0
Tuesday 5 Mar 2019 07:46

پاک ایران تعلقات کے دشمنوں کو شکست دینے کی ضرورت

پاک ایران تعلقات کے دشمنوں کو شکست دینے کی ضرورت
اداریہ
پاکستان کے وزیر خارجہ نے پاک ایران تعلقات کے بارے میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاک ایران تعلقات کو خراب کرنے والے عناصر کو شکست ہوئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر درپردہ ایران اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے میں کوشاں تھے، لیکن تہران اسلام آباد تعلقات بدستور استوار و مستحکم ہیں اور ایران پاکستان تعلقات کے مخالفین کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایران کے اغوا ہونے والے سرحدی محافظین کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کچھ ایرانی سرحدی گارڈ رہا ہوچکے ہیں اور باقیماندہ سرحدی محافظوں کی رہائی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ بارہ کی تعدا میں یہ سرحدی گارڈز 15 اکتوبر 2018ء کو پاک ایران سرحد سے اغوا کر لیے گئے تھے، ان  میں سے پانچ مغوی ایرانی اہلکاروں کو دہشت گردوں سے آزاد کروا لیا گیا تھا، جبکہ باقی مغوی اہلکار پاکستان کی سرحد کے اندر دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ بیان خوش آئند ہے، لیکن پاکستان کی طرف سے جس تسلسل کے ساتھ ایرانی سفارتکاروں، سرحدی محافظیں اور ایرانی شہریوں کا پاکستان میں قتل ہوا ہے، اس سے ایران میں پاکستان کے خلاف سخت ردعمل دینا ایک فطری عمل ہے، تاہم اس کے باوجود ایران نے ہمیشہ امن و آشتی، برادرانہ، ہمسائیگی اصولوں اور اقدار کا خیال رکھتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔

ایران پاکستان تعلقات ہر اس ملک اور فرد کو کانٹے کی طرح آنکھوں میں کھٹکھتے ہیں، جو ان دو برادر مسلمان ہمسایہ ممالک کے درمیان حکومتی اور عوامی سطح پر دوستی، برادری اور تعلقات میں فروغ کو اپنے مذموم اہداف کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک پاکستان میں ان دہشت گردوں کی مالی، اخلاقی اور اسلحہ جاتی مدد کرتے ہیں، جو ایران کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے کر پاکستان اور ایران کے درمیان اختلافات کی خلیج کو بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین کو ایران مخالف دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت دینے پر ایران کو سب سے بنیادی اور منطقی اعتراض ہے، ایران پاکستان سے عرصے سے تقاضا کر رہا ہے کہ وہ اس طرح کے عناصر کو پاکستان میں پناہ نہ دے اور اپنی سرزمین کو دہشگردوں کی آماجگاہ نہ بننے دے، لیکن پاکستان کی حکومت اور ریاست کے سلامتی کے ادارے ایران کی برادرانہ اور دوستانہ اپیل کو ہمیشہ نظرانداز کرتے چلے آرہے ہیں۔

پاکستانی وزیراعظم اور حکومتی مشینری اپنے بیانات میں تو پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کی پراکسی وار کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا اظہار کرتے رہتی ہے، لیکن جب سعودی عرب کا وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں ایران کے خلاف ہرزہ سرائی کرے گا تو ایران کے پاس احتجاج کے علاوہ کون سا راستہ بچتا ہے۔ ایرانی عوام پاکستانی مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان میں ہونے والے شہداء کے غم کو تو برداشت کرگئی، لیکن جب عادل الجبیر نے اسلام آباد میں بیٹھ کر غاصب اسرائیل کا موقف دہرایا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا حالیہ بیان خوش آئند ضرور ہے، لیکن پاک ایران تعلقات کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے متعدد ایسے اقدامات ہیں، جو پاکستان کے ذمہ واجب الاداء ہیں۔ پاک ایران تعلقات کے دشمنوں کو آئندہ بھی شکست دینے کے لیے حکومتی، سلامتی، تجارتی، ثقافتی، تعلیمی، سماجی سمیت کئی شعبوں من جملہ میڈیا کی سطح پر تعاون و ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 781454
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش