0
Tuesday 4 Sep 2018 20:12

دفعہ 35 اے، قیادت کے باہمی روابط کی اشد ضرورت

دفعہ 35 اے، قیادت کے باہمی روابط کی اشد ضرورت
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر کے پشتینی باشندوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے بھارتی آئین میں کشمیر کو ’’دفعہ 370‘‘ اور ’’دفعہ 35 اے‘‘ کے تحت خصوصی درجہ دیکر چند اختیارات اور مخصوص مراعات دی گئیں ہیں، جس کا خالص مقصد بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل، ذات پات کشمیر کے شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے، لیکن اِن دفعات کو اب مذہبی اور علاقائی رنگت دے دی گئی ہے۔ یوں تو روز اول سے بھاجپا ’’ایک ودھان، ایک پردھان اور ایک نشان‘‘ کے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے، لیکن بطور خاص 2014ء میں بھارت کے اندر اقتدار میں آنے کے بعد دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے خلاف بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ملک گیر مہم شروع کی گئی۔ ان دفعات کی آئینی اور قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لئے غیر سرکاری تنظیموں اور چند حکومتی آلہ کاروں کے ذریعے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ اس وقت جموں و کشمیر میں دفعہ 35 اے پر بڑا وبال کھڑا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے لوگ یک زبان دفعہ 35 اے کے حق میں سراپا احتجاج ہیں، وہیں جموں میں اس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ جموں صوبہ کے کُل دس اضلاع ہیں، جن میں رہائش پذیر مجموعی طور پر چالیس فیصد مسلم آبادی کے ساتھ ساتھ ہندو اور سکھ طبقہ کا بھی ایک وسیع حلقہ اس خصوصی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔ چونکہ مجموعی طور اکثریتی آبادی جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ کا مکمل تحفظ چاہتی ہے، اس لئے اب جموں میں چند ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی سائیڈ لائن کرکے ’’ہندو کارڈ‘‘ کھیل کر ایک نیا ماحول اور نظریہ تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کو اسلامی ریاست بنایا جا رہا ہے اور اس عمل سے روکنا ہے۔

2015ء میں مرحوم مفتی محمد سعید نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی مخلوط حکومت کی تشکیل دونوں صوبوں کے درمیان نظریاتی طور پائی جا رہی خلیج کو ختم کرنے کے لئے کیا تھا لیکن موجودہ حالات سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خلیج مزید گہری ہوئی ہے۔ ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ ہندو طبقہ کے لوگوں کا بھارتیہ جنتا پارٹی سے اعتماد اُٹھ گیا ہے اور دیگر سخت گیر ہندو تنظیمیں جن میں شیو سینا، ویشو ہندو پریشد، بجرنگ دل وغیرہ جیسی تنظیمیں اپنی جگہ بنا رہی ہیں اور ایک سخت گیر ہندو سماج کی بنیاد ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو جموں میں صدیوں پرانے آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی رواداری کو نقصان پہنچے گا جو کہ کسی بھی طبقہ یا حلقہ کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔ حقیر سیاسی مفادات کی حصولی کے لئے مذہبی اور علاقائی دوریاں قائم کرنے والوں سے عوام کو باخبر رہنا چاہئیے اور ان عناصر سے کسی بھی حال میں خود کو بچائے رکھنا ہوگا۔

ابھی حالیہ دنوں بھارتی آئین کی دفعہ 35 اے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر کلیدی درخواست پر سماعت کے بارے میں پھیلی افواہ کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں جو کھلبلی مچ گئی ہے، وہ بھارتی حکومت اور بھارتی عوام کے لئے نہ صرف چشم کُشا ہے بلکہ انہیں اپنے اپنے طریقہ کار پر غور و خوض کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ صورتحال کا جائزہ لینے سے خاص طور پر دو اہم باتیں سامنے آتی ہیں، جن کا سنجیدہ فکر حکومتی و سماجی حلقوں کو نیک نیتی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئیے۔ معاملے پر سماعت کی افواہ کے نتیجہ میں کشمیر بھر میں جو فوری ردعمل ظاہر ہوا اس کے نتیجہ میں آناً فاناً بازار بند ہوگئے اور سڑکیں سنسان ہوگئیں جبکہ متعدد مقامات پر احتجاج اور جھڑپیں بھی ہوئیں، جس کے ردعمل میں قابض فورسز نے طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا اور نتیجتاً زخمیوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتالوں تک پہنچائی گئی۔

اس طرح یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مذکورہ معاملے پر عوامی سطح پر کس نوعیت کی جذباتی صورتحال بنی ہوئی ہے اور اگر اس دفعہ کو ہٹانے کی کوششیں کی گئیں، جیسا کہ کچھ حلقے بضد ہیں اور جنہیں بھارتی سطح پر حکمران طبقے کی طرف سے بھی حمایت مل رہی ہے، تو ظاہر بات ہے کہ یہ کشمیر کے طول و عرض میں تباہ کن صورتحال پیدا کرسکتی ہے، جو غالباً کسی سے سنبھالے بھی نہیں سنبھل سکتی۔ لہٰذا نئی دہلی کے اُن حلقوں کے لئے یہ چشم کشائی کا سبب ہونا چاہئیے، جو مختلف سیاسی اغراض کی بناء پر مقبوضہ کشمیر کو حاصل داخلی خودمختاری کو ہمیشہ نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔

اگرچہ سات دہائیوں کے دوران اٹانومی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں نئی دہلی کی کم و بیش تمام صاحب اقتدار سیاسی جماعتیں پیش پیش رہی ہیں، تاہم موجودہ مہم جوئی کا ایک الگ انداز ہے۔ اس کے ذریعہ نہ صرف کشمیر کی شناخت کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں بلکہ کشمیری عوام کے پشتینی حقوق کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ماضی میں حکمران کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں کا اگرچہ داخلی خودمختاری کو نقصان پہنچانے میں کلیدی رول رہا ہے، لیکن اس وقت پسپائی کی پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے اس کی مقامی قیادت دفعہ 35 اے کے دفاع میں پیش پیش ہے، جو یقینی طور پر خوش آئند ہے۔ ایسا ہی جموں کے اُن سماجی گروپوں کا حال بھی ہے، جو کبھی بھاجپا کے ہمراہ و ہمنوا رہے ہیں۔

گذشتہ ایام پیدا شدہ صورتحال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، جو فکر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ سنجید توجہ کا طالب ہے۔ خاص کر اُن سیاسی جماعتوں کے لئے جو اس صورتحال کے حوالے سے متحرک ہیں، کیونکہ ایک افواہ کی بنیاد پر حالات میں اس قدر خرابی پیدا ہونے کا مطلب قیادت کے درمیان باہمی روابط کا فقدان ظاہر کرتا ہے۔ فی الوقت جو جذباتی صورتحال بنی ہوئی ہے، اسے ایک منظم، معقول اور مؤثر سمت عطا کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں، خواہ وہ مین اسٹریم سے تعلق رکھتے ہوں یا مزاحمتی طبقے سے، کے درمیان مناسب روابط کی انتہائی ضرورت ہے، کیونکہ ایسی صورتحال میں منفی ذہنیت رکھنے والے مفاد پرست اور خود غرض عناصر کو منفی سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع میسر آتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی عمل اپنی متعینہ اور مقررہ ڈگر سے ہٹ جائے تو مجموعی طور پر اس سے جان و مال اور معیشت کے نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔

لہٰذا سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ الگ الگ راستے اختیار کرنے کی بجائے مشترکہ موقف اختیار کرکے ایک مشترکہ پروگرام سامنے لانے کی کوشش کریں، تاکہ مجموعی طور پر عوام کے جذبات کے ساتھ کسی کو کھلواڑ کرنے کا موقع نہ ملے۔ ایسی صورتحال میں مفاد پرست حلقے اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، جنہیں اگر موقع ملتا ہے تو وہ تمام افراد کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا موقع پیدا نہ ہونے دیا جائے، جس سے قابض قوتیں اپنی مکروہ عزائم میں کامیاب ہوتے دکھائی دیں۔
خبر کا کوڈ : 747964
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش