0
Friday 2 Aug 2019 12:06

نئے پاکستان کا پہلا سیاسی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار

نئے پاکستان کا پہلا سیاسی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

متحدہ اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں اپنی لگام تھمائی اور چیلنج کیا کہ حکومت کی ناک رگڑ دینگے۔ لیکن چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد ڈرامائی طور پر ناکام ہو گئی، اس دفعہ آصف زرداری کی مسکراہٹ کو صادق سنجرانی کی مسکراہٹ نے شکست دی۔ صادق سنجرانی نے واقعی اپوزیشن کو سرپرائز دے دیا ۔گزشتہ روز جب اپوزیشن کے 64 سینیٹر تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے تو حکومتی بینچوں پر بیٹھے ارکان کے چہرے ہی اترگئے جب ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو قائد ایوان شبلی فراز اٹھ کر لابی میں چلے گئے اور ان کے پیچھے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی تھے۔ کچھ دیر بعد صادق سنجرانی لابی سے سینیٹ ہال واپس آئے تو ان کے چہرے پرخوشی واضح محسوس کی جاسکتی تھی، بعد میں صادق سنجرانی اور شبلی فراز پیپلز پارٹی کی سینیٹر قرۃ العین مری، مصطفی نواز کھوکھر کے ساتھ آخری نشستوں پر جاکر خوش گپیاں کرتے رہے، ووٹنگ کے سارے عمل کے دوران اپوزیشن ارکان کا مورال بلند نظر آیا، لیکن یہ صرف نتیجہ آنے تک تھا۔

تجزیہ کار حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے نمبرز واضح تھے۔ اپوزیشن کے 64 حکومت کے 36 ووٹ تھے، کوئی مقابلہ نہیں تھا، لیکن اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ یہ حیران کن پیش رفت ہے۔ حزب اختلاف کے حوصلے ایک بار پھر ٹوٹ گئے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے 64 اراکین میں سے 14 اراکین نے خفیہ رائے شماری میں پارٹیوں کیخلاف بغاوت کردی۔ ووٹنگ سے پہلے 64 اراکین نے کھڑے ہو کر تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی تھی، مگر چند لمحوں کے اندر یہ صورتحال بدل گئی اور حزب اختلاف کے یہ اراکین ووٹنگ کی گنتی میں 64 سے کم ہو کر 50 رہ گئے۔ ان میں سے 9 اراکین نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا، اس طرح حکومت کے اراکین کی تعداد سینیٹ میں 36 سے 45 ہو گئی، جو کہ ایک بہت بڑا انکشاف تھا۔ دوسری جانب حزب اختلاف 53 ووٹ حاصل نہیں کرسکی، اس کے 5 اراکین کے ووٹ مسترد ہو گئے، کیونکہ انھوں نے ووٹ درست طریقے سے نہیں ڈالے تھے۔ شاید وہ یہی چاہتے تھے کہ ان کے ووٹ مسترد ہو جائیں۔

جب چیئرمین کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو اپوزیشن کے تمام ارکان صدمے میں نظر آرہے تھے، ان میں ظاہر ہے وہ چو دہ ارکان بھی شامل تھے، جو اس ہزیمت کے ذمہ دار تھے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو اپنے اتحاد کا ثبوت دینا تھا اور اس کا با معنی اظہار کرنا تھا اور وہ اظہار اس طرح سے ہوتا کہ وہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرا دیتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، اپوزیشن کو سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی سیاست کی روایت کے مطابق اس بارے میں پہلے بھی شکوک و شبہات ظاہر کئے جا رہے تھے، کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا اتحاد فطری نہیں تھا، ان کا واقعی دل سے ایک دوسرے سے جڑ جانا، ایک مشکل عمل ہے۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی قیادت بند ہے اور جماعتیں مفلوج ہو چکی ہیں، ایک جانب نواز شریف جیل میں قید ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف بھرپور کیسز ہیں۔ آصف زرداری اس وقت نیب کی قید میں ہیں۔ آصف علی زداری پر شدید دباؤ ہے، اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے  نجانے کس نے کس کا ہاتھ پکڑ لیا اور حزب اختلاف کو سرپرائز شکست ہوئی ہے۔

اپوزیشن ڈھیر ہو گئی ہے، حکومت گرانے کی دھمکیاں دینے والی اپوزیشن اپنے پہلے ہی امتحان میں ناکام ہوگئی، متحدہ اپوزیشن حکومت کو تو ٹف ٹائم نہ دے سکی، بلکہ خود اپنے اراکین کو بھی متحد نہ رکھ سکی۔ سینیٹ میں جہاں اپوزیشن کی اکثریت تھی، وہاں اپوزیشن کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، حکومت کو بڑی اور غیر متوقع کامیابی مل گئی، اپوزیشن نے اپنی احتجاجی تحریک کے پہلے مرحلے میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا اعلان کیا تھا، اس حوالے سے بڑے بڑے دعوے کئے گئے، اپوزیشن کو یقین تھا کے وہ کامیاب ہوگی، کیوں کہ اس کے پاس اکثریت ہے، مگر اپوزیشن ناکام ہوگئی۔ اسی طرح حکومت کو یقین تھا کے اپوزیشن ناکام ہوگی اور پھر ایسا ہی ہوا اپوزیشن ناکام ہوگئی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن نہ پہلے اکھٹی تھی اور ناں آئندہ اکھٹی ہوگی، جو کچھ ہوا ہے اسی نے اپوزیشن کی طاقت کو اجاگر کیا ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو حکومت نے اپوزیشن کو ٹیکنیکل طور پر ناک آؤٹ کردیا ہے، یہ ووٹ ضمیر کی بنیاد پر نہیں پڑے ہیں، خفیہ رائے شماری کی آڑ میں جو جوڑ توڑ کیا جاتا ہے وہ شرم ناک بات ہے۔

سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کے لئے رائے شماری ہوئی، صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی۔ کیا یہ عندیہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن عمران خان کے لئے کوئی خطرہ ثابت نہیں ہوگی؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر صادق سنجرانی چلے بھی جاتے، حاصل بزنجو آبھی جاتے تو فرق کوئی نہیں پڑنا تھا اور اب بھی کچھ نہیں ہونا ہے، جب تک اپوزیشن کی یہاں اکثریت ہے وہ قانون سازی روکے گی۔ اب ہونا یہ ہے کہ حکومت کا اعتماد بڑھ جائے گا۔ اگر دباؤ اور ہارس ٹریڈنگ نہیں ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اے پی سی کا ایجنڈا دھاندلی تھا، اپوزیشن کی اپنی پالیسی بنانے میں انہیں ناکامی ہوئی یا حکومت کی سرپرستی کرنیوالی طاقتوں نے اپوزیشن کو اندر خانے مصروف رکھنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہے، اس کا فیصلہ جلد یا بدیر ہو جائیگا۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان آج پھولے نہیں سما رہے، انھیں اتنی بڑی کامیابی ملی ہے، جس کی ٹائمنگ الیکشن 2018ء میں کامیابی سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اگرچہ عمران خان اور ان کی پارٹی ایک مشکل صورتحال میں پھنسے ہوئے ہیں مگر اس موقع پر سینیٹ آف پاکستان میں انھیں سرپرائز کامیابی ملی یا دلوائی گئی۔
خبر کا کوڈ : 808390
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش