1
Saturday 17 Aug 2019 20:38

حدیث غدیر، حدیث متواتر

حدیث غدیر، حدیث متواتر
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حدیث غدیر خم اسلام کی متواتر احادیث میں سے ہے، جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اصحاب سے نقل کیا ہے اور یہ تعداد تعجب آور نہیں، کیونکہ غدیر خم میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے ۔۱۔ حدیث متواتر، وہ حدیث ہے جس کے سلسلۂ سند میں آخری راوی سے لے کر معصوم تک، یعنی ہر طبقے میں راویوں کی تعداد اس قدر ہو کہ عادی  اور عام حالت میں ان کا معصوم کی طرف جھوٹی نسبت دینے کے لئے سازباز کرنا محال ہو اور ان کی نقل شدہ خبر یقین اور علم کا سبب بنے۔۲۔  خبر متواتر یا (حدیث متواتر) کے مقابلے میں خبر واحد آتی ہے یعنی جو متواتر نہ ہو وہ خبر واحد ہے۔ تواتر کی دو قسمیں ہیں: الف: متواتر  لفظی ب: متواتر معنوی۔۳۔
متواتر لفظی: وہ حدیث یا خبر جس کے تمام روایوں نے، تمام طبقات میں، اس حدیث یا خبر کے مضمون کو ہو بہو اور یکسان طور پر نقل کیا ہو۔ جیسے حدیث ثقلین کی عبارت، (انّي تارك فيكم الثقلين ۔۔) یا حدیث غدیر کی عبارت (من كنت مولاه فهذا عليّ مولاه)۔

متواتر معنوی: وہ حدیث یا خبر جس کے تمام راویوں نے تمام طبقات میں، ایک ہی مضمون کو مختلف عبارتوں اور مختلف الفاظ کے ذریعے نقل کیا ہو اور معنی میں مطابقت تضمنی دلالت کی بنیاد پر ہو، جیسےمختلف حالات میں نماز میں سورہ حمد کے بعد دوسری کسی سورہ کی تلاوت، پر دلالت کرنے والی مختلف راویوں کی روایتیں، کہ ان ساری روایات میں سورہ حمد کی تلاوت جزء اول کے طور پر قرار دی گئی ہے۔ یا پھر لفظ اور معنی کا مطابقت التزامی دلالت کے ذریعے سے ہو، جیسے حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت کی خبر جو متعدد روایات میں نقل ہوئی ہے اور ان کا تعلق مختلف واقعات سے ہے، جن کے مجموعے سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شجاعت سے متعلق روایات کا تواتر ثابت ہوتا ہے۔ر وایات میں معنوی تواتر، لفظی تواتر کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور دین کے اکثر اجزاء بالاخص فروع دین معنوی تواتر کے حامل ہیں، جیسا کہ نماز کی رکعات کی تعداد، مبطلات روزہ، ارکان حج، زکٰوۃ وغیرہ ۔۴۔
غدیر خم کا واقعہ تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات میں سے ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ہونے کا حکم دیا، جو لوگ آگے بڑھ چکے تھے واپس آئےاور جو پیچھے رہ گئےتھے وہ بھی پہنچ گئے، آپ ؐنے نماز ظہر باجماعت ادا کی اور اس کے بعد ایک منبر بنانے کا حکم فرمایا۔

منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا، خدا کی حمد و ثنا نیز چند اہم نکات بیان کرنے کے بعد  حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں اس کے بعد فرمایا، (من کنت مولاه فهذا علی مولاه) جس جس کا میں مولٰی ہوں اس کے علی بھی مولٰی ہیں۔ اہل سنت نے لفظ مولٰی   کی تفسیر دوستی و محبت سے کی ہے لیکن شیعوں کے نزدیک مولٰی سے مراد زعامت اور امت اسلامی کی رہبری ہے کیونکہ لفظ مولٰی کا ایک معنی دوسروں کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ہوگا جو بھی مجھے بطور مولٰی دوسروں کے امور میں تصرف کرنے کا حتی کہ ان کے اپنے نفس کی نسبت زیادہ حقدار سمجھتا ہے ان سب کا (علی) بھی مولٰی ہے بعبارت دیگر حضرت علی علیہ السلام بھی دوسروں پر ایسی ہی ولایت رکھتے ہیں۔
اس نظریہ کی اثبات کے لئے بہت سی عقلی و نقلی قرائن موجود ہیں جن میں سے چند قرائن بطور مختصر ذکر کرتے ہیں: 

قرائن عقلی و نقلی:
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب کے ابتدائی حصہ میں مسلمانوں پراپنی اولویت کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا، (النَّبىِ‏ أَوْلىَ‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ)۔۵۔ بےشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہے۔ آیت کا یہ حصہ حدیث میں موجود لفظ (مولٰی)  کے لئے واضح قرینہ ہے۔ جیساکہ آپ ؐنے بعد میں فرمایا، (من کنت مولاه فهٰذا علی مولاه) جسے اکثر راویوں نے اس مقدمہ کو حدیث غدیر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملہ (من کنت مولاه ...) کو بیان کرنے سے پہلے اسلام کے تین بنیادی اصول توحید، نبوت اور معاد کا ذکر فرمایا اور لوگوں سے اس سلسلے میں اقرار بھی لیا، اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا، تمہارا مولٰی کون ہے؟ مسلمانوں نے جواب دیا، خدا اور اس کا رسول۔ اس وقت آپ ؐنے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا، جس کا خدا اور اس کا رسول مولٰی ہے یہ (علی) بھی اس کا مولٰی ہے۔ اس پیغام کے اصول دین کے اقرار سے مربوط ہونے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں ولایت سے مراد امت اسلامی کی رہبری اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح مسلمانوں پر ولایت حاصل ہونا ہے ۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے (من کنت مولاه ...) کو بیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ؐمسلمانوں کی رہبری کے بارے میں فکر مند تھے اور اس بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر میں آیت کریمہ (الْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ..) کی تلاوت کے بعد اللہ اکبر کہہ کر دین اسلام کے کامل ہونے اور مسلمانوں پر خدا کی نعمتوں کے تمام ہونے نیز خداوند متعال کا آپؐ کی رسالت اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر راضی ہونے پر خوشی کا اظہار فرمایا۔ واضح رہے کہ ولایت کو رسالت کے ساتھ ذکر کرنے کا مطلب امت اسلامی کی رہبری کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے۔

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ عقلمند، حکیم اور مہربان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مومنین کے دوست ہیں یا مومنین پر واجب ہے کہ آپ ؑسے محبت و دوستی کریں جسے ایک عام مسلمان بھی سمجھ سکتا ہے، کیونکہ مومنین کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنا ایمان کے ضروریات میں سے ہے۔ بنابریں اس واضح مسئلہ کو اس غیر معمولی حالات میں اور وہ بھی گرم ترین علاقے میں، اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنا حکیمانہ نہیں ہے، جبکہ ہمیں تاریخ اسلام کے واقعات کی اس طرح سے تفسیر نہیں کرنا چاہیئے کہ جس سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و تدبیر پر حرف آ جائے، لیکن امت اسلامی کی رہبری کا مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ایسے سخت حالات اور تمہید کے ساتھ اس نکتہ کی وضاحت کرنا عاقلانہ و حکیمانہ ہے۔۳۔ غدیر کے واقعہ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجاج بیت اللہ کے کاروان کو شدید گرمی کے دنوں میں دوپہر کے وقت ایک بنجر اور بے آب و گیاہ سر زمین پر ٹھہرنے کا حکم فرمایا۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے اپنی عبا کے آدھے حصے کو اپنے سروں پر اوڑھ لیا تھا اور باقی آدھے حصے کو اپنے نیچے فرش کے طور پر بچھایا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس تمہید و اہتمام کے بعد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایسا کلام فرمانا ہوگا، جو امت کی ہدایت میں کلیدی اہمیت کا حامل اور تقدیر ساز ہو۔

حقیقت میں مسلمانوں کے جانشین کے تقرر کے علاوہ کونسی چیز کلیدی اور تقدیر ساز ہو سکتی تھی؟ اسی طرح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام الٰہی کے پہنچانے کے بعد حاضرین سے چاہا کہ اس خبر کو غائبین تک پہنچائیں۔ لہٰذا یہ قرائن و شواہد دلالت کرتی ہے کہ آپ ؐنے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرمایا تھا۔۶۔ بعض افراد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کو حکیمانہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں، حدیث غدیر میں مولٰی سے مراد دوستی و نصرت ہے، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام نے یمن کے سفر میں جنگی غنائم کے بارے میں ایسا فیصلہ فرمایا، جو باقی افراد کی ناراضگی کا سبب بنا اور ان لوگوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر آپ ؑکی شکایت کی، لہٰذا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم میں اس اقدام کے ذریعے مسلمانوں تک حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونےکا حکم  پہنچانا چاہتے تھے۔ اس بات  کا جواب یہ ہے کہ یمن کے سفر کا مسئلہ مسلمانوں کی قلیل تعداد کے ساتھ مربوط تھا، یعنی یہ مسئلہ فقط یمن کے حاجیوں سے مربوط تھا جبکہ اس سخت حالات میں تمام حاجیوں کو جمع کرنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ علاوہ ازیں مناسب یہ تھا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں فورا    اقدام کرتے اور ان افراد کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے۔

لہٰذا اس سلسلے میں غدیر خم تک کوئی اقدام نہ کرنے کا کیا فلسفہ ہو سکتا ہے؟ تاریخی شواہد کے مطابق پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کے فورا بعد ان لوگوں کی غلطیوں کی نشاندہی فرمائی اور ان افراد سے فرمایا، (یا ایها الناس لا تشکوا علیا، فوالله انه لاخشن فی ذات الله)۷۔۔ اے لوگو! تم علی کی شکایت نہ کرو خدا کی قسم علی خدا کے معاملے میں زیادہ محتاط ہیں۔ اگر ہم اس کو صحیح بھی مان لیں تو یہ صرف عقلی قرینہ کو باطل کرتا ہے، نہ نقلی قرینہ کو۔ ایسی صورت میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں مسلمانوں کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے اعلان کے ساتھ ساتھ آپ کی محبت کو بھی لازم قرار دیا ہے، کیونکہ لفظ مولٰی سے دونوں معانی مراد لے سکتے ہیں، نیز لفظ مولیٰ مشترک معنوی ہے نہ مشترک لفظی۔ بنابریں لفظ مولٰی کا جامع ترین معنی جو کہ اولی اور زیادہ حقدار ہونا ہے، ارادہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اس فرض کے قائل ہو جائیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرنے اور آپ ؑکی مدد کرنے کا اعلان فرمایا ہے، تاکہ اگر کوئی مسلمان آپ ؑکی نسبت دل میں کوئی کینہ رکھتا ہو تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور آپ ؑسے محبت کرنے اور آپ ؑ کی مدد کرنے کو اپنا فرض سمجھے، لیکن اس کے باوجود یہ سوال پیش آتا ہے کہ مسلمانوں میں سے صرف حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرنے اور آپ ؑ کی نصرت کرنے کو کیوں اس قدر اہمیت حاصل ہے؟

اسی طرح مسلمانوں پرحضرت علی علیہ السلام کی محبت کیوں واجب قرار دی گئی ہے؟ کیا یہی دلیل نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایسے مقام پر فائز ہیں کہ مسلمانوں کو آپ ؑ کے ساتھ محبت کرنے کے علاوہ آپ ؑکی نصرت بھی کرنی چاہیئے۔ کیا یہ مقام امت اسلامی کی رہبری اور امامت کے علاوہ کوئی اور چیز ہو سکتی ہے؟ بہرحال جس زاویہ سے بھی حدیث غدیر کا مطالعہ کریں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہے، اس کے علاوہ دوسرے شواہد بھی اسی مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ بعض احادیث میں ہے کہ مسلمانوں نے غدیر خم میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی۔ خلیفہ دوم کے بارے میں تو یہ بات تواتر کی حد تک مشہور ہے کہ انہوں نے غدیر خم میں (بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولائی و مولیٰ کل مومن و مومنة) کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کو تہنیت پیش کی تھی۔۸۔ بنابریں کیا یہ سارے اہتمام حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ محبت کرنے اور آپ ؑکی نصرت کا پیغام دیتے ہیں یا آپ ؑکا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اور امام ہونے کا پیغام دیتے ہیں؟ ایک اور شاہد کہ حدیث غدیر  میں مولٰی سے مراد امامت و رہبری ہے نہ دوستی اور محبت، حارث بن نعمان کا واقعہ ہے جسے محدثین و مفسرین نے نقل کیا ہے۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب غدیر خم کے واقعہ کی خبر مختلف شہروں میں پھیل گئی تو حارث بن نعمان نے بھی اس واقعہ  کو سنا تو وہ سخت ناراض ہوا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس آیا اور کہا، آپ نے ہمیں نماز، روزہ ،حج اور زکاۃ  کا حکم دیا ہم نے قبول کیا، لیکن آپ نے اس پر اکتفا نہیں کیا اور ایک جوان کو اپنا جانشین منتخب کیا۔ کیا یہ کام آپ نے خود انجام دیا ہے یا یہ خدا کا حکم تھا؟ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، خدائے واحد کی قسم یہ خدا کی طرف سے تھا۔ اس وقت حارث نے کہا، خداوند! جو کچھ محمد نےکہا ہے، اگر سچ ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے۔ اتنے میں ایک پتھر گرا اور وہ ہلاک ہو گیا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، (سال سائل بعذاب واقع)۔۹۔ ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے ہی والا ہے۔

نتیجہ بحث:
حدیث غدیر خم اسلام کی متواتر احادیث میں سے ہے، جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اصحاب سے نقل کیا ہے، اور یہ تعداد تعجب آور نہیں، کیونکہ غدیر خم میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے۔ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ہونے کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا۔ خدا کی حمد و ثنا نیز چند اہم نکات بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں اس کے بعد فرمایا، (من کنت مولاه فهٰذا علی مولاه) جس جس کا میں مولٰی ہوں اس کے علی بھی مولٰی ہیں۔ اہل سنت نے لفظ مولٰی کی تفسیر دوستی و محبت سے کی ہے، لیکن شیعوں کے نزدیک مولٰی سے مراد زعامت اور امت اسلامی کی رہبری ہے کیونکہ لفظ مولٰی کا ایک معنی دوسروں کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ہوگا جو بھی مجھے بطور مولٰی دوسروں کے امور میں تصرف کرنے کا حتٰی کہ ان کے اپنے نفس کی نسبت زیادہ حقدار سمجھتا ہے، ان سب کا (علی) بھی مولٰی ہے، علامہ امینی نے الغدیر میں 60 راویوں کام نام ذکر کیا ہے، جنہوں نے حدیث تہنیت کو نقل کیا ہے ۔۱۰۔ حضرت عمر کے بارے میں تو یہ بات تواتر کی حد تک مشہور ہے کہ انہوں نے غدیر خم میں (بخ بخ لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولائی و مولٰی کل مومن و مومنة) کہہ کر حضرت علی علیہ السلام کو تہنیت پیش کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ السیرۃ الحلبیۃ، ج3، ص283۔ تذکرۃ الخواص الامۃ، ص 18۔ دائرۃ المعارف، فرید وجدی، ج3، ص543۔ تذکرۃ الخواص الامۃ۔
۲۔ سبحانی، اصول الحدیث و احکامه فی علم الدرایہ، ص131۔
۳۔ حر عاملی، وسائل الشیعہ ج18، ص19۔
۴۔ سبحانی، اصول الحدیث و احکامه فی علم الدرایة، ص36۔
۵۔ احزاب، 6۔
۶۔ المراجعات، مراجعہ 54۔ الغدیر، ج1، ص371۔
۷۔ عقائد امامیہ، جعفر سبحانی، ص230۔
۸۔ السیرۃ الحلبیۃ، ج3، ص283۔ مناقب خوارزمی، ص97۔ تاریخ بغداد، ج1، ص 290۔
۹۔ معارج ،1
۱۰۔ الغدیر ،ج1 ص 272 – 283۔

 
خبر کا کوڈ : 811299
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش