0
Friday 17 Aug 2018 11:29

نون لیگ کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پنجاب کس کا ہوگا

نون لیگ کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پنجاب کس کا ہوگا
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پنجاب نون لیگ کو قلعہ شمار ہوتا تھا، لیکن اب یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ نون لیگ نواز شریف اور شہباز شریف گروپ میں بٹ چکی ہے، مستقبل میں نون لیگ میں باقاعدہ فارورڈ بلاک سامنے آجائے گا۔ جیسا کہ صوبائی اسمبلی اسپیکر کے انتخاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرویز الٰہی اسپیکر شپ کیلئے پنجاب اسمبلی نہیں گئے، بلکہ وہ نون لیگ میں فارورڈ بلاک بنا کر مستقبل میں وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں، پنجاب میں جو بھی وزیراعلیٰ بنے گا پرویز الٰہی اس سے زیادہ بااختیار ہوں گے۔ بعض مبصرین کا خٰال ہے کہ پنجاب اسمبلی میں نون لیگ کے ارکان کو ٹوٹنا ہی تھا، کیونکہ پنجاب نے ہمیشہ فاتح کا ساتھ دیا ہے، اسپیکر کے انتخاب میں جہانگیر ترین کا جہاز اور چوہدری سرور کی لابنگ کے ساتھ چوہدری برادران کے اثر و رسوخ نے بھی کام کیا ہے، نون لیگ میں ویسے بھی بہت سے لوگ حمزہ شہباز سے ناخوش تھے۔ الیکشن میں بھی صوبے میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن پہلے کی نسبت بدلی ہے۔ ملکی سیاست میں صوبہ پنجاب کو عام انتخابات میں ہمیشہ سے ہی کلیدی کردار حاصل رہا ہے۔ اس صوبہ میں نو ڈویژنز، 36 اضلاع اور بنیادی طور پر اسے تین حصوں، پوٹھو ہار، سینٹرل پنجاب، جنوبی پنجاب میں تقسیم کیاجا سکتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 148 نشستیں تھیں، جو سات نشستوں کی کمی کیساتھ اب 141 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 297 سیٹیں ہیں۔

پنجابی ووٹرز کا الیکٹورل رجحان برادری، دھڑے بندی اور سیاسی ہوا کے گرد گھومتا ہے۔ معروف سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے بقول پنجابی ووٹر کبوتر کی طرح بنیرے یا دیوار پر بیٹھا رہتا ہے اور جہاں دانے دنکے کی بہار دیکھتا ہے ادھر اڑ جاتا ہے۔ یہاں کا رائے دہندہ بھی باقی صوبوں کی طرح اپنا ووٹ ممکنہ طور پر پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو دیتا ہے اور یہ تاثر بھی عام ہے کہ اگر امیدوار کامیاب نہ ہو تو ووٹر اپنا ووٹ ضائع سمجھتا ہے۔ اسی لئے پنجاب میں تیسری پارٹی کا تصور مقبول نہیں ہوسکا. یہاں نظریاتی ووٹرز کے ساتھ ساتھ مذہبی رجحان رکھنے والا ووٹر بھی موجود ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں دیکھا جائے تو مذہبی اور ہوائی ووٹرز کا فیصلہ ایک تھا اور عام طور پر ان کا امیدوار بھی مشترکہ تھا، جبکہ حالیہ انتخابات میں اس کے برعکس صورتحال دیکھنے میں آئی۔ اس بار مذہبی اور سیاسی کومٹمنٹ نہ رکھنے والے ہوائی ووٹرز نے جہاں اپنا امیدوار الگ کرلیا، وہیں اس کا نقصان ماضی کے مشترکہ امیدواروں کو ہوا، جو پہلے ان کے ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو جاتے تھے۔

2018ء کے الیکشن میں دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی ہے۔ اس بار کی پارٹی پوزیشن کے مطابق پی ٹی آئی سب سے زیادہ 61 نشستیں لیکر پہلے، ن لیگ 60 نشستیں لیکر دوسرے، جبکہ پیپلز پارٹی 6 نشستوں کیساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ (ق) لیگ چار، عوامی مسلم لیگ ایک جبکہ سات آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ دو نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے۔ 2013ء میں نون لیگ 133 نشستوں کیساتھ پہلے، پی ٹی آئی پانچ نشستیں لیکر دوسرے اور پیپلزپارٹی تین سیٹیں حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہی۔ (ق) لیگ2، عوامی مسلم لیگ اور مسلم لیگ ضیاء ایک، ایک جبکہ تین آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ دونوں انتخابات کا تقابل کیاجائے تو نون لیگ اپنی 55 فیصد نشستیں کھوچکی ہے، جبکہ تحریک انصاف نے پانچ کے مقابلے میں اب 61 نشستیں حیران کن (1200فیصد اضافہ کسیاتھ) حاصل کیں۔ پی پی پی نے 3 کے مقابلے میں 6 جبکہ (ق) لیگ نے بھی 2 کے مقابلے میں 4 نشستیں حاصل کیں۔ یعنی دونوں نے کم ہی سہی، مگر اپنی نشستیں دوگنا کرلیں۔

اسی طرح اگر ووٹوں کا تقابل کیاجائے تو حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی صوبہ پنجاب سے سب سے زیادہ ایک کروڑ 17لاکھ 9ہزار 358 ووٹوں کیساتھ پہلے، نون لیگ ایک کروڑ 13 لاکھ 97ہزار 541 دوسرے، جبکہ پیپلزپارٹی 22 لاکھ 19 ہزار 664 ووٹوں کیساتھ تیسری سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ تحریک لبیک پاکستان نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا اور صرف پنجاب سے   16لاکھ90 ہزار ووٹ حاصل کئے۔ 2013ء میںن لیگ ایک کروڑ11 لاکھ ووٹ لیکر پہلے، پی ٹی آئی 45لاکھ 3ہزار 73ووٹوں کیساتھ دوسرے اور پی پی پی 25لاکھ 18ہزار924 تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ق لیگ نے 16لاکھ 88 ہزار 985ووٹ حاصل کئے۔ دونوں عام انتخابات کاجائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف نے اپنے ووٹوں میں قریباً150فیصد اضافہ کیا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ بظاہر ن لیگ کے ووٹوں میں ماضی کے مقابلے میں صرف دو لاکھ کی معمولی کمی ہوئی لیکن ان کی نشستوں میں 55فیصد کمی ہوئی۔ اس کمی میں نئی مذہبی جماعتوں اور ووٹر لسٹوں میں نئے ووٹرز کا شامل ہونا اہم ہے۔ پی پی پی کے ووٹوں میں 2013ء کے الیکشن کے مقابلے میں تین لاکھ کی کمی ہوئی لیکن ان کی نشستوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔ ق لیگ نے 2013ء میں 16لاکھ ووٹ حاصل کرکے صرف دونشستیں حاصل کیں جبکہ حالیہ انتخابات میں صرف 5لاکھ 17ہزار 403 ووٹ لیکر ق نشستیں لیکر کامیاب ہوئی۔

نون لیگ کی پنجاب میں کم نشستوں اور تحریک انصاف کی پہلے سے زیادہ اور حیران کن کامیابی کی وجوہات میں نواز شریف اور ان کی جماعت کیخلاف عدالتی فیصلوں، انتخابی گھوڑوں (Electables) کا وفاداریاں بدلنا اور سب سے بڑھ کر یہ تصور کہ اب نون لیگ کی حکومت نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت آئے گی، نے ووٹوں کے رجحانات کو یکسر تبدیل کردیا اور تحریک انصاف میں 150 فیصد ووٹوں کا اضافہ کیا، لیکن اس اضافے نے تحریک انصاف کو کرسی اقتدار پر بٹھا دیا۔ پوٹھوہار تحریک انصاف کا غلبہ اور نون لیگ کا صفایا پوٹھوہار ریجن راولپنڈی ڈویژن، چار اضلاع (راولپنڈی، اٹک ،جہلم اور چکوال) قومی اسمبلی کے 13 اور صوبائی اسمبلی کے 27حلقوں پر مشتمل ہے۔ 2013ء میں یہاں قومی اسمبلی کی14 نشستیں تھیں جو اب13 ہیں۔پچھلے تین جنرل الیکشنز کا جائزہ لیا جائے تو اسے نون لیگ کا گڑھ کہلانے کا مستحق تھا۔ حالیہ انتخابات میں نون لیگ کو یہاں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ الیکشن نتائج کے مطابق تحریک انصاف 9،پی پی پی ،عوامی مسلم لیگ اور ق لیگ نے ایک، ایک نشست حاصل کی۔ ایک نشست پر انتخابات نہیں ہو سکے۔ 2013ء میں نون لیگ یہاں سے 10 نشستوں کیساتھ پہلے، پی ٹی آئی 2 نشستوں کیساتھ دوسرے، جبکہ عوامی مسلم لیگ ایک اور ایک آزاد ایم این اے منتخب ہوا۔ نون لیگ جو ماضی میں یہاں حکمران رہی، اب کی بار پوٹھو ہار کی ایک بھی نشست حاصل نہیں کر سکی۔

پی ٹی آئی نے یہاں سے کلین سویپ کیا اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر اس علاقے پر فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ انتخابات میں پی ٹی آئی11 لاکھ 97ہزار 29 ووٹوں کیساتھ سر فہرست رہی۔ نون لیگ 9لاکھ 26ہزار 176 ووٹوں کیساتھ دوسرے، پیپلزپارٹی 2لاکھ 33 ہزار 917  ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہی۔ قابل ذکر بات ہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے 2لاکھ 64ہزار 873 ووٹ لئے۔ اٹک اور راولپنڈی تحریک لبیک کے مضبوط گڑھ تصور ہوتے ہیں، علامہ خادم حسین رضوی کا تعلق ضلع اٹک سے ہے، جبکہ ممتاز قادری راولپنڈی کے رہائشی تھے۔ 2013ء میں یہاں سے نون لیگ نے 13لاکھ 78ہزار 842  ووٹ لئے۔ تحریک انصاف 7لاکھ 80ہزار 935 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن جبکہ (ق) لیگ 2لاکھ 14ہزار 153 ووٹوں کیساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔ دونوں انتخابات میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پوٹھو ہار کے علاقہ میں تحریک انصاف کے ووٹوں میں قریباً 5 لاکھ کا اضافہ ہوا اور وہ ن لیگ کے قلعہ سے اس کی تمام نشستیں لے اڑی۔ اسی طرح ن لیگ کے ووٹوں میں قریباً چار لاکھ کی کمی ہوئی لیکن وہ ایک بھی نشست پر کامیاب نہیں ہوسکی ۔اس ریجن میں ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے ووٹوں میں قابل ذکر کمی بیشی نہیں ہوئی۔

مسلم لیگ کی طاقت کا مرکز وسطی پنجاب پانچ ڈویژنز،بشمول لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا اور ساہیوال کے 21 اضلاع، قومی اسمبلی کے 82 اور صوبائی اسمبلی کے 175 حلقوں پر مشتمل ہے۔ 2013ء میں یہاں قومی اسمبلی کی 91 سیٹیں تھیں، جو عام انتخابات 2018ء میں نو نشستوں کی کمی کے ساتھ 82 رہ گئی ہیں۔ آبادی کی اصل تقسیم برادریوں کی بنیا د پر ہے، چوہدری، وڑائچ،جٹ، آرائیں، بٹ، ملک اور گجر بڑی برداریاں سمجھی جاتی ہیں ۔ شرع خواندگی کا تناسب 45 فیصد تک ہے جب کہ دیہی اور شہری آبادی کا باہمی تناسب بھی کم و بیش برابر ہی ہے۔پانچ دریاوں کے سنگم میں پھیلا ہوا یہ میدانی علاقہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیاء میں اپنی زرخیزی کے لئے مشہور ہے اور اسی بنا پر لوگوں کی اکثریت کا زریعہ معاش زراعت پر منحصر ہے ۔قیام پاکستان کے بعد صنعتوں نے بھی ترقی کی اور فیصل آباد، سیالکوٹ اور لاہور میں بڑے بڑے کارخانے لاکھوں لوگوں کے روزگار کا زریعہ بنے۔اس علاقے کاسب سے بڑا طرع امتیاز یہ ہے کہ انگریزوں کے دور سے لیکر آج تک مسلح افوج کی افرادی قوت کا بڑا حصہ بھی اسی علاقے سےلیا جاتا ہے ۔مجموعی طور وسطی پنجاب کے لوگوں کا معیار پاکستان کے دیگر تمام علاقوں سے بلند ہے۔ لوگ قدرے تعلیم یافتہ ، خوشحال ، مذہبی لحاظ سے متحرک اور سیاسی اعتبار سے آزاد ہیں۔

مذہبی رجحان بھی اہم ہے، وسطی پنجاب کے اس خطے میں کبھی جماعت احمدیہ نے سر اٹھایا، تو کبھی مجلس احرار ختم نبوت کا مشن لیکر میدان میں آئی، کبھی عیسائی مشینریوں کا زور ہوا تو کبھی تبلیغی جماعت نے جنم لیا اور کبھی کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کا راج چلا تو کبھی جماعت اسلامی کا دھرنا دیکھا گیا۔ غرض پچھلی ڈیڑھ صدی سے وسطی پنجاب میں ایک ہنگامہ برپا رہا ہے اور کچھ خبر نہیں کہ گردش ایام کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ اگر پاکستان کی سیاست کو دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم کیا جائے تو پنجاب کے ان اضلاع میں یہ نظریاتی تقسیم بھی اپنے نقطہ عروج پر نظر آتی ہے، البتہ انتخابی لڑائی میں ماسوائے 1970ء اور 1988ء کے مجموعی طور پر دائیں بازو کا پلڑا ہی ہمیشہ بھاری نظر آیا ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں اسلامی سوشلزم کے نعرے کی بدولت ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ناقابل تسخر ثابت ہوئی اور ان تیرہ کی اضلاع کی تمام نشستیں جیت لیں۔ بھٹو بلاشبہ ایک بڑے لیڈر تھے، لیکن انکی پھانسی نے انکو ایسا امر کیا کہ 1977ء سے لیکر 2008ء تک ہر انتخابات میں بھٹو اور بھٹو مخالف فیکٹر آمنے سامنے ہوتے تھے ۔ لیکن اب انتخابات تاریخ کا دھارا بدلنے جارہا ہے، کیونکہ پہلی بار انتخابی مہم میں بھٹو کا نام کہیں نظر نہیں آرہا ہے اور اگر کسی نعرے کی دھوم ہے تو وہ تبدیلی کے کے نعر ے کی ہے۔

تمام سیاسی تجزیہ نگار متفق ہیں کہ وسطی پنجاب میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہورہا ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی اپنی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر فی الواقعہ مقابلے سے باہر ہے۔انتخابی مہم میں نواز شریف کے پاس شہباز شریف کے پراجیکٹس ہیں اور عمران خان کے پاس تبدیلی کا نعرہ۔ گزشتہ انتخابات نون لیگ کے مرکز میں حکومت بنانے میں سب سے اہم کردار سینٹرل پنجاب کی نشستوں کا رہا۔ 2018ء کے نتائج کے مطابق نون لیگ مجموعی طور پر الیکشن میں دوسری پوزیشن پر آنے کے بعد بھی اس ریجن میں اکثریتی پارٹی کے طورپر سامنے آئی ہے۔ وسطی پنجاب میں نون لیگ 49 نشستوں کے ساتھ سر فہرست، پی ٹی آئی 28 سیٹیں لیکر دوسرے، جبکہ دو (ق) لیگ اور دو آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے۔ ایک نشست پر انتخابات نہیں ہو سکے۔ 2013ء میں صورتحال یکسر مختلف تھی اور تصور نہیں کیا جاسکتا تھا کہ 91 میں سے 88 نشستیں لینے والی سیاسی جماعت اگلے الیکشن میں مضبوط اپوزیشن بن کر سامنے آئے گی۔ 2013ء پی ٹی آ ئی پورے وسطی پنجاب سے صرف 2 سیٹیں لے پائی تھی، جبکہ (ق) لیگ ایک نشست پر کامیاب ہوسکی تھی۔ 2008ء میں بھی نون لیگ کے 48، پیپلزپارٹی کے 26، (ق) لیگ کے 14 اور تین آزاد امیدوار قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔

2013ء میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی اب سینٹرل پنجاب سے بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ماسوائے راجہ پرویز اشرف کی نشست کے کہیں اچھا مقابلہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ 2013ء کی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز دوبار 2008ء کی پوزیشن میں پہنچ چکی ہے۔ 2008ء میں نون لیگ کی 48 نشستیں تھیں اور 2018ء میں 49 سیٹیں ہیں۔ تحریک انصاف کو حوصلہ افزا کامیابی ملی ہے، جو گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں حیران کن ہے۔ موجودہ الیکشن میں پی ٹی آئی 70 لاکھ 24 ہزار لیکر سر فہرست رہی، جبکہ 2013ء میں پی ٹی آئی کے ووٹوں کی تعداد 21 لاکھ 81 ہزار 843 تھی۔ تحریک انصاف نے 50 لاکھ اضافی ووٹ حاصل کئے۔ وسطی پنجاب میں نون لیگ کے 2013ء کے مقابلے میں 17 لاکھ ووٹوں کا اضافہ ہوا، لیکن انکی نشستوں میں 39 سیٹوں کی کمی ہوئی۔ 2018ء میں نون لیگ کے ووٹوں کی تعداد 78 لاکھ 29 ہزار 650 ہے، جبکہ 2013ء میں یہ تعداد 61 لاکھ 49 ہزار 504 تھی۔ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں کوئی قابل ذکر اضافہ یا کمی نہیں ہوئی۔ اس بار مذہبی ووٹ بینک نے بھی اس ریجن سے اچھی تعداد میں ووٹ حاصل کئے۔ تحریک لبیک پاکستان نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا اور وسطی پنجاب 11 لاکھ 9 ہزار 374 ووٹ حاصل کئے۔

جنوبی محاز کی تشکیل کے بعد نہ صرف جنوبی پنجاب کی اہمیت میںمزید اضافہ ہوا، بلکہ تحریک انصاف کی کامیابی کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ جنوبی پنجاب کے انتخابی گھوڑے ہمیشہ سے حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرتے نظرآئے ہیں۔ اس ریجن میں موجودہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹوں میں ماضی کی نسبت 19 لاکھ کا اضافہ ہو جبکہ مسلم لیگ نون کے ووٹوں میں 9 لاکھ کی کمی واقع ہوئی۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں 3 لاکھ کی کمی ہوئی مگر نشستیں بڑھ گئیں۔ ریجن جنوبی پنجاب 3 ڈویژنز اور 11 اضلاع پر مشتمل ہے، جسکی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 46 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 95 ہے۔ اس ریجن میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی وصوبائی اسمبلی کی 3،3 نشستوں کا اضافہ ہوا۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 43 سے بڑھ کر 46 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 92 سے بڑھ کر 95 ہوگئی ہے۔ 2018ء انتخاب کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے 34 لاکھ 88 ہزار 250 ووٹ حاصل کئے اور اسکی حاصل کردہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 24 ہے۔ ماضی کی نسبت تحریک انصاف کے ووٹوں میں قریباً 19 لاکھ اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں 23 سیٹوں کا اضافہ ہوا۔

مسلم لیگ نون کی نشستوں کی تعداد 11 ہے اور حاصل کردہ ووٹ 26 لاکھ 31ہزار 760 ہے۔ پیپلزپارٹی نے 11 لاکھ 83 ہزار 605 حاصل کئے اور حاصل کردہ نشستوں کی تعداد 5 ہے۔ آزاد حیثیت سے میدان میں اترنے والے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 5 نشستیں حاصل کی، جبکہ (ق) لیگ صرف 1نشست حاصل کرسکی۔ پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت تحریک لبیک گو کہ کوئی نشست حاصل نہ کر پائی، لیکن یہاں کافی تعداد میں ووٹوں حاصل کرنے میں کامیاب نظر آئی۔ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح جنوبی پنجاب میں بہت سے برج الٹ گئے۔ ان امیدواروں میں وہ امیدوار بھی شامل ہیں کہ جن کی شکست کا اندازہ تک نہیں لگایا جاسکتا، لیکن عوامی رائے نے انہیں مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ جنوبی پنجاب کا ایک بڑا اپ سیٹ کھوسہ قبیلہ کے سردار، ذوالفقار خان کھوسہ جو پاکستان کے سب سے عمر رسیدہ امیدوار تھے، انکو پہلے کامیاب قرار دیا گیا، لیکن دوبارہ گنتی میں شکست کھا گئے، انہیں آزاد امیدوار جن کا تعلق کھوسہ قبیلہ سے ہی ہے، امجد فاروق کھوسہ نے شکست دی ہے۔ سردار ذوالفقار کھوسہ 1951ء سے پارلیمانی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں اور امجد فاروق کھوسہ ماضی میں ذوالفقار کھوسہ کے حلیف اور حریف دونوں رہے ہیں۔ اس بار سردار فاروق لغاری کے دونوں صاحب زادے سردار اویس لغاری اور سردار جمال لغاری اسمبلی میں جگہ بنا نے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف بھی شکست کا شکار ہوئے۔

2013ء میں مسلم لیگ نون حکمران جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کی واضح اکثریتی جماعت بھی تھی۔ نون لیگ کے ووٹوں کی تعداد 35 لاکھ 72 ہزار 960، جبکہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 24 تھی۔ 2018ء میں یہ تعداد 24 نشستوں کی کمی کے ساتھ 11 ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف نے 2013ء میں اس ریجن سے صرف 1نشست حاصل کی تھی اور اسکے ووٹوں کی تعداد  15 لاکھ 40 ہزار 295 تھی۔ پیپلزپارٹی نے گزشتہ انتخاب میں 14 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے اور نشستوں کی تعداد 3تھی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ موجودہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ووٹ گزشتہ انتخاب سے کم ہونے کے باوجود نشستوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جیسا کہ 2013ء میں پیپلزپارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 14 لاکھ  65 ہزار 509 جبکہ نشستوں کی تعداد 3 تھی۔ 2018ء میں ووٹوں کی تعداد کم ہو کر 11 لاکھ 83 ہزار 605، جبکہ نشستوں کی تعداد اضافہ کے ساتھ 5 ہو گئی ہے۔ المختصر موجودہ سیٹ اپ میں نون لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی۔ فارورڈ بلاک بننا پنجاب کی تاریخ ہے، انتخابات سے قبل بھی جنوبی صوبہ محاذ کی صورت نون لیگ میں فارورڈ بلاک بنا تھا، نون لیگ کے تمام بڑے رہنماء پنجاب اسمبلی چھوڑ کر قومی اسمبلی چلے گئے ہیں، اس صورتحال میں پرویز الٰہی اور چوہدری سرور کو لاکر تحریک انصاف نے ماسٹر اسٹروک کھیلا ہے، نون لیگ اپنی غلطیوں کی وجہ سے مزید کمزور ہوتی جائے گی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی تین گروپ ہوں گے، اس حکومت میں گورنر ہائوس، وزیراعلیٰ ہائوس اور اسپیکر ہائوس تینوں سرگرم ہوں گے، سرائیکی پنجاب صوبہ بن جاتا ہے تو پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئیں گے۔
 
خبر کا کوڈ : 745015
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش