1
Monday 30 Sep 2019 23:41

محمد بن سلمان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور

محمد بن سلمان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
تحریر: فاطمہ محمدی

سعودی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کے دو ہفتے بعد ہی انصاراللہ یمن کے گرینڈ آپریشن میں ہزاروں سعودی فوجیوں کی گرفتاری نے سعودی حکام کو یمنیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک باخبر عراقی ذریعے نے بتایا ہے کہ سعودی حکام نے انہیں یمن جنگ کے خاتمے کیلئے ثالثی کرنے کی درخواست دی ہے۔ سیاسی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ یمن جنگ اپنے اختتام سے قریب ہو گئی ہے اور انصاراللہ یمن اس میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ ابھی سعودی حکام آرامکو تیل تنصیبات پر حملوں کے صدمے سے نہیں نکلے تھے کہ انصاراللہ یمن نے ان پر نیا وار کر دیا۔ یمن آرمی کے ترجمان یحیی سریع نے ہفتے کے دن پریس کانفرنس سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سعودی اتحاد کے ہزاروں فوجیوں کو قیدی بنا لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حملے کی ویڈیوز بھی شائع ہوئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں فوجیوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر فوجی سازوسامان اور گاڑیاں بھی یمنیوں کے ہاتھ لگی ہیں۔ یحیی سریع نے بتایا کہ اس وقت نجران میں سینکڑوں سعودی فوجیوں کی لاشیں بھی پڑی ہیں لیکن سعودی حکام ریڈ کراس کے اراکین کو میدان جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔
 
دوسری طرف سعودی حکام اب تک اس عظیم شکست کے بارے میں چپ سادھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران انصاراللہ یمن کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف دو بڑی فوجی کاروائیوں نے سعودی حکام کی نیندیں اڑا دی ہیں اور اب ریاض کی جانب سے انصاراللہ یمن کے مطالبات مان لئے جانے کی خبریں سنائی دینا شروع ہو گئی ہیں۔ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے دفتر میں کام کرنے والے ایک باخبر ذریعے نے فاش کیا ہے کہ سعودی حکام نے یمن جنگ کے خاتمے کیلئے عراق سے ثالثی کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس باخبر ذریعے نے رشیا ٹوڈے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے: "عراقی وزیراعظم اس دورے میں ثالثی سے متعلق اچھے ردعمل سے روبرو ہوئے۔ بغداد نے سعودی حکام کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ خطے میں امن کے قیام کیلئے ہر ممکن کوشش کرے گا۔" یاد رہے عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے چند دن پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات بھی کی تھی۔
 
سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے اس ملاقات سے متعلق ایک بیانیہ جاری کیا تھا جس میں انصاراللہ یمن کی جانب سے سعودی تیل تنصیبات پر حملے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا تھا۔ بیانئے میں کہا گیا تھا: "اس ملاقات میں خطے کے مسائل خاص طور پر آرامکو تیل تنصیبات پر تخریب کاری کا جائزہ لیا گیا تھا۔" سعودی عرب جو یمنیوں کے ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن سے عاجز آ چکا ہے اب مختلف ممالک سے ثالثی کی درخواست کر رہا ہے تاکہ یمن جنگ سے عزت مندانہ طریقے سے باہر نکل سکے۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ سعودی حکام اس حقیقت کو درک کر چکے ہیں کہ وہ یمن جنگ کی دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ہفتے کے دن بلوم برگ نیوز ایجنسی نے یمن کے بعض باخبر ذرائع کے بقول دعوی کیا تھا کہ سعودی عرب صنعا سمیت یمن کے بعض علاقوں میں جنگ بندی پر تیار ہو گیا ہے۔ سعودی حکام اس جنگ بندی میں مزید توسیع دینے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ دو ماہ پہلے بھی ایسی خبریں منظرعام پر آئی تھیں کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے برطانوی حکومت کو اپنے اور یمنیوں کے درمیان ثالثی کرنے کی درخواست دی ہے۔
 
موجودہ شواہد اور قرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمن جنگ اپنے اختتام کے قریب پہنچ چکی ہے اور خطے کے سیاسی ماہرین بھی اسی نکتے پر زور دے رہے ہیں۔ سعودی عرب کے مختلف حصوں پر انصاراللہ یمن کے ڈرون اور میزائل حملوں نے سعودی حکام کو پریشان کر ڈالا ہے۔ اب ان کے پاس یمنیوں سے مقابلے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا جبکہ زمینی حقائق بھی سعودی حکام کے نقصان میں ہیں۔ انصاراللہ کے رہنماوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یمن کے خلاف جنگ جاری رہتی ہے تو وہ ریاض کی جانب پیشقدمی شروع کر دیں گے۔ اسی طرح یمنی رہنماوں نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کی بدمعاشی کے دن گزر گئے ہیں اور اس وقت وہ بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ انصاراللہ یمن کے رہنما ضیف اللہ رسام نے کہا: "یمن آج آرمی، مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورس کی برکت سے انتہائی طاقتور پوزیشن میں ہے اور دشمن سے خوفزدہ ہونے کا وقت گزر چکا ہے۔" سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد نے گذشتہ 53 ماہ سے یمن کے خلاف جارحیت کا آغاز کر رکھا ہے اور جدیدترین اسلحہ اور فوجی سازوسامان سے لیس ہونے کے باوجود اب تک مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے جنوب میں سینکڑوں کلومیٹر مربع کا علاقہ یمنیوں کے قبضے میں جا چکا ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 819300
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش