0
Monday 17 Dec 2018 01:11

اسٹاک ہوم مذاکرات اور یمن بحران کا مستقبل

اسٹاک ہوم مذاکرات اور یمن بحران کا مستقبل
تحریر: احمد کاظم زادہ

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں یمن کے متحارب گروہوں کے درمیان پہلے کامیاب مذاکرات کے بعد اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ان مذاکرات میں طے پانے والے معاہدوں پر کس حد تک عملدرآمد ہو گا؟ اگرچہ اسٹاک ہوم مذاکرات میں بہت سے موضوعات زیر بحث لائے گئے لیکن سعودی وفد کی مانع تراشی کے باعچ صرف بعض موارد پر ہی اتفاق رائے حاصل ہوا۔ جن موضوعات پر اتفاق رائے کیا گیا ان میں قیدیوں کے تبادلے کا طریقہ کار، الحدیدہ بندرگاہ کے محاصرے کا خاتمہ اور تعز میں انسانی امداد ارسال کرنے کے طریقہ کار پر باہمی گفتگو کرنا شامل ہیں۔ اگر سعودی وفد ان مذاکرات میں تعاون کا مظاہرہ کرتا تو دیگر موضوعات جیسے صنعا بین الاقوامی ایئرپورٹ کی بحالی، عدن اور صنعا میں اسٹیٹ بینکس کا ادغام، مالی اور اقتصادی پالیسیز بہتر بنانا اور آزاد الیکشن کے انعقاد کیلئے عبوری حکومت کی تشکیل پر بھی اتفاق رائے قائم ہو سکتا تھا۔
 
یہ مذاکرات ایسے حالات میں انجام پائے ہیں جب سعودی عرب جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے شدید عالمی دباو کا شکار ہے۔ مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور بلجیئم نے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ دیگر کئی ممالک نے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح امریکی کانگریس میں بھی سعودی ولیعہد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور حتی سینیٹ میں سعودی مخالف بل بھی منظور کیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں عالمی رائے عامہ بھی ہر وقت سے زیادہ یمن پر مرکوز ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ دو کروڑ بیس لاکھ یمنی شہریوں کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ اخبار گارجین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن کے خلاف سعودی اتحاد کے محاصرے کے دوران 85 ہزار یمنی بچے جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 57 ہزار عام شہری ہوائی حملوں میں جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان حالات نے سعودی عرب کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
 
بہرحال اسٹاک ہوم میں حاصل ہونے والے معاہدے جنیوا اور کویت میں مذاکرات کے گذشتہ چار دوروں کی نسبت یمن بحران کے سیاسی حل خاص طور پر جنگ کا شکار اس ملک میں انسانی المیہ کی روک تھام کی راہ میں چند قدم شمار کئے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گذشتہ چار سالہ جنگ کے دوران یمن میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کی وسعت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے ازالے کیلئے کئی سال اور شاید کئی عشرے درکار ہوں گے۔ اسٹاک ہوم میں حاصل ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد کی صورتحال مختلف ہے۔ بعض معاہدے جیسے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر عملدرآمد تقریباً یقینی ہو چکا ہے۔ اسی طرح بعض دیگر معاہدے جیسے تعز میں انسانی امداد کی ترسیل چونکہ جارح سعودی اتحاد کے حق میں ہے لہذا اس پر عملدرآمد کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔ لیکن بعض معاہدے ایسے ہیں جن پر عملدرآمد شکوک و شبہات کے ہمراہ ہے۔ ان میں سے ایک معاہدہ الحدیدہ بندرگاہ کے محاصرے کا خاتمہ ہے۔ اسٹاک ہوم مذاکرات کے بعد حالیہ چند دنوں میں سعودی سربراہی میں جارح اتحاد نے الحدیدہ پر اپنے ہوائی حملے جاری رکھے ہیں۔
 
لہذا اس اتحاد خاص طور پر سعودی عرب کو اسٹاک ہوم مذاکرات کی پابندی کرنے اور ہوائی حملے بند کرنے پر مجبور کرنے کیلئے دباو کی ضرورت ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ دباو کسی حد تک موجود ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو سعودی عرب اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان ہر گز اسٹاک ہوم میں مذاکرات کی میز پر نہ بیٹھتے۔ اگرچہ امریکی سینیٹ اور کانگریس کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ سعودی عرب کی فوجی امداد روک دیں اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دیں لیکن اس سے زیادہ توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان اداروں کی جانب سے منظور شدہ بل لازم الاجرا نہیں ہوتے اور ان کے لازم الاجرا ہونے کیلئے ایوان نمائندگان میں منظوری کے علاوہ صدر کے دستخط بھی ضروری ہوتے ہیں۔ البتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اسٹاک ہوم میں انجام پانے والے مذاکرات کے نتائج اور یمن کے زمینی حقائق کی روشنی میں اس بارے میں کوئی لازم الاجرا قرارداد منظور کر لے۔ صرف اسی صورت میں ہی سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کے بیگناہ شہریوں کے خلاف مزید جارحیت اور ان کے قتل عام کا سدباب ممکن ہے۔
خبر کا کوڈ : 767059
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش