11
0
Saturday 3 Nov 2018 17:14

دیندار بھی اور غیر جانبدار بھی

دیندار بھی اور غیر جانبدار بھی
تحریر: نذر حافی

مستشرق Orientalist وہ غیر مسلم ہوتا ہے، جو کسی مشرقی ملک کا  مقامی باشندہ نہیں ہوتا بلکہ اسلام کو سمجھنے کے لئے مغرب سے مشرق کا رخ کرتا ہے۔ اب جدید تعریف کے مطابق مغرب کی قید اٹھا دی گئی ہے اور ہر وہ غیر مسلم جو اسلام کے بارے میں تحقیق کرتا ہے، اسے مستشرق کہتے ہیں، خواہ وہ کسی مغربی ملک کا رہنے والا ہو یا مشرقی ملک کا۔ مغربی ہونے کی قید اٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے غیر مسلم جو مشرقی ممالک جیسے ہندوستان اور چین میں رہتے ہیں، وہ بھی جب اسلام کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو اس کی نوعیت مغربی غیر مسلم محقیقین کی طرح ہی ہوتی ہے اور غیر مسلم ہونے کے ناطے ان کے مشرقی یا مغربی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑھتا، لہذا اب مغربی کو ہٹا کر مغربی کی جگہ غیر مسلم لکھنا درست قرار پایا ہے۔[1] زمانہ قدیم میں استشراق سے مراد شرق شناسی لی جاتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ تاریخ نے یہ حقیقت کھولی کہ شرق شناسی کے بہانے اسلام کی کھوج لگائی جا رہی تھی اور اسلامی ممالک کے دینی نظریات نیز آبی و معدنی اور فوجی وسائل مستشرقین کے پیشِ نظر تھے۔ چونکہ اسلام کا طلوع بھی مشرق سے ہوا ہے تو استشراق کے دائرے میں مشرقی مملکتیں اور اسلام دونوں آتے ہیں اور مستشرق دونوں کے بارے میں کھوج لگاتے ہیں۔

ظہورِ اسلام اور استشراق
 ظہور اسلام کے وقت لوگوں کا ذوق و شوق سے مسلمان ہونا، غیر مسلموں کے لئے سخت تشویش کا باعث تھا، بعد ازاں پیغمبرِ اسلام ﷺ نے جب دیگر ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کی قبولیت کا پیغام بھیجا تو دیگر ادیان کے دینی رہنماوں کے ساتھ ساتھ بادشاہوں کو بھی اسلام سے شدید خطرہ محسوس ہوا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب غیر مسلم دانشمند اس حقیقت کو سمجھ چکے تھے کہ وہ تلوار کے ساتھ اسلام کا راستہ نہیں روک سکتے، چونکہ اسلام کو لوگ عقل کے ساتھ قبول کر رہے تھے۔ بعد ازاں ایک طرف مسلمانوں نے اسلامی حکومت کو ملوکیت میں تبدیل کیا اور دوسری طرف اسلام سے سہمے ہوئے غیر مسلم اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے میں مشغول ہوگئے۔ مجموعی طور پر تین طرح کے لوگ  اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے میں مشغول ہوئے:

مستشرقین کی اقسام
مختلف تحقیقات کے دوران حسبِ ضرورت مستشرقین کی متعدد انواع و اقسام بیان کی جاتی ہیں۔ ہم قارئین کی سہولت کے لئے مستشرقین کو تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں:
1۔ عیسائی مبلغین
2۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس
3۔ سچائی کی کھوج لگانے والے
1۔ عیسائی مبلغین
عیسائی مبلغین، علم و قلم کے ساتھ عیسائیت کی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کے لئے مسلمانوں کے نکات ضعف کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے، لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات ایجاد کرتے تھے اور اسلام کا عیسائیت سے غلط موازنہ کرکے لوگوں کو عیسائیت کی  طرف دعوت دیتے تھے۔ آپ تحقیق کرکے دیکھ لیجئے کہ قرآن مجید کا لاطینی میں پہلا ترجمہ 1143ء عیسوی میں ہوا اور ترجمہ کرنے والا کوئی مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی کسی مسلمان حکمران نے یہ ترجمہ کیا تھا بلکہ فرانس کے کلیسا کے سربراہ یعنی کشیش جس کا نام پِطرُس تھا، اس نے یہ ترجمہ کیا۔ اگرچہ اس ترجمے میں بہت ساری غلطیاں موجود تھیں، لیکن چونکہ کسی مسلمان نے اصلاح یا نیا ترجمہ کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی، چنانچہ یہی ترجمہ جہانِ غرب میں مقبول رہا اور اسی ترجمے سے اٹلی، جرمنی اور ہالینڈ کی زبانوں میں بھی ترجمے کئے گئے۔[2]

2۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس
اب دیکھتے ہیں کہ مختلف حکومتوں کے جاسوس مستشرقین کیا کرتے تھے، ان کا کام مسلمانوں کے اہم مقامات، معدنی ذخائر، جنگی نظریات و طریقہ کار، باہمی روابط نیز مختلف اسلامی فرقوں کے اختلافات کو ڈھونڈنا، ان کی معلومات کو قلمبند کرنا اور کسی مسلمان ملک سے جنگ ہونے کی صورت میں درست اعداد و شمار کے ساتھ اپنی حکومتوں کی بروقت رہنمائی کرنا تھا۔ مستشرقین کی فراہم کردہ معلومات کے باعث ہی اس وقت بھی اسلامی ممالک کے معدنی ذخائر کو نکالنے کی قراردادیں غیر مسلم ممالک سے بندھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جنگیں بھی مستشرقین کے نقشے کے مطابق لڑی جاتی تھیں، مثلاً آج بھی ہم میں سے کتنوں کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ صلیبی جنگوں کی تعداد کتنی ہے اور یہ کتنا عرصہ لڑی گئیں اور ان میں مستشرقین کا کیا کردار تھا۔؟

3۔ سچائی کی کھوج لگانے والے
اب آئیے صرف تحقیق کرنے والے مستشرقین کی بات کرتے ہیں، تو انہوں  نے بھی مختلف زبانوں میں قرآن و حدیث کے ترجمے کئے اور اسلامی عقائد کو متعارف کروایا، اس کے ساتھ ساتھ کئی مستشرق مسلمان بھی ہوئے، لیکن زیادہ تر نے مذہبی تعصب کی بنا پر قرآن و حدیث کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہوئے قرآن و حدیث پر اشکالات وارد کئے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے عقائد کی غلط تبیین کی، تاکہ لوگ اسلام کو قبول کرنے کے بجائے اسلام سے متنفر ہونے لگیں۔
مستشرقین کا اسلام کے خلاف  ایک علمی حربہ
اسلام کی تبلیغ کو روکنے کے لئے تحقیق کے بعد متعصب مستشرقین نے دو کام کئے، ایک تو مسلمانوں کی کتابوں کے ترجمے کرتے ہوئے ان میں شبہات وارد کئے اور لوگوں کو اسلام کی غلط تصویر دکھائی، جبکہ دوسرا کام یہ کیا کہ مسلمانوں کے درمیان اس بات کو عام کیا کہ آپ یہ حق اور باطل، صحیح اور غلط کی باتیں چھوڑ کر نیوٹرل ہو جائیں۔ آپ کے لئے نعوذباللہ بُت بھی اور اللہ کی ذات بھی برابر ہے، اگر آپ بتوں کے نقائص نکالتے ہیں تو پھر نیوٹرل رہنے کے لئے معاذاللہ، اللہ کی  ذات میں بھی خامیاں تلاش کریں۔ اگر آپ تورات و انجیل میں تحریف کے قائل ہیں تو نعوذباللہ قرآن مجید میں بھی تحریف کو قبول کریں۔ اسی طرح اپنی زندگیوں میں اصول پرستی کے بجائے نیوٹرل بن جائیں، بے شک آپ کے اردگرد ظلم ہوتا رہے، لیکن آپ نیوٹرل بن کر تماشا دیکھتے رہیں۔

یہ  دیندار طبقے کی اس نیوٹرل فکر کا نتیجہ ہے کہ آج بھی غیر مسلم مل کر مسلمانوں پر مظالم کرتے ہیں، ان کے حقوق پامال کرتے رہے، انہیں دہشت گرد ٹولوں میں تقسیم کرتے رہے اور مسلمان نیوٹرل بن کر ایک دوسرے کی بربادی کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ جس کی تازہ مثالیں کشمیر و فلسطین، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی صورت میں آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مستشرقین کا یہ وہ حربہ تھا، جو سب سے بڑھ کر کارگر ثابت ہوا اور آج بھی دیندار طبقے میں اس نیوٹرل پن کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ حالانکہ حق و باطل کے بیچ میں کوئی درمیانی راستہ نہیں اور حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار ہو جانا دراصل باطل کی ہی مدد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] استفادہ از دکتر عبدالمنعم فواد، من افترائات المستشرقین علی الاصول العقدیہ فی الاسلام ص ۱۷
[2] شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان از دکتر محمد حسن زمانی
خبر کا کوڈ : 759274
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بہت معلوماتی ہے اور عوامی شعور کی سطح کو بلند کرنے کے لئے ایسی تحریروں کی اشد ضرورت ہے۔ جزاک اللہ
Canada
عرض سلام و ادب کے بعد مودبانہ سوال
مستشرقین کی ان تینوں قسموں میں سے کسی ایک کا بھی ان تکفیری دہشتگرد گروہوں سے کیا تعلق ہے جو محترم حافی صاحب نے جوڑنے کی ناکام کوشش کی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دیندار بھی اور غیر جانبدار بھی، کیا پاکستان میں یا مسلمان و عرب ممالک میں جو دیندار طبقہ ہے یا جو غیر جانبدار طبقہ ہے، اس کا ان مستشرقین سے ربط و تعلق کیا ہے؟ اسکی چند مثالیں پیش کریں۔
اسلام ٹائمز کی محترم انتظامیہ سے گزارش ہے کہ بھائی نذر حافی کو کسی اچھے مدرسے میں داخل کرواکے انہیں نتیجہ گیری کی تمرین کروائیں اور خاص طور منطقی و مدلل نتیجہ گیری کی سخت تمرین کروائیں۔ تاحال انہیں معلومات سے درست نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ بھائی.... جنرل ضیاء کے مارشل لا آمریتی دور میں تکفیری دہشتگرد گروہ بنا، یہ افغان پالیسی کا نتیجہ تھا اور اس میں امریکا کے جاسوسی و فوجی ادارے شامل تھے۔ اس جدید صلیبی یا صہیونی جنگ میں فوجی و جاسوسی اداروں کو انکے سعودی و خلیجی عرب اتحادی ادارے و شخصیات و علماء نما افراد کے ہوتے ہوئے کسی مستشرق کی ضرورت کیوں ہوگی؟ مسلمانوں کے بین المسالک اختلافات کے لئے کسی مستشرق کو مت ڈھونڈیے اور حقیقت قبول کر لیجیے کہ ایک ہی فقہی امام کو ماننے والے حنفی پاکستان جیسے ملک میں دیوبندی بریلوی کی شدید تقسیم سے دوچار ہیں۔ حتی کہ آج کے دور میں ایم آئی سکس کے نیابتی گروہوں کو بھی آپ مستشرقین کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔
اس تحریر کو اگر آپ مستشرقین تک محدود رکھ کر اس کی چند مثالیں پیش کرتے کہ فلاں فلاں نے فلاں کے دور میں یہ یہ کام کئے تو بھی قابل برداشت تھا۔
خدا سے دعا ہے کہ نذر حافی صاحب جیسے افراد ایسے موضوعات پر لکھیں کہ جس سے ہم جیسے جاہل و فاسق و فاجر کی جہالت دور ہو اور دین اسلام کی حقانیت اور مسلمانان عالم کے مسائل اور انکی اصلک وجوہات سے آگاہی حاصل ہو۔ ورنہ ایسی تحریروں کی بنیاد پر دنیا شیعہ صاحب نظر افراد کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں لے گی۔
France
آسمان کا تھوکا منہ پر۔ اسلام ٹائمز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے بہترین محقیقین کا گلدستہ تیار کیا ہے، جو انواع و اقسام کے موضوعات پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں، جو ملت کے لئے سرمایہ ہیں۔
زعفران کی بہار اندھا یا گدھا کیا جانے۔ میں اسلام ٹائمز کا قدیمی قاری ہوں اور اس کی ترقی و کامیابی کو مسلسل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔
یہ کالم بالکل منفرد اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق لکھا گیا ہے۔ ہم کب تک قوم کو جہالت کی چکی میں گردش دیتے رہیں گے اور ان سے علمی معلومات پہنچنے سے روکے رکھیں گے۔
یہ کتنی جہالت اور تعصب پر مبنی بات ہے کہ ایک طرف تو آپ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا تعلق مستشرقین سے نہیں اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ تکفیری گروہ کو بنانے میں امریکہ کے فوجی و جاسوسی ادارے ملوث تھے۔
بھائی انہی امریکہ و یورپ کے فوجی و جاسوسی اداروں کو جو مسلمانوں پر غلبے کے لئے تحقیق اور منصوبہ بندی کرتے ہیں، علمی اصطلاح میں انہی کو مستشرقین کہتے ہیں۔
لارڈ میکالے بھی ایک مستشرق تھا، جس نے ہندوستان کی غلامی کا نسخہ برطانیہ کو دیا تھا اور ابھی جو بحرین میں عرب کانفرنس ہوئی ہے، اس کا نقشہ بھی اسرائیلی و امریکی تھنک ٹینکس نے تیار کیا ہے، خود اسرائیل کا نقشہ تھیوڈہزل ایک مستشرق نے تیار کیا تھا۔
آپ یا تو کسی ادارے کے جاسوس ہیں، جو نہیں چاہتے کہ ہماری قوم علمی موضوعات پر کام کرے اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی رہے اور یا پھر آپ انتہائی معذرت سے بہت عقب ماندہ شخص ہیں، آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ کالم اور کتاب میں کیا فرق ہے؟
یہ کالم لکھا گیا ہے، کتاب نہیں کہ اس طرح کی تفصیل بیان کی جائے، جو آپ کہہ رہے ہیں۔ اگر آپ کو پتہ ہوتا کہ کالم لکھنے کا مقصد کیا ہوتا ہے تو آپ ایسی احمقانہ باتیں نہ لکھتے، البتہ قوی امکان ہے کہ آپ کا تعلق کسی ایسی خفیہ ایجنسی سے ہو، جس کا مقصد اسلام ٹائمز کی حوصلہ شکنی ہو، لہذا میری اسلام ٹائمز کے تمام محقیقین سے گزارش ہے کہ دشمن ہماری ہمت اور ارادوں کو کمزور کرنا چاہتا ہے، لہذا اپنے مقام پر ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کی طرف سے آنے والے پتھر اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ کامیابی سے اپنے مشن کی تکمیل کر رہے ہیں، چونکہ پتھر ہمیشہ چلتی ہوئی ٹرین کو مارے جاتے ہیں۔
والسلام
امجد موسوی
آپ سب کے لئے دعا گو
Germany
اللہ میاں کی گائے کو مستشرق کا پتہ ہی نہیں کہ ایم آئی سکس ہو یا امریکی و اسرائیلی و صہیونی ادارے ان میں مشرق شناسی اور اسلام شناسی کے ماہرین مستشرق کہلاتے ہیں اور یہ کوئی صرف پرانے دورکا مسئلہ نہیں بلکہ آج بھی مستشرقین کے ادارے اور انجمنیں موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں۔
کم علم لوگوں کو سامنے ایسے موضوعات بھینس کے سامنے بین بجانے والی بات ہے۔
فاضل کالم نگار نے بڑے خوبصورت انداز میں مستشرقین کا نقشہ قارئین کے ذہنوں میں بٹھایا ہے اور ہمیں مستشرقین کی فعالیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو جہالت کے اندھیروں سے نکالے اور ہمیں اپنے پڑھے لکھے افراد کی قدر کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
United States
حافی صاحب ماشاءاللہ آپ توجہ سے اپنا کام جاری رکھیں۔ جن صاحب نے تنقید کی ہے، ان کی باتوں سے ان کی علمی صلاحیت کا اچھی طرح اندازہ ہو رہا ہے۔ ایسے لوگ ہر قوم و قبیلے میں پائے جاتے ہیں، اگر یہ کسی کام کے ہوتے تو کوئی کام کی بات کرتے۔ یہ کالم اور مستشرقین کا مطلب بھی نہیں سمجھتے تو مقصد کیا سمجھیں گے۔ ان کی اوقات اور سوجھ بوجھ یہی کچھ ہے، جو ظاہر ہوچکی ہے۔ لہذا تحقیقی و علمی دنیا کے مسافروں کو کم فہموں اور کج بحثوں سے کترا کے گزر جانا چاہیے۔
کسی زمانے میں پڑھا تھا اور آج یاد آیا کہ
عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را
شعر غلط ہو تو اصلاح کر دیجئے گا۔ بہت عرصہ پہلے پڑھا تھا۔ مولا آپ کو سلامت رکھیں
Netherlands
بھارت میں لارڈ میکالے کا کردار اپنی جگہ ایک متنازعہ ایشو ہے لیکن مستشرق کی جو اصل یا اصطلاحی تعریف ہے، اس پر یہ گل بکائولی پورا نہیں اترتا۔ ۔نہ تو لارڈ مکالے کی وجہ شہرت مستشرق کی ہے نہ ہی تھیوڈور ہرزل کی۔ اول الذکر سیاستدان اور مورخ تھا تو آخر الذکر ایک صحافی اور فعال سیاسی کارکن تھا۔ سیاسی صہیونیت کا بانی تھا۔ چلئے انیسویں صدی میں پیدا اور انتقال کرنے والے لارڈ گل بکا ئولی اور انیسویں اور بیسویں صدی کے ہرزل کا ہی پاکستان کی تکفیری دہشت گردی سے کوئی ربط جوڑ دیجیے۔ کوئی تکا مار لیجیے۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے جس نے بھی کیا ہے یقینی طور پر ایک کم علم ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی جہالت دور ہو کہ آج کے دور کے حالات سے کس مستشرق کا تعلق ہے؟ کونسے ادارے کے پاس کونسا مستشرق ہے؟ آپ سب مل کر تکے مار لیجیے اور جاسوس، غدار، کافر، مشرک جو بھی سمجھ لیجیے کوئی مسئلہ نہیں، جواب تاحال غائب ہے۔ چونکہ اسامہ بن لادن سے ملا عمر تے نال جھنگوی سرکار سبھی کا تعلق کہیں اور سے ہے، اس لئے ہم بھی جاننا چاہیں گے کہ کس ادارے کے کس مستشرق نے ان ہستیوں کو اس دھندے پر لگایا؟ معذرت پیشگی عرض ہے کہ آئیں بائیں شائیں کی بجائے سیدھے اصل مطلب پر آجائیں۔ جہالت ہی تو پھیلا رہے ہو بھائی جان، پھر کہہ رہے ہو کہ جہالت دور ہو رہی ہے اور کچھ نہیں مل رہا تو اسلام ٹائمز کے ہر کالم نگار کے خلاف رائے ڈال چکے ہو۔ نفس پرستی سے اللہ کی پناہ۔ اس خود خواہی و خود پسندی سے اللہ کی پناہ۔ انجمن ستائش باہمی کی نظر میں باقی سب کو محنت کی ضرورت ہے،
باقی سب تکرار کر رہے ہیں باقی سب چٹنی پیش کر رہے ہیں، کوئی آئیڈیا ہی نہیں سوجھ رہا، بس ایک ہی
آدمی پر سب کچھ نازل ہو رہا ہے۔ حد ہوتی ہے یار، بس بھی کر دیں۔ بہت ہی مضحکہ خیز تکے مارے ہیں امجد موسوی صاحب نے۔ یعنی انجمن ستائش باہمی کسی طور حقیقت ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز کے مسئول سے گذارش ہے کہ ایک مرتبہ ان سارے انجمن ستائش باہمی کے افراد کا کسی نفسیاتی اسپتال میں علاج کروائیں۔
Greece
بھائی جان پہلے اپنا علاج کروائیں اور سب سے بڑا علاج تذکیہ نفس ہے۔ اللہ کریم کی ذات ہمیں بغض و نفاق کے امراض سے پاک کرے۔ میں تو بس دعا ہی کرسکتا ہوں۔ باقی میرے بھائی علمی دنیا میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس کی شہرت کیا تھی بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون حقیقت میں کیا تھا۔ تھیوڈ ہرزل اور میکالے شرق شناس تھے اور یہ مستشرق کی جدید تعریف میں آتے ہیں۔
آپ نہیں مانتے تو نہ مانہں لیکن ڈنگ تو نہ ماریں۔
United States
حق سچ آمین
France
اسلام ٹائمز کی محترم انتظامیہ کی خدمت میں مودبانہ عرض کہ
محترم نذر حافی صاحب کی بعض تحریریں ایسی ہیں جس پر بعض سوالات ذہن میں آئے تو بعض دوستوں نے انکی خدمت میں اسی ویب سائٹ کے توسط سے پیش کر دیئے لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک دیندار بھی اور غیر جانبدار بھی کے عنوان کی اس تحریر میں مستشرقین اور تکفیریوں کا ربط وہ بتا نہیں پائے۔ جو صاحبان انکے دفاع پر اترے انہوں نے میکالے اور ہرزل کی مثال تو دے دی لیکن سوال تاحال جواب طلب ہے اور اس عنوان سے انکے دلائل کا کوئی ربط بن نہیں رہا۔ البتہ سوال پوچھنا انکو ڈنگ مارنا لگ رہا ہے اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ سائل کو نفس کو پاک کرنے اور بغض کو دور کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ویسے تو ان احباب کے تکوں سے ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ مالیخولیائی کیفیت میں انسان وہم کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔ اصل میں عرض یہ کرنا ہے کہ جناب جیسے ہی حضرت نذر حافی سے شبہات دور کرنے کی گستاخی ہم سے سرزد ہوگئی تو اسکا غصہ انجمن ستائش باہمی نے یوں نکالا کہ اسلام ٹائمز کے محترم تجزیہ نگاروں کی تحریروں پر منفی اور تحکمانہ احکامات جاری کئے اور پھر بعض افراد نے اس پوری صورتحال کو یوں پیش کیا گویا کوئی ایک ہی ٹولہ یہ سب کچھ کر رہا ہے۔
اللہ تبارک و تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ کہتے ہیں کہ حافی صاحب سے سوالات ہم نے پوچھے اور دیگر کسی تجزیہ نگار کی کسی بھی تحریر پر کوئی بھی کمنٹ ہم نے نہیں کیا، بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ احمقانہ اندھادھند لفظی گولہ باری بھی انجمن ستائش باہمی کی کارستانی ہے اور ہمیں اسکا تلخ تجربہ بھی ہے اور اس نوعیت کی بدتمیزی، کینہ پروری، توہین و باجماعت تبرا بسا اوقات انہی مقدس مآب مولوی حضرات کی جانب سے ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ خدا اسلام ٹائمز کو انکے شر سے نجات دے۔
Iran, Islamic Republic of
میں بھی حلفا کہتا ہوں کہ میں نے ابھی تک اس مسئلے پر کوئی کمنٹ نہیں دیا اور اسی انتظار میں تھا کہ کب چہروں سے نقاب الٹتے ہیں۔ ایک بات تو یہاں سمجھ آگئی کہ حق زبان پر جاری ہو کر رہتا ہے۔ آپ کا یہ کہنا کہ یہ ہم نے کیا تھا اور یہ ہم نے نہیں کیا اور ہم اس طرح کے تلخ تجربے کے حامل ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں گروھی کام ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دوں کہ یہ انتظامیہ ہی انتظامیہ سے اپیلیں کر رہی ہے۔
یہ کمنٹس کا سب ڈھونگ کیوں رچایا گیا۔ ابھی میں اس کو سمجھا ہوں اور اب بات عوام میں ہوگی۔ دلائل کے ساتھ۔
آپ بھی انتظار کریں میں بھی شواہد جمع کرتا ہوں کہ کون کون صاحب اس گندے کھیل میں ملوث ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔
France
محترم نذر حافی صاحب
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ پڑھ کر ہم آپ کو براہ راست مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ آپ نے جتنی بھی باتیں خود سے متعلق کمنٹس کے جواب میں جو یہاں آخری مرتبہ تحریر کی ہیں، یہ سب آپکا وہ وہم ہے جو سراسر سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔ نہ تو اسلام ٹائمز کی انتظامیہ کے کسی بھی فرد کو ہم جانتے ہیں اور نہ ہی وہ ہم کو۔ بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ اگر انکا کوئی جھکائو ہے تو وہ آپ ہی لوگوں کی طرف ہے۔ آپکا دوسرا تکا بھی ایک اور جھوٹا وہم ہے کہ کوئی گروہی کام ہوا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ عوام میں بات کرنے کی تڑی آپ کیوں دے رہے ہیں جبکہ نہ تو آپ کوئی زرداری، نواز یا عمران خان کے قبیلے کے سیاستدان ہیں نہ ہی کوئی عوامی شخصیت۔ آپکی بعض تحریروں میں بہت سی باتیں وضاحت طلب ہیں اور آپ سے درخواست کی گئی ہے دوبارہ عرض کر دیتے ہیں کہ آپ سے جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب دے دیں، مسئلہ ختم یا معذرت کر لیں کہ آپ سے اشتباہ سرزد ہوا ہے۔ عمران خان پر تنقید کیسی کے عنوان سے جو لکھا، اس میں بھی آپ نے غلطی کی اور اس تحریر اور بعض دیگر میں بھی۔ یا ثابت کریں یا معذرت۔ آستینیں چڑھانے اور فرضی دشمنوں کو چہرے سے نقاب الٹنے کی احمقانہ باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اوپر کلمہ لکھ کر حلفیہ کہتے ہیں کہ آپ کے مفروضے بے بنیاد ہیں، نہ کوئی ذاتی عناد ہے، نہ بغض ہے نہ ہی کوئی ایسی کیفیت جو آپ دعوی کر رہے ہیں۔ البتہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ٹائمز کے دیگر محترم تجزیہ نگاروں پر جو اندھادھند لفظی گولہ باری ہوئی ہے، اس میں آپ لوگ ملوث ہیں، کیونکہ ٹائمنگ یہی ہے کہ آپ سے سوالات ہوئے اور اسکے بعد گولہ باری سے آپ نے انتقام لینے کی کوشش کی۔ اسلام ٹائمز کو بھی نہیں بخشا آپ نے، حد ہے احسان فراموشی کی، حیف ہے آپ کی اس گھٹیا سوچ پر کہ جس فورم کے توسط سے آپکو ایک پہچان ملی اور چار لوگوں میں آپ کی کوئی شہرت ہوئی، آپ اسی فورم کی انتظامیہ پر بھی بہتان تراشی سے باز نہ آئے۔
اچھا ہوا ہے خدا کی قسم بہت اچھا ہوا ہے کہ آپکے چہرے سے آپ نے خود ہی نقاب اٹھالی، ورنہ ہماری نظروں میں اسلام ٹائمز کی انتظامیہ کے لاڈلے آپ ہی تھے۔ کلمہ لکھ کر بات کی ہے، جھوٹ نہیں بولیں گے کہ آپکی جن تحریروں پر سوالات ہم نے اٹھائے ہیں، وہ تحریریں اس قدر گھٹیا ہیں کہ تاحال آپ خود جواب نہیں دے پائے اور لاجواب ہوکر اس قدر غیر مہذب و غیر مودب لب و لہجہ اختیار کیا۔ سیاست دین اور دینی سیاست کو نہیں بلکہ آپ لوگوں کو اخلاقیات دینی اور دینی اخلاقیات سیکھ کر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو کسی اچھے مدرسے میں حوزوی اساتیذ اور نفسیاتی معالجین دونوں کی نگرانی میں تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز کی انتظامیہ جانے اور آپ جانیں۔
ہماری پیشکش