1
3
Friday 15 Nov 2019 20:40

اسلام اور عقل

اسلام اور عقل
تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین داعی نژاد

اسلام میں عقل کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے اور عقلی نتائج دین کیلئے قابل قبول ہیں لہذا سو فیصد تسلیم نہیں۔ حتی اسلام میں بعض دینی مسائل عقلی بنیادوں پر قبول کئے جاتے ہیں۔ اسلام اور سیاست جو دین کا ہی ایک حصہ ہے، میں عقل کے معتبر اور مفید ہونا واضح ہونے کیلئے ابتدا میں چند آیات اور روایات بیان کرتے ہوئے عقل کی افادیت اور منزلت کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عقل کا مفہوم
لغت میں عقل کا مطلب روکنا اور کنٹرول کرنا ہے اور تدبر، اچھا فہم، ادراک اور نفرت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ فلاسفہ کی نظر میں عقل کی مختلف اقسام ہیں: عقل نظری اور عقل عملی۔ عقل نظری نفس کی ادراکی قوتوں میں سے ایسی قوت ہے جو ایسے کائناتی حقائق کو درک کرتی ہے جو انسانی افعال سے مربوط نہیں ہیں۔ عملی عقل نفس انسانی کی قوتوں میں سے ایسی قوت ہے جو لازمی انجام پانے والے افعال اور لازمی ترک کئے جانے والے افعال نیز ایسے حقائق جو انسانی افعال سے مربوط ہوں کو درک کرتی ہے۔

روایات اور آیات میں لفظ عقل اپنے لغوی اور عرفی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی تفکر اور سوچ کا ایسا مرکز جس کی خصوصیات میں ذہنی مفاہیم کی ترکیب، تجزیہ، انتزاع، عمومیت اور گہرائی شامل ہے۔ اسلامی تہذیب میں عقل انتہائی اعلی مقام کی حامل ہے اور انبیاء الہی کی ہم پلہ حجت باطنی قرار دی گئی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ عقل انسانی شخصیت کی بنیاد اور شعور اور علم کے حصول اور حفاظت کا سرچشمہ ہے۔ اگر انسان کی عقل عبادت خداوند کی راہ میں بروئے کار لائی جائے تو وہی عقل ہے جس کی روایات میں تعریف کی گئی ہے اور اسے عبادت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اگر انسان کی عقل پر نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ انسان کی پست قوتوں کی خدمت میں قرار پائے گی جسے روایات میں شیطنت اور برائی کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ روایات کی رو سے صحیح معنی میں عقل ایسی عقل ہے جو انسان کو انسانیت اور عبودیت کی جانب رہنمائی کرے، نہ ایسی عقل جو نفس کی اسیر ہو۔ اسلامی تہذیب میں عقل اور عملی میدان میں کام آنے والی عقل کے درمیان یہ فرق پایا جاتا ہے کہ دوسری قسم کی عقل پہلے سے تعیین شدہ اہداف کی روشنی میں تجربیاتی علوم سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر تجزیہ و تحلیل اور حساب کتاب انجام دیتی ہے اور ضروری طریقوں اور وسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔ جبکہ اسلامی تہذیب میں عقل، جیسا کہ بیان ہوا، شناخت کا پہلو رکھتی ہے۔ یعنی وسائل اور طریقوں کی تشخیص اور معلومات کو منظم کرنا اور حساب کتاب کرنا عقل کی افادیت کا ایک حصہ ہے جبکہ اس کا دیگر پہلو فکری حقائق (عقل نظری کے ذریعے) اور عملی حقائق (عقل عملی کے ذریعے) کشف کرنا ہے۔ بہت جلد ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اس قسم کی عقل اسلام میں کیا مقام رکھتی ہے اور کس قدر افادیت، اعتبار اور منزلت کی حامل ہے۔

اسلام میں عقل کی منزلت
اسلام میں عقل محترم شمار کی گئی ہے اور حتی اسے اسلامی شریعت کے منابع میں شامل کیا گیا ہے۔ ذیل میں اسلام میں عقل کا مقام بیان کیا گیا ہے۔
الف) عقل اسلامی شریعت کا منبع
شیعہ، سنی، اخباری، اصولی، اشعری اور غیر اشعری کم از کم بعض شرعی احکام کے استنباط کے منبع کے طور پر عقل کو قبول کرتے ہیں۔ مرحوم محقق فرماتے ہیں: "ہمارے (اہل تشیع) کے نزدیک احکام کے پانچ منابع ہیں: قرآن، سنت، اجماع، عقل اور استصحاب۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رائے اہل تشیع کا معروف نظریہ ہے اور فرق صرف یہ ہے کہ استصحاب کو ایک علیحدہ منبع کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

محمد غزالی، جو کہ اشعری ہے، نے بھی عقل کو شرعی احکام کے منبع کے طور پر بیان کیا ہے۔
ب) عقل اسلامی منابع کی شناخت کا ذریعہ
عقل، دیگر منابع کی درست تفسیر اور ان سے منطقی انداز میں مطالب اخذ کرنے، مصلحت اور مفسدہ سے متعلق بہت سے موضوعات کی وضاحت اور منابع کا ایکدوسرے سے تعلق جانچنے کیلئے مفید ہے۔ حتی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عقل پورے دین اسلام پر حاوی ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ الْأُمُورِ وَ مَبْدَأَهَا وَ قُوَّتَهَا وَ عِمَارَتَهَا الَّتِي لَا يُنْتَفَعُ بِشَيْ‌ءٍ إِلَّا بِهِ الْعَقْلُ
ترجمہ: "تمام امور کی ابتدا اور ان کا منشا اور ان کی قوت اور تعمیر اور صرف اسی سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، عقل ہے۔"

اسلام کے تعبدی امور کی بنیاد بھی عقل پر استوار ہے۔ یعنی انسان عقل کے ذریعے دین حق کو پہچانے اور تحقیق کے ذریعے دینی اعتقادات کو جانے اور شرعی احکام میں بھی ایسے مجہتد کی پیروی کرے جس کے علم اور عدالت سے آگاہ ہو چکا ہے۔ یعنی تقلید بھی وہ طریقہ کار ہے جس کی پیشکش "نہ جاننے والے کا جاننے والے کی جانب رجوع" کیلئے عقل کرتی ہے اور اسی طرح مجتہد کی تلاش کرنے والا شخص خود اس نتیجے تک پہنچے اور مجتہد کے علم اور عدالت کا یقین حاصل کرے۔

ج) اسلام میں عقل کے اثرات
عقل پر توجہ اور اسے بروئے کار لانے کے وسیع ثمرات ہیں جن کی جانب اسلام نے اشارہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر چند ثمرات بیان کرتے ہیں۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ثَمَرةُ العَقْلِ الاِسْتِقامَةُ
ترجمہ: "عقل کا پھل (حق کی راہ میں) استقامت ہے۔"
ثَمَرةُ العَقْلِ لُزُوم الحقَّ
ترجمہ: "عقل کا پھل حق سے جدا نہ ہونا ہے۔"
ثَمَرةُ العَقْلِ صُحْبَةُ الاَخْیارِ
ترجمہ: "عقل کا نتیجہ نیک افراد کی صحبت اختیار کرنا ہے۔"
ثَمَرَةُ العَقلِ مُداراةُ النّاسِ
ترجمہ: "عقل کا نتیجہ لوگوں سے رکھ رکھاو ہے۔"
ثَمَرةُ العَقْلِ مَقْتُ الدُّنیا و قَمْعُ الهَوَی
ترجمہ: "عقل کا پھل دنیا سے دشمنی اور نفسانی خواہشات کا قلع قمع ہے۔"

امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں:
بالعقل تدرک الداران جمیعا
ترجمہ: "عقل کے ذریعے دونوں جہان (دنیا اور آخرت) حاصل ہوتے ہیں۔"
امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
إِنَّمَا يُدْرَكُ الْخَيْرُ كُلُّهُ بِالْعَقْلِ، و لا دِينَ لِمَنْ لا عَقْلَ لَهُ
ترجمہ: "بالتحقیق تمام اچھائیاں عقل کے ذریعے ہی درک کی جا سکتی ہیں اور جس کے پاس عقل نہیں اس کا کوئی دین بھی نہیں۔"
بہرحال، اسلامی منابع کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اور روزمرہ زندگی میں عقل کا استعمال نہ صرف منفی قرار نہیں دیا گیا بلکہ بعض مواقع پر ضروری اور واجب قرار دیا گیا ہے۔
 
 
خبر کا کوڈ : 827593
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رضا بلوچ
Pakistan
ما شاء اﷲ، بہت اعلیٰ
ہماری پیشکش