0
Tuesday 23 Apr 2019 17:40

دنیا میں شیعت کیخلاف دہشتگردی، اسباب اور علاج(2)

دنیا میں شیعت کیخلاف دہشتگردی، اسباب اور علاج(2)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

گذشتہ سے پیوستہ
آل بویہ کی بادشاہت قائم ہوئی تو بغداد میں آل علی پر کیا جانے والا سب بند ہوا اور عزاداری ماہ محرم شروع ہوئی، سنہ 352 ہجری عاشورہ کے ایام میں بغداد کے اندر بہت بڑا مجمع جمع ہوا، بازار بند کر دیئے گئے، اس دن کا فاقہ کیا گیا، بازاروں میں خیمے برپا کیے گئے، رسم زیارت قبور آئمہ علیہم السلام رائج ہوئی اور بغداد دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، شیعہ آبادی والا (محلہ کرخ) اور سنی آبادی والا۔ اسی دور میں عید غدیر عوامی اور سرکاری سطح پر منانے کا آغاز ہوا۔ احتمال یہ ہے کہ آل بویہ ابتدا میں زیدی شیعہ تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اثناء عشری شیعہ ہوگئے تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زیدی شیعہ رہنے کے لیے ان کو اقتدار ایک فاطمی سید کے حوالے کرنا لازمی تھا، جبکہ غیبت امام کا عقیدہ انکے اقتدار پر رہنے کے لیے زیادہ کھلا راستہ تھا۔ زیارت قبور آئمہ علیہم السلام کی آزادی، عید غدیر اور محرم کی عزاداری پاکر شیعہ ملت نے اپنی اصل روح بادشاہتوں اور آمریتوں سے جہاد بھلا دیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہزار سال گذرنے کے باوجود جن شیعہ نشین علاقوں میں روح شیعت واپس نہیں آئی، وہ ابھی تک زیارت قبور آئمہ، ولادت کا جشن منانے اور محرم برپا کرنے سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائے۔ شیعت کی ترقی اسکی روح سے وابستہ ہے اور اس روح کے بغیر شیعت چند رسم و رواج کا مجموعہ ہے۔ البتہ یہی محرم اور غدیر اپنے اندر جو جذبہ رکھتے ہیں، اگر اس کو یاد دلایا جائے تو روح شیعت واپس آجاتی ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے یہی کام کیا، محرم اور صفر کی فکر کے ذریعے روح شیعت دنیا کو واپس کر دی ہے اور دنیا اس کے کرشمے دیکھ رہی ہے۔ ہمارے برصغیر میں اس روح شیعت سے واقف خود شیعہ سے زیادہ شیعہ دشمن ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ملت شیعہ اپنی حقیقی روح پالے گی تو پھر بادشاہتیں اور آمریتیں چین سے حکومت نہیں کر پائیں گی۔ اس لئے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا جا رہا ہے، تاکہ ملت کو اس منزل تک پہنچنے سے روکا جاسکے۔


برصغیر میں روح شیعت کی راہ میں نئی رکاوٹ:
ان ذرائع میں آج کل عزداری اور غدیر کو اپنی روح سے خالی کرنے بلکہ اسی روح کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عزداری کے نام پر نیند میں سلانے کے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں اور غدیر کے نام پر اتحاد کی جگہ انتشار پیدا کیا جا رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں نام ہی بیداری کا ہیں۔ جب ان دونوں میں سے بیداری نکل جائے گی، پھر ان سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا اور بادشاہ و آمر خود ایسے محرم اور غدیر میں شرکت کرتے نظر آئیں گے اور عجب نہیں کہ خطیب محرم اور غدیر سے کھیلتے ہوئے سامنے بیٹھے ہوئے بادشاہ کے تعریف کرتے ہوئے نظر آئیں، جبکہ غدیر کا ہیرو وہ ہے، جو کرائے کے کچے مکان میں رہتا ہو اور اس کی ملکیت میں دو روٹیوں اور ایک لباس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو، یہ سنت نبی اور ولی ہے۔ ایسی سنت بادشاہت اور آمریت کے لیے کیسے قابل قبول ہوگی، جبکہ عزاداری کا ہیرو وہ ہے، جو میدان کار زار میں اپنے جگر کے ٹکڑے دوسروں سے آگے رکھے۔ ایسی سنت شہنشاہ کو قابل قبول نہیں ہے۔ غدیر خدمت خلق خدا کا ایک نظام ہے اور کربلا ایسے نظام کے لیے تحریک ہے، اگر کوئی اس سازش سے نکل کر کسی نہ کسی طرح بیدار ہو جاتا ہے تو اسے تہ تیغ کیا جاتا ہے۔ اس پالیسی کو ہم تین عشروں کے تسلسل سے دیکھ رہے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 790281
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش