4
0
Wednesday 31 Oct 2018 12:30

آسیہ مسیح کیس اور ہمارے معاشرتی رویئے؟؟؟

آسیہ مسیح کیس اور ہمارے معاشرتی رویئے؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان کی سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کو  بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آسیہ مسیح کا کیس کئی حوالوں سے مشہور  رہا، اسی کیس پر بیان کو بنیاد بناتے ہوئے پنجاب کے گورنر جناب سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ نے قتل کر دیا اور اس کے بعد ایک ایسی مہم چلی جس نے ان کے قاتل ممتاز قادری کو ہیرو بنا دیا۔ ممتاز قادری کو اعلیٰ عدلیہ نے سزائے موت دے دی اور اس کی سزائے موت کے ردعمل میں تحریک لبیک نے جنم لیا۔ اس موضوع پر الگ سے لکھوں گا، ابھی صرف اتنا ہی کہ بین الاقوامی سماجی ماہرین کی جو تحقیقات قابل اعتبار بین الاقوامی جرنلز میں چھپ چکی ہیں، ان کے مطابق اس کے بعد پاکستانی معاشرہ میں انتہا پسندی کو فروغ ملا اور ایسی کمیونٹی کے لوگ متاثر ہوئے، جو  تصوف کی پرامن تعلیمات کے پیکر تھے۔ آسیہ مسیح کیس قانونی سے زیادہ انا کا مسئلہ بن گیا ہے کہ اس کو سزا دلوانے کے لئے بہت سی جماعتیں قانونی راستہ بند ہونے کے بعد احتجاج کی صورت میں حکومت پر پریشر ڈال رہی تھیں۔

آسیہ مسیح بے گناہ ہے یا گناہگار؟ اس پر بات کرنے سے پہلے پاکستان بلکہ پنجاب میں پیش آنے والے چند واقعات کا جائزہ لے لیتے ہیں، اس سے صورتحال کی درست تفہیم ہوگی۔ کوٹ رادھا کشن میں کچھ لوگ  الزام لگاتے ہیں کہ شہزاد اور شمع مسیح جو کہ رشتہ میں میاں بیوی ہیں، انہوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں علاقے میں اشتعال انگیز صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، یہ دونوں میاں بیوی  علاقہ چھوڑنے کے لئے بھٹہ مالک کی منت سماجت کرتے ہیں، مگر سب کچھ بے سود جاتا ہے اور لوگ انہیں ایک گھر میں گھیر لیتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں ان دونوں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ ان کی جلی ہو لاشیں پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کے بارے میں لوگوں کے تاثر کو منفی انداز میں پیش کرتی ہیں اور ہمیں بطور سماج بھی جھنجھوڑ جاتی ہیں۔

لاہور میں مسیحی اور مسلمان دوست تھے اور دونوں مل کر نشہ کرتے تھے، مسیحی شخص کا نشہ کا کاروبار بھی تھا، لین دین کے مسئلہ پر باہمی لڑائی ہوتی ہے، مسلمان نشئی کہتا ہے میں تم سے پوچھ لیتا ہوں اور یہ کہہ کر مسجد میں جا کر کہتا ہے کہ انہوں نے قرآن جلایا ہے۔ اب کیا تھا؟ لوگ اس بستی کے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ارد گرد کی مساجد سے بھی ایسے اعلانات کئے جاتے ہیں، جیسے شرعی گواہ قائم ہوچکے ہیں، قاضی نے سزا سنا دی ہے اور اب فقط اس پر عمل درآمد کرنا ہے، جس کے لئے لوگوں کی ضرورت ہے اور مسلمان جوق در جوق پہنچیں۔ لوگ بھی سادہ ہیں، جب وہ سمجھتے ہیں کہ مسجد کے مولوی صاحب اعلان کر رہے ہیں تو ان کی ذہن میں آتا ہے کہ یہ مذہب کی تعلیمات ہیں، جس پر عملد در آمد کے لئے ہمیں بلایا جا رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پہلو تہی کرکے گناہگار ہو جائیں، اس لئے وہ فوراً وہاں پہنچتے ہیں۔

قارئیں کو یاد ہوگا کہ چند سال پہلے جہلم میں قادیانیوں کی ایک فیکڑی جلائی گئی تھی اور الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے توہین رسالت کی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد جہلم کے ایک دوست نے بتایا کہ دراصل وہ زمین کا جھگڑا تھا، اس فیکٹری کے پیچھے ایک کالونی بن رہی تھی اور انہوں نے اس فیکٹری کے مالک سے کہا کہ فیکٹری والی زمین ہمیں بیچ دو، اس نے انکار کیا کہ میری روزی کا وسیلہ ہے، میں اسے کیسے بیچ دوں؟ اس پر انہوں نے دوسرا طریقہ نکالا کہ توہین رسالت کا الزام لگا کر اس فیکٹری کو جلا دیا۔ اس طرح کے واقعات میں جن لوگوں پر ایسے جرائم کے الزامات لگتے ہیں، وہ تو عدالتوں میں اس کا سامنا کرتے ہیں، ساتھ ساتھ ان کے گھر والوں اور بیوی بچوں کی زندگی بھی خراب ہو جاتی ہے۔

بانی اسلام، خاتم الانبیاء و المرسلین، سید العرب و العجم حضرت محمدﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا: "مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہے، نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔" کیا ہم نے اس تعلیم نبوی پر عمل کیا ہے؟ کل ہی میں ایک فیملی کا انٹرویو دیکھ رہا تھا، توہین کے الزام کے بعد پوری فیملی کی زندگی خراب ہوگئی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم جماعت بچے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، اہل محلہ آتے جاتے ہوئے ایسی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ ان کے بس ہو تو سارے خاندان کو قتل کر دیں۔ یہ غلط رویہ ہے، جس نے جرم کیا، اسے ضرور سزا ملنی چاہیئے، مگر  جن لوگوں نے کوئی جرم نہیں کیا، انہیں بلاوجہ تنگ کرنا تعلیمات نبوی کے خلاف ہے۔

اس واقعہ کا ایک بین الاقوامی پہلو بھی ہے، بہت سے ایسے گروہ جو تمام اسلامی سزاوں پر اعتراض اٹھاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار ہے، لہذا اس پر کسی قسم کی سزا ہونی ہی نہیں چاہیئے، یہ رویہ بھی غلط ہے، ہمارے ملک کا قانون اس معاملے پر بڑا واضح ہے، اگر کسی بدبخت نے کوئی گستاخی کی ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے اور ہر صورت ملنی چاہیئے۔ اس سے لوگوں کا قانون پر اعتبار بحال ہوتا ہے اور لوگ قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے۔ جب لوگوں کو پتہ ہو کہ ہم جس مجرم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کریں گے، اسے سزا نہیں ملنی تو لوگوں کا قانون سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ایک بات ہمیں بطور مسلمان ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر سنی سنائی پر یقین نہ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی بے گناہ کے خون میں اپنے ہاتھ رنگ لیں اور بعد میں پوری زندگی پچھتاتے رہیں۔

آسیہ مسیح کے معاملے میں بھی بہت حساسیت آچکی ہے، ایک غیر مسلم سے بات ہو رہی تھی، وہ کہہ رہا تھا کہ ہم جب ایک مسلم اکثریتی ملک میں رہتے ہیں تو اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی بھی مسلم عقیدے کے خلاف بات کرنا ہمارے لئے مشکل پیدا کرسکتا ہے، اس لئے ہم اس سے گریز کرتے ہیں اور بچوں کو بھی کہتے ہیں کہ وہ بھی گریز کریں۔ سپریم کورٹ میں فریقین نے اپنے دلائل پیش کئے ہیں اور سپریم کورٹ جو ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آسیہ بی بی بے گناہ ہے۔ اب ردعمل میں سڑکوں کو بلاک کرنا، جلاو گھراو کرنا، جس سے بعض اوقات اموات واقع ہو جاتی ہیں، کسی طور پر اسلام اور پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ دوبارہ اپیل کرنی چاہییں، مزید اچھے وکلا کرنے چاہئیں، جس سے ملزمہ کو سزا مل سکے۔ یاد رکھیں عدالتیں خواہشات پر فیصلے نہیں دیتیں بلکہ ان کے قانونی تقاضوں کو پورا کیا جائے تو ہی وہ سزا دیتی ہیں۔

مستقبل کے حوالے سے تجاویز ہیں:
ایسے واقعات میں مکمل تحقیق کے بعد ایف آئی آر درج ہونی چاہیئے اور اس میں کسی قسم کا سقم نہیں ہونا چاہیئے۔ ایف آئی آر کے بعد مکمل تحقیق ہونی چاہیئے، جس میں کسی قسم کا دباو نہ ہو۔ عدالتیں مجرموں کو سزا دیں اور جنہیں بری کریں اس پر لوگوں کو انگلیاں نہیں اٹھانی چاہییں۔ آخر میں نبی اکرمﷺ کی یہ حدیث ضرور بیان کرنا چاہوں گا آپؑ نے فرمایا تھا، کل قیامت کے دن میں ہر اس مسلمان کے خلاف اور اس ذمی کی حمایت میں وکیل ہوگا، جس نے کسی غیر مسلم کو تنگ کیا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 758746
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اسلام ٹائمز نے عمران خان کے بعد آسیہ ملعونہ کا بھی دفاع کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔
Iran, Islamic Republic of
اسلام ٹائمز والو عمران حکومت کے ہر فعل کا دفاع کرتے جاو۔ ان صاحب نے پہلے عمار خاکشوانی کی تبلیغ کی تھی، اب عمران حکومت کے وزیر دفاع بن کر آسیہ ملعونہ کی طرفداری کر رہے ہیں۔ جب آیت اللہ قاضی نیاز نقوی صاحب ملت تشیع کی ترجمانی کر رہے ہیں تو پھر کسی اور کو رائے دینے کا حق نہیں پہنچتا۔
Iran, Islamic Republic of
روئے یاراں نوں تے ناں پراراں دے۔ حمایت عمران خان کی اور بہانہ معاشرتی رویوں کا۔
سجاد
Iran, Islamic Republic of
عیسائیوں کی آڑ میں عمران خان کا دفاع کرنے کے بجائے آپنی شیعہ کمیونٹی کا دفاع کرو، جو بہت کمزور اور مظلوم ہے اور جس کے لوگوں کو سرکاری ادارے مسلسل اغوا کر رہے ہیں۔
ہماری پیشکش