1
6
Tuesday 30 Jul 2019 05:09

عمران خان کا دورہ امریکا، چند اہم نکات

عمران خان کا دورہ امریکا، چند اہم نکات
تحریر: محمد سلمان مہدی
 
عمران خان کے دورہ امریکا سے متعلق ان کے دورے سے قبل اور بعد میں بہت سے اہم نکات پر رائے دی جا چکی۔ اسی موضوع پر حسب وعدہ چند مزید اہم نکات پیش خدمت ہیں۔ ان کی ٹرمپ سے ملاقات اور دیگر مواقع پر کی گئی باتوں کی گونج نہ صرف پاکستان اور امریکا میں بلکہ بھارت اور اس پورے خطے میں بھی سنائی دی اور تاحال اس کے مختلف پہلوؤں پر گرما گرم بحث رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ واشنگٹن ڈی سی یعنی امریکی دارالحکومت میں پاکستان کے وزیراعظم کو صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لئے مدعو کیا گیا تھا، لیکن دورے کی نوعیت اور حیثیت تاحال معمہ ہے، کیونکہ نہ تو یہ اعلیٰ ترین سطح کا اسٹیٹ وزٹ تھا، نہ اس سے کم درجے کا آفیشل وزٹ تھا۔

ممکن ہے کہ آفیشل ورکنگ وزٹ تھا، لیکن یہ کیسا دورہ تھا کہ مدعو بھی خود کیا لیکن مہمان کو شایان شان پروٹوکول بھی نہ دیا۔ اس دورے میں سرکاری سطح پر پاکستان کا جھنڈا صرف ایک جگہ نظر آیا تھا اور وہ بھی وائٹ ہاؤس کے اس دروازے کے باہر جہاں صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ہاتھ ملایا تھا، باقاعدہ ملاقات و مذاکرات سے قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندگان سے بات چیت کے وقت بھی پاکستان کا قومی پرچم کہیں نظر نہیں آیا، مذاکرات کی میز کے کسی طرف بھی پاکستان کا قومی پرچم نہیں نظر آیا۔ استقبال سے متعلق بھی بھارتی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کی سبکی ہوئی۔ میٹرو سواری میں پاکستانی ہی پاکستانی دکھائی دیئے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہا اور وہی سفیر رخصت کرنے ڈلس ایئرپورٹ تک بھی آئے۔ اس دوران امریکا کی قائم مقام پروٹوکول سربراہ میری کیٹ فشر کی جھلک بھی دکھائی دی۔
 
خوش قسمت بری فوج کے سربراہ رہے، جنہیں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے دورے کے موقع پر اکیس توپوں کی سلامی کے ساتھ گارڈ آف آنر دیا گیا اور امریکی افواج کی مسلح افواج کے سربراہان کی مشترکہ کمیٹی کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے ان کا استقبال کیا جبکہ وہاں ان کا باہمی تعامل امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر اور ڈنفورڈ کے ممکنہ جانشین جنرل مارک ملے سے بھی ہوا۔ سکیورٹی ایشوز اور دوطرفہ فوجی تعاون پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ امریکا کے قومی ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آرلنگٹن قومی قبرستان بھی گئے، جہاں پاکستان اور امریکا کے قومی ترانوں کے ساتھ تقریب بھی ہوئی۔

اس دورے میں ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے عمران خان نے وہاں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے بھی ایک اسٹیڈیم کے اندر خطاب کیا تھا۔ تاجر برادری سے بھی ملاقات کی۔ ایک امریکی تھنک ٹینک یونائٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب اور فاکس نیوز کے پروگرام ”اسپیشل رپورٹ ودھ بریٹ بائیر“ میں خصوصی انٹرویو اور امریکی مقننہ کے اراکین سے ملاقاتیں بھی کیں۔ فاکس نیوز کو انٹرویو میں عمران خان نے جہاں اور بہت سی اہم باتیں کیں، وہیں یہ بھی کہا کہ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کی نشاندہی کروانے میں آئی ایس آئی نے امریکا کی مدد کی تھی۔ پہلی مرتبہ پاکستان کی جانب سے اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ تب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو کس جرم میں قید رکھا جا رہا ہے؟ فاکس نیوز کے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جاسوس سمجھا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ یہ نکتہ ہے کہ جب وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے عمران خان کی موجودگی میں شکیل آفریدی کی رہائی سے متعلق سوال ہوا تو ٹرمپ کا جواب تھا کہ بالکل بات چیت ہوگی، وہ پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات میں وہ یرغمالیوں کی آزادی کے ایشو پر بھی بات کریں گے۔ یعنی انکی نظر میں ڈاکٹر شکیل آفریدی بھی یرغمالی ہی ہیں۔
 
فاکس نیوز کا سوال تھا کہ اگر بھارت کہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار ترک کر رہا ہے تو کیا پاکستان بھی ایسا ہی کرے گا تو عمران خان نے ہاں میں جواب دیا۔ یعنی نیوکلیئر ہتھیاروں سے متعلق امریکی خواہش یہی ہے، جو نئے امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سامنے سوالات کے جواب میں ظاہر کی تھی۔ اور فاکس نیوز کے بریٹ بائیر نے بھی اس سے متعلق سوال کیا۔ کشمیر سے متعلق ٹرمپ کی بات کو پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ایسے انداز میں پیش کیا گیا کہ بھارت ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوگیا اور وہاں سے دفتر خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ مودی نے ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی کبھی درخواست نہیں کی، کیونکہ بھارت، پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا قائل ہے۔ البتہ وہاں حزب اختلاف کی جماعتوں نے مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ یقیناً پاکستان کی کامیابی سہی، لیکن ٹرمپ نے عمران خان کی موجودگی میں ہی واضح کر دیا تھا کہ مودی کے ساتھ ان کا بہت اچھا تعلق ہے جبکہ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کے ساتھ phenomenal تعلق قائم ہونے جا رہا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ٹرمپ نے واضح کیا کہ بھارت کا بھی پاکستان پر یہی الزام ہے کہ پاکستان وہاں عدم استحکام پھیلا رہا ہے۔ یعنی انہوں نے گول مول بات کرکے جان چھڑائی۔
 
مجموعی طور پر بات کی جائے تو ٹرمپ حکومت عمران حکومت سے پرامید ہے اور اب امریکی رائے یہ ہے کہ عمران حکومت کے دور میں امریکا کی مدد عمدہ طریقے سے کی جا رہی ہے۔ یعنی عمران خان حکومت سے امریکا ناراض نہیں ہے بلکہ ابھی دیگر حوالوں سے امریکی فرمائشوں پر پاکستان کے عمل کو چیک کر رہا ہے۔ ٹرمپ حکومت یہ اشارہ دے رہی ہے کہ اگر پاکستان حکومت امریکی ”درخواستوں“ پر عمل کرے تو فوجی امداد بھی بحال کی جا سکتی ہے۔ اس دورے کے بعد خبر آئی ہے کہ کوالیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں جو بقایا جات امریکا پر واجب الادا ہیں، ان کی ادائیگی بھی ممکن ہے۔ امریکی صدر کے اس موقف سے لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت امریکی بلاک کے لئے نواز اور زرداری حکومتوں سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے۔
 
امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں وہاں میزبان نینسی لنڈبورگ نے روس اور ازبکستان کی میزبانی میں افغانستان امن مذاکرات پر عمران خا ن کی رائے جاننے کے لئے سوال کیا تو انکا جواب من و عن یہ تھا:
You know, we should really get all the neighbors of Afghanistan involved with the peace talks. Because this is, it should be the interest. Pakistan, the United States, and Afghanistan, these three countries today are the most interested in having peace in Afghanistan. But not all neighbors are interested in peace Afghanistan because, you know, for various reasons, people have their, other countries have their own agendas. So I firmly believe that the U.S. should try and co-opt as many countries as possible. Because there will be people who will be trying to, you know, put a spanner in the works. And so if the neighbors are all involved, there's a much better chance of the talks going smoothly.
 
بظاہر وہ سارے پڑوسی ممالک کو افغان امن عمل میں شامل دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی بعض پڑوسیوں کا نام لئے بغیر الزام لگا دیا کہ وہ افغانستان میں امن میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ وہی موقف ہے جو ٹرمپ حکومت کے اعلیٰ حکام پہلے ہی ظاہر کرچکے ہیں۔ روس، چین اور ایران کو امریکی و مغربی حکام اسپوائلر کہہ چکے ہیں۔ عمران خان نے بغیر نام لئے ملتی جلتی بات بھی کر دی۔ جونہی بات مکمل ہوئی تو نینسی لنڈبورگ نے اور زیادہ کریدنے کے لئے ایران سے متعلق سوال پوچھ لیا کہ And speaking of neighbors, there's a question saying what, and you mentioned this in your opening remarks, what, what role can Pakistan play in easing the rising tensions with Iran, and a number of other countries, including the United States, without damaging some of your other relationships? How are you thinking about that?
 
اس پر عمران خان نے جو کچھ کہا وہ بھی من و عن ملاحظہ فرمائیں
 You see, Pakistan is, you know, we're really indebted to Saudi Arabia, we are indebted to UAE. Because the way they came forward, you know, when we were confronted with this, when we took over government, we only had two weeks of foreign exchange reserves. So we were staring at a default, and these countries came forward to help us and so we are really indebted to them. But my worry about Iran as, I think, I'm not sure whether all the countries realize the, the gravity of the situation, if there's a conflict with Iran, people don't understand. You know, this is not going to be the same as Iraq, this could be much, much, much worse. It will have great consequences for Pakistan, adverse consequences for our, for our country. It could unleash terrorism, which would, which people would forget al Qaeda and those types, because the Iranian, the, you know, the, the Shia element in Islam is very cohesive, they have a much greater sense of martyrdom, than the Sunni Muslims, you know, the, the battle might be quite short, if, you know if, if, if it goes ahead, and, you know, bombing, airfields and so on.
But the consequences after that, my worry is that not many people fully understand it and I would strongly urge that there should not be this this conflict should not, there should not be another military…situation. Pakistan has already suffered. I said, as what we went through these last 15 years, the last thing we want is another conflict on our borders. And, you know, we would do anything, I mean, if any role Pakistan can play in this, we have already had  suggested this to Iran. Until recently, Iran was    
willing, but then when somehow I felt that the Iran is getting very desperate. And I do not think they should be pushed into a situation where, where this leads to a conflict.
 
عمران خان نے بہت واضح کہا ہے کہ ایران سے امریکا کی (فوجی) لڑائی مختصر (ہی سہی لیکن) اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ یہ عراق کی طرح نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ، کہیں زیادہ، کہیں زیادہ برا ہوگا۔ پاکستان پر اس کے بہت زیادہ برے اور سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ یہ ایسی دہشت گردی کو فروغ دے سکتی ہے، جس سے لوگ القاعدہ اور اس جیسی دیگر تنظیموں کو بھول جائیں گے، کیونکہ ایران، اسلام میں شیعہ عنصر بہت ہم آہنگ ہے اور سنی مسلمانوں کی نسبت ان میں شہادت کا جذبہ بھی بہت زیادہ ہے۔ عمران خان نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں، وہ یہ نہیں ہیں کہ امریکی فوجی جارحیت پر ایران کا ردعمل یا مزاحمت اتنی شدید ہوگی بلکہ لفظ ٹیررازم استعمال کیا ہے، یعنی امریکا کی فوجی جارحیت کو تو لڑائی کہا ہے، لیکن جارحیت کے مقابلے میں ایران کی جوابی کارروائی کو ایسی دہشت گردی سے تشبیہ دی ہے کہ لوگ القاعدہ کو بھول جائیں گے۔
 
جو لوگ موجودہ وزیر اعظم کی جانب سے غیر ملکی ایڈ کے خلاف بڑے بڑے دعووں پر ایمان لاچکے ہیں، ان کو اگر انگریزی آتی ہے تو عمران خان نے ایران سے متعلق سوال کے جواب ہی میں یہ حقیقت بیان کی ہے کہ پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا مشکور ہے، کیونکہ دونوں ہی نے پاکستان کو قرضہ دیا ہے۔ عمران خان نے تو آتے کے ساتھ ہی نہ صرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور آئی ایم ایف سے بلکہ چین سے بھی قرضے لئے ہیں تو باقی ایڈ اور کس بلا کا نام ہے؟!!
 
وزیراعظم پاکستان کے دورہ واشنگٹن ڈی سی میں چین سے متعلق کیا کیا باتیں ہوئی ہیں، اس پر ہر طرف سے خاموشی چھائی ہوئی ہے، حالانکہ چین کی حکومت کی نظر میں ہانگ کانگ کی حالیہ شورش اور چین کے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ (شنجانگ یا کاشغر) میں ہونے والے مسائل میں مغربی حکومتوں اور خاص طور پر امریکی حکومت کا ہاتھ ہے۔ ایران، امریکا کشیدگی میں پاکستان کی موجودہ حکومت اپنا دامن بچانے کی کوشش ضرور کر رہی ہے، لیکن جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرضے لے چکی ہے تو کیا انصافین حکومت دامن بچانے کی پوزیشن میں ہے؟!! اس وقت پاکستان کا وزیراعظم ایسی ہستی ہیں، جنہوں نے یو ٹرن کو پالیسی کا درجہ دے رکھا ہے اور موصوف، قرضہ لینے سے پہلے خودکشی کی بات کرنے پر بھی یوٹرن لے چکے ہیں۔ یہ حکومت تو پوری طرح امریکی بلاک کے اہم اتحادیوں کی مدح سرا ہے، اس کا توازن تو ان کی طرف ہے، کیا یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات ہے، جو بہت سوں کو اب بھی سمجھ نہیں آرہی۔
خبر کا کوڈ : 807859
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلمان بہت بہت شکریه حقایق روشن کرنے کا، لیکن بدقسمتی سے یه بات همارے دوستوں کو سمجھ نہیں آۓ گی که یہ نیازی امریکایی، سعودی اتحاد کے لیے وقت آنے پر کچھ بهی کرسکتا ہے، یه لوگ نیازی محبت میں اندهے اور بحرے ہوچکے ہیں، دهرنا سے لیکر اب تک اس شخص کی صرف اور صرف اندهی حمایت کر رہے ہیں۔!!!
ہماری پیشکش