0
Wednesday 20 Nov 2019 10:41

سیاست!

سیاست!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com
 
سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کے تین معانی بیان کئے جاتے ہیں:
۱۔ لوگوں کے امور کا ولی ہونا اور راہ راست کی طرف ان کی ہدایت کرنا
۲۔ عدل کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان خوشگوار زندگی بسر کرنا
۳۔ داخلی اور بیرونی افعال کو آسان کرنا اور ترقی کی راہوں کو ہموار کرنا
انگلش میں سیاست کو Politics کہتے ہیں جو یونانی زبان کے  Polis لفظ سے ماخوذ ہے جو شہر اور شہر نشین کے معنی میں آتا ہے۔ اہل قلم نے اس کی متعدد تعریفیں تحریر کی ہیں:
۱۔ قوم و ملت کے امور کی انجام دہی۔ 
۲۔ معاشرہ کو اس طرح منظم کرنا کہ وہ ترقی کی راہوں کو طے کرتا رہے اور اس کی تمام ضروریات مہیا ہو سکیں۔
۳۔ سیاست ایک طریقہ کار ہے جس کے توسط سے عوامی حلقوں کے مابین مسائل پر بحث یا کاروائی ہوتی ہے اور ریاستی فیصلہ عوامی رائے عامہ کی روشنی میں لئے جاتے ہیں۔ 
 
لیکن سیاست بدنام زمانہ ہو چلی ہے، اس کا نصب العین بھٹکے ہوئے انسانوں کی ہدایت اور معاشرہ کی فلاح و بہبود کرنا ہے، سماج میں جنم لینے والی ہر تنظیم لوگوں کی مشکلات کو رفع دفع یا کم ازکم بار گراں کو ہلکا کرنے کی غرض سے وجود میں آتی ہے۔ عام طور سے ماحول کی ابتری سے نجات دلانے کا نعرہ ہی ان کا بنیادی مقصد ہوا کرتا ہے۔ ایسی پارٹیاں ہمیں مل جل کر زندگی بسر کرنے کی تدبیریں سمجھانے اور ایک دوسرے کی تئیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں ہمارے پہلو بہ پہلو کھڑی نظر آتی ہیں۔ ان کا اصلی ہدف لوگوں میں انسانیت کی تعمیر کرنا ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی ہیں جو ہمارے اور آپ کی خدمت میں سر کے بل کھڑی ہوتی ہیں۔ آپ خود اپنے گرد و نواح میں ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اس نتیجہ تک رسائی ہوگی کہ ہمارے اکناف و اطراف میں بھی چند ایک ایسی جماعتیں ہیں، جو ہمارے درد میں برابر کی شریک ہیں اور نازک اوقات میں فلاکت زدہ افراد کا آسرا بنتی ہیں۔ تہی دست طالبعلم کو زیور علم سے آراستہ کرنا، آفت زدہ مریضوں کا علاج کرانا اور دیگر فلک زدہ لوگوں کی خبر گیری کرنا ان کے بنیادی قوانین میں شامل ہے۔ یہی کام ایک حکومت وقت کا بھی ہوتا ہےکہ وہ ملک کے نظام کو چلانے کا بیڑا خود اٹھاتی ہے۔

مختلف علوم و فنون کے ماہرین اپنے تجربات اور باہمی رائے و مشورے سے آئین حکومت کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ عوام الناس کے نظام حیات اور ان کے ترقیاتی امور میں غور و فکر کرتے ہیں۔ جب فائدہ کی کثرت اور نقصان کی قلت کے نتیجہ تک پہنچتے ہیں تو اسے متعدد شرائط کے ساتھ نافذ کردیتے ہیں اور اس سے سرپیچی کی صورت میں سزا کا بھی اعلان کردیتے ہیں تاکہ پیروکار اور خیانت کار ایک ہی صف میں نہ کھڑے ہو سکیں...! قانون بنانا آسان کام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ’قوۃ مقننہ‘ اپنا خون پسینہ ایک کرتی ہے، اس کے مثبت اور منفی نکات پر بحث کرتی ہے، اسے مختلف زاویہ نظر پر پرکھتی ہے تاکہ اس میں کوئی لچک نہ رہ جائے اور لوگوں کی آسودگی کے بجائے زحمت کا سبب نہ بن جائے! سیاست کوئی فردی عمل نہیں  بلکہ یہ گروہی سرگرمی ہے، اسی وجہ سے اس کا اثر تمام لوگوں پر نمایاں ہوتا ہے۔ حکومتیں جو بھی قدم اٹھاتی ہیں۔ اس میں ہماری زندگی گونا گوں طریقوں سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ ہماری تعلیمی معیار، اقتصادی ترقی اور دیگر امور کو مزید بہتر بنانے میں کمربستہ رہتی ہیں۔ اس بات کو مشاہدہ کیا جا چکا ہے کہ جس ملک کے سیاستداں اہل خرد ہوتے ہیں وہاں کی عوام میں کامیابی کے عنصر زیادہ پائے جاتے ہیں، چونکہ جہاں ماحول سازگار اور سکون بخش ہوتا ہے وہاں انسانی ذہن زیادہ بہتر کام کرتا ہے اور اسکول، کالج، یونیورسٹی اور دیگر علمی مراکز میں تعلیمی جدوجہد میں بالیدگی و نکھار پیدا ہوتا ہے۔

طالبعلم بھی مکمل ذہنی آمادگی کے ساتھ درس و تدریس میں شرکت کرتے ہیں۔ جب اہل علم کو ذہنی اور فکری آزادی میسر ہو جاتی ہے تو ہمالیائی کامیابی کو سر کرنا ان کے لئے زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ جب حالات مناسب ہوتے ہیں تو اقتصادیات بھی مستحکم ہو جاتے ہیں۔ خرید و فروخت کے مراکز میں رونق اور دوکانداروں کے چہروں پر خوشی و مسرت کے آثار عیاں ہو جاتے ہیں، اسی وجہ سے جو ممالک اقتصادی اور علمی لحاظ سے محکم ہیں، آج دنیا ان کی مٹھی میں ہے، اس کے برعکس جو سیاسی اعتبار سے اپاہج اور علمی طاقت سے عاری ہیں وہاں ترقی کی راہیں مسدود پڑی ہیں اور اگر ہیں بھی تو نادر۔۔۔! ہمیں ان دونوں (دانش و اقتصاد) کے میدانوں میں فاتحانہ قدم اٹھانا ہوگا۔ یہ دونوں صفات ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ بن جانا چاہیئے۔ ان کا سیاست سے کافی گہرا واسطہ ہے لہٰذا سیاست داں کو اپنی ذمہ داری بخوب نبھانی چاہیئے۔ عصر دوراں میں سیاست اتنی معیوب نگاہوں سے دیکھی جانے لگی ہے کہ شریف النفس اس سے دوری بنائے رکھنے میں عافیت سمجھتا ہے۔

ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اس سے جڑنا، عزت کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ اس لئے منصف مزاج اس سے متنفر ہو چلے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہےکہ آج کے دور میں سیاست ذاتی مفاد اور شخصی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ جب کوئی آدمی جھوٹے وعدے کرے، چال بازیاں کرے، عہد شکنی کرے، لوگوں کو محض سبز باغ دکھلائے، باہمی نزاع کو ہوا دے، ذاتی مفادات کی خاطر جرم کا سہارا لے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص سیاسی ہوگیا۔ مختصر یہ کہ سیاست کے اس گھناؤنے پن سے بدظن ہوکر عاقل انسان اس سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے لیکن اس غلط نظریہ پر فریاد و بکا کرنے سے پتا بھی نہیں ہلنے والا۔ ضرورت ہے کہ اس بے معنی خاموشی کو توڑا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اس گندی سیاست سے آزاد رہیں اور ان سے اور ان سے روشن مستقبل کی امید کی جاسکے۔ ہمیں سیاسی داوں پیچ اور اس کی ریشہ دوانی سے خوب واقف ہونا پڑے گا تاکہ بآسانی اس ناپاک نظریہ کا قلع قمع کرسکیں۔ اتحاد کی شدید ضرورت ہے چونکہ تنہا قطرہ سیلاب نہیں لاتا!
خبر کا کوڈ : 828885
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش