0
Tuesday 30 Apr 2019 22:33

دہشتگردی کیخلاف جنگ میں خیبر پختونخوا پولیس کی قربانیاں

دہشتگردی کیخلاف جنگ میں خیبر پختونخوا پولیس کی قربانیاں
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
انتہاء پسندی اور دہشتگردی نے وطن عزیز پاکستان میں ہر طبقہ ہائے زندگی کو بری طرح متاثر کیا، ہزاروں شہریوں کو جہاں مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا، وہیں ملک کے سیاستدان، وکلاء، ججز اور دیگر اہم شخصیات بھی اس ناسور کی بھینٹ چڑھ گئیں، علاوہ ازیں ہمارے سکیورٹی اداروں کے افسران و جوانوں نے قوم اور ملک کے دفاع کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ان سکیورٹی اداروں میں پولیس کی قربانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بدقسمتی سے اس ادارے کی آج تک عوام میں پذیرائی انتہائی کم ہے، تاہم پولیس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران اپنے کئی اہم افسران و اہلکار کھوئے۔ اگر پولیس کی ان قربانیوں کی بات کی جائے تو اس حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس دہشتگردی کیخلاف فرنٹ پر نظر آتی ہے۔ دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہونے والے اس صوبہ کی پولیس نے اپنے 1600 سے زائد افسران و اہلکاروں کو عوام کی جانوں کے تحفظ کیلئے قربان کیا۔ یہ شہادتیں 12 سالوں کے دوران ہوئیں۔
 
کے پی کے پولیس کے جوانوں اور افسران کی قربانیوں کی لازاوال داستان سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کچھ اس طرح ہے کہ پشاور میں 451 شہداء، چارسده میں 75 شہداء، نوشہره میں 36 شہداء، مردان میں 110، کوہاٹ میں81، صوابی میں 48، کرک میں 18، ایبٹ آباد میں 13، ہری پور میں 10، مانسہره میں 35، بٹگرام میں 8، کوہستان میں 4، تور غر میں 5، بنوں 159، لکی مروت میں 44، ڈیره اسمعیل خان میں 170، ٹانک میں 31، سوات میں 132، شانگلہ میں 27، بونیر میں 27، لوئر دیر 43، اپر دیر میں 32 اور چترال میں 11 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ ان شہداء میں ایک ایڈیشنل آئی جی، 2 ڈی آئی جی، 5 ایس پی، 20 اے ایس پی/ڈی ایس پی، 22 انسپکٹر، 103 سب انسپکٹرز، 124 اے ایس آئی، 135 ہیڈ کانسٹیبلان اور 1100 کانسٹیبل شامل ہیں۔ پولیس کے ان شہداء کی کل تعداد ساڑھے 1600 سے زائد ہے۔ اے آئی جی صفت غیور پشاور میں 2012ء میں شہید ہوئے، ڈی آئی جی ملک سعد پشاور میں 2007ء میں شہید  ہوئے۔
 
اسی طرح ڈی آئی جی عابد علی بڈھ بیر پشاور میں، ایس پی اعجاز احمد لنگڑیال ڈیرہ اسماعیل خان میں، ایس پی محمد اقبال مروت بنوں میں، ایس پی خورشید خان ضلع لوئر دیر میں، ایس پی رجب علی شاه ڈیرہ اسماعیل خان میں شہید ہوئے۔ محکمہ پولیس کے ان شہداء کو کبھی بم دھماکوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، کبھی پولیس تھانوں اور ان کے ٹریننگ سنٹرز پر خودکش حملے ہوئے تو کبھی یہ ٹارگٹ کلنگ کی بھینٹ چڑھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبر پختونخوا سمیت کسی صوبہ کی پولیس کو آج تک ہم مثالی قرار نہیں دے سکتے، تاہم ملک و قوم کی خاطر جان دینے کا منصب شہادت ہے، خیبر پختونخوا جیسے جنگ زدہ صوبہ میں پولیس کی جانب سے دی جانے والی ان قربانیوں کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس کے حق میں پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں کم ہی لکھا جاتا ہے، اس کی بنیادی وجہ اس ادارے میں موجود کالی بھیڑوں کا کردار ہے، جنہوں نے ان پولیس شہداء کی قربانیوں کے برعکس ملک میں جرائم کنٹرول کرنے اور عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کی بجائے الٹا جرائم کو تقویت بخشی۔
 
اسی ادارے میں صفوت غیور، ملک سعد، گلفت حسین، رجب علی شاہ اور عابد علی جیسے قوم کے سپوت بھی تھے، جنہوں نے فرض شناسی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ خیبر پختونخوا پولیس نے دہشتگردی کے دور کے دوران انتہائی کم وسائل و ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کے باوجود امن دشمنوں کا مقابلہ کیا، شہید سی سی پی او پشاور ملک سعد نے جب خودکش حملہ کے دوران جام شہادت نوش کیا تو وہ اس وقت محرم الحرام کے ماتمی جلوس کے فرنٹ پر موجود تھے، اسی طرح ڈی ایس پی گلفت حسین قصہ خوانی بازار میں جماعت اسلامی کی جانب سے کئے جانے والے جلسہ کی سکیورٹی کا جائزہ لینے موجود تھے کہ دہشتگردوں نے انہیں نشانہ بنایا، علاوہ اے آئی جی شہید صفوت غیور نے پشاور میں ہونے والے دہشتگردوں کے ایک حملہ کے دوران پولیس جوانوں کے ہمراہ خود کلاشنکوف اٹھا کر مقابلہ کیا۔ یعنی یہ پولیس افسران عوام کے تحفظ میں پیش پیش رہتے ہوئے شہید ہوئے۔
 
آج ملک میں دہشتگردی کا زور ٹوٹ چکا ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی دہشتگردانہ واقعات میں کمی آئی ہے، تاہم اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان میں عوام کیساتھ ساتھ پولیس آج بھی دہشتگردوں اور ٹارگٹ کلرز کے نشانے پر ہے، ڈی آئی خان کے مقامی عمائدین کا یہ کہنا ہے کہ یہاں پولیس کو اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کھڑی ہے۔ خیبر پختونخوا پولیس کے ان شہید افسران اور اہلکاروں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ یہاں کے عوام آج قدرے امن و امان کی فضاء میں سانس لے رہے ہیں، گو کہ کے پی کے حکومت کی جانب سے ان شہداء کے خانوادوں کیلئے دیا جانے والا شہداء پیکج مناسب ہے، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شہداء کے لواحقین کی احوال پرسی کی جاتی رہے، ان شہداء کے نام سے مختلف تھانہ جات اور پولیس لائنز منسوب ہونے چاہئیں، اہم شاہراوں پر ان شہید افسران اور اہلکاروں کی تصاویر آویزاں ہونی چاہئیں، ان شہداء کے قربانیوں کو کسی بھی طرح فراموش نہیں کیا جانا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 791590
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش