0
Wednesday 5 Sep 2018 17:03

امریکہ شام کے صوبے ادلب میں القاعدہ کو بچانے کیلئے سرگرم

امریکہ شام کے صوبے ادلب میں القاعدہ کو بچانے کیلئے سرگرم
تحریر: علی محمدی

امریکہ کی سربراہی میں مغربی ممالک نے شام کے شمالی صوبے ادلب میں دہشت گرد عناصر کے خلاف شام آرمی کا ممکنہ فوجی آپریشن رکوانے کیلئے بھرپور مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں رونما ہونے والے انسانی المیے سے پریشان ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کیلئے سرگرم شخصیات نے ان کا یہ دعوی مسترد کرتے ہوئے یہ سوال پیش کیا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک رقہ، غزہ یا یمن میں انسانی المیے رونما ہونے سے پریشان کیوں نہیں ہوتے؟ کیا وجہ ہے کہ مغربی حکام اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرتے کہ شام کا شمالی صوبہ ادلب القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد عناصر کے قبضے میں ہے؟ اور کیا وہ اپنی سرزمین کے کچھ حصے پر دہشت گرد عناصر کا قبضہ برداشت کر سکتے ہیں؟
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ روز اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر کمنٹ دیتے ہوئے لکھا: "صدر بشار اسد کو آسودہ خاطر ہو کر ادلب پر حملہ ور نہیں ہونا چاہئے۔ روسی اور ایرانی حکام اگر اس ممکنہ انسانی المیے میں شرکت کر رہے ہیں تو وہ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ شاید لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جائیں۔ ایسا ہونے کی اجازت نہ دیں۔" ادلب کا صوبہ شام کے شمال مغرب میں واقع ہے جو اس ملک میں سرگرم دہشت گرد عناصر کا آخری اور اہم ترین ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے۔ شام آرمی اور اس کی اتحادی قوتیں ملک کے اکثر علاقوں کو دہشت گرد عناصر کے قبضے سے آزاد کروانے کے بعد اب صوبہ ادلب اور ادلب شہر کو آزاد کرانے کیلئے وسیع آپریشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اگر شام آرمی ادلب کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو شام میں خانہ جنگی اختتام پذیر تصور کی جائے گی اور صرف ایسے علاقے شام حکومت کی رٹ سے باہر رہ جائیں گے جو غیر ملکی فورسز کے قبضے میں ہیں۔
 
گذشتہ چند روز کے دوران امریکہ کی سربراہی میں مغربی حکومتوں نے ادلب پر حکومتی رٹ دوبارہ قائم ہونے سے روکنے کیلئے وسیع پیمانے پر سفارتی اور میڈیا دباو ڈال رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹویٹر پر پیغام دینے کے بعد فرانس اور جرمنی کی وزارت خارجہ نے بھی الگ الگ بیانئے جاری کئے ہیں جس میں شام آرمی کے آپریشن کے نتیجے میں ادلب میں ممکنہ انسانی المیہ رونما ہونے کے بارے میں پریشانی کا اظہار کیا گیا ہے۔ فرانس کی وزارت خارجہ نے فرانس کے صدر ایمانویل میکرون کی جانب سے 27 اکتوبر کے دن دیئے گئے بیان کی طرف اشارہ بھی کیا جس میں انہوں نے کہا تھا: "فرانس کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اپنی ریڈ لائن کی حفاظت جاری رکھے گا اور اگر ان مہلک ہتھیاروں کا استعمال ثابت ہو گیا تو عملی اقدام انجام دے گا۔"
 
مغربی حکام کی جانب سے بار بار اس بات پر زور دینا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں انہیں شام کے خلاف فوجی کاروائی کا حق حاصل ہو گا اب ایک مستقل رویے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جب بھی شام آرمی کسی اہم فوجی کامیابی کے قریب ہوتی ہے مغربی ممالک شام میں فوجی مداخلت کیلئے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ سامنے لے آتے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں میں روس کئی بار یہ وارننگ دے چکا ہے کہ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ڈرامہ رچا کر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو شام میں فوجی مداخلت کا بہانہ فراہم کرنے کے درپے ہیں۔ دو دن پہلے کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کی نگران عالمی تنظیم "او پی سی ڈبلیو" میں روس کے مستقل نمائندے الیگزینڈر شالگین نے اس تنظیم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبہ ادلب میں دہشت گرد عناصر کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر مبنی اشتعال انگیز اقدامات سے متعلق رپورٹ کو نظرانداز نہ کرے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹر پیغام اور فرانس کی وزارت خارجہ کے بیانئے کے علاوہ جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی شام آرمی کے آپریشن کی صورت میں صوبہ ادلب میں ممکنہ انسانی المیہ رونما ہونے کے بارے میں پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے نارویجین ہم منصب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "میں آئندہ چند ہفتے میں اپنے ترکی دورے کے دوران ترک حکام سے ادلب کے مسئلے پر بات چیت کروں گا اور اس المیے کی روک تھام کیلئے مل کر بھرپور کوشش کرتے رہیں گے۔"
 
مغربی حکام کا یہ موقف عالمی سطح پر سیاسی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنا ہے۔ برطانیہ کے سابق انٹیلی جنس افسر اور دہشت گردی سے متعلق امور کے ماہر چارلز شی برج (Charles Sheobridge) اس بارے میں لکھتے ہیں: "وہی امریکہ جو موصل اور رقہ میں وسیع قتل عام اور نابودی کا باعث بنا ہے اور غزہ اور یمن میں جاری عام شہریوں کے قتل عام پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اب شام کو وارننگ دے رہا ہے کہ ادلب کو بے رحمانہ انداز میں باغیوں سے آزاد نہ کروائے۔ وہ باغی جن کے بارے میں حتی بی بی سی اس حقیقت کا اعتراف کرتی نظر آتی ہے کہ ان کی اکثریت القاعدہ سے وابستہ ہے۔"
 
اسی طرح شام کی صورتحال کی قریب سے رپورٹنگ کرنے والے جیوپولیٹیکل امور کے ماہر صحافی اور تجزیہ کار مرام سوسلے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوییٹ کے جواب میں لکھا: "امریکی صدر نے ادلب میں القاعدہ کی بھرپور حمایت کا اظہار کر دیا ہے۔" ادلب میں سرگرم اہم ترین دہشت گرد گروہ "تحریر الشام" ہے جو درحقیقت وہی النصرہ فرنٹ ہے جسے شام میں القاعدہ کی ذیلی شاخ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے نہ تو مغربی میڈیا اور نہ ہی مغربی حکام بیان نہیں کرنا چاہتے بلکہ الٹا "جنگجو"، "شامی باغیوں کا طاقتور ترین گروہ" اور "باغی" جیسے الفاظ استعمال کر کے اسے مزید چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں صوبہ ادلب میں خون کی نہریں جاری ہو جانے سے متعلق وارننگ دیتے ہوئے اس حقیقت پر پردہ پوشی کی کوشش کی کہ ادلب اس وقت القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد عناصر کے قبضے میں ہے۔ اس رپورٹ میں دہشت گرد عناصر کو "انسان پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف افراد" کا نام دیا گیا ہے۔
 
روسی نیوز ویب سائٹ رشیا ٹوڈے نے نیویارک ٹائمز کی جانب سے ادلب میں موجود دہشت گرد عناصر کو اچھے چہرے سے پیش کرنے کی کوشش کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے: "اخبار نیویارک ٹائمز آج نائن الیون حادثے کے 17 برس بعد ایسے کالم شائع کر رہا ہے جس میں القاعدہ کی جانب سے انسانی امداد فراہم کئے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں جبکہ یہ اخبار اس دہشت گرد گروہ کے پاس موجود کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کی طرف بالکل اشارہ نہیں کرتا۔" مغربی طاقتوں کے واویلے اور دھمکی آمیز بیانات کے باوجود گذشتہ دو روز سے شام آرمی اور اس کے اتحادیوں نے صوبہ ادلب کے مختلف حصوں میں دہشت گرد عناصر کے ٹھکانوں کو ہوائی حملوں اور گولہ باری کے ذریعے نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح روسی حکام نے ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ شام آرمی اور اس کے اتحادی ادلب کا مسئلہ حل کرنے کیلئے تیار ہیں۔
 
روسی صدر کے ترجمان دیمتری پسکوف نے دو دن پہلے کہا: "ادلب کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ شام آرمی اس کام کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ دہشت گرد عناصر سے درپیش خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے وارننگ دیتے رہنا شام کی صورتحال کے تناظر میں ایک ناقص پالیسی تصور کی جاتی ہے۔" انہوں نے اسی طرح ادلب میں موجود دہشت گردوں کو شام میں موجود روسی اڈے کیلئے بھی خطرناک قرار دیا اور کہا: "ادلب دہشت گرد عناصر کا گڑھ بن چکا ہے اور وہاں موجود حکومت مخالف گروہ صوبہ ادلب میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں جبکہ دہشت گردوں کے ڈرون طیاروں سے روسی فوجی اڈوں کو بھی خطرات درپیش ہیں۔"
خبر کا کوڈ : 748262
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش