2
0
Wednesday 20 Mar 2019 11:05

ڈاکٹر محمد علی شہید، شہادت کا روز۔۔۔۔ ننھے دلوں پر کیا گزری

ڈاکٹر محمد علی شہید، شہادت کا روز۔۔۔۔ ننھے دلوں پر کیا گزری
تحریر: سیدہ زینب بنت الہدیٰ

فرمان خداوندی ہے: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران:169) "اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ نہ سمجھو، بے شک وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں۔" ایک عرصہ دراز سے دل میں خواہش تھی کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید جیسی عظیم شخصیت، عظیم لیڈر اور عظیم روحانی باپ کے بارے میں چند سطریں تحریر کروں، مگر دل میں یہ خوف طاری تھا کہ جو کچھ میرے دل میں آیا ہے، وہ اس قلم کے ذریعے تحریر کر بھی پاﺅں گی یا نہیں؟ مگر آخر کار فیصلہ کیا کہ زندگی کا بہت حصہ گزار چکی ہوں، یہ نہ ہو کہ ان کی شہادت کا جو واقعہ میرے ذہن میں ہے، اس کے ساتھ ہی رخصت ہو جاﺅں اور اپنی آئندہ نسلوں کو کچھ بھی بتا نہ پاﺅں۔

یہ 1995ء کی بات ہے کہ جب مارچ کے مہینے کا آغاز ہی تھا۔ میں اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی (مرتضیٰ عباس) کے ساتھ یتیم خانہ چوک پر بنے ہوئے فلیٹس میں رہتی تھی۔ یہ وہی فلیٹس تھے، جن کے بارے میں ڈاکٹر انکل (ہم ڈاکٹر محمد علی شہید کو ڈاکٹر انکل ہی کہا کرتے تھے) نے بابا جان (سید ثاقب اکبر) سے کہا تھا کہ اپنی فیملی کو یہاں شفٹ کریں کہ یہ صاف ستھرے ہیں اور آپ کے بچوں کے اسکول (حمایت اسلام پبلک سکول) کے قریب بھی ہیں اور میرا گھر بھی ان کے قریب ہے، (ڈاکٹر صاحب کا گھر قریب ہی ملتان روڈ پر بھلہ سٹاپ کے پاس تھا) اور آپ کی عدم موجودگی میں (بابا جان اس وقت ایران میں زیر تعلیم تھے) وقتاً فوقتاً خبر گیری کرتا رہوں گا۔

ان دنوں میں جماعت ہفتم کی طالبہ تھی اور میرا چھوٹا بھائی مرتضیٰ جماعت چہارم کا۔ ہمارے سالانہ امتحان کا سلسلہ چل رہا تھا۔ امتحانات کے دوران عیدالفطر کی تعطیلات ہوگئیں اور باقی امتحان عید کے بعد 7 مارچ، 5 شوال سے شروع ہونا قرار پائے۔ بابا جان انہی دنوں ایران سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے، اسلام آباد میں گھر تلاش کر رہے تھے اور اخوت اکادمی کے نام سے ادارہ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ دفتر کے لیے عمارت کی تلاش مکمل ہوچکی تھی اور ڈاکٹر انکل کو بابا جان نے بتایا تو وہ اسلام آباد میں پہنچے تھے، پھر ڈاکٹر انکل اور بابا جان کے دوستوں (امین شہیدی صاحب اور امتیاز صاحب) نے مل کر اس مکان کی صفائی کی تھی۔ یہ 5 مارچ 1995ء کا واقعہ ہے۔ طے پایا کہ بابا جان ہمارے سالانہ امتحانات کے بعد اپنی فیملی کو بھی دفتر کے پاس ہی کسی مکان میں شفٹ کر لیں گے۔ ہمارا دل بہت خفا تھا کہ پھر ایک بار اپنے پیارے شہر لاہور کو خیرباد کہنا پڑے گا۔ خیر ایک جگہ سے دوسری جگہ کوچ کرنا تو جیسے ہماری زندگی کا معمول بن چکا تھا۔ بابا جان، ہمیشہ دین اسلام کی خدمت کے لیے اچانک ہی فیصلہ کرتے تھے، بس ہمیں آگاہ کرتے کہ اب یہاں سے کوچ کرنا ہے اور ایسے موقع پر امی ہمیشہ چند جملے بولتیں اور آخر بابا جان کے آگے سر تسلیم خم کر دیتیں۔

7 مارچ 1995ء کی صبح شاید میں کبھی بھی فراموش نہ کر پاﺅں۔ زندگی میں بہت سی تاریخیں گزرتی ہیں، جو انسان کے لیے ناقابل فراموش ہوتی ہیں، کبھی اسلامی تاریخ یاد رہتی ہے تو کبھی انگریزی۔ مگر 7 مارچ 1995ء، 5 شوال کی تاریخ ایسی ہے جو مجھے اسلامی بھی یاد ہے اور انگریزی بھی۔ میں کہہ رہی تھی کہ 7 مارچ 1995ء کی صبح تھی، میں اپنے چھوٹے بھائی مرتضیٰ اور والدہ محترمہ کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھی، غالباً 7 بج کر 10 منٹ ہوئے تھے۔ جیسا کہ ذکر کرچکی ہوں امتحانات کا سلسلہ چل رہا تھا۔ میرا اردو ”ب“ کا امتحان تھا کہ اچانک فضا میں گولیوں کی صدائیں گونجنے لگیں اور بارود کی ناخوشگوار بو ہر طرف پھیلنے لگی۔ ہم تینوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف نگاہ ڈالی۔ میں نے کہا ”اس وقت گولیوں کی آواز....؟ صبح صبح کس کی شادی ہے؟ (ان دنوں شادی کے موقع پر ہوائی فائرنگ ہوتی تھی) یہ کہہ کر میں بھاگتی ہوئی گیلری میں گئی اور جیسے ہی میری نگاہ سڑک پر موجود گاڑی پر پڑی، جس پر تیزی سے فائرنگ ہو رہی تھی، میری اچانک چیخ نکل گئی۔ میں زور سے چلائی! امی! امی!....امی اور مرتضیٰ بھاگتے ہوئے باہر آئے۔ امی! یہ تو انکل کی گاڑی ہے۔۔۔ اس گاڑی میں ہم اکثر آئی ایس او کی خواہران،( عظمیٰ باجی، روبینہ باجی، صائمہ باجی) میری امی اور آنٹی (مسز محمد علی نقوی) پروگراموں میں جاتے تھے۔

دل سے صدائیں آنے لگیں، اے خدا! اے خدایا! یہ انکل کی گاڑی نہ ہو۔ خدایا! میرے انکل اس میں نہ ہوں۔ امی کو بھی جیسے ہوش نہیں رہا تھا۔ پھر بولیں میں خود جا کر دیکھتی ہوں۔ وہاں جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ اتنی دیر میں وہ دہشت گرد جو دو عدد تھے اور موٹر سائیکل پر سوار تھے، کالی چادر انھوں نے اپنے کندھوں پر ڈال رکھی تھی۔ انھوں نے ایک بار تیزی سے دوکانیں جو کہ فلیٹس کے نیچے تھیں اور اوپر سے دیکھنے والوں پر رائفل تان کر دھمکی کے انداز میں دکھائی اور چل دیئے۔ میرے پاﺅں تو جیسے وہاں جم سے گئے ہوں۔ اچانک مجھے اپنی دوستوں کی آوازیں آئیں، پیچھے مڑ کر دیکھا تو شاید 7:25 یا 7:20 ہوچکے تھے، وہ بولیں زینب؟ کہاں ہو۔۔۔؟ سکول لگنے والا ہے۔۔۔؟ بولی ”دعا کرو۔۔۔۔ دعا کرو کہ جس گاڑی پر فائرنگ ہو رہی ہے، میرے انکل کی گاڑی نہ ہو۔۔۔۔۔ دعا کرو۔۔۔۔۔ یا وہ اس میں موجود نہ ہوں۔۔۔۔؟ وہ بولیں ان شاء اللہ وہ نہیں ہوں گے۔ آﺅ چلیں۔۔۔۔۔ امتحان دینا ہے۔ سالانہ امتحان ہے۔

امی نے بھی بڑے حوصلے سے ہمیں رخصت کیا، میں اور مرتضیٰ دھڑکتے اور بوجھل دل کے ساتھ چل دیئے۔ بعد میں امی جان بتاتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ دوسرے فلیٹس کی چھت پر گئیں، دیکھا کہ وہاں بہت رش ہے۔ جلدی جلدی سیڑھیوں سے اتریں، رش کو چیرتی ہوئی آگے پہنچیں تو دیکھا کہ انکل اپنے باڈی گارڈ (محمد تقی) کے ساتھ خون میں لت پت پڑے ہیں اور گولیوں نے انہیں چھلنی کر دیا ہے۔ سکول کے ایک بچے کو بھی گولی لگی تھی ۔ وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا،وہ بھی شہید ہو گیا تھا اور ایک ساتویں جماعت کی طالبہ زخمی ہوئی تھی۔ امی نے پتہ نہیں کیسے اپنے حواس قابو میں کئے، P.C.O تک پہنچیں اور آنٹی بتول (ڈاکٹر انکل کی بیگم) کو فون کیا۔ بہت مشکل سے اطلاع دی۔ آنٹی کو تو یقین نہیں آرہا تھا کہ جو شخص ابھی 20، 25 منٹ قبل گھر سے صحیح و سالم نکلا ہے۔۔۔۔ پھر اس کے بعد امی جان نے ایک دو جگہ اور اطلاع دی۔ اتنے میں ایمبولینس آئی اور لاشوں کو لے گئی۔ امی نے گھر کو لاک کیا اور آنٹی (مسز محمد علی) کے پاس پہنچ گئیں، وہاں تو جیسے قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔

ادھر میں کمرہ امتحان میں خالی الذہن تھی۔ میری دوست نے مجھے دیکھا، حوصلہ دیا اور کہا کہ پیپر حل کرو۔ خدا بہتر کرے گا۔۔۔۔ نہیں معلوم امتحان میں کیا لکھا، کس چیز پر مضمون تحریر کیا۔۔۔۔۔ کس کو درخواست لکھی۔۔۔۔۔۔ بس امتحان کا وقت ختم ہوا اور جیسے ہی چھٹی کی گھنٹی بجی، گھر کی طرف بھاگی۔ وہاں عظمیٰ شیرازی کا بھائی (علی) ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ وہ بھی ہمارے سکول میں زیر تعلیم تھا، امتحان دے کر آیا تھا، مگر اسے اطلاع مل چکی تھی، بولا: ڈاکٹر انکل شہید ہوگئے ہیں، آﺅ وہیں چلیں، آپ کی والدہ وہیں ہیں۔ آنسوﺅں کا سمندر تھا جو بے ارادہ آنکھوں سے بہے چلا جا رہا تھا۔ نہیں معلوم ہم تینوں (میں، چھوٹا بھائی اور علی) کس طرح انکل کے گھر تک پہنچے۔۔۔۔ راستے میں اتنے لوگ انکل کے گھر کے باہر جمع تھے، جیسے پورا پاکستان امڈ آیا ہو۔ کیوں نہ آتے، وہ تو سب کے غم گسار، روحانی باپ، پیشوا اور مسیحا تھے۔

جی ہاں! کتنی بار میں نے خود دیکھا اپنے چھوٹے بیٹے (موسیٰ) کے لیے نئے کپڑے اور جوتے راستے میں مانگنے والوں کو دے دیتے۔ بہت سے مریضوں کا مفت علاج کرتے۔ معلوم نہیں کتنے لوگوں کا چولہا ان کے دم سے روشن تھا۔ یہ تو شاید چھوٹی چھوٹی باتیں ہوں۔ پورے پاکستان میں دین اسلام اور انقلاب اسلامی کی شمعیں روشن کرنے والے شخص کو اتنی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، مگر آج بھی ان کے لگائے ہوئے پودے جگہ جگہ دیکھتی ہوں تو دل کو اطمینان ہوتا ہے۔ ان کی بیٹی زہرا نقوی کو دیکھتی ہوں تو سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ خدا کس طرح اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ ان کی بیٹی اب اپنے بابا جان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے والد کے افکار کو صوبائی اسمبلی تک پہنچاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں صحت و سلامتی اور لمبی زندگی عطا کرے۔
خبر کا کوڈ : 784267
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے۔
تو قیر کھرل
Pakistan
سلام خواہر
آپ نے الماک واقعہ کو جس طرح قلمنبد کیا ہے، اس نے اشکبار کر دیا ہے، یہ ملت تشیع کا بہت بڑا نقصان تھا، واقعہ کے عینی شاہد کی طرف سے پہلی بار تحریر پڑھی، گویا سب کچھ سامنے ہوا۔ کاش کہ شہید ڈاکٹر کا متبادل ہم میں سے کوئی ہوتا۔
ہماری پیشکش