0
Friday 7 Dec 2018 19:47

ہم کسی کے "کرائے کے قاتل" نہیں

ہم کسی کے "کرائے کے قاتل" نہیں
تحریر: سید اسد عباس

ہم کسی کے کرائے کے قاتل نہیں۔ یہ بات اگرچہ ہر صاحب ضمیر کہتا ہے، تاہم وہ ریاست جس کے بارے میں عرصے سے یہ تاثر قائم ہوچکا تھا کہ وہ پیسے کے عوض کچھ بھی کرسکتی ہے اور مقامی و بین الاقوامی میڈیا میں جس ریاست کو اس کی حرکات کے سبب بخشو کہا جانے لگا تھا۔ بخشو یعنی محلے کا وہ شخص جو پیسے کے عوض ہر کام کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ کو یہ بات کہہ کر ہر غیرت مند پاکستانی کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ ہم نے پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں ملکی و غیر ملکی سطح پر بہت کچھ سنا تھا، یہ باتیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا تھا کہ ایک نظریاتی جدوجہد، اصولوں کی بنیاد پر اٹھنے والی تحریک اور اتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا جانے والا ملک کس سطح تک گر چکا ہے کہ ایک امریکی سینیٹر کو یہ کہنے کی جرات ہوئی کہ "پاکستانی پیسے کے عوض اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں۔" اس میں شک نہیں کہ گذشتہ ادوار میں ہم نے متعدد مواقع پر پیسے کے حصول کے لئے اپنے شہریوں اور غیر ملکی مجرموں کو غیروں کے حوالے کیا ہے۔ ہم ہر جنگ میں کرائے کے قاتلوں کے طور پر بلائے گئے ہیں۔ جیسے کوئی غریب مگر باصلاحیت جانور پیسے والوں کے لئے دوڑ کے میدانوں میں اترتا ہے۔

روس کے خلاف افغان جہاد اگرچہ ہماری بھی ضرورت تھا، تاہم ہم نے اس بارے میں کسی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی تیاری کو ضروری نہیں سمجھا۔ پیسہ بہانے والوں کی خوشنودی کے لئے ہم ہر اس حد سے گزر گئے جو ہمارے اپنے ملک اور معاشرے کے لئے نقصان دہ تھی۔ ہم نے سوویت یونین اور بھارت کے خلاف تزویراتی گہرائی تو حاصل کر لی، تاہم اس کا خمیازہ ہزاروں جانوں، ارپوں ڈالر، ملکی تنزلی، کلاشنکوف و منشیات کلچر، دہشت گردی، فرقہ واریت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ہمیں شاید ان ممالک کے براہ راست حملوں سے اتنا نقصان نہ ہوتا، جتنا ہم نے گذشتہ چند دہائیوں میں افغان جہاد کا بغیر حکمت عملی اور لائحہ عمل کے حصہ بن کر اٹھایا اور تاحال اٹھا رہے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ جارج بش کے رجز کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے جائیں اور ان کے ہمراہ ہو کر اپنی جان بخشی کروائی جائے۔ اس جنگ میں شرکت سے ہمیں کچھ پیسہ تو بہرحال ملا، جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھا، تاہم ہمارے معاشرے نے اس جنگ کے سبب جو عذاب جھیلا اس کے بارے میں زخم خوردہ قوم کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ وہ کبھی بھی کسی ایسے ملک کے ساتھ تعلق قائم رکھنا نہیں چاہیں گے، جو پاکستان کو "کرائے کے قاتل" کے طور پر استعمال کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خود کو کبھی بھی دوبارہ اس صورتحال میں نہیں ڈالیں گے۔ اس سے ناصرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور ہمارے قبائلی علاقوں میں تباہی ہوئی، بلکہ ہمارا وقار بھی مجروح ہوا۔ ہم امریکہ کے ساتھ حقیقی تعلقات چاہتے ہیں۔ چین کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ ہمارا تعلق یکطرفہ نہیں ہے۔ یہ دو ممالک کے درمیان تجارت کا تعلق ہے۔ ہم امریکہ کے ساتھ بھی ایسا ہی تعلق چاہتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سپرپاور سے کون دوستی نہیں رکھنا چاہے گا۔؟ واشنٹگن پوسٹ کی صحافی لیلی ویمتھ کے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ امریکہ کی پالیسوں سے اتفاق نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ امریکہ مخالف ہیں۔ یہ ایک سامراجی سوچ ہے کہ آیا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف۔

پاکستان میں افغان طالبان کی پناہ گاہوں کے الزام سے متعلق سوال پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان میں افغان طالبان کی پناہ گاہوں کی موجودگی کا الزام دہرایا تھا۔ میں جب حکومت میں آیا تو سکیورٹی فورسز سے مکمل بریفنگ لی اور وقتاً فوقتاً امریکہ سے کہا کہ وہ بتائیں پاکستان میں پناہ گاہیں کہاں ہیں، تاکہ ہم اس پر کارروائی کرسکیں۔ پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ میری نظر میں وزیراعظم پاکستان کا یہ موقف نہایت باوقار، مدبرانہ اور اعتدال پر مبنی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے، ہمیں اپنی معاشی مجبوریوں کو دیگر ذرائع سے حل کرنا چاہیئے، نہ یہ کہ ہم کسی بھی طاقت کے کاسہ لیس بن کر اس کے ہر حکم کی تعمیل کرنے لگ جائیں، ہمارا ریاستی تشخص ایک طفیلی اور مفاد پرست ریاست کا بن جائے۔ ہمیں امید کرنی چاہیئے کہ حکومت پاکستان اور وزیراعظم پاکستان اس تاثر کو ہر محاذ پر تبدیل کرنے اور پاکستان کے حقیقی وقار کو بحال کرنے کی ضرور کوشش کرے گی۔ کاسہ لیسی اپنوں کی ہو یا غیروں کی، بہرحال کاسہ لیسی ہی ہے۔ اگر ہم افغانستان میں امریکی جنگ نہیں لڑ سکتے تو ہمیں یمن میں بھی سعودی جنگ کا ہرگز حصہ نہیں بننا چاہیئے۔ خداوند کریم ہمیں ملک و ملت کے وقار میں بہتر فیصلے کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔امین
خبر کا کوڈ : 765419
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش