3
1
Wednesday 21 Nov 2018 10:30

یوٹرن، مذموم یا ممدوح

یوٹرن، مذموم یا ممدوح
تحریر: ساجد مطہری

سیاست کی دنیا میں کبھی تو  ''یوٹرن'' کو ایک مذموم لفظ سمجھا جاتا ہے اور کبھی اسے سیاسی دنیا کا جزوِ لاینفک خیال کیا جاتا ہے۔ اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نظریات، افکار اور آئیڈیلوجی میں تبدیلی اور ارتقاء انسانی فطرت کا تقاضا ہے، کیونکہ انسان خطا کا پتلا اور کمال کا متلاشی ہے، لہذا وہ غیر ارادی طور پر اچھی فکر اور نئے نظریئے و ائیڈیلوجی کے سامنے سرتسلیم خم کر لیتا ہے جبکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اس قسم کے حالات سے مبراء و منزہ ہے، اس کا ارادہ پکا اور فیصلہ اٹل ہوتا ہے، اس میں تبدیلی (بداء) کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ، تاہم سیاست کی دنیا ہی الگ ہے، وہاں سیاستدان مفاد پرست ہوتے ہیں، ذاتی انا اور کرسی کی خاطر حالات کے ساتھ کروٹیں اور پارٹیاں حتیٰ کہ نظریات بھی تبدیل کر دیتے ہیں۔

عمران خان کا یوٹرن کے حوالے سے حالیہ بیان انتہائی افسوسناک ہے، جس میں انہوں نے یوٹرن لینے کو لیڈرشپ کے لئے لازمی حصہ قرار دیا اور کہا ''یوٹرن نہ لینے والا کبھی اچھا لیڈر نہیں ہوتا'' یا ''اچھا لیڈر حالات کے مطابق یوٹرن لیتا ہے۔" خان صاحب کے رویئے اور گفتگو سے لگتا ہے کہ وہ یوٹرن میں اصولوں سے دستبرداری کو بھی عیب و عار نہیں سمجھتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں انتخاباتی شعار اور ان کی حالیہ داخلی اور خارجی پالیسیوں میں واضح تضاد دکھائی دیتا ہے۔ وہ انتخابات سے پہلے یہی نعرہ لگاتے تھے کہ "بھیک نہیں مانگوں گا" اور اب حکومت سنبھالے ہوئے اس قلیل سی مدت میں وہ کبھی سعودی عرب سے مدد مانگ رہے ہیں تو کبھی چین کے در پر دستک دے رہے ہیں، جبکہ وہ آئی ایم ایف کو بھی قرضے کی درخواست دے چکے ہیں۔

حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث حکومت کے سو دن مکمل ہونے سے پہلے ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 20 فیصد سے زائد کمی آئی ہے، جس سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اب کیونکہ پاکستان نے اپنا قرضہ ڈالرز میں ہی ادا کرنا ہے، لہذا پہلے ہی سے قرضوں کے ملبے تلے دبے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ خان صاحب کہا کرتے تھے کہ "ملک کا قرضہ بڑے بڑے لٹیروں سے چکانا ہے، غریب عوام سے نہیں" جبکہ اب ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ بڑے بڑے چور دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ غریب عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے، عام استعمال کی چیزوں پر دگنا ٹیکس لگا کر عوام کا جینا دو بھر کر دیا گیا ہے، پیٹرول اور سی این جی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اسی طرح خان صاحب کا کہنا تھا کہ "ہم دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے" حالانکہ جو چیز انکی دو تین مہینوں کی حکومت میں واضح اور آشکار دکھائی دے رہی ہے، یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے دہشت گردوں کے آقا سعودی عرب سے اپنا ناطہ جوڑ لیا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ ملک کی ستر سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں غاصب اور خونخوار اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحثیں شروع ہوگئی ہیں۔
اگرچہ اس میں عمران حکومت پوری طرح قصور وار ہے، البتہ دوسری طرف عوام کی ذہنی عقب ماندگی، میڈیا اور دانشمند حضرات کی سستی اور کاہلی کا بھی اچھا خاصہ عمل دخل ہے۔ ہمارے چونکہ عوام کو تعلیمی و تحلیلی تجزیہ و تحلیل کے بجائے خبری چٹکلوں اور گرما گرم ایشوز کے پیچھے لگایا جاتا ہے اور عوام حالات کے پسِ منظر  سے آگاہ نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں سیاسی بصیرت پیدا ہوتی ہے، جسکی وجہ سے آئے روز  غیر متوقع حالات پیش آتے ہیں۔ یہ ہم سب کی ملی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم عوام میں سیاسی بصیرت پیدا کرنے کے حوالے سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بصیرت افروز گفتگو اور علمی و تحلیلی مواد تولید کریں۔
خبر کا کوڈ : 762474
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بهت هی اچها تجزیه کیا ساجد بهائی شکریه.
United Kingdom
آپ لوگ ہی عمران خان کے مداح، ثناء خوان، قوال قصیدہ گو سب کچھ ہیں۔ کبھی اس کی تعریف اور کبھی تنقید یہ نظریاتی ناپختگی کی علامت ہے اور دوسروں کو بھی شش و پنج اور شکوک میں مبتلا کرنے والی بات۔ اپنے نظریات پختہ کر لیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
نشان علي غديري
Syrian Arab Republic
بهت خوب، سلامت رهو، تقبل الله۔
ہماری پیشکش