12
2
Thursday 25 Oct 2018 14:59

عمران خان پر تنقید کیسی!؟

عمران خان پر تنقید کیسی!؟
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

ہم ہار چکے ہیں، ہمارا کہیں کوئی حق نہیں، حتی کہ ہم اپنے حقوق پر بھی کوئی حق نہیں رکھتے، ہم صرف اور صرف مغرب اور اہل مغرب نیز امریکہ کی بلکہ پیسے کی پرستش کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی ہمیں دو ٹکے دے تو ہم ایمل کانسی کو بھی اس کی گود میں ڈال دیتے ہیں، کوئی ہمارے منہ میں چند ڈالر دال دے تو ہم عافیہ صدیقی کی بات ہی نہیں کرتے، ہم نہیں جانتے کہ ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ استعمار سے آزادی کے بعد ہمارے حقوق میں کس قدر اضافہ ہوا ہے، ہمیں احساس ہی نہیں کہ 14 اگست نے ہماری زندگیوں میں کیا تبدیلی لائی ہے۔ ہمیں اپنی دھرتی میں چھپے خزانوں کا بھی ادراک نہیں، ہمارے معدنی ذخائر کو اغیار نکالتے اور لے جاتے ہیں، چونکہ ہم ایسی ٹیکنالوجی اور تعلیم سے ہی نا آشنا ہیں، ہمارے آبی ذخائر خشک ہو رہے ہیں، لیکن ہمارے نصاب تعلیم میں پانی کے بحران سے نمٹنے کی کوئی ٹکنیک ہمیں نہیں سکھائی گئی، ہمارے جنگلات سکڑ رہے ہیں، لیکن ہماری تحقیقات میں کہیں جنگلات کا ذکر ہی نہیں آتا۔ ہمارے ہاں بعض پرندوں اور جانوروں کی نسلیں نایاب ہو رہی ہیں، لیکن ہمارے نظامِ تعلیم و تربیت کا کوئی دریچہ اس طرف نہیں کھلتا۔ ہماری اقتصاد کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے، لیکن ہماری کسی یونیورسٹی، دینی مدرسے یا تھنک ٹینک کے پاس کوئی متبادل تھیوری نہیں۔

 جن ممالک کے پاس پیسہ ہے، وہ ہماری سیاست کو پہیے کی طرح گھماتے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو انگلیوں کے اشاروں پر نچاتے ہیں، جن کے پاس عسکری طاقت ہے، وہ ہمیں بارڈرز پر مشغول رکھتے ہیں۔ جن کے پاس پیسہ، نظریہ اور ٹیکنالوجی ہے، وہ ہمیں آپس میں لڑاو اور کمزور رکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ہماری شکست خوردہ ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ ہم جتنا اعتبار چین جیسے کافر ملک پر کرتے ہیں، اتنا اعتبار کسی دوسرے اسلامی فرقے پر بھی نہیں کرتے، ہم سے یہ تو نہیں برداشت ہوتا کہ کسی دوسرے فرقے کا جلوس ہماری گلی سے گزر جائے، لیکن ہم امریکہ و مغرب میں جا کر وہاں کے ٹوائلٹس کو بڑی منکسرالمزاجی سے صاف کرتے ہیں، ہم سے بازار میں کسی دوسرے مکتب کی کتاب بکتی ہوئی برداشت نہیں ہوتی، لیکن ہم اپنے بچوں کو آکسفورڈ اور کیمرج کا سلیبس بخوشی پڑھاتے ہیں۔ ہمارے سکولوں میں ایسا نظامِ تعلیم رائج ہے، جس سے صرف اور صرف  امریکہ و مغرب کے نوکر پیدا ہوتے ہیں، جو دن رات ایک کرکے امریکہ و مغرب کی خدمت کرتے ہیں اور جو اگر پاکستان میں کسی پوسٹ پر بیٹھ بھی جائیں تو پیسے کی ہوس میں اتنی کرپشن کرتے ہیں کہ ادارے ناکارہ ہو جاتے ہیں اور اداروں میں منافع کے بجائے خسارہ ہونے لگتا ہے۔

اس ثقافتی، علمی اور ذہنی شکست کے ساتھ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہماری عورت امریکی و مغربی معاشرے کی طرح اپنے حقوق کا دفاع کرے، ہمارے ہاں بھی امریکہ و مغرب جیسی جمہوریت ہو، ہمارے انتخابات سے بھی امریکہ و مغرب کی طرح لائق لوگ برسرِ اقتدار آئیں، ہمارا معاشرہ بھی امریکہ و مغرب کی طرح آزاد ہو، ہمارا ملک بھی امریکہ و مغرب کی طرح ترقیکرے، ہمارے لوگوں کوامریکہ و مغرب کی طرح وسائل زندگی فراہم ہوں اور ایسا کرنے کے لئے ہم نے صرف اور صرف بھیک مانگنے کا راستہ ڈھونڈ رکھا ہے۔ ہم اپنا ماضی بھول چکے ہیں، ہم نے اسلام کو فراموش کر دیا ہے، ہم نے پاکستان بنانے کے مقصد کو دفنا دیا ہے، ہم نے اپنی خودی کھودی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اسلام کے پاس بھی کوئی سیاسی، اقتصادی، اجتماعی اور آفاقی نظریہ موجود ہے، ہم واپس اسلام اور پاکستان کی طرف پلٹنے کے بجائے، امریکہ اور یورپ کو اپنے بچوں کے لئے آئیڈیل بنا کر پیش کرتے ہیں۔

ہمیں بعض مولویوں نے جس قدر تعصب، گالی گلوچ اور تکفیر سکھائی ہے، اگر اس قدر دین سکھاتے تو آج ہم بھی اپنے ملک کے مسائل کے حل کے لئے کوئی دینی تھیوری پیش کرتے۔ ہمارے دینی مدارس وقتکے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں، ہماری مساجد عالمی حالات سے لاتعلق ہیں، ہمارے علماء کی اکثریت جدید علمی تھیوریز سے نا آشنا ہے اور ہمارے منبروں سے آج بھی فرضی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ ہماری توجہ اپنے نصابِ تعلیم پر ہے ہی نہیں، اصلاحات کے لئے ہماری ترجیحات میں ہمارے مدارس اور یونیورسٹیز نہیں آتیں، ہماری نظر اپنے معدنی و آبی ذخائر پر نہیں پڑتی، ہمیں اپنی نسلِ نو پر اعتماد نہیں اور ہماری فکر اپنی عوامی طاقت پر نہیں ٹھہرتی۔۔۔

ہاں یقین کیجئے، ہماری شکست خوردہ ذہنیت، بھیک مانگنے کے علاوہ کچھ اور سوچتی ہی نہیں اور بھیک مانگنے کا یہ عمل ہماری مساجد و مدارس سے شروع ہوتا ہے اور حکومتی ایوانوں تک جا پہنچتا ہے۔ یہاں پیسے کے زور سے فتوے بکتے ہیں، مسلمانوں کی تکفیر ہوتی اور حکومتوں کی پالیسیاں بنتی ہیں۔ ہمارے بعض دینی مدارس سعودی عرب سے بھیک مانگ کر طالبان پالتے ہیں اور ہمارے حکمران سعودی عرب سے بھیک مانگ کر ملک چلاتے ہیں۔ آپ خود بتائیں، اگر عمران خان پیسے مانگنے سعودی عرب نہ جاتے تو پھر کہیں اور تو جاتے، مانگنی تو بھیک ہی تھی، ظاہر ہے جو پیسہ دیتا ہے وہ پالیسیاں بھی دیتا ہے، اب پیسہ لیا ہے تو اطاعت بھی کرنی ہوگی، آج تک ہم پیسے والوں سے پیسہ لے کر  اطاعت ہی تو کرتے چلے آرہے ہیں۔ سو اس دفعہ تنقید کیسی!؟ یہ کوئی پہلی مرتبہ تھوڑی ہو رہا ہے۔۔۔ ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا، جب تک ہم اپنی خودی کی طرف نہیں پلٹتے۔ کاش حکومت کے ناقدین، تنقید کے بجائے کوئی متبادل تھیوری، کوئی قابلِ عمل اقتصادی نظریہ اور کوئی نئی اقتصادی پلاننگ بھی پیش کرتے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا چونکہ شکست خوردہ دماغ بانجھ ہوتے ہیں اور بانجھ دماغوں سے نئے افکار جنم نہیں لیا کرتے۔ جس معاشرے میں نئے افکار جنم نہ لیں، وہاں گداگر تو پیدا ہوتے ہیں مفکر نہیں۔
خبر کا کوڈ : 757806
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم صرف باتیں کرنا جانتے ہیں اور حل کی طرف نہیں آتے
احسن رضا
Seychelles
اسلام ٹائمز کی انتظامیہ اور محترم لکھنے والے کی خدمت میں مودبانہ چند عرائض پیش خدمت ہیں۔ نذر مجلسی صاحب ناراض نہ ہوں تو عرض کروں کہ انکی اتحادی جماعت کی حکومت کی نااہلی چھپانے کے لئے اب انہیں کوئی منطقی و مدلل بات سوجھ ہی نہیں رہی ہے۔ محترم، عمران پر تنقید نہیں کرنی نہ کریں، لیکن غلط بیانی بھی نہ کریں کہ کوئی متبادل راہ حل پیش نہیں کیا جاتا۔ سب لوگوں کے دماغ آپ لوگوں کی طرح نہ تو غلام ہیں نہ ہی بانجھ۔ دوسری درخواست یہ ہے کہ اب اس پر قائم رہئے گا اور کسی پر بھی تنقید مت کیجیے گا کیونکہ بقول آپکے تنقید کیسی؟! تیسری مودبانہ درخواست یہ ہے کہ متبادل تھیوری جب تھی ہی نہیں تو عمران نیازی نے اتنے بلند و بانگ دعوے کئے ہی کیوں تھے؟ یہ جو محترم ڈاکٹر عشرت حسین، رزاق دائود، اسد عمر وغیرہ ہیں، کیا ان سبھی کو بھی آپ نے اپنی طرح فارغ آدمی سمجھ لیا ہے؟ کچھ معلوم بھی ہے کہ اقتصادی شعبے میں ان افراد کا مرتبہ و مقام کیا ہے؟ کیا انکو بھی ہم سمجھائیں گے کہ متبادل راہ حل کیا ہے؟ لگ یہ رہا ہے کہ عمران نیازی کے چکر میں محترم راجہ صاحب اینڈ کمپنی نے آپ کے پچھلے کالم پر آپکی کلاس لے لی ہے، جس پر آپ کسھیانی بلی کھمبا نوچے بنے نظر آرہے ہیں. یہ ملک سونا ہے، یہ ملک ہماری جنت ہے اور اس میں مالی بدعنوانیاں نہ ہوں، مس منیجمنٹ نہ ہو اور قانون کی حکمرانی ہو تو ملک سے سالانہ دس بلین ڈالر کی منی لانڈرنگ نہ ہو اور اگر صرف یہ ایک ہی کام کر لیا جائے تو پاکستان آٹھ نو سالوں ہی میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی اہلیت رکھتا ہے۔ دبئی میں جنہوں نے جائیدادیں بنالی ہیں اور سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اگر انکا منی ٹریل معلوم کر لیا جائے تو وہاں سے بھی اربوں ڈالر ریکوری ممکن ہے۔ اور عمران نیازی نے تو یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانیوں سے ہی چندہ اور ٹیکس کی مد میں اتنا وصول کر لے گا کہ قرضے اتار دے گا۔ عمران نیازی نے کہا تھا غیر ملکی قرضے پر خودکشی کو ترجیح دے گا۔ جیسا وہ یو ٹرن ویسے ہی اسکی اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے آپ یو ٹرن۔ پاکستانی بزنس کمیونٹی کو مطلوبہ سہولیات دی جائیں تو پانچ ایسی صنعتیں ہیں جو برآمدات کرتی ہیں اور ملکی آمدنی میں بے پناہ اضافہ کرسکتی ہیں، لیکن ان پر اتنے ٹیکس عائد ہیں کہ الامان الحفیظ۔ ملک کے اندر ضروریات کی چیزیں تیار کی جائیں یا اگائی جائیں تو دوسرے ملکوں سے خریدنے کی نوبت نہیں آئے گی اور پاکستان کا اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ اس کی آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں. اس لئے درآمدات کا بل کم کرنے کے لئے ضروری اشیائے خوردونوش و صرف ملک کے اندر ہی پیدا و ایجاد ہونی چاہئیں جبکہ ان چیزوں و مصنوعات کی تیاری ہونی چاہئے جو دوسرے ممالک میں فروخت ہوں تو اچھے پیسے ملیں۔ فارمولا تو بہت ہی آسان ہے، لیکن عمران نیازی کے خود ساختہ وزیر دفاع و اطلاعات بنے ہوئے جعلی نابغے جب تک چیخ چیخ کر اپنی جہالت پر پوری دنیا کو ہنسا ہنساکر پاگل نہ کردیں تب تک ان کو سکون نہیں ملنا۔ آخر میں مولائے متقیان امیر مومنان علی ع کا یہ سنہری قول کہ خدا جس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے، اسے عقل سے محروم کر دیتا ہے۔ بعض افراد اپنی نالائقی و نااہلی سے اس زمرے میں گھس بیٹھے ہیں۔
Iran, Islamic Republic of
اس کا عمران خان کی حمایت سے کیا تعلق، یہ کہا گیا ہے کہ تنقید کیسی، نہ کہ تنقید کیوں؟ جن احباب نے مجھے عمران خان کا حامی سمجھا ہے، انہوں نے اسی تناظر میں کمنٹس دیئے ہیں، ظاہر ہے انسان جس کے بارے میں جیسا سوچتا ہے، ویسا ہی اظہار کرتا ہے۔
میرا مقصد کچھ اور تھا جو سطر بہ سطر عیاں ہے جبکہ بعض احباب نے اسے عمران خان کی حمایت سمجھ لیا تو اس پر میں کوئی تبصرہ کرنا وقت کا زیاں سمجھتا ہوں۔
اسی طرح کمنٹس میں یہ لکھنا کہ یہ جو محترم ڈاکٹر عشرت حسین، رزاق دائود، اسد عمر وغیرہ ہیں، کیا ان سبھی کو بھی آپ نے اپنی طرح فارغ آدمی سمجھ لیا ہے؟
میں ایسے انداز بیان کو کو شرافت اور غیرت آدمیت کے خلاف سمجھتا ہوں، لہذا کوئی جواب دینا اس سے بھی گھٹیا حرکت ہوگی۔
آخری گزارش یہ ہے کہ کسی کے پاس ماہرین اقتصاد کا ہونا اور بین الاقوامی معیار کے مطابق اقتصادی پالیسی تیار کرنا دو مختلف چیزیں ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے پاس ایسے ماہرین اور افراد نہیں ہیں بلکہ اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مناسب تھیوری نہیں بنائی گئی یا کسی طرف سے پیش نہیں کی گئی۔
میرے لکھنے کا مقصد بھیک مانگنے کے عوامل اور نتائج پر توجہ دلانا تھا نہ کہ عمران خان پر تنقید کی مخالفت کا دفاع کرنا تھا۔ میں نے عمران خان پر تنقید کیسی کا عنوان دے کر ہونے والی تنقید کو ایک خاص جہت دینے کی کوشش کی ہے، جسے آپ جیسے عقل مند اور پڑھے لکھے قاری نے اپنی سوجھ بوجھ اور فہم و فراست کے باعث عمران خان کی حمایت سمجھ لیا ہے۔ فرصت ملے تو دوبارہ پڑھنے کی زحمت کیجئے۔
معذرت آپ نے جو سمجھا وہ میرا مقصد نہیں تھا اور میں جو لکھتا ہوں، اسے عنداللہ ایک ذمہ داری سمجھ کر لکھتا ہوں اور یہ احساس رکھتا ہوں کہ اپنے ہر لفظ پر عنداللہ جواب دے ہوں۔
خدا کرے میری زندگی میں وہ دن نہ آئے، جب میں کسی کی ملامت یا چاپلوسی سے متاثر ہوکر کچھ لکھوں
والسلام
نذر حافی
Meesam
Sweden
جناب نذر صاحب
پاکستان پر یہ برا وقت بھی آنا تھا کہ عمران صاحب حکمران بن جائے اور اس سے بھی زیادہ برا وقت یہ آنا تھا کہ آپ جیسے افراد جنہیں ککھ پتہ نہیں کہ اس شعبے کے مسائل کیا ہیں، وہ بھی اپنے بانجھ پن کو پاکستانی قوم پر ڈال دیں۔ جن شعبوں سے متعلق آپ کو معلومات نہیں ہیں، یہ آپکے اپنے حق میں بہتر ہوگا کہ آپ اپنی جہالت کو پوری قوم پر نہ ڈالیں۔ تسی کدی کدی پڑھ وی لیا کرو.
اس ملک میں تاجروں اور صنعتکاروں و برآمد کنندگان کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، انکی نمائندہ تنظیمیں موجود ہیں اور حکمران اور حزب اختلاف دونوں ہی کے ان سے اور ان کے ان سے روابط و تعلقات بھی موجود ہیں۔ انکی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں تو اجلاس و بریفنگ بھی ہوتی ہیں۔ بجٹ سے پہلے بھی تجاویز دی جاتی ہیں اور جب انتخابات ہوتے ہیں تو منشور میں بھی چیدہ چیدہ نکات لکھ دیئے جاتے ہیں۔ یہ ایک مستقل سلسلہ ہے۔ ہر جماعت کے اپنے لاڈلے اقتصادی ماہرین بھی ہیں اور ہر حکومت میں وہ کسی نہ کسی رسمی یا غیر رسمی عہدے پر ہوتے بھی ہیں۔ یہ ماہرین ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سمیت عالمی اداروں میں بھی خدمات انجام دے چکے ہوتے ہیں۔ مثال ڈاکٹر عشرت حسین اور حفیظ پاشا کی بھی دی جاسکتی ہیں۔ اسکے علاوہ حکومت کے اپنے محکمے موجود ہیں، یہ وزارت تجارت و صنعت و خزانہ وغیرہ یہ زرداری اور نواز شریف نہیں چلاتے بلکہ یہاں تو ایسے کلرک بھی ہوتے ہیں، جو اس ملک کا مالی گوشوارہ تک لکھ سکتے ہیں۔
عمران نیازی کی محبت نہ جانے کیا کیا رنگ دکھائے گی۔ قتیل شفائی نے کہا تھا کہ
ماتم سرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیل
اپنے غموں پر روتے ہیں لے کر کسی کا نام.
Iran, Islamic Republic of
باعرض معذرت آپ نے مجھے عمران خان کا حامی سمجھا اور خود کسی اور کی حمایت میں جو آپ کے جی میں آیا آپ نے وہ کہہ دیا۔ بہرحال خدا دلوں کے حال بہتر جانتا ہے اور وہ ہمارے ذرہ بھر عمل سے بھی آگاہ ہے۔ اس لئے اس کا جواب میں آپ کو نہیں دینا چاہتا۔ عرض صرف یہ ہے کہ لکھے ہوئے کو سمجھنے کے لئے بھی مناسب تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے، اگر آپ توجہ فرمائیں تو میں نے یہ نہیں لکھا کہ عمران خان پر تنقید کیوں؟ بلکہ یہ لکھا ہے کہ تنقید کیسی!ْ
چناچہ کیوں اور کیسے کا فرق اگر آپ کو سمجھ نہیں آیا تو یہ یقیناً آپ کے عالی دماغ اور اعلیٰ تعلیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کالم میں تنقید کیسی کے عنوان سے تنقید کو یہ جہت دی گئی ہے کہ ہم بھیک مانگنے کے عوامل اور نتائج کو سمجھیں۔
باقی آپ کے نزدیک ـ(اس ملک میں تاجروں اور صنعتکاروں و برآمد کنندگان کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، انکی نمائندہ تنظیمیں موجود ہیں اور حکمران اور حزب اختلاف دونوں ہی کے ان سے اور ان کے ان سے روابط و تعلقات بھی موجود ہیں۔ انکی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں تو اجلاس و بریفنگ بھی ہوتی ہیں۔ بجٹ سے پہلے بھی تجاویز دی جاتی ہیں اور جب انتخابات ہوتے ہیں تو منشور میں بھی چیدہ چیدہ نکات لکھ دیئے جاتے ہیں۔ یہ ایک مستقل سلسلہ ہے۔) اس کا نام اقتصادی پالیسی ہے، آپ کی یہ سطور ہی آپ کی علمی ظرفیت کی عکاس ہیں، لہذا آپ سے جوابی مودبانہ گزارش ہے کہ (تسی کدی کدی پڑھ وی لیا کرو.)
دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں
والسلام
Mushtaq Hussaini
France
جان کی امان پائوں تو اسلام ٹائمز اردو شعبہ کے محترم مسئول کی خدمت میں ایک سوال بصد احترام پیش کرنے کی جسارت پیشگی معذرت کے ساتھ۔ یہ ملاحظہ فرمائیے بھائی نذر حافی نے خود لکھا ہے : """کاش حکومت کے ناقدین، تنقید کے بجائے کوئی متبادل تھیوری، کوئی قابلِ عمل اقتصادی نظریہ اور کوئی نئی اقتصادی پلاننگ بھی پیش کرتے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا چونکہ شکست خوردہ دماغ بانجھ ہوتے ہیں اور بانجھ دماغوں سے نئے افکار جنم نہیں لیا کرتے۔ جس معاشرے میں نئے افکار جنم نہ لیں، وہاں گداگر تو پیدا ہوتے ہیں مفکر نہیں۔ """ کیا ان جملوں کی اس کے علاوہ بھی کوئی جہت ہے کہ حکومت کے ناقدین پر گرجا برسا جا رہا ہے۔ ارے میرے بھائی نذر حافی آپ عمران نیازی کے خود ساختہ وزیر چاپلوس بنے بیٹھے ہیں۔ آپ پر نصیحت ویسے ہی اثر نہیں کرے گی۔ جاکر کسی اردو دان سے پوچھ لیں کہ اگر یوں لکھا جائے کہ عمران خان پر تنقید کیسی؟! تو اس کا مطلب وہی نکلتا ہے جس کی نشاندہی کی گئی ہے یا کچھ اور۔ لیکن جو تنقید کرے اسے آپ شرافت اور غیرت آدمیت کے ہی خلاف قرار دے کر بھڑاس نکالیں تو اس سے بہتر ہے کہ خاموش رہا جائے۔ بہرحال میں اپنا پہلا اور آخری کمنٹ کر رہا ہوں۔ جن دوستوں کو سمجھنا ہے, وہ اس تحریر کے عنوان کا انگریزی ترجمہ کر لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ اس کا مطلب وہی نکلتا ہے اور لکھنے والا حیران ہوکر سوال کر رہا ہے کہ بھئی تنقید کیوں؟ اسکے علاوہ کوئی اور مفہوم نہیں کہ تنقید بنتی نہیں! سوائے اس کے قلمکار کا موقف کیا ہے؟
اسلام ٹائمز کی انتظامیہ سے گذارش ہے کہ عمران نیازی کے چاپلوسوں سے پوچھ لیں کہ انہیں اس کام پر کس نے مامور کیا ہے۔ ارے میرے بھائی یہاں جو دو رائے پہلے دیکھی ہیں, اس میں تو واضح بتا دیا گیا ہے کہ قرضہ کیسے اتارا جا سکتا ہے، آمدنی میں اضافہ کیسے کیا جا سکتا ہے اور اب بھائی نذر حافی کا حال یہ ہے کہ بجائے احسان ماننے کے گرج برس رہے ہیں۔ یعنی جو راہ حل پیش کر رہا ہے, اس کی علمی ظرفیت ہی پر ایک جھوٹی تہمت دھر دی۔ اس تحریر کے عنوان سے ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان پر تنقید کیسی؟! خدا کا واسطہ ہے کہ آئندہ اپنی اس حماقت کو عنداللہ مت کہیے گا, ورنہ خدا کی پکڑ بہت سخت ہے۔
بھائی نذر لڑ تو اپنوں سے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ غلط فہمی ہے.. وہ تو عمران کے حامی ہیں ہی نہیں باقی یہ تحریر کیا زرداری اور نواز پر تنقید کیسی کے عنوان سے لکھی ہے, جو انہیں کچھ اور سمجھا جائے۔ اگر زرداری اور نواز بدعنوان ہیں تو قوم نے مسترد کر دیا اور عمران کو اتنا مینڈیٹ دے دیا کہ حکومت بنالے تو جو بڑی بڑی شیخیاں بھگاری تھیں, اس کو عمل سے سچ بھی ثابت کر دکھائے۔ بھائی نذر آپ بات کو کسی طرف بھی گھما پھرا لیں, جس طرح ماضی کے حکمران اپنے دور حکومت کی ناکامیوں کے ذمے دار ہیں, اسی طرح عمران حکومت بھی ہے اور ہم جیسے تو خاموش ہو جائیں گے لیکن پاکستان کے وہ مظلوم و غریب جن کو یہ حکومت آتے کے ساتھ ہی مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دفنانا شروع کرچکی ہے, انکی آہیں صرف انکو نہیں بلکہ آپ جیسوں کو بھی لے ڈوبیں گی.
میں ان دو رائے کی حمایت کرتا ہوں, کیوںکہ پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور خاص طور عمران خان نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ اسے اقتصادی تھیوری کی ضرورت ہے یا قابل عمل اقتصادی نظریہ اور نئی اقتصادی پلاننگ پیش کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ یہ تو خود ساختہ وزارت چاپلوسان قوم یوتھ کی فخریہ پیشکش ہے کہ ایسی ایسی جہتوں پر قوم کو لگا دو کہ پانچ سال اسی میں گذر جائیں۔ آپ کو جس نے بھی بتایا درست بتایا کہ اس حکومت کے پاس اقتصادی ماہرین موجود ہیں تو باقی یہ نئی اقتصادی پلاننگ، نظریہ تھیوری کیا زرداری اور نواز شریف نے پیش کرنی ہے یا پھر آپ کو کسی بابا ایڈم اسمتھ یا کارل مارکس کا پاکستانی ورژن درکار ہے؟ کیا عمران خان کو یہ مشورہ دینا ہے کہ آئی ایم ایف ورلڈ بینک کی جگہ پاکستان کی طرف سے نیا عالمی مالیاتی نظام بنالے اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اسکے مرکزی دفاتر قائم کر دے۔ کیا عمران خان کو ان کے سسر اول گولڈ اسمتھ نے بھی کمانے کے طریقے نہیں سمجھائے تھے۔ ارے بھائی مدعی سست گواہ چست بن کر کسے بے وقوف بنانا چاہ رہے ہو۔ عمران اور انکی جماعت کا یہ دعویٰ تھا کہ انہیں سب پتہ ہے کہ کیسے پاکستان کے اقتصادی بحران کو ختم کرنا ہے، کس طرح قرضہ اتارنا ہے۔ آپ کا پورا ٹولہ ہی بقراط ہے، جس کو پتہ وتہ کچھ ہوتا نہیں ہے اورکوئی بھی بے تکی بات کرکے پھر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اب مجھے نہیں اپنے لاڈلے کو جا کر سمجھائیے گا کہ تھیوری، نظریہ، پلاننگ، پالیسی میں یہ یہ فرق ہوتا ہے، شاید اس طرح پاکستان کا اقتصادی بحران ختم ہو جائے کیونکہ آپ جیسی ہستیاں تو عنداللہ کا پرتو ہیں، ایک ایک لفظ گویا حضرت عزرائیل کو مجسم سامنے دیکھ کر لکھتے ہیں۔ بندہ گناہگار ہے اورآپ کو تو وحی ہونی ہے کہ شیطان، مشرک، کافر، فاسق، سب کچھ ہے اس لئے اپنا پہلا اور آخری کمنٹ لکھ دیا ہے، اس یقین کامل کے ساتھ کہ اصلاح کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے۔ طویل تبصرے پر دیگر قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔
Iran, Islamic Republic of
لگے رہو بھائی۔ ہم لوگ چودھریوں کے کمی ہیں۔ ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کے چودھری کی کسی نہ کسی طرح مٹی پلید ہو اور میرے چودھری کی ہر جگہ بلے بلے ہو۔
آپ کا عمران نیازی سے بیر اپنی جگہ لیکن تحریر کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش تو کرو۔ آپ کے چودھریوں کی بھی بلے بلے ہو جائے گی، اتنی جلدی کیوں کر رہے ہیں۔ بہر حال کمی پن کبھی گاوں کے چودھری کی حدود سے نہیں نکل سکتا۔ آپ کو میری بات میں بھی عمران نیازی کی طرفداری نظر آئیگی، لیکن میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا سوائے اس مشورے کے کہ چودھری جی کے علاوہ بھی کچھ سوچنے کی عادت ڈالیں۔
علی رضا عابدی
Sweden
سلام دوستو!
یہ آپ کس ٹولے کو سمجھانے بیٹھ گئے ہیں۔ اگر عمران خان بھی آکر انکو انکی حماقتوں سے، جہالتوں سے منع کرے، یہ تب بھی اسی کے گن گائیں گے۔ اسلام ٹائمز اردو شعبہ کے جو بھی انچارج ہیں، وہ ایک مرتبہ وزیر خزانہ اسد عمر سے ہی مل کر نذر حافی کے ان آخری جملوں کا پوچھ لیں اور ان سے یہ بھی پوچھ لیں کہ یہ جو پاکستان کے اقتصادی ماہرین ہیں، یہ جو وزیراعظم نے اقتصادی مشاورتی کائونسل کی تشکیل نو کی ہے۔، یہ جو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس ہے، یہ جو آپکی وزارتیں اور محکمے ہیں، کیا انکا اسکے علاوہ بھی کوئی اور کام ہے، جو انکی بجائے آپکی حکومت کے ناقدین آپ لوگوں کو بتائیں کہ متبادل راہ حل کیا ہے؟؟
یہ نذر حافی صاحب اس ایک قادیانی کو اقتصادی مشاورتی کائونسل کی رکنیت پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی میدان میں اترے تھے۔ نذر صاحب کا یہ ٹولہ تو باز آنے والا نہیں ہے، البتہ اگر اسلام ٹائمز کے مسئولین چاہیں تو پاکستان کی جامعات کے شعبہ اقتصادیات کے سربراہان و اساتیذ سے مل لیں اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور اپنے کانوں سے سن لیں کہ پاکستان کے غیرت مند بیٹوں کے پی ایچ ڈی تھیسس میں کیا کچھ نہیں بتایا جاچکا ہے۔ بس اسد عمر سے درخواست ہے کہ یہ جو خود ساختہ وزارت چمچہ گیری قائم ہوئی ہے، اسکو بھی کبھی کبھار کوئی عالمانہ بات بتا دیا کریں، تاکہ اس طرح اپنی جہالت کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنی جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرنے سے گریز کریں۔
اب ہوگا یہ کہ اصل مطلب پر آنے کے بجائے نذر صاحب مجھ جاہل کو یہ سمجھائیں گے کہ وہ مشیر قادیانی نہیں تھا جناب احمدی تھا اور آپ کو تو معلوم ہی نہیں کہ قادیانی اور احمدی میں کیا فرق ہوتا ہے۔
دوستو مفت کی تفریح ہے، اس نوعیت کی تحریریں پڑھیں اور انجوائے کریں اور ارسطوئے زمان پر تنقید سے اجتناب برتیں، ورنہ انجمن بقراطیان پاکستان حال مقیم قم کا یہ ٹولہ سکندر اعظم کی فوج کی طرح چڑھ دوڑے گا۔ اسلام ٹائمز کے مسئولین کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ رنگیلا ٹائپ افراد کے لطیفوں سے محفل زعفران کر رہے ہیں۔ شکریہ۔ بہت بہت شکریہ۔ جی بالکل عالم پناہ نذر حافی صاحب,,, عمران کے ناقدین شکست خوردہ ہیں، سارے بانجھ دماغ ہیں، انکے پاس نئے افکار نہیں ہیں اور انکے پرانے افکار سے سارے ہی گداگر پیدا ہوئے, مفکر تو آج تک کوئی پیدا نہیں ہوا۔ عالم پناہ اب یہ بھی فرما دیں کہ وہ قادیانی بھی گداگر ہی ہے یا اسے استثنیٰ حاصل ہے؟؟ یہ جو اقتصادی مشاورتی کائونسل عمران خان نے بنائی ہے، اس میں تو کوئی مفکر ہونا چاہئے تھا یا یہ بھی پاکستان بننے سے پچھلی نواز حکومت تک کے لوگوں کی نالائقی ہے کہ اس میں بھی وہی پرانے گداگر رکن بنائے گئے ہیں۔ آپ کی دل آزاری پر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپکی تحریریں ہی آپکی شناخت ہیں اور اس میں جو بے تکی بات ہوتی ہے، اس سے کوئی اچھا تاثر نہیں بنتا بلکہ مضحکہ خیز جہالت کا تاثر ابھرتا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کو سمجھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، لیکن کم از کم اتمام حجت کے لئے ایک مرتبہ اسلام ٹائمز کے مسئولین و قارئین تک یہ نکتہ پہنچ جائے کہ
اس قسم کی تحریریں متدین انقلابی نوجوانوں کو گمراہ کرتی ہیں۔ یہ جن لوگوں میں خود میں ذاتی عدالت بالکل بھی نہیں، یہ جو عمران حکومت کو کم برا سمجھنے والا نظریہ پیش کر رہے ہیں، آہستہ آہستہ ملت شریف پاکستان کی نظر میں یہ ٹولہ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے،
عمران خان نے خود جو بڑے بڑے دعوے اور وعدے کئے ہیں، عمران حکومت کے بارے میں قضاوت اسکے اپنے اعلانات و خود بیان کردہ موقف کی روشنی میں ہی کی جاسکتی ہے۔ اسکے لئے پاکستانیوں کو کسی نذر حافی صاحب کے زنانہ طعنے ڈرا نہیں سکتے۔ جو عمران خان اور انکی پی ٹی آئی کا ماضی کی حکومتوں میں موقف تھا اور انکا دعویٰ تھا کہ وہ سب کچھ ٹھیک کرسکتے ہیں، اسی ایک معیار پر اس حکومت کی کارکردگی پرکھی جائے گی۔ قرضہ لینے پر خودکشی کو ترجیح دینے کی بات نہ کی ہوتی تو تنقید بھی نہ ہوتی۔ کرپشن کے خلاف باتیں کرکے کرپٹ افراد کو رسمی و غیر رسمی عہدے نہ دیئے ہوتے تو تنقید بھی نہ ہوتی۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ وزن گدھی پر اور پاد نکلی گدھے کی۔ محترم تنقید عمران حکومت پر ہو رہی ہے لیکن تکلیف آپکو ہو رہی ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟! قانون کی حکمرانی کی باتیں بھی اس ٹولے کے منہ سے اچھی نہیں لگتیں کہ جس نے پاکستان کی عدالت کی جانب سے نااہل قررا دیئے گئے جہانگیر ترین کے ذریعے پی ٹی آئی سے انتخابی اتحاد کیا ہو۔
Iran, Islamic Republic of
مولوی خادم رضوی صاحب نے اقتصادی بحران کا حل تو بتا دیا ہے۔ مزید سے بھی اسی طرح کی امید رکھیں۔جب مخالفت برائے مخالفت اور تنقید برائے تنقید اور گالیاں و طعنے دینے والوں سے تھیوریاں مانگیں گے تو ایسے ہی جواب ملیں گے۔
Iran, Islamic Republic of
بعض لوگ یہ ذہن بنا لیتے ہیں کہ بس کسی کے خلاف ہی لکھا جانا چاہیے یا پھر ہر جگہ کسی کے قصیدے ہی ہونے چاہیے۔ اگر آپ انصاف سے کام لیتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ عمران خان کے خلاف متعدد مسائل میں مجھے لکھنے کی توفیق ہوئی ہے اور عمران خان کی حکومت سے پہلے بھی میں عمران خان کے خلاف لکھتا رہا ہوں اور حکومت کے بعد بھی۔ لیکن آپ کو تو صرف اس کے خلاف لکھنا ہی اچھا لگتا ہے, اس لئے آپ نے اس کے خلاف لکھے گئے سارے تند و تیز کالمز کو نظر انداز کر دیا۔ اور بات کی بھی تو مرزائی والے کالم کی۔ یہ اس کالم کا ایڈرس ہے:
https://www.islamtimes.org/ur/article/748593/%D8%B5%D8%B1%D9%81-%D9%85%D8%B1%D8%B2%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%DB%81%DB%8C-%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D8%B9%D8%AA%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%8C%D9%88%DA%BA
آپ خود اسے پڑھ کر ایک جملہ بھی ثابت کر دیں, جس میں مرزائی کی حمایت کی گئی ہو، اس کالم میں سراسر یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ دہشت گرد بھی مرزائیوں کے ہم پلہ مجرم ہیں اور وہ مناسب ایشو تھا ان لوگوں کو بے نقاب کرنے کا۔ اس کالم کا مرکزی خیال یہی تھا کہ ختم نبوت کے ان جھوٹے ٹھیکیداروں کو بھی پاکستان میں کسی اہم پوسٹ پر تعینات نہیں کیا جانا چاہیے۔ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے ان دشمنوں کے خلاف، مرزائیوں کی طرح فوری کارروائی کی جائے اور ان کے ہم مشرب و ہم عقیدہ لوگوں کو جلد از جلد بنیادی پوسٹوں سے ہٹایا جائے۔ یہ جملے اس کالم میں موجود ہیں, لیکن پتہ نہیں بعض احباب کو ہر جگہ عمران خان ہی کیوں نظر آتا ہے۔
باقی آپ نے جو مجھ پر ذاتی حملے کئے ہیں اور جملے کسے ہیں، ان کا جواب میں آپ کو نہیں دے سکتا, چونکہ یہ میری دینی و اخلاقی مجبوری ہے کہ میں صرف اتنی بات کروں جتنی آپ کا دل نہ دکھائے۔
والسلام
نذر حافی
France
محترم نذر صاحب
اصل مطلب پر آجائیں اور ادھر ادھر نہ گھومیں۔ آپ اپنی مجبوریوں پر جو دین و اخلاق کا غلاف چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، اس پر آپکو ایک اور مرتبہ یاد دلا دیا جائے کہ آپ نے خود لکھا ہے [[[[[آپ خود بتائیں، اگر عمران خان پیسے مانگنے سعودی عرب نہ جاتے تو پھر کہیں اور تو جاتے، مانگنی تو بھیک ہی تھی، ظاہر ہے جو پیسہ دیتا ہے وہ پالیسیاں بھی دیتا ہے، اب پیسہ لیا ہے تو اطاعت بھی کرنی ہوگی، آج تک ہم پیسے والوں سے پیسہ لے کر اطاعت ہی تو کرتے چلے آرہے ہیں۔ سو اس دفعہ تنقید کیسی!؟ یہ کوئی پہلی مرتبہ تھوڑی ہو رہا ہے۔۔۔ ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا، جب تک ہم اپنی خودی کی طرف نہیں پلٹتے۔ کاش حکومت کے ناقدین، تنقید کے بجائے کوئی متبادل تھیوری، کوئی قابلِ عمل اقتصادی نظریہ اور کوئی نئی اقتصادی پلاننگ بھی پیش کرتے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا چونکہ شکست خوردہ دماغ بانجھ ہوتے ہیں اور بانجھ دماغوں سے نئے افکار جنم نہیں لیا کرتے۔ جس معاشرے میں نئے افکار جنم نہ لیں، وہاں گداگر تو پیدا ہوتے ہیں مفکر نہیں۔}}}}}}
پاکستان میں ایسا کب نہیں ہوا کہ جو بھیک مانگنے گیا، جس نے کرپشن کی یا جس نے بھی ماضی میں کوئی بھی جرم یا خیانت کی تو اس پر تنقید نہیں کی گئی یا منع کی گئی؟ یا اسے اچھا سمجھا گیا؟ یا وہ آج پاکباز افراد ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ خیانت آمیز ضد اسلام فکر کہ موجودہ حکومت کی خیانتوں کو اس طرح پیش کریں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ ناقدین پر سارا ملبہ ڈال دینا اور پھر اس پر ڈھٹائی سے جم جانا اور بار بار آپکو متوجہ کروانے والوں کو تو آپ نے جو جو قرار دیا ہے، اس سے آپکی دینی و اخلاقی مجبوریوں کا اندازہ ہوچکا ہے۔ اپ نے ایک جاہلانہ نکتہ پیش کیا، جھوٹ پر مبنی رائے لکھی، حتی کہ فیصلہ سنا دیا کہ ناقدین بانجھ ہیں، گداگر ہیں، مفکر تو کوئی ہے ہی نہیں۔ جنابعالی یہ آپ جس دین و اخلاقیات کے عملی طور پیروکار ہیں، وہ تو اس تحریر سے ہی سبکو پتہ چل گیا۔ چلو یہ سب آپ نے کرکے دنیا و آخرت میں اللہ و رسول و امام زمان کو اپنی دانست کے مطابق راضی کر لیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب وہ خوددار اور مفکرین تو آجانے چاہئیں کیونکہ اب تو عمران خان کی حکومت ہے۔ اب انکی نالائقی، نااہلی، خیانتیں، اسکے ذمے دار بھی وہ ہیں جو آپکے کالم کے ضعیف نکات پر تنقید کر رہے ہیں؟؟؟؟؟ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ایک جھوٹا شخص ثابت ہوا ہے اور اس نے ابھی سے رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے کہ اس کا ایجنڈا کیا ہے اور اس کے باوجود اس سے حسن ظن اور ہم سے سوئے ظن یہ بھی آپکے دین و اخلاق کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے۔
پھر آپ قادیانیوں والے آرٹیکل کا بھی دفاع کر رہے ہیں، جس میں آپ نے لکھا صرف مرزائی ہی زیر عتاب کیوں؟ اس پر کسی عالم دین نے تبصرہ بھی کیا تھا، لیکن وہ آپ ہی کیا جو مان جائیں۔ یہ دہشت گرد ہیں کون؟ کیا کسی خادم رضوی کے اثاثے ہیں، جو انکے احتجاج پر آپ نے وہ تحریر لکھی۔ دم خم ہے تو حقیقت لکھیں کہ کس نے پاکستان میں شیعہ کافر کا نعرہ بلند کروایا تھا، اور انکے خلاف اقدامات کس کو کرنا تھے۔ جس کا نام لو اسکی بوٹ پالشی میں آپ ہی کے ٹولے کا کوئی نہ کوئی آدمی نظر آتا ہے۔ کوئی ایک مقدمہ تو دکھائو کہ آپکی جماعت کی طرف سے دہشت گردوں کے الیکشن لڑنے کے خلاف آپ کی قیادت نے دائر کیا ہو؟ بوٹاں والی سرکار کی خوشامد کو دینی و اخلاقی مجبوری کا نام نہ دیں۔ جتنا بات کو گھمائو گے، پھرائو گے تو مزید حقائق سے قارئین کو مطلع کیا جائے گا۔ آخری بات یہ کہ دینی و اخلاقی اصول یہ ہے کہ جن افراد کے بارے میں جانتے نہیں ہو، ان کو کسی جماعت یا رہنما سے نتھی نہ کرو۔ دوسروں کا تو مجھے معلوم نہیں، لیکن اپنا پتہ ہے کہ نہ تو ہمارا کوئی چودھری ہے، نہ ہی ہم کسی کے کمی ہیں۔ جو ہیں وہ جانیں اور آپ جیسے لوگ جانیں۔ یہ بھی سراسر جھوٹ تھا کہ صرف مرزائی ہی زیر عتاب ہیں، یہ عنوان ہی جھوٹ ہے/کیا حقیقت میں مرزائی زیر عتاب ہیں؟۔ آپکی اس تحریر پر کمنٹ موجود ہیں، ان میں سے کسی کا یہ کمنٹ بھی ہے{{{اثبات الشی نفی ما عدا نمی کند مرازئی یا قادیانیوں کی مخالفت سے دهشتگروں کی حمایت مراد نہیں ہے، ذرا سوچ کر بات کریں۔ دهشتگروں کی مخالفت میں قادیانیوں کی حمایت نه کرو، کیوں الزام خان کی حمایت میں اس قدر اندهے ہوچکے ہو!!!}}}}}
France
حافی صاحب! آپ دینی و اخلاقی لحاظ سے کس مقام پر ہیں، اسکو جانچنے پرکھنے سمجھنے کے لئے آپ اپنے لکھے ہوئے یہ الفاظ بار بار پڑھا کریں۔ محترم ڈاکٹر راشد عباس نقوی بھی بہت اچھی اردو لکھتے ہیں، ان سے پوچھ لیں کہ کیا عمران خان کے ناقدین کے لئے یہ جملے دین و اخلاقیات کی رو سے جائز بھی ہیں کہ نہیں؟؟؟؟؟
کاش حکومت کے ناقدین، تنقید کے بجائے کوئی متبادل تھیوری، کوئی قابلِ عمل اقتصادی نظریہ اور کوئی نئی اقتصادی پلاننگ بھی پیش کرتے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا چونکہ شکست خوردہ دماغ بانجھ ہوتے ہیں اور بانجھ دماغوں سے نئے افکار جنم نہیں لیا کرتے۔ جس معاشرے میں نئے افکار جنم نہ لیں، وہاں گداگر تو پیدا ہوتے ہیں مفکر نہیں۔
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
ہماری پیشکش