3
0
Wednesday 10 Oct 2018 12:30

مہدویت بطورِ نظامِ حکومت

مہدویت بطورِ نظامِ حکومت
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

انسان ہمیشہ سے ایک بہترین نظام حکومت کی تلاش میں ہے، کبھی اس نے آمریت کو بہترین نظامِ حکومت جانا اور اس پر عمل پیرا ہوا، پھر اس نے بادشاہت کو منتخب کیا اور ایک بڑے عرصے تک اسے ہی بہترین نظام ِ حکومت سمجھتا رہا پھر اس نے جمہوریت کو اختیار کیا اور یہ دعوٰی کیا کہ یہ تو end of the history ہے، یعنی اس سے بہترین نظام ہو ہی نہیں سکتا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے لئے دینِ اسلام نے کس نظامِ حکومت کو مثالی قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ مبارک ہے، وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أنَّ الارضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ۔ اور البتہ تحقیق ہم ذکر (تورات) کے بعد زبور میں لکھ چکے ہیں کہ بےشک زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید سے پہلے والی کتابوں میں بھی خدا نے بنی نوعِ انسان سے وعدہ کیا ہے کہ زمین کے وارث اس کے نیک بندے ہی ہونگے۔ مقامِ فکر یہ ہے کہ ان نیک بندوں کو آیا خود بخود حکومت مل جائے گی یا انہیں کچھ کرنا بھی پڑے گا۔

چنانچہ دینِ اسلام کی معتبر کتابوں میں آیا ہے کہ اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ نہ رہ جائے تو بھی خداوندِ عالم اس ایک دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ حضور ﷺ کے اہل بیت سے ایک شخص مبعوث ہوگا کہ جس کا اسم گرامی نبی آخر الزماں ﷺ کا اسم ہی ہوگا اور وہ شخص زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کردے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی۔ مندرجہ بالا سطور سے پتہ چلتا ہے کہ دینِ اسلام انسانوں کو ایک ایسے انسان کا سراغ بتا رہا ہے، جس کی حکومت  قائم ہو کر رہے گی اور اس کی حکومت میں ہر طرف عدل  ہی عدل ہوگا۔ یقیناً ایک خوشحال اور عادل حکومت ہی ہر انسان کو پسند ہے اور  وہی حکومت انسان کے لئے بہترین حکومت ہے جس میں کسی پر کسی بھی قسم کا ظلم نہ ہو  اور ہر طرف عدل و انصاف کی حاکمیت ہو۔ سنن ترمذی میں ارشادِ نبوی ہے کہ یہ دنیا اپنے اختتام کو نہیں پہنچے گی مگر یہ کہ ایک مرد میرے اہلِ بیت سے عرب پر حکومت کرے گا، وہ میرا ہم نام ہو گا۔ سنن ابی داود میں ہے کہ "المهديّ من عترتي من ولد فاطمه"، مہدی ؑمیری آل میں سے اور فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے کہ امام مہدیؑ ، اہلِ بیت رسولﷺ سے ہونگے۔

مفہومِ مہدویت:
اس زمین پر حضور نبی اکرم ﷺ کی آل میں سے امام مہدی ؑ نامی  ایک شخص کی  عادلانہ اور مثالی حکومت کا قیام۔
مہدوی حکومت کے خدو خال:
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کی ایسی خصوصیات کیا ہونگی کہ جن کی وجہ سے لوگ اس کے شیدائی ہونگے اور عوام میں مقبولیت کے باعث وہ حکومت ایک مثالی حکومت کہلائے گی۔ اس حکومت کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہوگا کہ دیگر حکومتیں اس میں ضم ہوتی چلی جائیں گی۔
۱۔ اسلامی تعزیرات کا نفاذ:
اس حکومت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہوگی کہ اس حکومت میں مکمل طور پر اسلامی تعزیرات نافذ ہونگی اور کسی  کو نہ ہی تو چھوٹ دی جائے گی اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالٰی کے قائم کردہ قوانین کا بھرپور طریقے سے اجرا کیا جائے گا اور امام مہدیؑ لوگوں کو اپنے جد نبی اکرم ﷺ کی مانند دینِ اسلام کی طرف شفاف دعوت دیں گے اور دینِ اسلام کا نفاذ کریں گے۔

۲۔ ہر دلعزیز حکومت:
یہ حکومت مال و دولت والوں اور ثروت و طاقت والوں کی بجائے اسلامی اخلاق و اطوار والوں کی حکومت ہو گی، اس حکومت میں جو جتنا دیندار ہوگا وہ اتنا ہی عزت دار اور محترم شمار ہوگا۔ لوگوں میں عزت و وقار  کا پیمانہ دینداری اور اخلاق ہو گا۔ پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو قریش کے ایک فرد مہدیؑ کی بشارت دیتا ہوں کہ جس کی خلافت سے زمین و آسمان والے راضی ہونگے۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ کی ہی حدیث ہے کہ حضرت امام مہدیؑ کے قیام سے تمام اہلِ زمین و آسمان، پرندے، درندے اور سمندر کی مچھلیاں شاد و خوشحال ہونگی۔ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ میری امت کا ایک شخص قیام کرے گا جسے زمین و آسمان والے دوست رکھیں گے۔

۳۔ علم و آگاہی کا دور دورہ:
اس دور میں  طبقاتی نظامِ تعلیم نہیں ہوگا اور نہ ہی تعلیم پر چند خاندانوں کا قبضہ  نہیں ہوگا بلکہ تعلیم و شعور کی دولت عام ہو گی، عام انسانوں حتٰی کہ گھریلو خواتین کے فہم و شعور کی سطح بھی بہت بلند ہو گی اور لوگ اپنے علم و شعور کی بنیاد پر نظام زندگی اور معاشرتی تعلقات کو استوار کریں گے۔ ہر طرف علم و حکمت کے چشمے جاری ہونگے اور مکار اور شعبدہ باز افراد لوگوں کی جہالت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔

۴۔ زمین کے خزانوں سے انسانیت کی خدمت
آج کل کے دور کی طرح زمین کے خزانوں پر استعمار اور طاغوت کا قبضہ نہیں ہوگا اور استعماری طاقتیں مختلف بہانوں سے دیگر اقوام کے معدنی وسائل پر ہاتھ صاف نہیں کر سکیں گی۔ یعنی اس  زمانے میں معدنی وسائل اور معیشت پر محدود لوگوں کا قبضہ نہیں ہو گا بلکہ زمین کے خزانوں کے منہ عام انسانوں کے لئے کھلے  ہوئے ہونگے اور عام لوگ اپنی صلاحیت، استعداد اور ضرورت کے مطابق زمین کے ذخائر سے بھرپور اور عادلانہ استفادہ کریں گے۔ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت سے مہدیؑ ظہور کریں گے، خدا انہیں انسانوں کا ملجا بنا کر بھیجے گا اور اس زمانے میں لوگ نعمت و آسائش میں زندگی گزاریں گے۔

۵۔ اختراعات و ایجادات کا دور:
علم و شعور کے عام ہونے کے باعث یہ اختراعات و ایجادات کا دور ہو گا، انسان نت نئی ایجادات کے ذریعے انسانی معاشرے کی خدمت کریں گے اور پورا انسانی معاشرہ امن و سکون اور خوشحالی کی نعمت سے مالا مال ہوگا۔ علم اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہونگے اور انسان علوم و فنون سے انسانی معاشرے کی تعمیر کریں گے۔ حضرت امام جعفر صادقؑ کی حدیث ہے کہ علم و دانش کے ۲۷ حروف ہیں، اور اب تک جو کچھ پیغمبروں نے پیش کیا ہے وہ دو حروف ہیں اور باقی پچیس حروف سے لوگ آشنا نہیں ہیں، لیکن جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو باقی پچیس حروف کو بھی لے آئیں گے اور پھر پورے ستائیس حروف لوگوں کے درمیان رائج ہوں گے۔ رسول خدا ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ تمہارے بعد ایسی اقوام آئیں گی جن کے پاس طی الارض یعنی  قدموں تلے زمین سمٹنے کی صلاحیت ہوگی  اور دنیا کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے، زمین کی مسافت ایک پلک جھپکنے سے پہلے طے ہو جائے گی، اس طرح سے کہ اگر کوئی مشرق کی سیر کرنا چاہے تو ایک گھنٹے میں ایسا ممکن ہو جائے گا۔

۶۔ ظلم و جور کا خاتمہ:
ظلم چاہے اقتصادی ہو، معاشی ہو، عسکری ہو یا جارحیت اور شب خون کی صورت میں ہو ، اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ چونکہ ظلم ہمیشہ جہالت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، جب جہالت ختم ہو جائے گی تو ظلم خود بخود ختم ہو جائے گا اور دوسری طرف نظام ِ عدل بھی پوری طرح فعال ہوگا لہٰذا دنیا ہر طرح کے ظلم سے پاک ہو جائے گی۔ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور مجرم پیشہ افراد کے ساتھ سخت  قانونی برتاؤ کیا جائے گا۔ کسی بھی قسم کی رشوت یا سفارش کسی بھی ظالم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ حدیث میں ہے کہ جب امام مہدیؑ ظہور کریں گے تو کوئی ایسا مسلمان غلام نہیں رہ جائے گا جسے امام خرید کر راہِ خدا میں آزاد نہ کر دیں، نیز کوئی مقروض ایسا نہیں  بچے گا جس کے قرض کو امام ؑ ادا نہ کر دیں۔ رسولِ خداﷺ فرماتے ہیں کہ جب عیسٰی ابن مریم ؑ آسمان سے زمین پر آئیں گے تو  چرواہے اپنے مویشیوں سے کہیں گے کہ فلاں جگہ چرنے کے لئے جاو اور اس وقت لوٹ آؤ، گوسفندوں کے گلے دو کھیتوں کے درمیان ہونگے لیکن ایک خوشے کو بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور ایک شاخ تک اپنے پیروں سے نہیں روندیں گے۔

۷۔ انسان کی قدر دانی
وہ انسانیت کی معراج کا دور ہوگا۔ اس دور میں علم و شعور اور آگاہی کے باعث ایک انسان دوسرے انسان کی خدمت کرنے کو عبادت اور شرف سمجھے گا اور کوئی بھی انسان دوسرے کے حقوق کو پائمال نہیں کرے گا بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور دوسرے انسانوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنے کو اللہ سے قرب کا وسیلہ سمجھا جائے گا اور ایک مومن دوسرے مومن کی مدد کرنے کو واجب سمجھے گا۔ اس طرح معاشرے میں انسانوں کی درمیان کسی قسم کی کوئی طبقاتی ، جغرافیائی ، لسانی یا ذات پات کی کوئی تفریق اورفاصلہ نہیں ہوگا۔ سب آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔پیغمبرِ اسلام ﷺ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگوں کے دلوں سے کینہ اور دشمنی ختم ہو جائے گی۔

۸۔ میرٹ کی حاکمیت:
انسان اس دور میں بھی اپنا کام کاج کریں گے اور ہر انسان کو میرٹ کے مطابق اس کا حصہ ملے گا، ہر طرح کی رشوت اور سفارش ختم ہو جائیگی اور بغیر کسی رشوت اور سفارش کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق  اپنے لئے کام کاج کا انتخاب کریں گے۔ تمام تر اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر افراد کا انتخاب ہوگا اور تمام تر فیصلے بھی میرٹ کی بنیاد پر ہونگے۔ میرٹ کی حاکمیت کے باعث، برادری ازم، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، دھونس دھاندلی اور مکر و فریب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ آپ اس طرح مال تقسیم کریں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے اس طرح تقسیم نہیں کیا ہو گا۔

۹۔ غربت و افلاس کا خاتمہ:
عدالت، علم اور میرٹ کے باعث دنیا میں کوئی شخص فقیر اور نادار نہیں رہے گا حتٰی کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لئے فقراء اور نادار حضرات کو ڈھونڈتے پھریں گے لیکن انہیں کوئی فقیر یا نادار شخص نہیں ملے گا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ فرماتے ہیں کہ ناامیدی اور فتنوں کے زمانے میں مہدیؑ نامی شخص ظہور کرے گا جس کی بخشش اور عطا لوگوں کی خوشحالی کا باعث ہوگی۔ ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ، ملاوٹ اور بخل و کنجوسی جیسی برائیوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے معاشرے کے عام لوگ بھی مطمئن اور ثروت مندانہ زندگی بسر کریں گے۔ پیغمبر ﷺ کی حدیث ہے کہ مہدی ؑ میری امت میں ہونگے، ان کی حکومت میں مال و دولت کا ڈھیر لگ جائے گا۔

۱۰۔ نبی آخرالزماںﷺ کی سنتوں کا احیا:
اس زمانے میں ہر طرف حضور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کا دور دورہ ہوگا اور لوگ اپنے شب و روز کو سرکارِ دوعالم کی سنتوں سے مزین کریں گے۔ پورا انسانی معاشرہ صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح  محبت، اخوت اور رواداری کی مثال بن جائے گا۔ اگر کسی کو کوئی نعمت میسر ہوگی تو وہ سب سے پہلے اپنے ہمسایوں اور عزیز و اقارب میں اسے تقسیم کرنے کو سعادت سمجھے گا، اسی طرح ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کے لئے دعا اور طلبِ مغفرت کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مدد بھی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ گویا پوری عالمی برادری ایک بڑے خاندان میں تبدیل ہو جائیگی۔ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ قریش سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرے گا اور اپنے نبیﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا۔

۱۱۔ صحت و علاج:
مہدوی حکومت میں سب کے لئے یکساں طور پر صحت اور علاج کی سہولتیں میسر ہونگی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ امیر لوگ اچھے اہسپتالوں میں جائیں یا بیرون ملک علاج کے لئے جائیں اور غریب ایڑیاں رگڑتے رہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لئے معیاری علاج کی سہولتیں عام ہونگی جس کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں کی عمریں بھی طویل ہونگی۔ یہانتک کہ بعض عام افراد کی عمریں ہزار سال تک بھی پہنچ جائیں گی۔

۱۲۔ امام مہدیؑ کا اپنے سپاہیوں کیساتھ عہد و پیمان:
۱۔ میدان جنگ سے فرار نہیں کرو گے
۲۔ چوری نہیں کرو گے
۳۔ ناجائز کام نہیں کرو گے
۴۔ حرام کام نہیں کرو گے
۵۔ برے اور قبیح اعمال انجام نہیں دو گئے
۶۔ سونا چاندی ذخیرہ نہیں کرو گے
۷۔ کسی کو ناحق نہیں مارو گے
۸۔ جو اور گیہوں ذخیرہ نہیں کرو گے
۹۔ کسی مسجد کو خراب نہیں کرو گے
۱0۔ ناحق گواہی نہیں دو گے
۱۱۔ کسی مومن کو ذلیل و خوار نہیں کرو گے
۱۲۔ سود نہیں کھاو گے
۱۳۔ سختی و مشکلات میں ثابت قدم رہو گے
۱۴۔ خدا پرست و یکتا پرست انسان پر لعنت نہیں کر وگے
۱۵۔ شراب نہیں پیو گے
۱۶۔ سونے کے تاروں سے بنا لباس نہیں پہنو گے
۱۷۔ حریر و ریشم کا لباس نہیں پہنو گے
۱۸۔ بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کرو گے
۱۹۔ محترم خون نہیں بہاو گے
۲۰۔کافر و منافق پر انفاق نہیں کرو گے
۲۱۔ خز کا لباس نہیں پہنو گے
۲۲۔ مٹی کو اپنا تکیہ بناو گے
۲۳۔ ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرو گے
۲۴۔ نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے

اس وقت آپ کے اصحاب کہیں گے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہم اس پر راضی ہیں اور آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں، اس وقت امامؑ بیعت کے طور پر ہر ایک سے مصافحہ کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کا انسان ایسی مثالی حکومت کے قیام سے لا تعلق اور محروم کیوں ہے!؟ بات یہ ہے کہ دراصل اسلامی معاشرے نے ہی مہدویت کے تصور کو  دنیا بھر میں متعارف کروانا تھا لیکن مہدویت کے حوالے سے خود یہی معاشرہ مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مہدوی حکومت کی تشکیل کا خواب پورا نہیں ہو پا رہا اور دنیا مہدویت کو  بطورِ حکومت ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔

اسلامی معاشرے میں مہدویت کے حوالے سے غلط تصورات
مسلمانوں کے ہاں مہدویت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر اور ازالہ ضروری ہے:
۱۔ صرف انتظار:
مسلمانوں کے ہاں عام طور پر ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت امام مہدیؑ کا انتظار کیا جائے۔ حالانکہ جب بھی کسی حکومت کے قیام کے لئے انتظار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اس حکومت کے لئے باقاعدہ  کمپین اور مہم چلائی جاتی ہے تب جاکر وہ حکومت قائم ہوتی ہے۔
۲۔ اپنی ذمہ داریوں سے نا آشنائی:
مسلمانوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ  اسے ایک مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے کیاکرنا چاہیئے، یعنی عام مسلمان اس حوالے سے یہ نہیں جانتا کہ اس کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟!
۳۔ مہدویت کے بارے میں عدم شعور:
بہت سارے مسلمان مہدویت کے بارے میں تفصیلی طور پر کچھ بھی نہیں جانتے،  بلکہ یوں تو جمہوریت و آمریت اور بادشاہت کے بارے میں تو ہماری معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کی نسبت مہدویت کے بارے میں ہم سطحی سے معلومات بھی نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے مہدویت کی حکومت کی تشکیل میں مشکلات حائل ہیں۔

۴۔ مہدویت بغیر نصاب کے:
ہمارے ہاں مسلمان ہونے کے باوجود مہدویت ہمارے نظامِ تعلیم میں شامل نہیں، جس کی وجہ سے ہم نسل در نسل مہدویت سے نا آشنا ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت محض ایک یا کچھ معجزات سے قائم ہو جائیگی۔ ضرورت اس ا مر کی ہے کہ مہدویت کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے تا کہ لوگ مہدویت کو اچھی طرح سمجھیں اور امام مہدیؑ ہونے کے جھوٹے دعویداروں کو بھی  پہچانیں۔
۵۔  مہدویت بدونِ نظامِ حکومت:
ہمارے ہاں اگر مہدویت پر بات کی بھی جاتی ہے تو بطورِ نظامِ حکومت نہیں کی جاتی، بلکہ مہدویت کو قیامت کی نشانیوں اور آخرت کی علامات سے جوڑ کر اس بحث کو ختم کر دیا جاتا ہے۔
مہدوی حکومت  کی تشکیل کے لئے درست لائحہ عمل

۱۔ جمہوریت سے مہدویت کی خدمت:
سب سے پہلے جمہور کو مہدویت سے آشنا کیا جائے اور عوام النّاس میں ایک مہدوی حکومت کے قیام کی تڑپ پیدا کی جائے، لوگوں کو  قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ سمجھایا جائے  کہ ان کے تمام تر مسائل کا حل مہدوی حکومت کی تشکیل میں پو شیدہ ہے تاکہ لوگ کسی تشنہ شخص کی طرح مہدویت کی تشنگی کو محسوس کریں۔
۲۔ مہدویت شناسی کے لئے اداروں کا قیام:
ہر عمر، ہر مذہب اور ہر دین کے شخص کو مہدوی حکومت سے آشنا کرنے کے لئے مخصوص اداروں اور ریسرچ سنٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسے سنٹرز میں محقیقین مخاطب شناسی کر کے مخاطبین کی زہنی سطح کے مطابق مہدویت کو تبیین کریں۔

۳۔ اپنی ذمہ داریوں کا تعین:
اس دنیا کو بدبختی، فقر، جہالت اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیئے، مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ مہدوی حکومت کی خصوصیات کیا ہیں!؟ مثلا ًمہدوی حکومت کی ایک خصوصیت علم و آگاہی کا دور دورہ ہے تو ہمیں دنیا میں علم و آگاہی کو عام کرنے کے لئے کمربستہ ہو جانا چاہیئے، اسی طرح اگر مہدوی حکومت کی ایک اور خصوصیت ظلم و جور کا خاتمہ ہے تو ہمیں جہاں بھی ہوں ظلم و جور کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، ہم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ جس حال میں ہے وہاں سے کس مہدوی خصوصیت کو عملی کر سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کا کام شروع کر دے تو یہ معاشرہ خود بخود مہدوی حکومت کی طرف بڑھنے لگے گا۔

۴۔ انتظار کا درست مفہوم 
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کا بس انتظار کیا جائے اور یوں خود بخود وہ حکومت قائم ہو جائے گی۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری یہ دنیا اسباب اور مسبب کی دنیا ہے، اگر ہم خود مہدوی حکومت کے اسباب فراہم نہیں کریں گے تو اسی طرح مختلف انواع و اقسام کی حکومتیں ہمارا استحصال کرتی رہیں گی۔ لہٰذا جس طرح ہم دیگر حکومتوں کے قیام کے لئے  کمپین اور مہم چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں مہدوی حکومت کے لئے بھی کمپین اور مہم چلانی چاہیئے، ہماری تحاریر و تقاریر میں جابجا مہدویت کا ذکر ملنا چاہیئے اور لوگوں کو مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کی تلقین کی جانی چاہیئے۔

۵۔ مہدوی حکومت اور انقلاب
ظاہر ہے دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی کہ ظلم کی جگہ عدل لے لے، تاریکی کی جگہ نور لے لے، کفر کی جگہ اسلام آ جائے، شر کی جگہ خیر سنبھال لے، رشوت کی جگہ میرٹ کا بول بالا ہو یہ سب کچھ بیٹھے بٹھائے ہونے والا نہیں ہے، اس کے لئے  ایک بہت بڑی انقلاب اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب اور تبدیلی لوگوں کے سر کاٹنے سے ممکن نہیں بلکہ اس انقلاب اور تبدیلی کے لئے لوگوں کے افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لوگوں کا باطن تبدیل ہو جائے اور لوگ عقلی طور پر ظلم و ستم، کرپشن اور دھاندلی، فقر اور ناداری نیز جبر و استحصال سے نفرت کرنے لگیں تو باہر کی دنیا خود بخود تبدیل ہو جائے گی۔ ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا انسان ابھی تک  اچھائی اور برائی کی تشخیص دینے میں گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے، یہ بے چارہ یہ تو چاہتا ہے کہ دوسرے غلط کام  نہ کریں لیکن اگر اسے موقع مل جائےتو یہ خود وہی کام کرنے لگتا ہے جن سے دوسروں کو منع کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے  دور کے انسان کی تربیت ابھی اس سطح کی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے لئے بھی وہی پسند کرے جو دوسروں کے لئے پسند کرتا ہے۔

تربیت پر توجہ کی ضرورت:
کسی بھی انقلاب کے لئے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت امام مہدیؑ کے انقلاب کے لئے بھی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، وہ ایسے افراد ہونے چاہیئے کہ جو سب سے پہلےخود مہدویت کی خصوصیات سے مزین ہوں اور دوسرے لوگ ان کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر مہدوی بننے کی تمنّا کریں۔ اگر ایسے اخلاق و کردار کے حامل افارد کی تربیت نہیں کی جاتی تو ظاہر ہے کہ پھر مہدوی حکومت کے قیام میں بھی بہت تاخیر ہو سکتی ہے۔ یہ تربیت بھی دو طرح کی ہونی چاہیئے، تربیت عمومی اور تربیت خصوصی، تربیت عمومی کے طور پر تمام انسانوں کو خیر و بھلائی اور دین اسلام پر عمل کرنے کے دعوت دی جانی چاہیئے اور تربیت خصوصی کے طور پر ایسے افراد کی خصوصی تربیت کی جائے جو مہدویت کے عمیق مسائل کو قرآن و سنت سے بطریقِ احسن استخراج کر کے لوگوں تک مہدویت کا پیغام عملی طور پر پہنچائیں۔ جس نظریئے کے پاس تربیت یافتہ افراد نہ ہوں وہ نظریہ کوئی انقلاب یا تبدیلی نہیں لا سکتا لہٰذا ایک مہدوی انقلاب کے لئے افراد کی نظریاتی و عملی تربیت ضروری ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام مہدیؑ کے حکومتی اہلکاروں میں حضرت عیسیٰؑ، اصحاب کہف، مومن آل فرعون جیسی عظیم ہستیوں کے نام بھی آتے ہیں۔

نتیجہ:
دینِ اسلام اللہ کا آخری دین ہے، یہی دین انسانوں کی سعادت و خوشبختی کا بھی ضامن ہے، اس دین میں فقط انسانوں کے لئے اخلاق و طہارت اور عبادات کے احکام نہیں بیان کئے گئے بلکہ انسانوں کی خوش بختی کے لئے ایک مکمل نظام حکومت کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیئے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اس دینی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کریں جس کا کتاب و سنت میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ جب تک مسلمان ایک الٰہی اور عالمی حکومت کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گے تب تک خود بخود مسلمانوں کی عالمی حکومت قائم نہیں ہو جائے گی۔اس عالمی اور عادل حکومت کا نام مہدویت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، مہدویت کے حوالے سے تحقیق کریں اور مہدوی حکومت کے قیام کے لئے ممکنہ راہ حل سوچیں اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہرست منابع
1۔ قرآن مجید
2۔ احقاق الحق مكتبة المرعشي النجفي. مكان چھاپ: قم‌
3۔ ارشاد مفید كنگره شيخ مفيد قم
4۔ سنن ابي داود دارالرائد العربی، بیروت
5۔ سنن ترمذي دارالرائد العربی، بیروت
6۔ عقدالدرر دارالکتب الاسلامیه قم
7۔ غیبہ النعمانی دارالرائد العربی، بیروت
8۔ کمال الدین دارالکتب الاسلامیه قم
9۔ مستدرک حاکم انتشارات دار الکتب العلمیه، چھاپ بیروت
10۔ مصنف عبد الرزاق انتشارات دار الکتب العلمیه، چاپ بیروت
11۔ معجم رجال الحدیث  وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چھاپ اول، تهران
12۔ ینابیع المودّۃ دار العراقیۃ الکاظمیۃ، و انتشارات محمّدی، قم، چھاپ ہشتم
خبر کا کوڈ : 755062
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
وقت کی ضرورت کے عین مطابق اور سب کے لئے یکساں طور پر مفید۔ اس طرح کے موضوعات پر کام جاری رہنا چاہیے۔ جزاک اللہ
Iran, Islamic Republic of
گیارہویں خلیفہ کے ظہور کے بعد اس موضوع پر بار بار لکھنے اور مختلف زاویوں سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں پر ابھی تک یہ موضوع واضح نہیں۔
United Kingdom
عمدہ کاوش ہے، خدا قبول کرے اور اس موضوع پر ہم سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری پیشکش