2
0
Tuesday 26 Nov 2019 12:45

شہداء تو ہمارے ہیں مگر زخمی۔۔؟

شہداء تو ہمارے ہیں مگر زخمی۔۔؟
تحریر: آئی اے خان

چند روز ہوئے ہیں کہ ریحان زیدی بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ ریحان زیدی 19 اگست 2008ء میں ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے بم دھماکے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔ وہ اپنے جسم میں 11 سال تک بارودی مواد کے زہریلے چھروں کا درد و کرب برداشت کرکے زندگی کی جنگ لڑتے رہے۔ اس دوران ان کے متعدد آپریشن ہوئے مگر ان کے جسم میں موجود تمام چھروں کو نکالنا ڈاکٹرز کیلئے ممکن نہیں تھا۔ ان کے قریبی عزیزوں کے مطابق اچانک ہی ریحان کے پرانے زخموں سے خون رسنے لگا۔ انہیں ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔ زخمی ریحان کے یہ گیارہ برس کس اذیت و پریشانی میں گزرے، خدا کے بعد یہ صرف وہ خود یا ان کی فیملی جانتی ہے۔ بم دھماکے جو کہ حکومتوں کیلئے فی الوقتی انتظامی مسئلہ، میڈیا کیلئے ریٹنگ بڑھانے کا محض ایک ایونٹ، اداروں کیلئے مصروفیت کا بہانہ ہوتے ہیں، وہی دھماکے خاندانوں کے خاندان اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ عشرے گزرنے کے باوجود بھی وہ اپنی تباہ خیزی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ریاستی کاغذات میں ریحان بم دھماکے کا شکار ہونے والا ایک زخمی تھا کہ جسے ریاست نے سرکاری ہسپتال سے چند روز علاج کی مفت سہولت دی۔ باقی کے گیارہ برس کیسے بیتے، اس سے ریاست، حکومت، اداروں یا میڈیا کو کوئی سروکار نہیں۔

شب اربعین کے جلوس میں سید اقتدار علی زیدی سے ملاقات ہوئی۔ 30 سالہ یہ نوجوان ٹھیک سے کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ نوجوان بھی ڈیرہ ہسپتال میں ہونے والے بم دھماکے میں شدید زخمی ہوا تھا۔ ابتدائی علاج کے دوران پمز ہسپتال کے ڈاکٹرز بڑے مایوس تھے اور حالت پوچھنے پہ بس اتنا ہی کہتے کہ دعا کریں، اقتدار زیدی نے موت کو تو شکست دی مگر دہشت گردی کے اثرات آج بھی اس کے جسم پہ نمایاں ہیں، اقتدار علی زیدی اپنے علاج کیلئے آج بھی مختلف شہروں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال بم دھماکے کے زخمیوں میں ایک نوجوان سید انصر عباس بخاری بھی تھے۔ اس نوجوان کی حالت ایسی تھی کہ جو بھی ہسپتال میں عیادت کرنے کیلئے آتا، وہ انصر بخاری کو تو صبر و حوصلے کا درس دیتا مگر خود اپنی آنکھوں کا ضبط ہار جاتا۔ سید انصر بخاری کی حالت ہی ایسی تھی، جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا کہ جو زخمی نہ ہو۔ کہنیوں سے نیچے بازو تھے ہی نہیں۔ بارود کا زہر اتنا سرایت کرچکا تھا کہ ڈاکٹرز کو اس نوجوان کے بازو مکمل طور پر قلم کرنے پڑے۔ کمال حوصلہ تھا ان کے بھائی تہور عباس کا، کہ جو اس کے کھلے زخموں کو دن میں کئی کئی مرتبہ دھوتے تھے۔ (اللہ رب العزت تہور عباس کو بھی صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے)۔

سید انصر بخاری صحت یاب ہوکر بطور صحافی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 19 اگست 2008ء سے پہلے اور بعد کی زندگی میں کتنا بدلاؤ آیا ہے، یہ انصر عباس سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے۔ یہ تو ان زخمیوں کی بات تھی کہ جن کا شمار کم از کم آپ غازیوں یا شہیدوں میں کرسکتے ہیں۔ ڈی آئی خان کے ایک گھر میں فروری 2009ء سے ایک ایسا جوان بھی موجود ہے کہ جس کا شمار نہ زخمیوں میں ہے نہ شہداء میں۔ شہید شیر زمان کے جنازے میں خودکش حملہ ہوا تھا۔ اس سانحہ کے نتیجے میں 80 افراد شہید جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان زخمیوں میں عدیل عباس نامی ایک نوجوان بھی تھا، جو کہ بم دھماکے کے بعد ایک ہفتہ تک تو عام زخمیوں کی طرح ہی رہا کہ جو بات بھی کرتا تھا، اپنے، پرائے کا فرق جانتا تھا۔ اپنی ادویات کے اوقات سے واقف تھا مگر ایک ہفتہ بعد یہ زخمی نوجوان عام نہیں رہا بلکہ خاص ہوگیا۔ دھماکے کے ایک ہفتہ بعد اچانک ہی یہ نوجوان کوما میں چلا گیا۔ کوما ''زندہ لاش۔'' وہ دن اور آج کا دن عدیل عباس نامی یہ نوجوان بستر علالت پہ گہری نیند میں ہے۔ گیارہ سالوں سے کوما میں گئے عدیل کی والدہ اور اس کے بھائی اس کی خدمت میں مصروف ہیں۔ محض اس امید پہ کہ ایک دن یہ اپنی اس گہری نیند سے جاگے گا۔

بم دھماکوں میں جو شہید ہوئے، ان کی ماؤں پہ اک بار قیامت گزری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ صبر دے ہی دیتا ہے، بے شک کہ سبھی کو اسی کی جانب لوٹ کے جانا ہے مگر اس ماں کو صبر کیسے آئے کہ جس کی آنکھوں کے سامنے گیارہ سال سے اس کا جوان بیٹا زندہ لاش بنا ہوا ہو۔ ریاست، حکومت، اداروں اور معاشرے سے کیسا گلہ، عدیل جیسے نوجوان تو مذہبی قومی جماعتوں کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں اور نہ ہی انسانی بنیادوں پہ کام کرنے والے فلاحی ادارے بستر علالت پہ موجود ان زخمیوں کی مدد کیلئے آگے آنے کو تیار ہیں۔ اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا پہ کئی دنوں سے سید تنویر عباس شاہ کی جانب سے مدد کی درخواست شیئر کی جا رہی ہے۔ سید تنویر عباس شاہ نومبر 2012ء میں ڈی آئی خان کے علاقے تھویا فاضل میں جلوس عزا کے اندر ہونے والے بم دھماکے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔ ابتدائی علاج کے بعد ان کی حالت میں کچھ بہتری واقع ہوئی تھی، مگر اس کے بعد سر کے اندر موجود بارودی چھروں نے اپنا اثر ظاہر کیا، جس کے بعد تقریباً سات سال سے سید تنویر عباس بستر علالت پہ ہیں۔ مسلسل لیٹے رہنے کی وجہ سے ان کے جسم کے باقی اعضا بھی رفتہ رفتہ ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔

ان کے پھیپھڑوں سے مسلسل خون آرہا ہے۔ سید تنویر عباس کو ڈی آئی خان سے اسلام آباد منتقل کیا گیا، جہاں پمز میں انہیں محض تین دن کیلئے جگہ مل سکی ہے۔ سید تنویر عباس کی فیملی کو اس طرح مدد مانگنے کی ضرورت کیوں پڑی ہے۔ ظاہر ہے کہ قوم و کمیونٹی کی جانب سے انہیں اتنی مدد اور محبت مل ہی نہیں پائی کہ جتنی انہیں ضرورت تھی۔ یہ مسئلہ محض سید تنویر عباس شاہ کا تو نہیں، ان تمام زخمیوں کا ہے کہ جنہوں نے دہشتگردانہ بم دھماکوں، خودکش حملوں میں اپنے اعضاء کھوئے، یا ان کے جسم کے حساس حصوں میں بارودی مواد نکالا نہ جاسکا۔ یا وہ زخمی کہ جن کا علاج ہفتوں مہینوں پہ نہیں بلکہ برسوں پہ محیط تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ ایسے زخمیوں سے ریاست، حکومت، اداروں اور یہاں تک کہ اپنی مذہبی، قومی جماعتوں، فلاحی اداروں نے غفلت برتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی سطح پہ ایسی پالیسی ترتیب دی جائے کہ دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہونے والے ایسے زخمی کہ جنہوں نے اپنے اعضاء کھو دیئے یا اندرونی طور پر اتنے زخمی ہوئے کہ ان کا علاج طویل دورانئے پہ چلا گیا تو ان تمام افراد کے طویل المدت علاج اور غذا کے مستقل انتظامات اس طرح کئے جائیں کہ ان کی فیملی کو پریشانی نہ ہو۔ حکومت کی جانب سے کفالت کی مد میں انہیں خصوصی مراعات دی جائیں۔ ادارے اپنے خصوصی اور یادگار ایونٹس میں ان افراد کو یاد رکھیں اور انہیں ساتھ لیکر چلیں۔

سرکاری تقریبات اور ایونٹس میں 10 افراد محض واہ واہ اور جی جی کرنے کیلئے بلائے جا سکتے ہیں تو 2،4 ایسے افراد کو بھی مدعو کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ جو دہشت گردی کے ثبوت اپنے زندہ جسموں میں محفوظ رکھتے ہیں۔ ہمارے گھر کے نزدیک مسجد ہے۔ آئے روز اس مسجد یا قریبی امام بارگاہ میں کسی نہ کسی شہید کی برسی، ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی یا مجلس ہو رہی ہوتی ہے۔ گیارہ گیارہ سالوں سے اپنے گھروں میں بستر علالت پہ موجود ملت کے یہ زخمی تو اتنے مظلوم ہیں کہ عشرے گزرنے کے باوجود ان کے نام سے منسوب کسی تقریب کا انعقاد تک نہیں کیا  جا سکا۔ ہم لوگ شہداء کی تصاویر بھی بناتے ہیں، ان کے اشتہارات، بورڈز بھی بناتے ہیں، ان کی برسی کا اہتمام بھی کرتے ہیں، ان کی مقابر پہ دیئے بھی جلاتے ہیں، قبور پہ علم بھی لگا تے ہیں، ختم بھی دلاتے ہیں، ان کی یاد میں کبھی تعریفی تو کبھی غمگین شاعری بھی کرتے ہیں، معاشرے میں ان کے نام سے اتنا کچھ کرتے ہیں کہ علاقہ شہید شناس ہو جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم اپنے ''غازیوں'' کیلئے کیا کرتے ہیں۔؟ اپنے زخمیوں کیلئے کیا پروگرام رکھتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کیلئے کیا منصوبہ بندی رکھتے ہیں۔ معاشرے کو ان سے روشناس کرانے کیلئے کتنا کام کرتے ہیں۔؟ حتیٰ کہ ان کی خوراک، علاج معالجے کے بندوبست کیلئے کتنا متحرک ہیں تو ان سوالوں کے جواب میں ہمارے پاس ماسوائے نظریں جھکانے کے اور کچھ بھی تو نہیں۔ ویسے ''شہداء'' تو ہمارے ہیں۔ کیا یہ ''غازی'' ہمارے نہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 829056
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سیدہ زہرا
Pakistan
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
Pakistan
Dehshat Gerdi k zakhmioun ki eik tanzeem bnani chahiey, aur phir issi tanzeem ko ye hadaff diya jaiy k wo dehshat girdi k khilaf insaf ki qanouni jang bhi larien aur apny haqoq k liy awaz bhi uthaien.
ہماری پیشکش