طور پر قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح شیزی نیکوی کے بیان حلفی اور التوفیق کے Settlement پیپرز میں جوکہ پراسکیوشن نے پیش کیا ہے، میں بھی ملزم نوازشریف کا ذکرنہیں ہے۔

مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے انکے وکیل امجد پرویز کے دیئے گئے دلائل:
1۔ سریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملزمہ مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدرکو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا بھی نہیں کہا گیا اور نہ ہی سپریم کورٹ کی جانب سے 13 صفحات کے سوالات میں ان دونوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ملزمان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائرکی گئی ہے۔ جائنٹ ایوسٹی گیشن ٹیم JIT کو اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ وکلاء کی خدمات لے سکے، لیکن ابھی تک ماہرین کے مطابق جے آئی ٹی نے کویسٹ وکلاء کی خدمات حاصل کی ہیں۔ PW-15 اور PW-16 کے سوالات پر وکیل اختر راجہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی فیس اور خدمات کے حصول کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس کا کیس میں دلچسپی اس حوالے سے تھی کہ وہ جے آئی ٹی کے سربراہ کے رشتہ دار تھے۔ ملزمہ مریم صفدر جو کہ کسی بھی حکومتی عہدیدار نہیں رہی ہیں، اس لئے نیب کے قوانین ان پر خلاف استعمال نہیں کئے گئے، موجودہ مقدمہ ثبوتوں پر نہیں بلکہ خیالات پر تیار کیا گیا ہے۔ یہ ایک کمزور ثبوتوں کا مقدمہ ہے، جس میں ملکیت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کی مثالوں کی روشنی میں جس میں اپنے ذرائع آمدن سے ہٹ کر اثاثے بنانے کے جرم کے بارے میں ذکرکیا گیا ہے، اس کیس میں مطابقت نہیں رکھتے۔ قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ ملزم کو محض مفروضوں پر مجرم نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے وکیل دفاع خواجہ حارس کے ایم ایل اے کے حوالے سے پیش کردہ جوابات پر بھی اپنے دلائل دیئے۔ انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلی Font کے ماہر نہیں ہیں، ان کی رپورٹ کو سپورٹ حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے Font کی قسم کے بارے میں کو ذکر نہیں کیا ہے۔ اگر وہ Font کے ماہر ہوتے تو وہ پہلی بارڈیڈ کا معائنہ بند آنکھوں سے نہ کرتے۔ انہوں نے وکیل دفاع خواجہ حارس پر بھی دلائل دیئے، جس میں نیب کی طرف سے ملزم کے نام پر NAO 1999 کے سیکشن 19 کے تحت نوٹس جاری کیا گیا۔

انہوں نے تفتیشی آفیسر کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات پر قانونی اور حقائق پر مبنی اعتراضات اٹھاتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہارکیا، جس میں نواز شریف کے خلاف کیس بنایا جائے۔ جب رکاوٹوں کو عبور نہیں کیا جاتا، یعنی نواز شریف اور اسکے ذرائع کو پیش نہ کیا جائے۔ ملزمہ مریم صفدر کریمنل ایکٹ کے تحت کسی بھی طور پر ذمہ دارنہیں ہیں۔ یہ کیس ملزمہ مریم صفدر اورکیپٹن (ر) صفدر کے خلاف شہادتوں پر مبنی نہیں ہے۔ حکام نے پیش کردہ دلائل کے حق میں مختلف پوائنٹس پیش کئے ہیں۔ معروف وکیل دفاع خواجہ حارس کے پیش کردہ دلائل سے مطابقت رکھتے ہیں۔ رولنگ کے دوران وکیل دفاع کے دلائل کو وضاحت کے طور پر متعلقہ وقت میں دلائل کے طور پر پیش کیا جائے گا، جوکہ قابل ذکرثبوت ہے۔ PLJ 196 sc appellate jurisdiction عنوان محمد اسارف خان ترین بمقابلہ سٹیٹ پیراE کے ہی ہیں، جو پیش کئے جاتے ہیں۔ ماہر وکیل برائے اپیل کنندہ کے مزید دلائل ہیں کہ پہلی رپورٹ نمبر 14 کینٹ پولیس سٹیشن، جس میں اپیل کنندہ نے کمانچے سے فائرنگ کی، جوکہ 38 بور کا پستول ہے، جسے ایس ایس پی فیاض خان نے برآمد کیا ہے، ڈرائیور محمد یونس، ایس ایچ او صادق حسین اور ریکوری میموEX-PW 12/1 شامل ہیں۔ جس کے جواب میں ماہر وکیل کے دلائل یہ ہیں کہ جان بچانے کے لئے اسلحے کا غلط استعمال جائز نہیں۔ محمد گل کے کیس میں بھی ایف آئی آر میں بندوق کو بطورگن اور طماچے کو بطور ریوالور ذکر کیا گیا ہے۔ اپیل کنندہ کے ماہر وکیل کی طرف سے عدالت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ مختلف اخبارات کی اخباری تراشوں کو بھی زیرغور لایا جائے۔ اخباری تراشے بطور گواہی کے طور قانون کی لوازمات پورے نہیں کرتے۔ خاص طور پر کریمنل کے مقدمات میں ایسے اخباری تراشےنہ ہی پراسکیوشن اور نہ ہی ڈیفنس کے حق میں مددگارثابت ہوتے ہیں۔ PLD 1961(w.p) Karachi

عنوان میسرز بالا گم والہ کنٹون گننگ اینڈ پریسنگ فیکٹری، کراچی بمقابلہ لالچند پارٹF کو دوبارہ پیش کیا جاتا ہے: ہمارے نقطہ نظر میں ماہر سب جج اخبارات میں آنے والے ایسے مواد سے مطمئن نہیں ہیں جو کہ ثبوت کے بنا دستاویزات میں ذرائع کے طورپر پیش کئے گئے ہیں۔

PLD 2007 Karachi 448 بعنوان عارف ہاشوانی اور 3 دیگر بمقابلہ صدرالدین ہاشوانی اور 3دیگر۔ پیرB کو دوبارہ پیش کیا جاتا ہے: آٹیکل 70 میں آرڈیننس 2002ء کے مطابق اگرکسی بھی پارٹی کے الیکٹرانک معلومات سے انکار کیا جائے، تو اس صورت میں دستاویزات کو ثابت کیا جاتا ہے۔ جیساکہ آرڈیننس 2002ء میں الیکٹرانک معلومات کو قابل قبول نہ جانا جائے تو ایسی صورت میں ان معلومات کو بطور آواز، ویڈیو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ قانون شہادت کی روشنی میں جہاں آرڈر 1984ء میں بتایاگیا ہے کہ سی ڈی ڈاکومنٹس کاریکار بطور شہادت تسلیم نہیں کیا جاتاہے اور اس حوالے سے قانون سازی میں بھی ذکر نہیں ہے۔ اگر قانون شہادت آرڈ 1984ء میں الیکڑانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002ء میں ترامیم لائی جائیں، تو الیکٹرانک کی پیش کردہ معلومات اور دستاویزات بطور گواہی قابل قبول ہونگی۔ میری رائے ہے کہ آڈیو، ویڈیو اور سی ڈیز کی دیگر شہادتیں قابل قبول ہیں، تاہم اس کی تصدیق اور مخالف پارٹی کی طرف سے اس کے حقیقی ہونے سے انکار پر تنازعہ کا سبب بن سکتا ہے۔

1985ء SCMR 359 بعنوان محمد افضل ذل اللہ، شفیع الرحمان اور میاں برحان الدین خان، جے جے چوہدری عبدالحمید بمقابلہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر وغیرہ کو دوبارہ پیش کیا جاتاہے: ان تمام حقائق کی روشنی میں ہینڈ رائٹنگ کے ماہر کی نقطہ نظر کو قابل غور کو لایا جائے گا۔ جتنے بھی شواہد عدالت میں جمع کئے گئے ہیں، یہ ان سب میں سب سے زیادہ غیر تسلی بخش رہیں یہ اتنے کمزور اور خستہ حال ہیں کہ ہمارے قانون میں اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا، شہادت کے اس نقطہ نظر سے یہ ایک عام اور دہرایا ہوا عمل ہے کہ ایک نتیجہ اخذ کرنے کے لئے صرف ایکسپرٹ رائے پر انحصار نہ کیا جائے، صرف ہاتھ کی لکھائی کا موازنہ کرنے سے نتیجہ غیر فیصلہ کن ہوگا اور صرف ٹھوس ثبوت کے ساتھ ضمیمہ کے طور پر استعمال ہونا چاہیے۔ فیصلہ کے پرا گراف (D) اور پیرا گراف (E)9 کو دوبارہ نیچے لکھا گیا ہے۔(جعفر عالم کے کیس میں چوہدری بمقابلہ ریاست)۔ ہاتھ کی لکھائی کے ماہرین کی رائے میں غلطیاں ہو سکتی ہیں اور ہر ایک بہت کمزور شہادت ہے۔ ماہر کی رائے ضروری طور پر دھوکہ دہی ثابت نہیں کرتی یہ مکمل طور پر ثابت نہیں کرتی کہ جس آدمی کے دستخط ہیں، لیکن اس کی ظاہری افادیت کمزور ہے، اس کیس میں خطاطی کے ماہر خود بھی 100 فیصد یقین نہیں رکھتا کہ چیک میں ظاہر شدہ خطاطی اور دستخط دعویدار کے ہی ہیں۔ اگلا نقطہ جو معین الحق نے اٹھایا کہ نتیجہ اس کیس میں خطاطی کے ماہر کی رائے پر قائم کیا گیا تھا، جو کہ ایک کمزور اور ماہر ہے اور جس کی گواہی بھی اسی طرح کمزور ہے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ خطاطی کے ماہر کی رائے غلطیوں سے پاک نہیں ہو سکتی۔

اس سے شہادت کی اہمیت کافی کم ہوگئی ہے، دھونک سنگھ ٹھاکر بمقابلہ ریاست گجرات کے کیس میں صورت حال یہ ہے کہ سارہ فیصلہ ماہر اچاریہ کی شہادت پر منحصر ہے، عدالت کو پتہ چلا ہے کہ اچار یہ (ماہر) نے ان افراد کے بارے میں بھی رائے دی ہے کہ جنہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ادائیگی کے لئے کئے گئے دستخط جعلی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے کیونکہ جب شہادتوں نے خود کہا قسم اٹھا کر کہ یہ دستخط ان کے ہیں، تو پھر ماہر کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ دستخط جعلی ہیں، اس وجہ سے ماہر کی رائے پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے، ایک دفعہ جب یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اپیل کنندہ نے دھوکہ دہی نہیں کی اور جس پر حکومت کا سارا کیس پر منحصر ہے پھر کوئی قانونی شہادت نہیں، کہ یا الزام ثابت کرے یا دھوکہ دہی یہی نقطہ خاص طور پر اٹھایا گیا، عدالت کے سامنے اس طرح کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس طرح یہ بات بالکل عیاں ہے کہ عدالت کیس کی مہارت سے مکمل طور پر مطمئن ہونا چاہیے کہ وہ خطاطی کا بہترین ماہر ہونا چاہیے اور پتہ ہونا چاہیے کہ ایک خاص خطاطی کسی کی ہے یا نہیں جیسے ماہر کی خطاطی غیر تسلی بخش ہے، عدالت کے لئے، عدالت یہ غیر محفوظ تصور کرتی ہے کہ صرف ایک ماہر کی شہادت پر فیصلہ کیا جائے۔

2001ء YIR 448 لاہور خواجہ اعجاز احمد اور دیگر بمقابلہ ڈی آر او اور دیگر کے کیس کے پیرا 9، 12اور 13 کے مطابق مقامی اخبارات میں جب یہ رپورٹ شائع ہوئی، تو کیس کے حوالے سے کوئی بھی ثبوت نہیں دیا گیا، نہ ہی کوئی ایسے شواہد ہیں، جن سے معلومات حاصل کی جا سکیں، اخبارات میں متعلقہ شخص کے حوالے سے نہ کوئی بیان آیا اور نہ ہی کوئی ایسا بیان حلفی اس حوالے سے ہے، اخبارات میں شائع رپورٹ ریکارڈ پر ہے، اب یہ واضح ہے کہ اخبارات کے تراشے یا اور اخبارات میں شائع شدہ کوئی بھی مضمون کو ممکنہ طور پر ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے نہ ہی قبول کیا جا سکتا ہے، عبد الولی خان کے کیس پی ایل ڈی 1976ایس سی 57 میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہم اٹارنی جنرل سے متفق ہیں، جنہوں نے امریکن قانون کے والیو 29کو پڑھا، دوسرے ایڈیشن کے صفحہ 989 کے مطابق یہ بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اخبارات میں شائع شدہ رپورٹ یا کسی پروگرام (ایونٹ ) کے حوالے سے شائع رپورٹ کی اہمیت نہیں، اخباری رپورٹس یا تراشوں کو اس وقت پیش کیا جا سکتا ہے کہ جہاں پر ایسا واقعہ ہوا ہو یا مقامی لوگوں کا انٹرسٹ ہو یا پوری کمیونٹی کی جانب سے ہو، اس کے علاوہ کسی چشم دید گواہ کا بیان جو کہ اخبار میں شائع ہوا ہوں وہ اگر موجود نہ ہو تو وہ پیش کیا جا سکتا ہے، اپیکس کورٹ نے مزید قرار دیا کہ اخباری تراشوں یا رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور امریکی عدالتوں میں ایسا اکثر ہو چکا ہے۔

کوئی کاروباری ریکارڈ یا کسی حادثے کی دستاویزات نہ ہوں، لیکن کیونکہ اخباری رپورٹس واقعے کے حوالے سے قابل اعتماد ہو سکتی ہے تو اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ شیر محمد بمقابلہ دی کرائون پی ایل ڈی 1949ء لاہور 511 کے کیس میں اخباری رپورٹ کو قبول کرلیا گیا تھا، جو کہ مقامی روزنامہ میں شائع ہوئی تھی اس موقع پر قرار دیا گیا کہ اگر ایک شخص اس کا فائدہ نہ لے کہ اس پر جو الزامات کے حوالے سے اخبارات میں رپورٹ شائع ہوئی ہے اور کوئی شکایت بھی نہ کر تو شائع شدہ رپورٹ اس کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ جہاں تک وڈیو فلم کا سوال ہے، اس میں کچھ نہیں کہ وہ کسنے مہیا کی ہیں یہاں پر عبد الولی خان اور مملکت کے کیس کا حوالہ دونگا کہ جس میں ثبوت تب تک نہیں مانے گئے، جب تک تصاویر ریکارڈ کرنے والے افسر کو پیش نہیں کیا گیا۔ کیس عدالت میں چلالی گئی اور متعلقہ افسر نے اوازوں کی نشاندہی کی ایسے شخص کی عدالت میں پیش اور اس کی افادیت کے بارے میں کیا گیا جائے، جس کو کوئی جانتا ہی نہیں وڈیو فلم جس کو (او آر) افسر نے دیکھا کوئی قانونی شہادت نہیں تھی اور اس طرح اس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک تصاویر کا تعلق ہے اس کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس کی اصل (Negatines) کہاں ہیں، تصاویر کس نے لی اور کس نے صاف کی اس طرح یہ تصاویر بھی شہادت کے طور پر قبول نہیں کی جاسکتی، کیونکہ نہیں پتہ کہ فوٹو گرافر کون تھا اور تصویریں صاف کرنے والا کون تھا۔

پی ایل ڈی 2016ء لاہور 570 ج شاہد حمید ریحانہ انجم بمقابلہ ایڈیشنل سیشن جج ایک دستاویز کی پیشی اور ایک دستاویزی ثبوت 2 مختلف چیزیں ہیں، ایک دستاویز ایک ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے، یہ ثبوت بن بھی سکتا ہے آرٹیکل 78 کے تحت اگر ایک دستاویز پر ایک فریق انحصار کرتا ہے اور عدالت میں دیکھایا جاتا ہے، لیکن ثابت نہیں کر سکتا لہٰذا اس پر عدالت انحصار نہیں کر سکتی قانون کے مطابق ایک میڈیکل (طبعی) افسر کی لکھی ہوئی رپورٹ کا ہر نقطہ دستاویزات کی ہر بات کو ثابت کرنا چاہیے۔ کوڈ 510 کے تحت ایک رپورٹ چاہیے وہ انگوٹوں کے نشانات یا بندوقوں کے ماہرین کسی بھی معاملے میں چھان بین کے لئے جمع کئے گئے، ثابت کرنا چاہیے اور یہ مبہم نہیں ہونے، چاہیے عدالت ایسے شخص کو گواہ بنائے بغیر ایسے آدمی کو پکڑ کر اس کی ماہرانہ رائے معلوم کر سکتی ہے، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جو شخص یہ رپورٹ بناتا ہو۔ ڈی ڈبلیو دفعہ 510 کے کسی بھی درج بند ی میں نہیں آتا، پٹیشنز اپنی حدود میں رہ کر دوسرے سے سوال کر سکتا ہے، اس طرح کہ اس کی گواہی کی اصلیت کو جانچا جا سکے، ڈیفنس وٹنس کے لئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ عدالت اس کی شہادت کو جانچ سکے۔ 1995ء ایس سی ایم آر 1621 سپریم کورٹ آف پاکستان ملک خدا بخش بمقابلہ ریاست، پرا گراف 11 یہاں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے، یہ دیکھنا ہوگا کہ نصیر بیگم بمقابلہ سائیں عدالت نے دیکھا کہ شہادتی ایکٹ اس نتیجے پر نہیں پہنچتی، لہٰذا ایک فیصلہ ایک سول کورٹ جس طرح ایم منیر نے قانون شہادت میں لکھا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے، مجرمانہ کارروائی میں کہ شہادت میں سچائی اور حقائق کی تہہ تک پہنچا جائے، ایک مجرمانہ کیس میں یہ عدالت کا استحقاق ہے کہ وہ مشتبہ شخص کی غلطی کا تعین کرے۔

عدالت میں اس کیس میں جمع کئے گئے ثبوتوں پر فیصلہ کیا جائے۔ ایس این گپتا کے کیس میں دکن ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بری کرنے کا فیصلہ ایک مجرمانہ کیس میں اس پر انحصار کرتا ہے کہ غلطی ثابت نہیں کی گئی ہے اور اس طرح اس قسم کی شہادت کو سچ نہیں مانا گیا۔ یہ نصیر بیگم ورسیس سیان سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق جس میں صفحہ 585 پر یہ قرار دیا گیا ہے کہ اس پیٹیشن کی سپورٹ میں کونسل نے کہا ہے کہ سول کورٹ کے فیصلے کو دیکھا جائے، ہم اس فیصلے پر متفق نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ پرائوی کونسل نے کمار گپتا رامن رائے بمقابلہ اتل سنگھ میں نکتہ اٹھایا ہے کہ ؒ۔۔ ۔ ۔ جو حقائق پیش کئے گئے، وہ ایویڈنس ایکٹ کے مطابق نیہں اسی لئے سول کورٹ کا فیصلہ جس کی طرف ایم منیر نے اشارہ کیا ہے کہ فوجداری مقدمات میں قابل قبول نہیں۔ فوجداری مقدمات میں عدالتیں قصوروار کو نامزد ٹھہراتی ہیں ریکارڈ بتاتا ہے کہ انوسٹی گیشن کے دوران پیٹیشنر نے سی سی ٹی وی فوٹیج کو مہیا کرنے کی کوشش کی، اس میں کوئی شبہ نٓہیں کہ عدالت حکم /1984/164 کے تحت سی سی ٹی فوٹیج مہیا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے، لیکن 1984ء میں جاری حکم کے تحت ہی ایسا کرسکتی ہے۔ سی سی ٹی وی کا فوٹیج کو عدالت میں ایک ثبوت کے طور پر کافی نہیں ہیں، جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ یہ جائز ہیں۔ ایسے فوٹیجز کی جائز ہونے کو ثابت کرنے کیلئے یہ ڈیفنس اور پراسکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کا مشاہد ہ کرے، جس سے سی سی ٹی وی سسٹم سے یہ فوٹیج تیار کی ہوں، لہذا ملزم کو مزید شواہد اور ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے آرڈر 1984کے دفعات کے ساتھ سختی سے ثابت کرے اور یہ محض آرٹکل 79 آف دی آرڈر 1984ء تک محدود نہیں ہے۔

216YLR254 ٹائٹل محمد اقبال احمد vsدی سٹیٹ پیرا 11،13،14 کو دوبارہ پیش کیاجاتا ہے۔ پی 11: اس جائیدار کے کیس کے حوالے سے سیکشن نو) a) (v) آف NAO1999 کے تحت یہ ضروری اورفائدہ مند ہے کہ اس جرم کو ثابت کرنے کیلئے تمام ضروری جواز کا مشاہد ہ کیا جائے۔ ملزم کے بارے میں ضروری ہے کہ معلوم کیا جائے کہ وہ ایک پبلک آفس ہولڈر ہے۔ اس نے جائیداد جمع کی اور اسکی جائیدار اس کے ٹائٹل سے ہے۔ اس کے ظاہری ذرائع آمدن کیا ہیں اور جو اخراجات ملزم نے خرچ کیے۔ یہ ظاہر ہے کہ محض اثاثہ جات کا رکھنا جو وہ اپنے نام پر ٹرانسفارمر یا شفٹ کرسکتا ہو یا کسی اور کے نام کرسکتا ہو، سے وہ مجرم نہیں ٹھہرتا، جیسا کہ سیکشن نو (اے)(v) آف NAO1999 بھی یہی کہتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے غنی الرحمان vsنیب اور دیگر کے کیس میں ) PLD2011SC1144) میں مندرجہ ذیل اصول وضع کیے تھے۔ 6۔ اب قانون وضع ہوچکا ہے کہ اس جرم کو سیکشن 9 (a) (v) آف دی نیب آرڈی نیشن 1999ء کے تحت لیکن وکیل دفاع اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا، جو قانون شہادت کے آرٹیکل 79،78 اور 80 کے مطابق ہے، لہٰذا آرٹیکل 84 کے تحت ماہرانہ موقف پیش کیا جائے اور یہی کچھ انگوٹھے کے نشان بارے ہے۔ تاہم حقائق دفاع کے دعوئوں کے برعکس ہیں جو متنازعہ فروختگی سے متعلق ہیں۔ لہٰذا فائل میں موجود ثبوت بھی کسی اہمیت کے حامل نہیں اور نہ ہی پیش کردہ ثبوت اس قابل ہیں کہ ان پر غور کیا جا سکے۔ جب کوئی ایک فریق ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے کوئی فائدہ نہیں دیا جا سکتا، اس حوالہ سے سید عمر شاہ بنام بشیر احمد کیس دیکھا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 61، ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے، سکوپ ہینڈ رائٹنگ ماہر کے ثبوت اور رائے کو ہمیشہ ایک کمزور ثبوت تصور کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ زبردست زبانی و تحریری اور واقعاتی ثبوتوں کے باوجود ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے باطل قرار دی جائے گی۔

پی ایل ڈی 2005ء کوئٹہ: اشفاق خالد بنام سرکار، پیراگراف 33، ایم این او پی 358 اور 37 یو کو یوں پڑھا جائے۔ جہاں تک ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رپورٹ کا تعلق ہے تو یہ ناقابل یقین ہے، سپریم کورٹ نے 1985ء میں اپنی ایک رپورٹ ایس سی ایم آرصفحہ 359 میں کہا ہے کہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل نہیں۔ اس حوالہ سے عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا ہے کہ عدالت میں جمع کردہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹس کی ہر قسم کی رائے اب تک غیر اطمینان بخش رہی ہیں۔ ایسے ثبوت اس قدر کمزور اور ناقص تھے کہ ان کو عدالتی نظام میں جگہ دینا ممکن نہیں، عدالتیں صرف ان پر اعتماد نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح 1947ء اے آئی آر صفحہ 180 کے مطابق ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے سے ملکیت خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ ڈی ڈبلیو 22 کے تناظر میں آخری گواہی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی ہونی چاہیے، ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کے ثبوتوں کو متنازعہ دستاویزات میں الگ رکھا جائے، میں ان کو قبول کرنے میں وقت اور جھجھک محسوس کررہا ہوں۔ مسٹر وسیم نے متعدد اتھارٹیز اور کتب سے اس حوالہ سے جو رائے دی ہے، میں شعوری طور پر کہتا ہوں کہ یہ بہت خطرناک ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ ماہر کسی ایک فریق کے حق میں جس نے انہیں بلایا ہوںفائدہ دے سکتے ہیں ۔ یہاں ہم ایک فیصلہ پی ایل ڈی 1958ء لاہور صفحہ 447 کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے کو بڑی احتیاط سے لیا جائے چاہیے وہ ایک غیر جانبدار ماہر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ وہ ماہر غیر شعوری ہر اس ایک فریق کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جس نے اسے بلایا ہو۔ صرف ان حقائق کو دیکھتے ہوئے کہ ایک ماہر کہے کہ دستاویز ایک خاص شخص نے لکھی ہے، اس کو حتمی نہ مانا جائے، بلکہ عدالت فیصلہ دینے سے پہلے تمام ثبوتوں کو متعلقہ نکتہ پر دیکھے اور ان کی جانچ کرے۔

اسی فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ ایک ماہر کی رائے قابل قبول ہے اسے ناقابل یقین نہ تصور کیا جائے، ایسے حالات اور واقعات ہو سکتے ہیں، لہٰذا ایک ماہر کے بیان کی درستگی کو جانچا جائے، ملکیت سے متعلق فیصلہ جو 1969ء میں ہوا پی سی آر ایل ہے صفحہ 259، جب ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے پر بحث ہوئی تو ایک ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ تحریر اور دستخط ناقابل یقین ہیں، لیکن ان میں غلطی ممکن ہے ایک ماہر سے بھول ہو سکتی ہے کہ مذکورہ تحریر اور دستخط اسی شخص کے نہیں، جس کی تحریر اور دستخط صاف ہیں۔ بہر حال تحریر اور دستخط ایک ثبوت ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی حیثیت خاطر خواہ نہیں۔ 35-s ، عدالت اپنے طور اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ماہر تحریر کی رائے کو قبول کرتے ، حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسے کہ پی ایل ڈی 1966ء، ڈھاکہ، صفحہ 444 میں ہے اسے دوبارہ بیان کرتی ہے۔ سیکشن کا مطالعہ کرتے ہوئے، یہ عدالت ہے جس نے ماہر کی رائے کو متعلقہ بنانا ہے عدالت اسے یکسر مسترد یا منسوخ نہیں کر سکتی۔ عدالت ایک ماہر تحریر کو مدد کے لئے بلا سکتی ہے۔ ایک کیس میں جہاں تاثر بالکل واضح ہو عدالت خود اپنے طور فیصلہ کیوں نہیں کرتی؟ 37 یو دو مختلف ہینڈ رائٹنگ یا دستخوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ماہر تحریر سے کہا جائے کہ وہ دونوں تحریروں یا دستخطوں کو دیکھے اور ان کا موازانہ کرے کہ قلم کیسے پکڑا گیا؟، قلم کا دبائو کیا تھا؟ لکھنے کی رفتار، الفاظ کا حجم، الفاظ کی ترتیب اور تمام الفاظ میں فاصلہ وغیرہ کیا تھا؟، اسی طرح اصول  کہ اصل اصل جیسا ہے، کی بنیاد کو بھی دیکھا جائے۔ اسی طرح نمونہ کی تحریر کے لئے اس شخص کو بالکل ویسا ہی کاغذ، سیاہی اور لکھنے کے آلات دیئے جائیں، جس کی تحریر درکار ہے۔ اگر متنازعہ تحریر پنسل سے لکھی گئی ہے تو پنسل میں تحریر کا نمونہ لیا جائے ۔ اگر بال پین کی تحریر ہے تو اسی میں لی جائے۔ (ہارڈلیس متنازعہ دستاویزات ، ہینڈ رائٹنگ اور انگوٹھے کی چھاپ کی شناخت جو ٹی جے گجر نے دہرائے تھرڈ ایڈیشن 1983) 2010ء پی سی آرایل جے 1832۔ میر فیاض احمد بنام سرکار، پارس نمبر 19,20,21A کو دہرایا جاتا ہے۔

19۔ عبدالرشید کیس (سپرا) یہ دیکھا گیا ہے کہ جیسا کہ کوئی اپیل کنندہ اپنی صفائی میں ان الزامات کا ثبوت نہیں دے سکا جو اس کے خلاف ہیں تو یہ اس کے خلاف جائیں گے۔ پی 20۔ آخری قاضی نسیم احمد کیس میں اپیل کنندہ کو انسداد بدعنوانی کے سیکشن 5 سی کے تحت، سرکاری ملازم ہونے کے ناطے ملزم ناجائز ذرائع سے اپنے نام پر اور اپنے زیر کفالت والدہ اور چھوٹے بھائی کےنام پر جائیدادیں خریدیں۔ عدالت نے ہر جائیداد کا جائزہ لیاور اس نتیجہ پر پہنچی کہ الزام ثابت نہیں ہوتا۔ ماہر تحریر کی رائے پر عدالت نے آبزرویشن دی کہ ثبوتوں کی عدم موجودگی میں ایک ماہر تحریر کی رائے بھی کافی نہیں کہ اپیل کنندہ نے دستاویزات میں کوئی جعل سازی اور چھیڑ چھاڑ کی ہے۔

پی ڈی 21۔ مندرجہ بالا مقدمہ کو دیکھتے ہوئے قانورن اس حوالہ سے واضح ہے کہ ایک ماہر تحریر کی رائے محض رائے ہی ہے، اس لئے صرف رائے پر حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ۔پی ایل ڈی 2014 سپریم کورٹ 696 لینڈ ایکوزیشن کلکٹر سرگودھا بنام محمد سلطان وغیرہ ، پیرا 5 ڈی اور 6 بی پڑھا جا سکتا ہے۔ 5D۔ قانون شہادت حکم 1984ء جس میں آرٹیکل 59 شامل ہے، یہ بات واضح ہے کہ ایک گواہ کی رائے اسی وقت اہمیت کی حامل ہوگی، اگر وہ مذکورہ آرٹیکل کے تحت مخصوص میدان میں ماہر بھی ہے۔ علاوہ ازیں رائے دینے کے مقصد کی خاطر گواہ نے پہلے کسی ماہر سے رائے لی ہو یا اس کی تعلیمی قابلیت یا تجربہ اسے حاصل ہو۔ اگر ایسا کچھ نہیں تو یہ رائے محض رائے ہوگی اور اسے ثبوت کی حیثیت نہیں ہوگی۔ B-6 موجودہ کیس میں عدالت میں ایک ایسا شخص آیا ہے، جو ماہر نہیں ہے ۔پی ایل ڈی 1993ء، سپریم کورٹ 88، اٹالا نسٹک سٹیمر سپلائی کمپنی بنام ایم وی ٹائٹس و دیگر، ہیرا 13 دوبارہ دیا جاتا ہے۔ دونوں فریقوں میں تنازعہ غیر ملکی قانون کے ثبوتوں کے حوالے سے ہے۔ ثبوتوں کے حوالے سے سیکشن 38 قانون شہادت اور آرٹیکل 52 کو دیکھتے ہوئے یہ کافی ہوگا۔

52۔ کتاب قانون کے تحت بیانات میں تعلق: جب عدالت کوئی رائے قائم کرے، جیسا کہ کسی ملک کا قانون ہو یا ایسا بیان ہو، جو اس ملک کی حکومت کی اجازت سے قانون کی کسی کتاب میں چھپا یا شائع ہوا ہوں۔ تو اس قانون کو متعلقہ مانا جائے گا، مندرجہ بالا آرٹیکل کے سرسری مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی قانون کو اس ملک کی حکومت کی اجازت شائع کی گئی کتاب سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قانون شہادت کے آرٹیکل 59 کے تحت ایک ماہر کابھی تجزیہ کیاجاسکتا ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ برطانیہ ملکی قوانین کو ماہرین کے ثبوتوں سے ثابت کیاجاتا ہے۔ پی ایل ڈی 1972ء سپریم کورٹ 25، مسماۃ خیر النساء اور 6 دیگر بنام ملک محمد اسحاق اور دیگر میں یہ کہا گیا کہ تحریری بیانات کو کیسز میں اس شخص کے بغیر نہیں لیا جاسکتا، جس کاعدالت میں ٹرائل نہیں کیا گیا۔ صرف تصدیق شدہ ہو تاہم اس تحریری بیان کو ثبوت پر کے طور پر کیس میں پیش نہیں کیا جا سکتا، اس فیصلے کیلئے جے بی روس اینڈ کو وی سی آر سریون اور دیگر ( ائر 1917CAL269(2)) اور محمد صدیقی بمقابلہ پھوپندرا نارائن روئے چوہدری سے مدد لی گئی ہے۔ پی ایل ڈی 1962ء ڈھاکہ 643 اس کیس میں بھی ایسے ہی ہوا کہ کیس خارج کرنے کیلئے تصدیق ضروری ہے، اگر نہیں روکا گیا تو جھوٹ ہوگا، قانون سازی کبھی مکمل نہیں ہو گی کہ مدعی کی جانب سے تصدیق شدہ تحریر بیان کو مخالف کیخلاف بطور ثبوت تصور کیا جائے، قانون کے سیکشن 191 اور 193 میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔

ان کے مطابق تصدیق شدہ تحریر بیان کو ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، تاہم سیکشن 191 کو ایک خاص مقصد کیلئے نافذ کیاگیا ہے۔ 2016ء ای سی ایم آر 274 سپریم کورٹ آف پاکستان عظیم خان اور دیگر بمقابلہ مجاہد خان اور دیگر (جے) پینل کوڈ (XLV of 1960) سیکشن 365 اے اور 302 (بی) انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء، کریمنل پروسیجر کوڈ (V of 1998) اغواء برائے تاون قتل ثبوتوں کا دوبارہ جائزہ، مقتول کی شناخت کیلئے ہڈیوں کا حصول ہڈیوں کی ڈی این اے رپورٹ، یہ سب کچھ ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سزا دینے کیلئے کافی ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ اگر موجودہ کیس میں ڈی این اے رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کرکے اس پر انحصار کر دیا جائے تو یہ بھی ملزم کو سزا دینے کیلئے کافی نہیں ہو گا۔ جب ثبوت کے انبار بھی لگا دئیے جائیں، پھر بھی ملزم کو سزا دینے کیلئے ڈی این اے رپورٹ پر انحصار کرنا کافی نہیں ہوگا۔ یہاں غیر جانبداری اور مکمل شفافیت ظاہر کر نا ہوگی۔ مجسٹریٹ یا ان جیسی غیر جانبدارانہ اتھارٹی رکھنے والے حکام کی موجودگی میں مقتول کے جسم کے جو نمونے حاصل کرکے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں اور جائے وقوعہ سے بھی قتل کے حوالے سے ثبوت اکٹھے کرکے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں، انہیں محفوظ کرنا ہو گا، لیکن اس کیس میں ان تمام امور کو نظر انداز کیا گیا، سپریم کورٹ نے ایک طرف ملزم کو جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اس پر ذمہ داری عائد کی اور اسے سزائے موت سنائی۔

پی ایل جے 2002 لاہور 454: مقرب حسین بوساطت قانونی نمائندگان اور دیگر بنام پیر زادہ محمد رفیق بوساطت قانونی نمائندگان، پیرا 8A،7،4 اور 10c کو دوبارہ لیا جاتا ہے۔
پی 4۔ اپیل کنندہ نے کرایہ کے بارے میں 13 جنوری 1962ء کے حکم پر تکیہ کیا دستاویزات کی غیر تصدیق شدہ نقول دیں۔ پی7۔ دستاویزات کے تحت جواب دہندہ کو اجازت ملی کہ بنگلہ کے سامنے پلاٹ پر کوارٹر بنا سکے، درحقیقت اس سے اپیل کنندہ کو پوزیشن سی ملا۔ پی 8 اے۔ میں یہ کہوں گا کہ مذکرہ دستاویزات کے سرسری مطالعہ سے یہ تاثر ملا ہے کہ ان غیر تصدیق شدہ دستاویزات پر بجا اعتراض اٹھایا گیا کہ اپیل کنندہ بیان ڈی ڈبلیو 3 تھا۔ میرے ذہن کے مطابق یہ دستاویزات قانون شہادت حکم کے تحت قابل قبول نہیں۔ ڈی ڈبلیو 3 کے تحت یہ دستاویزات غیر تصدیق شدہ نقل کی آگے نقل تھی۔ یہ بھی قابل قبول نہیں۔ بی 10۔ میں قانونی مشیر سے متفق ہوں کہ مذکورہ 2۔ دستاویزات ثبوتوں کے طور پر ہر قابل قبول ہیں اور نہ ہی تصدیق کیا گیا ہے یہ تمام داخلے محض عدالتی کارروائی کے حوالے سے ہیں اور نہ ہی اسے بطور داخلہ موجودہ کیس میں استعمال کیا جائے، جو کہ ثبوتوں کی روشنی میں اسکے اپنے میرٹ پر ہونے کا ریکارڈ کیا جائے۔

2016SCMR2084 بعنوان اسفندیار اور دیگر بمقابلہ کامران اور دیگر وغیرہ ریکارڈ کے مطابق درخواست گزار نے دوران تفتیش سی سی ٹی وی کی فوٹیج پیش کیں، جس کو درخواست گزارنے تفتیش آفیسر کے سامنے پیش کیا۔ عدالتی سماعت کے دوران انہیں عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے اجازت لی گئی، لیکن آرڈر 1984ء کی روشنی میں پیش کرنے کو کہا گیا۔ مخالف پارٹی کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ مذکورہ فوٹیج کا جائزہ لے۔ تمام جائزہ لینے کے بعد عدالت نے بتایاکہ عدالت سی سی ٹی وی فوٹیج پر بطور ثبوت بھروسہ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا عدالت کے فیصلے میں آرڈر 1984ء کے مطابق کیس کے ثبوت پیش کئے جائیں، جوکہ آرٹیکل 79 تک محدود نہیں ہونے چاہیے۔

2011 clj 233 Peshawar بعنوان مسزنشاتا بمقابلہ مسلم خان عرف مصلی وغیرہ Para 11 B کو دوبارہ پیش کیا جاتا ہے: مسز نشاط، مدعی مقدمہ اورعبدالحکیم وغیرہ کے دستخط کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے، جس میں ACW-3 کے ثبوت پر بتایا گیا ہے کہ انگوٹھوں کے نشانات بھی مسزنشاط سے مطابقت رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ ثبوت کے طور قابل غور نہیں لائے جاتے جوکہ کمزور تصور کئے جاتے ہیں۔ مگر مدعا علیہ قرآن شہادت کے آرٹیکل 8 اور 9 پر پورا نہیں اترتے اور اسکی تعمیل میں ناکام ہوئے ہیں۔ لہٰذا انگوٹھوں کے نشانات بھی اس سیل ڈیڈ کو متنازعہ بنا دیتے ہیں۔ مذکورہ کیس میں بھی ایکسپرٹ رائے کو بھی ثبوت کے طور پرکمزور تصور کیا جاتا ہے۔ جب پارٹی اپنے کیس کو ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے تو ایسی صورت میں بھی Expert Opinion کو ترجیح دی جاتی ہے، جوکہ ثبوت کا کمزور ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ جیساکہ سید محمد عمر شاہ بمقابلہ بشیر احمد کے کیس میں بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 61 کے مطابق Hand writing کی ماہرین کے رائے کو بھی ثبوت کے طور پر کمزور تصور کیا جاتاہے۔ بیشتر زبانی، دستاویزی اور دیگرحقائق پر مبنی ثبوت ہونے کے باوجود اس پر ایسے ثبوتوں پر ترجیح نہیں دی جاتی۔

PLD 2005 Quetta عنوان اشفاق خالد بمقابلہ سٹیٹ پیرا33 کو دوبارہ پیش کیا جاتاہے: جہاں تک Handwriting کے ماہر کا تعلق ہے۔ 1985ء میں SCMR کا سپریم کورٹ میں کیس رپورٹ ہوا، جسکے پیج 359 میں بتایا گیا کہ Handwriting ایکسپرٹ کی رائے کو فائنل تصور نہیں کیا جاتاہے۔ اس حوالے سے متعلقہ آبزویشن دوبارہ پیش کی جاتی ہیں۔ ہینڈرائیٹنگ کی رائے، ایکسپرٹ ہینڈرائٹنگ کی رائے اور تمام قسم کے شواہد جو عدالت میں جمع کیے گئے، غیرتسلی بخش تھے۔ یہ شواہد اتنے کمزور اور پرانے تھے کہ جسے قانونی نظام میں پیش کرنے کے قابل نہیں۔ عدالتیں محض ایکسپرٹ رائے پر انحصار نہیں کرتیں۔ AIR1947 oudh page 180 کے فیصلے کے مطابق جج نے بتایا تھا کہ ہینڈ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی رائے پر انحصار کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ DW 22 کے سلسلے میں آخری گواہ ہ پر غور کیاجاسکتا ہے، میری خواہش ہے کہ کہوں کہ ہینڈ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی جانب سے متنازعہ دستاویز کے حوالے سے پیش کی گئیں ثبوت کافی نہیں۔ میں اسے منظور کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں۔ مسٹر وسیم نے رائے کا اظہار کیا مختلف کتابوں میں ہینڈرائیٹنگ ایکسپرٹ کی شواہد کے حوالے سے۔ لہذا میں مکمل طور پر حوش و ہواس میں کہتا ہوں کہ ایسے گواہوں کے شواہد پر انحصار کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ایک ماہر مختلف کیسز میں تعصب پسند ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم پی ایل ڈی 1958 لاہور پیج 447 کے فیصلہ کا حوالہ دے سکتے ہیں، ہینڈنگ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی رائے سے متعلق احتیاط برتنا چاہیے تاہم ایک ایکسپرٹ جانبدار بھی ہوسکتا ہے، لہذا اس حوالے سے کورٹ کو تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی طرح کے ایک اور فیصلے میں بتایا گیا کہ ایک ماہر کی رائے قابل قبول ہے، لیکن اس پر فیصلہ نہیں کیاجاسکتا۔ لہذا وہاں کچھ شواہد ہونے چاہیے تاکہ ان بیانات کی درستگی کا جائزہ لیاجاسکے۔

1969ء کے، پی سی آر ایل جے، کی ملکیت کے حوالے سے فیصلے میں ہاتھ کی لکھائی کے ماہر کی رائے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جس کے مطابق ہاتھ کی لکھائی اور دستخط کے حوالے سے ماہر کی رائے ہے کہ لکھائی اور دستخط قابل یقین نہیں، تاہم ان میں ردوبدل ہو سکتا ہے اور ماہر اسے جعلی ثابت نہیں کر سکتا، جب تک لکھنے والے اور دستخط کرنے والے کی لکھائی اور دستخط صاف نہ ہوں، جس کیلئے لکھائی اور دستخط کا ایک متن بھی دیکھنا ہوگا، لیکن ایسے عمل کی قانون حیثیت انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اسی طرح لکھائی کے ماہر کی رائے پر غور کرنے کے بعد حالات و واقعات کے تحت عدالت آزادانہ طور پر اس نتیجے پر پہنچتی ہے، جبکہ ڈی ایل ڈی ڈھاکہ کے 1966ء کے ایک کیس کے فیصلے کے صفحہ نمبر 444 کے مطابق قانون کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدالت کسی ماہر کی رائے کو مان سکتی ہے، لیکن عدالت کی یہ ڈیوٹی بھی نہیں کہ وہ ان سب کو ہی منسوخ یا مسترد کر دے۔ عدالت حتمی فیصلے کے نتیجے پر پہنچنے کیلئے کسی ماہر کو اپنی رائے دینے کیلئے بلا سکتی ہے تاہم اس کیس میں نقوش صاف ظاہر ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عدالت کسی ماہر کی رائے کے بغیر ازخود آزادانہ طور پر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے۔ دو مختلف لکھائیوں اور دسختطوں کے موازنہ کریں تو لکھائی کے ماہر تو لکھائیوں اور دستخطوں کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینا ہے، جیسے کہ پین کا پکڑنا، پین کا پریشر، لچکداری، سپیڈ، سائز، سپیس، لائن کی کوالٹی، ریدھم اور لمحات، تمام الفاظ، سیاہی اور لکھنے کے آلات کا جائزہ لینا ہوتا ہے، اسی طرح لکھائی کے اصولوں کے موازنہ سے قبل اس کو دیکھا جاتا ہے، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کسی بھی شخص سے اس کی لکھائی یا دستخط کے حوالے سے موازنہ کیلئے نمونے ایک جیسے لئے جائیں، ممکن ہو تو ایک ہی قسم کی سیاہی، ایک ہی قسم کے لکھائی کے آلات، اگر پینسل کے ساتھ لکھا گیا ہے، تو پینسل کا نمونہ لیا جائے اگر بال پین ہو تو بال پین کا۔

2016ء پی سی آر ایل جے 1343 لاہور غلام سرور خان لالوانی بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 20ڈی کے مطابق استغاثہ کیلئے ضرور ہے کہ و ہ تمام ثبوت اکٹھے کرے کہ جس اثاثوں سے پلاٹ خریدا گیا ہے، اس کیلئے وسائل کہاں سے آئے، تاہم ایسے کوئی ثبوت اکٹھے نہیں کئے گئے۔ پی ایل ڈی 2002ء پشاور 118 محمد حیات خان سمیت دو دیگر افراد بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 81 کے مطابق کہ اگر ہم کسی ڈکشنری سے ڈیپنڈنٹ، لفظ کا مطلب حاصل کر لیں، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص معاشی طور پر کسی دوسرے شخص پر انحصار کر رہا ہے اور اسے گزر بسر کیلئے معاشی طور پر اس شخص سے تحفظ ملے۔ پی ایل ڈی 1993ء سپریم کورٹ 88 ایٹلانٹک سٹیمرز سپلائی کمپنی بمقابلہ ایم وی ٹائٹسی و دیگر کیس کے پیرا 13 جی کے مطابق اوپر والے مضمون کے متن کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ کسی بھی بیرونی ملک کے قانون کے مطابق ایک شخص کسی کتاب کی چھپائی، اس ملک کے قانون کے تحت کر سکتا ہے اور یہی قانون شہادت کے آرٹیکل 59 سے بھی ثابت ہے کہ غیر ملک کے قانون پر ماہر کی رائے درست ہے، تاہم ایک ماہر چانچ پڑتال بھی کر سکتا ہے۔ پی ایل ڈی 1972ء سپریم کورٹ 25 مسز خیر النساء اور دیگر 6 افراد بمقابلہ ملک محمد اسحاق و دیگر افراد عدالت میں دائر کردہ کسی شخص کے تحریر بیان کو اسی شخص کے بغیر کیس میں پیش نہیں کیا جا سکتا، تحریر بیان حلفیہ طور پر نہ ہو اور اس کی صرف تصدیق ہوئی ہو، تو یہ کسی بھی کیس میں شہادت کے طور پر پیش نہیں ہو گا، اس فیصلے کیلئے جے بی روس اینڈ کمپنی سی آر سریون اور دیگر کے کیس سے مدد لی گئی۔ 2010ء سی آر ایل جے 1832 کراچی میر فیاض احمد بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 21کے مطابق کہ مذکورہ کیس کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ قانون بڑا واضح ہے کہ لکھائی کے ماہر کی رائےکیا ہے، صرف رائے ہے تاہم مبینہ ہاتھ کی لکھائی یا دستخط کے حوالے سے کسی بھی نتیجے پر پہنچے کیلئے یہ رائے کافی نہیں ہو گی، ماہر کی رائے کی حیثیت سے معمولی ہے تاہم سزا کا تعلق ماہر کی رائے سے نہیں ہو گا۔

پی ایل ڈی 2005ء کراچی 443 منصور احمد قریشی بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 141 کے مطابق جہاں متعلقہ سزا کے ساتھ نیا جرم سرزد ہو جائے یا پہلے سے ہوئے جرائم پر نئی سزا دی جائے یہ ترمیم شدہ قانون کے تحت یہ سزا قابل عمل نہیں ہوگی۔ پی ایل ڈی 2010ء سپریم کورٹ 1109 بینک آف پنجاب و دیگر بمقابلہ حارث سٹیل انڈسٹریز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کیس کے پیرا 30 ای کے مطابق ایماندارانہ تحقیقات ہوں اور غیر جانبداری کے بغیر اس تحقیقات کے منصفانہ ہونے کی گارنٹی بھی ہو تو تحقیقاتی افسر صرف ایک مریض اور الجھن کا شکار ہو گا۔ ثبوتوں کے انبار اور ملزم کی جانب سے صفائی 2007ء ایم ایل ڈی 210 کراچی حاکم علی زرداری بمقابلہ ریاست کیس کے آخری پیرا کے صفحہ نمبر 923 کے مطابق ثبوتوں کے انبار کے سلسلے میں عام قانون کے مطابق ملزم اس وقت تک معصوم ہے، جب تک جرم ثابت نہ ہو اور جرم ثابت کرنا ہمیشہ استغاثہ کا کام ہے، تاہم اسی آرڈیننس کے سیکشن 14(سی ) جو کہ عام قانون سے ہی لیا گیا ہے، کے مطابق کرپشن کے ممکنہ امکانات یا کرپٹ کاموں کو واضح کرنا ہوگا، اگر کوئی ملزم یا کوئی بھی شخص غیر ملکی سرمائے یا زمین کے حوالے سے چھوٹے سے سرمائے کیلئے کمائی کا ذریعہ بتانے میں عدالت کو مطمئن نہ کر سکے، تو کمائی کے ذرائع کے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈالنے کیلئے قانون خاموش ہے تاہم ہمیشہ ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ہونی چاہیے۔

قانون کے مطابق ایسے کیسز میں استغاثہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملزم کیخلاف ثبوت فراہم کرکے عدالت کو مطمئن کرے کہ ملزم کے کمائی کے ذرائع کیا ہیں، اس نے کیسے زمین یا غیر ملکی سرمایہ حاصل کیا، عدالت کو ضرورت ہے کہ تصور کرے کہ قانون کے سیکشن 14(سی) کے تحت فراہم کردہ ثبوتوں کے تحت ملزم نے جرم کیا ہے، استغاثہ کیلئے ضرورت ہے کہ وہ پہلے ملزم کے اثاثوں اور کمائی کے درمیان فرق واضح کرے، لیکن جہاں ملزم اس حوالے سے مطمئن نہ کر سکے تو ثبوت کی ذمہ داری ملزم پر ہرگزنہیں ڈالی جا سکتی ہے وہ ثبوت لا کر مطمئن کرے، رامیشور پرساد اُدھاپیا بمقابلہ حکومت بہار ریفرنس (ائر 1971ایس سی 2474) کے مطابق ملزم کی جانب ثبوت فراہم کرنے کی حدتک یہ کہ ملزم پر ضروری نہیں کہ اس پر جو الزامات ہیں، وہ اسی کے ثبوت بھی فراہم کرےاور نہ ہی وہ اس کا ذمہ دار ہے، تاہم پراسکیوشن کا کام ہے کہ وہ ثبوت فراہم کرے جو ملزم پر الزام ہے تاہم جب ملزم کیخلاف الزامات کی تحقیقات کے دوران مندرجہ بالااصولوں کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اگر ملزم اس قابل ہو کہ وہ حالات بیان کرکے عدالت کو مطمئن کر سکے تو یہ کافی ہو گا اور ملزم پرثبوت لانے کا سلسلہ ختم کر دیا جائے۔

ثبوت کے معیار کی تین اقسا م ہیں:
I۔ ثبوتوں کے پیش نظر امکانات کی برابری
II۔ ممکنہ حد تک کسی شک پر ثبوت معیاری اور واضح ثبوت پر قائل کر نا سیکشن 14(سی) کے مطالعہ کے مطابق9(اے) (V) کے جرم میں معیاری ثبوت ضروری ہیں۔ 2009ء کے ایس سی ایم آر 790کو یہاں پیش کیا جا سکتا ہے جہاں یہ ہوا، اگر این اے او کو استعمال نہ کیا جا سکے تو ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ دار ملزم پر نہیں بلکہ استغاثہ پر ہو گی اور ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری خاص ثبوت کے بغیر کبھی بھی عائد نہیں ہوگی۔

2010ء ایس سی ایم آر 1697ء محمد ہاشم بابر بمقابلہ ریاست و دیگر کے کیس کے مطابق یہاں یہ اضافہ کرنا ضرور ی ہے کہ کسی کیس کو ثابت کرنے کی ذمہ داری اور استغاثہ کے الزامات یا جرم کو ثابت کرنے کیلئے مندرجہ ذیل امور ہونگے۔
(V) یہ ثابت کرنا ضرور ہے کہ ملزم کے پاس کسی بھی قسم کا حکومتی عہدہ تھا۔
(VI) غیر ملکی سرمایہ یا زمین کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔
(VII) یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ ملزم کے کمائی کے ذرائع کیا ہیں۔
(VIII) یہ بھی ثابت کرنا ضرور ی ہے کہ سرمایہ یا زمین ملزم کے قبضے سے ملی ہے اور وہ سرمایہ بھی واضح نہیں ہے۔

اگر پہلے سے جرم ثابت ہو جائے اور قانون کے سیکشن 9 (اے) (وی) کے مطابق مکمل ہو، جب تک ملزم سرمایہ یا زمین ثابت نہ کر سکے، لیکن قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ کسی سرمائے پر زمین پر صرف قبضہ کوئی جرم نہیں، لیکن اس سرمائے یا زمین کے حصول کیلئے استعمال ہونے والے سرمائے یا ذرائع آمدن کے حوالے سے مطمئن نہ کرسکنے کی صورت میں اس سرمائے یا زمین پر سوالات اٹھیں گے اور ملزم ثابت نہ کر سکے تو یہ ایک جرم ضرور ہوگا، قانون کے سیکشن 14 (سی ) کے ملزم جس ملزم پر کرپشن اور کرپٹ کام کرنے کے الزامات ہوں تو اسے ثابت بھی کرنا ہوگا، بصوابوشان نائیک بمقابلہ سرکاری (ائر 1954ایس سی 350) کیس کو دیکھیں کہ یہاں قانون کے سیشن 14 کے تحت ریکارڈ سے ثبوت لا کر پیش کئے گئے اور اگر کونسل ثبوتوں میں کسی ایک صفحہ یا سیکشن پر یہ ثابت کردے کہ یہ پڑھنے کے قابل نہیں یا صحیح طریقے سے اس کی چھپائی نہیں ہوئی یا عدالت اس کو پڑھ ہی نہ سکے تو تو پٹیشنر کی جانب سے خرچ کردہ 14لاکھ روپے ختم نہیں ہونگے، یہ بھی قانون سے ہی واضح ہے کہ ثبوت فراہم کرنے کے حوالے سے ذمہ دار استغاثہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ملزم پر ثابت کریں کہ یہ سرمایہ یا زمین اسی کی ہے یا نہیں اور یہ اس نے کس سرمائے سے کیسے حاصل کئے ہیں اور نیب قانون 1999ء کے مطابق استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس سرمائے یا زمین کو حاصل کرنے میں کرپشن ہوئی ہے یا نہیں، اگر استغاثہ اس میں ناکام رہے تو یہ ذمہ داری ملزم پر بھی عائد ہوگی کہ وہ ثابت کرے اور مطمئن کرے کہ سرمایہ کہاں سے آیا، عدالت احتساب بھی کر سکتی ہے۔

فاضل جج نے سپریم کورٹ کے فیصلے ایس سی ایم آر 790 /سال 2009ء بعنوان سید قاسم شاہ بنام سرکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دفعہ 14(سی) نیب آرڈیننس میں موجود ہے، مگر اس کے باوجود ابتدائی بار ثبوت ہمیشہ استغاثہ پر ہوتاہے کہ وہ جرم ثابت کرے اور جب تک ابتدائی بار ثبوت درست طور پر ڈسچارج نہ کیا جائے، اس وقت تک ملزم کے حق میں بے گناہی کا ٹھوس یقین موجود رہتا ہے اور تمام حالات میں استغاثہ کسی طور ملزم کا جرم ثابت کرنے سے بری الذمہ نہ ہو سکتا ہے۔ مزید فاضل جج نے 2010ء وائی ایل آرصفحہ 230 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر کیس کے اپنے واقعات اور پس منظر ہے اور کسی کیس کے واقعات آنکھ بند کر کے دوسرے کیس پر منطبق نہ کئے جا سکتے ہیں۔ فاضل عدالت عظمیٰ و عدالت عالیہ کے نظائر کے پس منظر میں فاضل جج نے ریفرنس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا کہ سال 2016ء میں صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے موزیک فونسیکا جو کہ پاناما ملک میں ایک لا فرم ہے، کا ڈیٹا ہیک کیا اور اس کو شائع کر دیا جس میں ان تمام لوگوں کے نام موجود تھے، جنہوں نے بین الاقوامی کمپنیوں سے روابط استوار کئے ہوئے تھے اور ٹیکس سے بچنے کیلئے اور اپنی دولت کو چھپانے کیلئے انویسٹمنٹ کی ہوئی تھی اور مزید یہ کہ ان کا سب سے بڑا مقصد کالے دھن کو سفید کرنا تھا۔ پاناما پیپرزکے شائع ہونے کے بعد فاضل عدالت عظمیٰ نے معاملے کا جائزہ لیا اور ملزمان فاضل عدالت عظمیٰ کی تمام کارروائی میں شامل ہوئے ابتدائی طور پر فاضل عدالت عظمیٰ نے تین دو کے تناسب سے فیصلہ 20اپریل 2017؁ء کو دیا اور نیب کو تفتیش کرنے کیلئے ہدایت دی اور اس بارے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی اور اس بابت وضاحت دی گئی کہ اس میں ایف آئی اے کا سینئر آفیسر نمائندہ نیب، ایس ای سی پی کا نامزد، سٹیٹ بینک کا نامزد کردہ ممبر، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سینئر افسران شامل ہونگے۔

تفتیشی ٹیم کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس امر کا تفصیلی جائزہ لے کہ آیا ملزم نواز شریف یا اس کے بچوں یا بے نامی دارنے اپنے وسائل اور آمدن سے زائد اثاثہ جات حاصل کئے تھے، تمام ملزمان کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی اور تفتیشی ٹیم کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ ایف آئی اے اور نیب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس یا دیگر اثاثہ جات اور آمدن کی بابت کوئی بھی ریکارڈ حاصل کر سکتی تھی۔ فاضل عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر تحقیقاتی ٹیم واجد ضیاء پی ایس پی، بریگیڈئیر(ر) محمد نعمان سعید نمائندہ آئی ایس آئی، بریگیڈئیر کا مران خورشید ممبر ملٹری انٹیلی جنس عامر عزیز ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹیٹ بینک آف پاکستان، بلال رسول ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ای سی پی اور عرفان نعیم منگی ڈائریکٹر نیب پر مشتمل تھی۔

تحقیقاتی ٹیم کو مندرجہ ذیل واقعات پر تفتیش کرنے کی ہدایت کی گئی:
۔  گلف سٹیل ملز کیسے بنی ؟ اور کب فروخت ہوئی، اس کی ذمہ داریوں کا کیا بنا؟
۔  اس کی قیمت وصول شدہ کہاں استعمال ہوئی۔ جدہ ، قطر اور انگلینڈ کیسے پہنچی؟
۔  کیا ملزمان حسن اور حسین نواز کے پاس 90ء کی دہائی کے اوائل میں اتنے اثاثہ جات موجود تھے کہ وہ فلیٹ خرید سکیں؟
۔  کیا حماد بن جاسم بن جبر الثانی کے خطوط حقائق پر مبنی تھے؟ حصص کو کیسے فروخت کر کے ان سے فلیٹ کی خریداری کی گئی؟
۔  درحقیقت نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ اور نسکول لمیٹڈ کا مفاد اٹھانے والا اصل کون ہے؟ ھل میٹل کب اور کیسے وجود میں آئی؟
۔  مدعا علیہ نمبر 8 نے کب اور کیسے کمپنیاں بنائیں اور ان کمپنیوں کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟
۔  یہ کہ حسین نواز نے کس طرح ملزم نواز شریف کو کروڑوں روپے گفٹ کئے؟

 تحقیقاتی ٹیم نے 16 جولائی 2017ء کو دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ پیش کی۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے مورخہ 28 جولائی 2017ء کو نیب کو ریفرنس تیار کر کے تحقیقاتی ٹیم کے جمع شدہ مواد پر مبنی نیب عدالت میں داخل کرنے کی ہدایت کی، جنکی بنیاد پر ایون فیلڈ فلیٹس عزیز یہ سٹیل کمپنی اور دیگر کمپنیوں کی بابت ریفرنس دائر کئے گئے فیصلے میں فرد جرم کی بابت تفصیل بیان کی گئی۔ جس میں مرکزی ملزم میاں نواز شریف کو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے مورد الزام ٹھہرایا گیا کہ وہ اپارٹمنٹ نمبر 16 اے، 17 اور 17 اے سے پارک لین لندن کے مالک تھے اور یہ کہ یہ فلیٹس نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکال لمٹیڈ کے ملکیت تھے اور مزید انکو ہدایت کی گئی کہ انکی خرید قانونی طور پر کرنے کے وسائل انکے پاس نہ تھے۔ مزید یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے وسائل ثابت کرنے میں ناکام رہے، کہ کس طرح انہوں نے یہ اپارٹمنٹس خرید کئے تمام ملزمان نے فرد جرم کی صحت سے انکار کیا۔ فاضل عدالت نے نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 9 کا حوالہ دیتے ہوئے اس امر کی وضاحت کی کہ ہر وہ شخص جو کہ اپنے یا اپنے زیر کفالت افراد کے نام پر اپنے وسائل اور آمدن سے زائد اثاثہ جات حاصل کرے تو وہ دفعہ 9 اے آرڈیننس کے تحت جرم کا مرتکب ہو گا۔ مزید دفعہ 14 (سی) آرڈیننس ہذا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہر شخص جس کے اثاثہ جات اس کی آمدن سے زائد ہیں اگر اس کی وصاحت نہ کر سکے تو وہ جرم کا مرتکب تصور ہو گا۔ آرٹیکل 122اور 129 قانون شہادت آرڈر 1984ء کا مزید حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے تحریر کیا کہ جب کوئی خاص واقعہ کسی شحص کے علم میں ہو تو پھر اس واقعہ کے ثابت کرنے کا بار ثبوت اسی شخص پر ہو گا۔

اپنے فیصلے میں فاضل جج نے بار ثبوت کے معیار کی بابت تحریر کیا کہ بار ثبوت تین قسم کا ہوتا ہے جس میں:
(i) حقائق زیادہ واضح ہوں یا
(ii) جرم کو بلا شک و شبہ ثابت کیا جائے یا
(iii) درمیانی راستہ یہ ہے کہ حقائق واضح ہوں اور مثبت شہادت موجود ہو۔

فاضل جج نے 2007ء ایم ایل ڈی کراچی صفحہ 210 حاکم علی زرداری بنام سرکار 2010ء ایس سی ایم آر 1697 محمد ہاشم بابر بنام سرکار کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی شحص کو جرم ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ کسی سرکاری منصب پر فائز تھا، اس کے معلوم ذرائع آمدن کیا تھے اور مزید یہ کہ اس کے اثاثہ جات اس کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھتے تھے۔ فاضل جج نے آرٹیکل (4) 2 قانون شہادت آرڈر کا حوالہ بھی دیا کہ شہادت دراصل واقعات ہوتے ہیں جو کہ صفحہ مثل پر آ جائیں تو یہ واقعات شہادت سے زیادہ وسعت رکھتے ہیں۔ ملزمان حسن نواز اور حسین نواز نے واضح موقف اختیار کیا کہ اپارٹمنٹس نیلسن انٹر پرائزز کے ملکیت تھے اور یہ کہ ان کمپنیوں کے حصص قطر کی شاہی فیملی نے ایک معاہدے کے تحت انکے حوالے کئے۔ استغاثہ کی جانب سے واجد ضیاء دوران شہادت بطور گواہ نمبر 16 پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے انگلینڈ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں خطوط تحریر کئے اور وہاں سے اپارٹمنٹس کی بابت تفصیلات حاصل کیں۔ مزید برآں ظاہر شاہ ڈائریکٹر جنرل آپریشن نیب استغاثہ کے گواہ نمبر 17 پیش ہوئے اور انہوں نے وہ دستاویزات پیش کیں جو کہ عثمان نامی شخص نے حوالے کی تھیں، اگرچہ فاضل جج نے فیصلے میں یہ تحریر کیا کہ ملزمان کی جانب سے اس امر پر اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ دستاویزات پیش کردہ قابل ادخال شہادت نہ تھیں، کیونکہ نہ تو عثمان نامی شخص پیش ہوا نہ ہی دستاویزات پیش کردہ کسی بھی ادارے کی تصدیق شدہ تھیں۔ تاہم فاضل جج نے اعتراضات اس بنیاد پر مسترد کئے کہ چونکہ استغاثہ کا گواہ نمبر 17 اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھے اور انہوں نے برحلف بیان دیا تھا لہٰذا ان سے جھوٹ کی توقع نہ کی جا سکتی تھی۔

مزید برآں فاضل جج نے دفعہ 21 (بی) نیب آرڈیننس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی دستاویز جو کہ کسی غیر ملک سے پاکستان منتقل ہو، دوران شہادت پیش کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا اعتراضات ملزمان مسترد کر دیئے گئے۔ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے لکھا کہ فلیٹ نمبر 16، 31 جولائی 1995ء کو نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ کی ملکیت تھا، جبکہ فلیٹ نمبر 16 اسے بھی تاریخ مذکورہ پر اسی کمپنی کی ملکیت تھا جبکہ فلیٹ نمبر 17 مورخہ یکم جون 1993ء اور فلیٹ نمبر 17 اسے 23 جولائی 1996ء کو نیلسن کمپنی کی ملکیت میں آیا دیگر دستاویزات جو کہ استغاثہ کے گواہ نمبر 16 نے پیش کی لیکن ان سب کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے اپارٹمنٹس کی ملکیت کے بارے میں صفحہ نمبر 152 پر بتایا کہ یہ کس کی ملکیت تھیں اور مزید یہ لکھا کہ یہ نیلسن انٹرپرائزز کی ملکیت 1993ء اور 1996ء میں مکمل طور پر بن گئیں۔ واجد ضیاء کے بیان کا مزید حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے ایف آئی اے کے جاری کردہ ایک خط کا حوالہ دیا جو کہ بطور استغاثہ کے ثبوت نمبر 48 پیش کیا گیا۔ واجد ضیاء نے دوران شہادت ایف آئی اے کے خط مورخہ 12 جون 2012ء کا حوالہ دیا جو کہ موزیک فونیسکا سے متعلق تھا اور فرم مذکورہ سے اس امر کی وضاحت طلب کی گئی تھی کہ نیلسن کمپنی کا اصل مفاد اٹھانے والا کون تھا اور یہ کہ اس فرم نے یہ تحریر کیا کہ مریم صفدر نیلسن کمپنی کی مفاد کنندہ تھیں، مختلف اعتراضات ملزمان کی جانب سے اٹھائے گئے مگر فاضل جج نے ان کو مسترد کر دیا۔ فیصلے میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کی تردید میں کوئی ثبوت یا دستاویز پیش نہ کر سکیں اور یہ کہ دستاویزات ازاں استغاثہ ملزمہ مریم صفدر کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔

فاضل جج نے واضح طور پر تحریر کیا کہ غیر ملکی کمپنیاں جنت میں بنائی گئی تھیں تاکہ اس کے پیچھے چھپائے جا سکیں اور یہ کہ ان سے پردہ ہٹانا بہت مشکل تھا۔ مزید برآں فاضل جج نے اسسٹنٹ جنرل منیجر سامبا جو کہ مناروا کا ایک فنانشل گروپ ہے کے خط مورخہ 3 دسمبر 2005ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس خط کی رو سے مریم صفدر ان کی کسٹمر تھیں اور اس نے سرور پیلس جدہ کا ایڈریس دیا تھا اور مزید یہ کہ خط مذکور ملزمہ کی گناہگاری مکمل طور پر ثابت کرتا تھا۔ فاضل جج نے گواہ نمبر 16 کی جانب سے پیش کردہ تیتمہ بیانات ملزمان کا حوالہ بھی دیا جن کے مطابق گلف سٹیل فیکٹری ملزم نواز شریف کے والد محمد شریف نے 1974ء میں بنائی جس کو طارق شفیع ظاہری طور پر چلاتا تھا۔ اصل مالک محمد شریف اور مزید یہ کہ اس کمپنی کے 75 فیصد حصص 21 ملین ابوظہبی درہم کے عوض فروخت کئے گئے جو کہ بی سی سی آئی کو اپنے قرض کی واپسی کے لئے دیئے گئے اور مزید یہ کہ ایک دیگر معاہدہ عبداللہ آہلی کے ساتھ کیا گیا جو کہ 75 فیصد کا مالک بنا جبکہ طارق شفیع 25 فیصد کا مالک بنا اور ایک نئی کمپنی آہلی سٹیل ملز کے نام سے قائم کی گئی۔ 1980ء میں طارق شفیع نے محمد شریف کی ایماء پر 12ملین درہم کے عوـض 25فیصد حصص فروحت کئے جو کہ قطر رائل فیملی میں انویسٹ کئے گئے اور یہ کہ رائل فیملی قطر نے نیلسن کمپنی کے نام پر اپارٹمنٹس خریدے جن میں ملزمان حسین اور حسن نواز رہائش پذیر رہے۔ سال 2006ء میں حسین نواز اور قطر کے رائل شہزادے کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کی رو سے وہ اپارٹمنٹس کا مالک بن گیا اور اس کا طریقہ کار یہ بنا رکھا گیا کہ حسین نواز کمپنی کے شیئر کا مالک بنایا گیا۔

فاضل جج نے تیتمہ بیان پر اٹھائے گئے اعتراضات ملزمان جو کہ اس بنیاد پر کئے گئے تھے کہ گواہ استغاثہ نمبر 16 دستاویز کا تحریر کنندہ نہ تھا کہ قانون شہادت کے آرٹیکل نمبر 76کا حوالہ دیکر مسترد کر دیا اور تحریر فرما کر بطور ثانوی ثبوت دستاویز مذکور قابل ادخال شہادت ہیں۔ فاضل جج نے آرٹیکل 89 اور 77 کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ثانوی شہادت قابل ادخال شہادت تھیں اور اس کے لئے اس دستاویز کو پیش کرایا جانا ضروری نہ تھا ۔ فاصل عدالت نے حسین نواز کے اس موقف کہ 12 ملین درہم قطر شاہی فیملی میں انویسٹ کئے گئے کو بعیدازقیاس تصور کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم نے حماد بن حاثم التہانی جو کہ قطر کی شاہی فیملی کا فرد ہے، کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی، لیکن اس نے تعاون نہ کیا اور چونکہ ملزم نے بھی کوئی تحرک نہ کیا، لہذا استـغاثہ جرم ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔ فیصلے میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بابت پیش کردہ سی ڈی/ڈی وی ڈی کا ذکر کیا گیا جو کہ مختلف انٹرویوز کی بابت تھیں، جن میں اپارٹمنٹس کی بابت مختلف موقف اختیار کئے گئے تھے اور جو سوالات ملزمان سے انکی بابت کئے گئے انکے جوابات کا حوالہ بھی فیصلے میں دیا گیا، جس میں ملزم نواز شریف واضح طور پر سی ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے دبئی فیکٹری کی کسی بھی ڈیل میں شرکت نہ کی اور انہوں نے قوم سے اپنے خطاب میں کبھی بھی اپارٹمنٹس کی ملکیت تسلیم نہ کی تھی اور یہ کہ ملزم نے نیسکال اور نیلسن کمپنی کی ملکیت سے بھی مکمل طور پر انکار کیا۔ حسین نواز کے انٹرویوز کی بابت ملزم نواز شریف سے مختلف سوالات کئے گئے تاہم انہوں نے صریحاََ انکار کرتے ہوئے کہاکہ ان چیزوں کاان سے کوئی تعلق نہ تھا اور کسی طور پر کمپنیوں اور انکی جائیداد کی خریداری میں شریک نہ رہے۔

فاضل جج نے اس امر کی بھی وضاحت دی کہ ملزم نے یہ کہا تھا کہ تمام کمپنیاں حسین نواز اورآف شور کمپنی سینکال کی ملکیت تھیں، جبکہ ملزم نوازشریف کا ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ فاضل جج نے یہ بھی تحریر کیاکہ مریم صفدر، حسین نواز اور حسن نواز کی جائیداد کی تفصیلات جوکہ تحقیقاتی ٹیم نے پیش کیں، انکے انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس بیان سے مطابقت نہ رکھتی تھیں۔ فاضل جج نے برٹش ورجن آئی لینڈ کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ انٹرنیشنل بزنس کمپنیز ایکٹ 1984ء کی رو سے کوئی بھی شخص مفاد اٹھانے والی مالکانہ حیثیت میں جائیداد رکھ سکتا تھا اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی قابض ہے، وہ مالک ہے فاضل جج نے تحریر کیا کہ 2006ء میں قوانین تبدیل ہوئے، جسکی وجہ سے حصص کو رجسٹر کرایاگیا اور مریم صفدر انکی مفاد گریندہ بنی۔ فاضل جج نے التوفیق کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مفاد گریندہ کی حیثیت کو ثابت کرنا بہت مشکل تھا۔ فاضل جج نے تحریر کیا کہ اگرچہ ملزم نواز شریف نے اپنے آپ کو تمام جائیداد ہائے سے لاتعلق ظاہر کیا، مگر شہادت سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ چونکہ حسن نواز نے مختلف کمپنیوں کے نام پر قرضے حاصل کئے، جن میں ملزم نواز شریف ملازم تھا، لہٰذا محض ملزم کے بیان کی روشنی میں اس کو بری الذمہ قرار نہ دیا جا سکتا ہے۔

فاضل جج نے اس امر کا بھی حوالہ دیا کہ ملزم نے سوال نامے کا جواب جو کہ نیب کی طرف سے جاری کیا گیا تھا، داخل نہ کیا تھا اور حسین نواز، مریم نواز اور حسن نواز کی عمریں 1993ء میں بالتریب 18،20 اور 16 سال تھیں اور جو کہ طالب علم تھے، وہ اپارٹمنٹس خرید نہ سکتے تھے اور چونکہ ملزم نواز شریف خریداری کے ٹائم کے دوران وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہے، لہٰذا وہ جرم میں ملوث تھے اور اس طور جرم ثابت ہو چکا تھا۔ فاضل جج نے اس امر پر زور دیا کہ 1993-95-96ء میں ملزم کے بچے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ وہ جائیداد خرید کر سکیں، لہٰذا ملزم ہی ذمہ دار تھا۔ فاضل جج نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے مکمل طور پر جرم ثابت کر دیا تھا۔ فاضل جج نے تحریر کیا کہ چونکہ ملزم نواز شریف اقتدار میں تھے لہٰذا اس کا ناجائز فائدہ ان کے بچوں نے اٹھایا اور اس طور ملزم کا جرم ثابت ہو گیا تھا اور مریم صفدر کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے تحریر کیا کہ جو دستاویزات انہوں نے پیش کیں، وہ بوگس تھیں اور اس طور وہ جائیداد کو چھپانے میں ذمہ دار تھیں ان حالات و واقعات کی روشنی میں ملزم نواز شریف کو دس سال قید بامشقت اور 8 ملین پائونڈ جرمانے کی سزا، جبکہ ملزمہ مریم صفدر کو 7 سال قید بامشقت اور دو ملین پائونڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ محمد صفدر ملزم کے حوالے سے تحریر کیا گیا، چونکہ وہ جرم کی سازش میں شریک ہے، لہٰذا ان کو ایک سال قید بامشقت کی سزا دی گئی اور جائیداد ہائے بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا۔ مزید برآں ملزمان کو دس سال تک الیکشن لڑنے سے بھی نااہل قرار دے دیا۔
ختم شد۔
خبر کا کوڈ : 738002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش