0
Saturday 23 Feb 2019 12:24

بھارت میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟؟

بھارت میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پلوامہ حملے کے بعد جہاں ضرورت اِس بات کی تھی کہ بھارت اصل ملزمان کو تلاش کرتا اور ساتھ ہی واقعہ کی وجوہات کا بھی جائزہ لیا جاتا، وہاں بھارت نے حقائق کے برعکس روایتی الزام تراشی کا سلسلہ برقرار رکھا اور ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ پاکستان کی جانب سے بھی حملے کی مذمت کی گئی۔ ظاہر ہے دہشتگردی پاکستان میں ہو یا انڈیا میں، قابل مذمت اور افسوسناک فعل ہے۔ مگر انڈیا میں چونکہ الیکشن ہے تو یہ روایت بن چکی ہے کہ جب بھی انڈیا میں انتخابات کا موسم آتا ہے، پاک بھارت سرحد پر کشیدگی کے بادل چھا جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اَب ہوا۔ پلوامہ میں ہونیوالا حملہ دہشتگردی نہیں بلکہ ردعمل تھا۔ وہ بھی کشمیری نوجوانوں کا، جنہیں بھارتی فوج نے اپنے ظالمانہ تشدد کے باعث "باغی" بنا دیا ہے۔ جی ہاں، برہان وانی کے بعد اب پورا کشمیر بھارتی مظالم پر نہ صرف سراپا احتجاج ہے بلکہ موقع ملتے ہی بدلہ بھی لے لیتے ہیں۔ اب تو بھارت کے اندر سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ کشمیریوں کو سنا جائے۔ کشمیری چاہتے کیا ہیں؟ اور انہیں ہر وقت مشکوک نگاہوں سے ہی کیوں دیکھا جاتا ہے۔؟ ایک طرف تو بھارت کشمیریوں کو زبردستی "بھارتی شہری" کہتا ہے تو دوسری جانب انہیں شہری حقوق بھی دینے کو تیار نہیں۔ بھارت کو اپنے اس دوہرے معیار پر توجہ دینا ہوگی۔

جہاں تک تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے تو ایک بھارتی صحافی کے بقول "کشمیری بھارت کیساتھ نہیں رہنا چاہتے، نہ ہی کشمیر بھارت کیساتھ سوٹ کرتا ہے، مگر ہم نے کشمیر کو اگر آزادی دیدی تو یہ بھارت کے تقسیم ہونے کی بنیاد بن جائے گا۔" زمینی حقائق یہ ہیں کہ بھارت میں 62 کے قریب آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارت میں جاری آزادی کی تحریکوں کے حریت پسندوں کو جب بھی موقع ملتا ہے، وہ کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی حملہ ضرور کر دیتے ہیں۔ حملہ ہونے پر دہلی بغیر سوچے سمجھے پہلے سے تیار پڑا بیان جاری کر دیتا ہے کہ "حملے میں پاکستان ملوث ہے، جیش محمد نے حملہ کروایا، جماعت الدعوہ ملوث ہے، حافظ سعید کی ٹیلی فون کال ٹریس ہوگئی ہے۔" وغیرہ وغیرہ۔ مگر بھارت نے آج تک کسی بھی دہشتگردی کا ثبوت فراہم نہیں کیا۔ پاکستان نے ہر لگنے والے الزام پر ثبوتوں کا مطالبہ کیا مگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت ہو تو فراہم کرے۔ تحقیقات ہوتی ہیں اور تحقیقات میں گھوم گھما کر دہشتگردوں کا "کُھرا" بھارت میں ہی رہ جاتا ہے۔ تب بھارت کی الزاماتی توپیں خود ہی خاموش ہو جاتی ہیں۔ بھارت میں دہشتگردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، ان میں بھارت کے اپنے علیحدگی پسند ملوث پائے گئے ہیں، مگر جب تحقیقات کے نتائج سامنے آتے ہیں تو بھارتی حکومت اور میڈیا دونوں ایسے خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔

70 سال بعد بھی بھارت میں مسلمان مشکوک ہیں۔ آج بھی مسلمانوں کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنا پڑتی ہے۔ دنیا بھر میں گائے ذبح ہوتی ہے، مگر بھارت میں آج بھی گاو رکھشہ کے نام پر مسلمانوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے، یہ ہے بھارت کی نام نہاد جمہوریت۔ ایسے میں بھارت سرکار کسی طور بھی ملک میں امن قائم نہیں کرسکتی۔ انڈیا کے برعکس اگر پاکستان کی بات کریں تو پاکستان میں ذرا سے شک پر بھی فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ پلوامہ حملے میں بھارت نے جیش محمد پر الزام عائد کیا۔ جیس محمد کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کے علاقے بہاولپور میں جیس محمد کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اب کل سے پنجاب حکومت نے اس مدرسے کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے، جسے بھارت جیش محمد کا ہیڈکوارٹر قرار دے رہا تھا۔ یہاں یہ مقامِ حیرت ہے کہ جیش محمد کے اس "ہیڈ کوارٹر" سے ایک گولی تک برآمد نہیں ہوئی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وہ ایک مدرسہ ہے، جو مقامی لوگوں کی ڈونیشن پر چلتا ہے۔ اس کے ساتھ  ہی پاکستان نے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاونڈیشن پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ جماعت الدعوۃ جب سے واچ لسٹ میں تھی غیر فعال تھی، جبکہ فلاح انسانیت فاونڈیشن تو انسانی خدمت کے کاموں میں مصروف تھی، مگر حکومت نے ان دونوں تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، جس کے بعد اب پاکستان میں کالعدم جماعتوں کی تعداد 69 ہوگئی ہے۔

پاکستان نے کبھی بھی دہشتگردوں کو پنپنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ البتہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں ایسی علیحدگی پسند تحریکیں کھڑی کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے، جیسی تحریکوں کا سامنا خود بھارت اپنے اندر کر رہا ہے۔ بلوچستان میں بہت بڑا نیٹ ورک چل رہا تھا، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارتی عزائم خاک میں مِل گئے جبکہ پاک فوج کی جانب سے ایک اور سرپرائز کی بھی بات ہوئی ہے، جس میں کلبھوشن جیسا ہی کوئی اور کردار بھی سامنے آسکتا ہے، لیکن بھارت آج تک پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی نیٹ ورک نہیں پکڑ سکا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت میں مداخلت نہیں کر رہا بلکہ مداخلت ہمیشہ سے بھارت کی جانب سے ہی ہوئی ہے۔ جہاں تک جہاد کشمیر کی بات ہے تو کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، پاکستانی حکومت اور عوام اپنے کشمیری بھائیوں کیساتھ ہیں، ان کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رہے گی اور اس حمایت سے بھارت پاکستان کو نہیں روک سکتا۔ ہاں بھارت اگر کچھ کرسکتا ہے تو وہ یہ کہ کشمیریوں کو ان کی آزادی دیدے۔ بھارت کشمیر میں ایک ریفرنڈم کروا لے اور کشمیری عوام کی رائے جان لے کہ وہ بھارت کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کیساتھ، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ بھارتی سرکار کے اس اقدام سے بھارت میں امن بھی ہو جائے گا اور کشمیری بھی آزادی کا سانس لے سکیں گے۔
خبر کا کوڈ : 779584
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش