2
3
Thursday 1 Nov 2018 12:37

دینِ سیاسی اور سیاستِ دینی

دینِ سیاسی اور سیاستِ دینی
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

دیکھنے کے لئے آنکھیں چاہیئے، کیا آپ نے کبھی ایسے بے دین، شرابی، اور اوباش شخص کو دیکھا ہے جو الیکشن لڑتا ہو، ووٹ مانگتا ہو، لیکن یہ کہتا ہو کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں! دوسری طرف آپ نے کسی ایسے شخص کو ضرور دیکھا ہوگا کہ جو نمازی، پرہیزگار اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کہتا ہو کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں! ایسا دیندار آدمی جو اپنے آپ کو غیر سیاسی کہتا ہے، اس کے نزدیک دین فقط عبادات اور طہارت و نجاسات تک محدود ہے۔ لہذا انسان کو عبادات اور طہارت و نجاسات کے علاوہ تمام تر امور خصوصاً سیاسی و اقتصادی معاملات میں اہلِ مغرب کی اقتدا کرنی چاہیئے۔ ایسے لوگ دین کو دنیا چلانے کے لئے ناکافی سمجھتے ہیں، حالانکہ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے دینی حکومت قائم کرکے دکھائی بھی ہے۔ مجموعی طور پر تین وجوہات کی بنیاد پر لوگ دین کو ناکافی سمجھتے ہیں:
1۔ علم دین سے سطحی آشنائی
2۔ دیندار سیاسی لوگوں کا منفی کردار
3۔ علومِ سیاسی سے ناآشنائی

اب آیئے ہم ان تینوں وجوہات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں:
1۔ علم دین سے سطحی آشنائی
ایسے لوگ دین میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے اور دین کے بارے میں ان کی معلومات سطحی اور ناکافی ہوتی ہیں، لہذا یہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، معاشی، تجارتی نیز تعلیمی نظریات کو بھی غرب سے درآمد کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو علمی اصطلاح میں التقاطی[1] گروہ کہتے ہیں۔ یہ مغربی دانشمندوں اور فلاسفرز حضرات کے نظریات کو اسلام کے ساتھ ملاکر ایک نئی چیز عوام کے سامنے لاتے ہیں اور اسی کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک دین سیاسی نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے سیاستِ دینی کا انتخاب کرتے ہیں۔ جیسے سیاست سیکولر، لبرل، کیمونسٹ ہوسکتی ہے، ایسے ہی ان کے نزدیک سیاست دینی بھی ہوسکتی ہے، لہذا اس طرح کے لوگ اپنے مقاصد کے لئے سیاستِ دینی کا راستہ چنتے ہیں۔

2۔ دیندار سیاسی لوگوں کا منفی کردار
یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ جب دیندار افراد سیاسی فریضے کو ادا کرنے لگتے ہیں تو اس دوران ان میں سے بعض ایسی غلطیوں اور اشتباہات کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جس سے معاشرے کے دیگر دیندار لوگ مایوس ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو غیر سیاسی کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں کی عمومی فضا ہے کہ اگر کسی ایک دیندار شخص یا روحانی و مولوی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو لوگ اسے ایک شخص کی غلطی نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ سارے ہی مولوی، یا دین کا نام لینے والے ایسے ہی ہیں۔

3۔ علومِ سیاسی سے ناآشنائی
ہمارے ہاں اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سیاست اور علومِ سیاسی میں کیا فرق ہے؟ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے لوگ اگرچہ ووٹ تو ڈالتے ہیں لیکن سیاست کو منافقت سمجھتے ہیں۔ عام طور پر لوگ سیاست کو ایک گالی اور طعنہ سمجھتے ہیں، مثلاً اگر کسی محفل میں ایک عالم دین کا یہ تعارف کروایا جائے کہ یہ سیاسی مولوی ہیں تو اس سے لوگوں پر مثبت کے بجائے منفی اثر پڑے گا۔
اب آیئے اس مسئلے کے حل کی طرف چلتے ہیں، لوگوں کو دینِ سیاسی کا شعور دینے کے لئے ایک جہدِ مسلسل کی ضرروت ہے، تمام انبیائے کرام اسی لئے مبعوث ہوئے کہ لوگوں کے شعور میں اضافہ کریں اور مستضعفین کو مستکبرین سے نجات دلائیں۔ اس کے بدلے میں لوگ انبیائے کرام کو پتھر مارتے تھے، گالیاں دیتے تھے، طعنے دیتے تھے اور قتل کرتے تھے۔ لوگوں کا یہی رویہ انبیائے کرام کے اوصیا اور اولیائے کرام کے ساتھ بھی رہا۔ ہردور میں اس پیغام کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ سیاست سے مراد سرپرستی کرنا، تدبیر کرنا، عدل و انصاف قائم کرنا ہے اور علومِ سیاسی سے مراد ایسے علوم ہیں، جو معاشرے کی مدیریت، اجتماعی فعالیت، سرپرستی، تنظیم اور تدبیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسنِ اتفاق سے دینِ اسلام کا سارا ہم و غم ہی انسانی زندگی کو انفرادی، اجتماعی اور عبادی لحاظ سے منظم کرنا ہے۔ چنانچہ دینِ اسلام اور سیاست ایک ہی چیز ہیں۔

ارسطو نے علم سیاست کو حکومت کے مطالعے کا علم قرار دیا ہے[2] اور پیغمبرِ اسلامﷺ نے اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت قائم کرکے دکھائی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ قدیم سے ہی انبیائے کرام عوام کو طاغوتی اور ظالم بادشاہوں کے خلاف سیاسی شعور دیتے چلے آئے ہیں۔ سیاست کا ہدف ہی عوام کو طاقتور کرنا ہے، انبیائے کرام اور دینِ اسلام کا ہدف بھی یہی ہے کہ مستضعف لوگوں کو اتنا باشعور کیا جائے کہ وہ ظالم حکمرانوں کے مقابلے میں طاقتور ہو جائیں۔ لغت میں سیاست سے مراد مخلوق کے امور کی اصلاح کرنا، حکومت کے کاموں کی مدیریت کرنا، ملک کے داخلی اور خارجی معاملات کی دیکھ بھال کرنا، عوام کے حقوق و فرائض اور سزا و جزا کو منظم کرنا ہے اور جو مذکورہ امور میں  بصیرت، دانائی اور تجربہ رکھتا ہو، اسے سیاستدان کہتے ہیں۔[3] انسان ایک حیوانِ سیاس ہے اور انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ خود بھی اور دوسروں کو بھی درپیش خطرات سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ اس وقت  انسانی معاشرے کو سب سے بڑا خطرہ یہ لاحق ہے کہ وہ سعادت و خوشبختی سے دور ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا کمال، سعادت اور خوشبختی کی پٹڑی سے اترے ہوئے اس معاشرے کو دینِ سیاسی اور سیاستِ دینی کا فرق سمجھایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
https://cutit.org/politics
[1] Eclectic
[2] Oxford Dictionary of Politics: political science
[3] محمد بهشتي، فرهنگ صبا، ص630
خبر کا کوڈ : 758915
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بہت عمدہ
اشفاق احمد
Canada
ہمیں سیاسی و اجتماعی طور پر عقب ماندہ رکھا گیا ہے اور ان مطالب کو ابھی بھی کہیں بیان نہیں کیا جاتا سوائے اسلام ٹائمز کے۔
شکریہ اسلام ٹائمز
ہماری پیشکش