0
Thursday 7 Feb 2019 01:17

افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات اور امن کے امکانات

افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات اور امن کے امکانات
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

ماسکو مذاکرات میں بھی افغان حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے ہیں، افغان طالبان سے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں 40 رکنی وفد نے روس میں مذاکرات کیے ہیں۔ ماسکو مذاکرات نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک بار پھر مزید تنہا کر دیا ہے۔ مذاکرات کے دوران افغان صوبہ بغلان میں طالبان کے 2 حملوں میں 21 اہلکار ہلاک ہو گئے۔ مذاکرات میں سابق طالبان وزیر خارجہ ملا وکیل احمد متوکل اور پاکستان میں سابق طالبان سفیر ملا ضعیف، ہرات کے سابق گورنر اور سابق وزیر جنرل اسماعیل خان، کابل سے استاد سیاف، افغان صدر کے سابق مشیر سلامتی امور حنیف اتمر، جمعیت اسلامی کے عطا محمد نور، حزب وحدت کے استاد محقق، سابق نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی اور افغانستان کے مختلف قبائلی عمائدین شامل تھے۔ مذاکرات کے حوالے سے افغان صدر اشرف غنی بالکل تنہا ہو گئے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے اپنی پارٹی کا نمائندہ بھیجا، شمالی اتحاد کی نمائندگی یونس قانونی نے کی۔ انہیں طالبان کے ساتھ ملاقاتوں پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کے نتائج سے پوری قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔

طالبان وفد کے سربراہ شیر محمد عباس استنکزئی نے کہا ہے کہ ملک کا موجودہ آئین بیرونی قوتوں کی جانب سے افغان عوام پر مسلط کیا گیا تھا، یہ آئین امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، جسے دور کرنا ہوگا، نئے آئین کی تشکیل ضروری ہے، دستور کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے گا، جسے علما وضع کریں گے، وہ اقتدار میں آکر پوست کی کاشت ختم کرا دیں گے۔ کرزئی کا موقف تھا کہ تمام گروپوں کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا چاہئے۔ انہوں نے سابق افغان وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کی تجویز کے مطابق طالبان سے قیام امن، وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر بات کی۔ انہوں نے افغان فوج کے حوالے سے طالبان وفد کے قائد سے ان کے اس بیان پر بھی بات چیت کی، کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعد فوج کی از سر نو تشکیل کریں گے، میرٹ پر لوگ منتخب کئے جائیں گے۔ حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ موجودہ فوج کے حوالے سے افغانستان میں تشویش پائی جاتی ہے۔ کرزئی چاہتے ہیں کہ طالبان افغان فوج کی تشویش ختم کریں، کیونکہ افغان فوج کا تعلق بھی افغان سرزمین سے ہے اور اس میں مختلف قوموں کے لوگ شامل ہیں۔

جبکہ طالبان کے میڈیا کمیشن کے اسد افغان کا کہنا ہے کہ افغان فوج کی از سر نو تشکیل کا بیان عباس استنکزئی کی ذاتی رائے ہے، شوریٰ نے فوج کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا، طالبان اقتدار میں آنے کے بعد فوج میں کچھ تبدیلیاں ضرور کریں گے، فوج میں بھرتی خواتین کو جنگ کے بجائے طبی تربیت دی جائے گی، افغان افواج سے خواتین کو نہیں نکالا جائے گا البتہ طالبان خواتین کے جنگوں میں حصہ لینے کے خلاف ہیں، اس لئے خواتین اہلکاروں کو تربیت دے کر میڈیکل کور میں بھیجا جائے گا۔ سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کہہ چکے ہیں کہ اگر افغان طالبان حکومت میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ایک مخصوص مدت کے لئے تمام افغانوں پر مشتمل وسیع البنیاد حکومت تشکیل دی جائے، افغان آئین میں لویہ جرگہ کے ذریعے تبدیلی لائے اور اسی آئین کے مطابق انتخابات کرائے جائیں۔

مذاکرات بھی جاری ہیں اور حملے بھی، سب ایک دوسرے کو دشمن قرار دیتے ہیں۔ افغان طالبان کی ویب سائٹ پر آج بھی اکثر افغان احزاب اور ان کے رہنماؤں کو امریکا اور روس جیسا دشمن ہی قرار دیا جارہا ہے۔ جس دن دوحہ میں مذاکرات کا دور شروع ہوا اور اسی صبح وردگ میں افغان فوج کے تربیتی سنٹر پر خود کش حملہ کرکے ۱۰۰ سے زائد افغان شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔  اسکا نتیجہ تباہ کن ہوگا کہ افغانستان سے نکلتے ہوئے، بون کانفرنس جیسا کوئی اور حل مسلط کردیا جائے، طالبان اور افغان فوج کو جنگ کی کسی نئی جہنم میں جھونک دیا جائے، کسی نئی خانہ جنگی کا آتش فشاں لاوا اگلنے لگے، تباہی، مہاجرت اور خوں ریزی مسلط ہوجائیں۔ یہ تباہ کن ہوگا کہ آنکھیں بند کرکے سابقہ غلطیوں کو دہرایا جانے لگے۔ افغان ملک و قوم کے کسی بھی حصے کو اپنے جسم سے کاٹ پھینکا جانے لگے۔

اس سے انکار حقائق سے منہ چھپانے کے مترادف ہے کہ  افغانستان میں اشتراکی روس کی آمد کے بعد سے لے کر آج تک جتنی ناکامی اور تباہی ہوئی ہے، حملہ آور جارح قوتوں اور کئی غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے بعد، اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود افغان بھائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے سوا باقی سب کو قابل گردن زدنی قرار دینے سے کسی بھی ملک اور معاشرے میں کبھی امن و سکون نہیں آسکتا۔۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تو اُمید پیدا ہوئی کہ اس سرزمین کو اب سکون و سلامتی اور تعمیر و ترقی کے دن دیکھنا نصیب ہوں گے۔ لیکن روسی سلطنت نے اپنے انخلا کے بعد اپنی قائم کردہ کٹھ پتلی نجیب اللہ حکومت کو باقی رکھا۔ نتیجتاً جنگ اسی طرح جاری رہی۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے یہ جنگ افغان عوام اور روسی فوج کے درمیان تھی، روس نکل گیا تو اب یہ جنگ براہِ راست افغان دھڑوں کی جنگ بن گئی۔ اپریل ۱۹۹۲ء میں بالآخر صدر نجیب کی کٹھ پتلی حکومت بھی زمیں بوس ہوگئی۔ افغانستان  میں وہ نازک ترین لمحہ آگیا،جس سے بچنے کے لیے مسلسل کوشش کی ضرورت تھی،مگر پھر تاریخ نے ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک خود افغان  جماعتوں کے مابین خوں ریزی کا بدنما دور دیکھا۔

بظاہر اشتراکی روس کے خلاف جہاد پر پوری افغان قوم ہی نہیں، پورا مسلم دنیا کے رہنما کا بڑا حصہ متفق تھا۔ لیکن یہ پورا عالم اسلام مل کر بھی روس کخیلاف جہاد کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کو متحد نہ کرسکا۔ پروفیسر برہان الدین ربانی (مرحوم) اور انجینیر گل بدین حکمت یار کے مابین آرا کا اختلاف پہلے دن سے موجود تھا۔ پروفیسر ربانی صاحب اشتراکی روسی مداخلت کا مقابلہ صرف سیاسی میدان میں کرنے کے قائل تھے، جب کہ حکمت یار صاحب مسلح جہاد ضروری سمجھتے تھے۔ بالآخر سب رہنما جہاد پر تو مجتمع ہوگئے، لیکن دس برس کے دوران کئی معاہدوں اور لاتعداد مصالحتی کوششوں کے باوجود اپنے باہمی اختلافات کی خلیج ختم نہ کرسکے۔ نجیب حکومت بھی رخصت ہوئی توکابل کے ایک کنارے پر احمد شاہ مسعود اپنے مسلح دستوں کے ساتھ موجود تھے اور دوسرے کنارے پر گلبدین حکمت یار۔ دونوںرہنما افغان جہاد میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں کا خیال تھا کہ میری قوت اور صلاحیت زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے دونوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان تھا اور اسی کمزور پہلو کو سب دشمن قوتیں استعمال کرنا چاہتی تھیں۔

اسی طرح اس دوران پشاور میں ساری دنیا سے آئے ہوئے اہم مسلمان رہنما اور اسلامی تحریکوں کی قیادت جمع تھی۔ اس سے پہلی شب مصالحتی مذاکرات کے مختلف ادوار چلتے رہے۔ جن میں طے پایا تھا کہ انجینئر حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے مابین براہِ راست بات چیت کروائی جائے گی۔ یہ ذمہ داری محترم قاضی حسین احمد صاحب کو سونپی گئی۔ صبح ہی صبح ہم پشاور میں واقع برہان الدین ربانی صاحب کے مرکز پہنچ گئے۔ ربانی صاحب ہمارا استقبال کرنے کے بعد ایک دوسری جگہ جمع مختلف افغان، عرب اور پاکستانی رہنماؤں کے اجلاس میں چلے گئے۔کافی انتظار اور کوششوں کے بعد یہ تین جہتی وائرلیس رابطہ قائم ہوسکا۔ کابل کے دونوں کناروں پر بیٹھے افغان رہنما اور محترم قاضی حسین احمد صاحب، تینوں کے درمیان ، آخر میں یہ واضح تھا کہ باہم اتفاق راے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس وقت جب  پروفیسر عبدالرب رسول سیاف  نے اعلان کیا کہ سب افغان رہنما ایک فارمولے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت پہلے چار ماہ صبغۃ اللہ مجددی صدر ہوں گے۔ ان کے بعد چھےماہ کے لیے برہان الدین ربانی صاحب صدر ہوں گے۔ وزارت عظمیٰ حزب اسلامی (حکمت یار) کو دی جائے گی اور پھر انتخابات ہوں گے۔ لیکن یہ قبل از وقت یک طرفہ اور ناقابل عمل فارمولے کا اعلان تھا۔ افغان بحران کا اصل حل دونوں مرکزی قوتوں کو یک جا کرنے سے ہی ممکن ہوسکتا تھا۔کیونکہ اس پر حکمت یار متفق نہیں تھے۔

اس ضمن میں درجنوں بلکہ سیکڑوں مصالحتی کاوشوں میں سے ایک کا ذکر کافی ہے کہ خرابی کی اصل جڑ واضح ہوسکے۔ روس کیخلاف جہاد کے دوران مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے کسی نہ کسی افغان جماعت کو غالب اور کسی کو نظر انداز و کمزور کرنے کی روش اپنائے رکھی۔ کبھی مالی و عسکری امداد کی غیرمنصفانہ تقسیم کے ذریعے، کبھی سیاسی شعبدہ بازی کے ذریعے اور کبھی نسلی و مذہبی تعصب کی آگ بھڑکا کر۔ حالیہ افغان تاریخ کے دوراہے پر ایک بار پھر بون کانفرنس کے اصل کردار فعال تر ہیں۔ لیکن ایک حقیقت سب اطراف کو یاد رکھنا ہوگی کہ نومبر ۲۰۰۱ میں وہ کانفرنس امریکی حملے اور جزوی فتح کے تناظر میں منعقد ہوئی تھی۔ آج بظاہر امریکا، افغانستان سے نکلنے کے لیے کسی معقول راستے کی تلاش میں ہے۔ لیکن اگر گذشتہ ۱۸ سال کی ناکامیوں اور تباہی سے سبق نہ سیکھا گیا، تو شاید رہا سہا وقار بھی خاک میں مل جائے گا۔ تاریخ افغانستان کے اس نازک موڑ پر ایک انتہائی اہم فریضہ خود افغان طالبان ، افغان حکومت، اپوزیشن گروپوں کو بھی انجام دینا ہوگا۔ بالخصوص طالبان کو اپنے سابقہ دور حکومت اور اس کے بعد رُوپذیر تمام واقعات کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے اپنے رویے پر بھی سنجیدہ نظرثانی کرنا ہوگی۔

اس قضیئے کا ایک تاریک پہلو یہ بھی کہ حالیہ جنگ میں افغانستان پر قبضے کے علاوہ امریکی افواج اور اس کے زیراثر حکومت نے وہاں جن کئی دیگر حماقتوں کا ارتکاب کیا، ان میں افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف نفرت کی اونچی دیواریں کھڑی کرنا بھی شامل ہے۔ اشتراکی روس کی یلغار سے لے کر آج تک افغان اور پاکستانی قوم عملاً یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکی موجودگی میں وہاں بھارت کو گہرا اثرونفوذ حاصل کرنے کے خصوصی مواقع دیے گئے۔ ذرائع ابلاغ سے پاکستان کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہوئے نفرت کے زہریلے بیج بوئے گئے۔ بعض ناراض پاکستانی قبائل سرداروں کو مزید متنفر کرتے ہوئے انھیں پاکستان سے علیحدگی اور دشمنی کے الاؤ بھڑکانے پر اکسایا گیا۔ افغان فوج کو ٹریننگ دیتے ہوئے پاکستان کو دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔لیکن اب ضروری ہے کہ ایک پُرامن افغانستان کے قیام کے لیے ان تمام منفی اقدامات کی نفی کرتے ہوئے تمام پڑوسی ممالک کو دوستی اور بھائی چارے کا پیغام دینا ہوگا۔ پاکستان ایران، وسط ایشیائی ریاستوں، چین، روس اور بھارت سمیت تمام علاقائی ممالک کو بھی اپنے مفادات کے بجاے افغان امن و استحکام کو ترجیح اول بنانا ہوگا۔ صرف افغان عوام اور ان کے تمام حقیقی رہنماؤں کو پرامن مذاکرات کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دینا ہوگا۔ افغانستان کا امن و استحکام یقینا تمام پڑوسی ممالک کے لیے بھی مثبت نتائج پیدا کرسکے گا۔
خبر کا کوڈ : 776584
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش