0
Friday 8 Mar 2019 22:29

اھلاً و سھلاً مرحبا۔۔۔ خیری آئے او؟

اھلاً و سھلاً مرحبا۔۔۔ خیری آئے او؟
تحریر: سید اسد عباس
 
ابھی سعودی ولی عہد اور ان کے وفد کے اراکین کو پاکستان سے گئے ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ ایک مرتبہ پھر سعودی نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر پاکستان یاترا پر آن پہنچے۔ ان کی اس آمد پر اھلاً و سھلاً مرحبا ہی کہا جاسکتا ہے، تاہم یہ ویسی ہی صورتحال ہے، جیسے کسی مہمان کو ابھی آپ گاڑی پر چڑھا کر آئے ہوں اور وہ ایک دم دروازہ کھٹکٹائے کہ میری فلاں چیز رہ گئی ہے۔ ہمارے ہاں عموماً مہمانوں کے موبائل فون یا ان کے چارجر رہ جاتے ہیں، جس کے سبب مہمان بھاگم بھاگ واپس تشریف لاتے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ کا یہ ہنگامی دورہ بھی کچھ اسی نوعیت کا لگتا ہے، جیسے اس وفد کی کوئی قیمتی چیز پاکستان میں رہ گئی ہو اور وہ اسے لینے کے لیے دوبارہ تشریف لائے ہوں۔ عادل الجبیر کی یوں اچانک آمد پر مختلف قیاس آرائیاں کی جاسکتی ہیں۔ خود عادل الجبیر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے دورے کا مقصد پاکستان اور ہندوستان کے مابین کشیدگی کو کم کرنا ہے۔ عادل الجبیر نے پاکستان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان کے تمام تصفیہ طلب مسائل کے پرامن حل کے لیے سعودیہ بھرپور تعاون کرے گا۔

یقیناً بھارت میں کی گئی سعودی سرمایہ کاری کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سعودیہ اس حیثیت میں ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین ثالثی کے لیے اقدام کرسکے، تاہم تاریخی شواہد کسی ایسی کوشش کا پتہ نہیں دیتے۔ سعودیہ نے ہر مشکل صورتحال میں پاکستان کی مدد ضرور کی ہے، تاہم ہمارے دیرینہ حل طلب مسائل کے حوالے سے سعودیہ کا موقف ہمیشہ سرد مہری کا شکار رہا ہے، سفارتی محاذ پر بھی ہمیں سعودیہ یا کسی اور عرب ریاست سے کوئی خاطر خواہ تعاون حاصل نہیں ہوا۔ اکہتر کی جنگ، دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ، آبی وسائل پر بھارت کی جانب سے ڈیمز کی تعمیر، کارگل کی جنگ، پاک بھارت ورکنگ باؤنڈری پر روزمرہ کی جھڑپیں، بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار، کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے بھارتی مظالم کسی بھی موقع پر سعودیہ سمیت کسی بھی عرب ملک نے نہ تو کبھی بھارت کے خلاف کوئی آواز بلند کی اور نہ ہی بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ہاں او آئی سی کے حالیہ وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارت کو بطور مہمان خصوصی بلا کر اس کے خلاف ایک قرارداد مذمت پاس کی گئی ہے۔

ان عرب حکمرانوں کا امت مسلمہ کے دیگر اہم مسائل کے حوالے سے بھی رویہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ فلسطین کا مسئلہ، مصر میں جمہوری حکومت کا قیام اور پھر فوجی اقتدار، افغانستان میں کئی دہائیوں پر مشتمل جنگ اور تباہ کاری میں یہ حکمران نہایت افسوس کے ساتھ عوام مخالف دھڑے کی حمایت کرتے ہوئے ہی پائے گئے۔ سعودی وزیر خارجہ کے دورے کا ایک اہم حصہ پاکستان کے آرمی چیف سے ملاقات بھی تھا، جس میں علاقائی سکیورٹی نیز پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سننے میں آیا ہے کہ عادل الجبیر کو بھارت بھی جانا تھا، تاہم اس جانب سے مثبت جواب نہ ملنے کے سبب وہ پاکستان کے دورے کے بعد ہی وطن واپس لوٹ گئے۔ یہاں سے ایک بات تو واضح ہے کہ اس دورے کا مقصد فقط ثالثی کی پیشکش نہیں تھا بلکہ اس ہنگامی دورے کے پیچھے کچھ اور عوامل بھی تھے۔

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ شاید عادل الجبیر پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاون کو روکنے کے لیے پاکستان آئے، اسی طرح ایک سنسنی خیز خبر جس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی، یعنی اسرائیلی پائلٹ کی پاکستان میں حراست بھی اس دورے کا مقصد ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں تین ممالک کی جانب سے پاکستان کے خلاف مشترکہ میزائل حملہ کی خبریں گرم رہیں، اسی طرح اب اسرائیلی پائلٹ کی حراست کی خبر بھی میڈیا پر عام ہے، جس کی ابھی تک کسی بھی ذمہ دار کی جانب سے توثیق یا تردید نہیں ہوئی۔ متوقع مشترکہ میزائل حملے کی خبر جس کی ذمہ دار اداروں کی جانب سے توثیق بھی ہوئی، کے تناظر میں اسرائیلی پائلٹ کا ہندوستانی جہاز اڑانا اور پاکستان پر حملہ کرنا خارج از امکان نہیں ہے۔

اس عنوان سے ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کافی چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے بھی اس پائلٹ کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے۔ عادل الجبیر کے حالیہ ہنگامی دورے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ عرب حکومتوں کے اسرائیل سے خفیہ تعلقات، اسرائیلی عہدہ داروں کی جانب سے مسلم امہ میں موجود نئے اتحادیوں کے متعلق عندیہ بالخصوص شام میں اسرائیل اور عرب حکومتوں کی مشترکہ کاوشوں کے تناظر میں اس بات کا بہت حد تک امکان ہے کہ اگر واقعی اسرائیلی پائلٹ پاکستانی اداروں کی حراست میں ہے تو عادل الجبیر اسی پائلٹ کی خفیہ رہائی کے سلسلہ میں پاکستان تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے عملی اقدامات کا حوالہ بھی اتفاقی نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 782174
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش